صندلی ہاتھوں کا سحرستان

(تالیف حیدر)

حسن کا تصور جتنا پیچیدہ ہے اتنا ہی سلجھا ہوا بھی ہے، کنول ، گلاب ، ہرن ، مور ،بارش ،ریت ،خشک تالاب اور ویران راستہ ۔حسن کی لاکھوں علامتیں ہیں۔ ان میں سے ہر کسی کو حسن کی آخری علامت سمجھا جا سکتا ہے ۔ یہ حسن کی سادگی ہے۔بدن ، ہاتھ ، بازو ، بال اور چہرہ ان کے حسن کا ادراک اتنا آسان نہیں، یہ حسن کی پیچیدگی ہے۔ میں نے لاکھوں چہرے دیکھے ہیں اور لاکھوں ہاتھ ، پر میں ان میں سے کتنو ں کو جانتا ہوں ؟کتنوں کو یاد رکھتا ہوں؟ اور کتنوں کو بھلا نہیں پاتا؟چہرے کے معاملے میں تو یہ خیال کیا جا سکتا ہےکہ اس کو جاننے اور یاد رکھنے میں یادداشت پر کم زور دینا پڑے ،پر ہاتھ؟ایسا توبہت کم ہوتا ہے کہ کسی کے ہاتھوں کے کھردرے نقوش دماغ کے گلایوں سے چمٹ جائیں ، اس کو جھنجوڑیں ،ہلائیں اور ایک دائرہ خیال تک محدود رکھیں ۔ ایسے ہاتھوں کو دیکھنا ، جاننا اور اس کی لکیروں کے گہرے دریا میں ڈوب جانا خوش بختی کی علامت ہے۔ میں نے ایسے دو ہاتھ دیکھیں ہیں۔ وہ دو ہاتھ جوایک طرح کی عجلت صناعی کا زائیدہ ہیں ۔جو قدر ت کا کرشما نہیں، بلکہ خدا کی جلد بازی کا مظاہرہ کہے جا سکتے ہیں۔ خدا جس نے ان ہاتھوں کو موسم گرما کے آخری پہر کی حرارت بخشی ہے اور وہ، اس حرارت کے خمار میں اس کی خراشوں کو تمکنت دینا بھول گیا ، اس نے انہیں نخوت سے پاک رکھا اور زندگی سے معمور کر دیا۔ اس کے تقدس کو جلا بخشی اور تفخر کو کالعد م کر دیا ۔وہ ہاتھ مجھے زندگی سے زیادہ بامعنی لگتے ہیں ، ان میں ایک طرح کا رمز ہے ، ایک عیاری ہے۔ جو مجھے کسی باریک جال کی مانند لگتی ہے۔ ان ہاتھوں میں جتنی لکیریں ہیں اتنی ہی داستانیں بھی ہیں ۔ ان ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو جب میں غور سے دیکھتا ہوں تو مجھے ان پر پھیلی ہوئی ریت کی بے beautiful-handsترتیب بستیاں دنیا کی عظیم جنگوں کی یاد دلاتی ہیں۔ ان پر ہاری ہوئی فوجوں کے لاکھوں سپاہی اپنے زخمی جسموں کے ساتھ تڑپتے نظر آتے ہیں ۔ وہ ہاتھ مجھے فراط اور دجلہ کی داستان سناتے ہیں ،کربلا کا منظر دکھاتے ہیں اور نیل کے ساحل سے کاشغر کی خاک تک پھیلے ہوئے انسانی وجود کے اضطراب سے دو چار کرواتے ہیں ۔ میں جب کبھی ان میں ایک معصوم دنیا کو تلاش کرتا ہوں تو ان ہتھیلیوں کے چو طرفہ کنارے مجھے اس جستجو کے تاریخ دان میں قید کر لیتے ہیں ،جہاں مجھ جیسے لاکھوں قیدی سفیدی مائل سرخ نور کے آبشار تلے اس دست حنائی کی معصومیت کے دیدار میں محو نظر آتے ہیں ۔ نازکی کے تصور سے علیحدہ، رنگوں کی قید سے آزاداور تقابل کے جھڑے سے جدا وہ ہاتھ میری مضطرب راتوں کے بیدار خوابوں کی مانند ہیں ، جن میں حقیقت اور مجاز کے الف لیلوی سحر ستان آباد ہیں ۔ ان ہاتھوں میں ایک طرح کی تمثیلیت مضمر ہے ، جس تمثیلیت کو اس کے جھوٹے کرداروں نے حقیقت بخشی ہے۔ وہ کردار جومایوسی سے بھرپور اور نرگسیت سے معمور ہیں، ان کے مضمحل اور بیزار چہروں نے ان ہاتھوں کی سطح آب کو ایک طرح کی زرد سیمابیت عطا کر دی ہے۔میں جب انہیں بغور دیکھتا ہوں تو صندل کے پانی اور کچی مٹی کے ذرات سے گوندھ کر تیار کیے گئے ان ہاتھوں کالمس مجھے اپنی سیاہ پتلیوں میں دور تک اترتا ہو ا معلوم ہوتا ہے ، میری کتھئی آنکھوں کے سیاہ تالاب میں ان ہاتھوں پر دوڑتی ہزاروں مچھلیوں کی حکومت قائم ہے۔ یہ مچھلیاں میرے جسم کے کاغذی پیرہن سے اپنا خراج وصول کرتی ہیں اورمیر ےاندرون میں پھیلے سبز رسیوں کےجال کو کمند بدن کی مانند تھامے رکھتی ہیں۔ میں جو خود کو دشت اور دریاوں کا سفیر ، خیالستان کا باشندہ اور کتھا نگر کا سر براہ اعلی جاتنا ہوں ،ان ہتھیلیوں کی زمین پر پڑی بٹی ہوئی ناریل کی رسیوں میں خود کو جکڑا ہوا پاتا ہوں ۔ اس ویران جزیرےپر میں زنجیر بدست، ان الم نما انگلیوں کی بارہ دری کو حسرت بھری نگاہوں سے تکتا رہتا ہوں کہ ان کھڑکیوں سے کبھی تو کوئی جھانکے گا اور میری فریاد پر کان دھرے گا۔ پر یہ در و بام ویران قلعوں کی مانند اپنی ہی تنہائی کا سوگ مناتے رہتے ہیں ،اپنے نقش و نگار کو خود سرہاتے ہیں اور خود ہی ایک دوسرے کو داد طلب نگاہوں سے دیکھ کر ساکت ہو جاتے ہیں ۔ ان دلکش ہاتھوں کی انگلیوں کے پوروں پر یہ تماشہ روز ہوتا ہے ،صبح و شام ہوتا ہے ،اور میں ایک ویران جزیرے پر پھنسے انجان مسافر کی طرح مستقل یہ نظارہ دیکھتا رہتا ہوں اور سردار کے یہ مصرعے بے ساختہ میری زباں پر جاری ہو جاتے ہیں :
اعجاز ہے یہ ان ہاتھوں کا ،ریشم کو چھوئیں تو آنچل ہے
پتھر کو چھوئیں تو بت کر دیں ،کالکھ کو چھوئیں تو کاجل ہے
مٹی کو چھوئیں تو سونا ہے، چاندی کو چھوئیں تو پایل ہے
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو،
٭٭٭