عالمی انقلاب کی طلسم ہوشربا
(شاداب مرتضی)
سوشلسٹ انقلاب بین الاقوامی نہیں ہو گا اور کسی ایک یا چند ملکوں میں ہو گا تو وہ ناکام ہو جائے گا۔ سرمایہ داری عالمی نظام ہے۔ عالمی سرمایہ دار طاقتیں کسی ایک یا چند ملکوں میں آنے والے انقلاب کو ناکام بنا دیں گی۔ اس لیے ہمیں عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے اور اگر ہمارے ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے حالات تیار ہوں تو ہمیں اپنے ملک میں انقلاب کو اس وقت تک معطل رکھنا چاہیے جب تک عالمی انقلاب کے لیے حالات سازگار نہ ہوں۔
ٹراٹسکائیٹ سوشلسٹوں کا یہ نظریہ ٹرک کی وہ بتی ہے جس کے پیچھے وہ گزشتہ سو سال سے انقلاب کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے۔ ان کے رہنما ٹراٹسکی اور اس کے ان مقلدوں کے اس نظریے کی بنیاد اس احمقانہ مفروضے پر قائم ہے کہ تاریخ میں ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ جب پوری دنیا کے ہر ملک میں انقلاب کے لیے حالات یکساں طور پر سازگار ہو جائیں گے۔ جب ہر ملک میں مزدور طبقہ مقدار اور معیار یعنی تعداد اور شعور کے لحاظ سے سوشلسٹ انقلاب کے لیے تیار بھی ہو گا اور سیاسی طور پر انقلاب برپا کرنے کے لیے منظم بھی ہو گا۔ پھر ہر ملک کا یہ تیار مزدور طبقہ اپنے اپنے ملک کے سرمایہ داروں کے خلاف بیک وقت انقلابی بغاوت کرے گا اور ان کا تختہ الٹ کر اپنا اقتدار قائم کرے گا۔ اور اس طرح عالمی سوشلسٹ انقلاب رونما ہو گا اور پوری دنیا میں سرمایہ دار طبقے کو بیک وقت شکست ہو جائے گی۔
اس طلسمِ ہوشربا کے برعکس زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں کے ملکوں کے سماجی حالات مختلف ہیں۔ بعض خطے دوسرے خطوں کے مقابلے میں سماجی طور پر زیادہ ترقی یافتہ یا پسماندہ ہیں اور اسی طرح مختلف خطوں کے ممالک اور ایک ہی خطے کے اندر ممالک سماجی ترقی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے زیادہ ترقی یافتہ یا ایک دوسرے کے مقابلے میں پسماندہ ہیں۔ مثلا یورپ میں مزدور طبقہ، سماجی ساخت اور شعور ایشیائی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور افریقی ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ایشیاء میں انڈیا میں 16 کڑوڑ مزدور اور ملازمین ٹریڈ یونین میں منظم ہیں جبکہ پاکستان میں مزدوروں کا بمشکل 2 فیصد ٹریڈ یونین میں منظم ہے جبکہ نیپال میں کمیونسٹ اور ماؤاسٹ حکومت قائم کر چکے ہیں! یورپ کا مزدور زیادہ باشعور اور منظم ہونے کے باوجود یورپی معاشرے کو سوشلزم کی جانب لے جانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ افریقی ممالک پسماندہ ترین معاشی و سماجی حالات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایشیاء اور افریقہ میں جاگیرداری اور قبائلی نظام کی باقیات، کسان طبقے کی بڑی تعداد اور پسماندہ آلاتِ پیداوار غالب ہیں۔
دنیا کے ان مختلف خطوں اور ان کے اندر موجود ملکوں کے مابین نہایت مختلف معاشی اور سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تیقن کی کیا بنیاد ہو سکتی ہے کہ ان تمام خطوں اور ان میں موجود تمام ملکوں کے حالات ایک خاص وقت میں سوشلسٹ انقلاب کے لیے یکساں طور پر تیار ہوں گے؟ یہ محض دیوانے کا ایک خواب ہے۔
اس معاملے پر لینن، جسے ٹراٹسکائیٹ اپنے رہنما ٹراٹسکی کا “نظریاتی رفیق” کہتے ہیں اور ٹراٹسکی کے درمیان زبردست مباحثہ روسی انقلاب سے پہلے اور بعد میں بھی کئی سال جاری رہا کہ آیا سوشلسٹ انقلاب صرف عالمی ہونا چاہیے یا اگر کسی ایک یا چند ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب کرنا ممکن ہو تو ایسا کرنا چاہیے؟ لینن نے “ناہموار معاشی اور سماجی ترقی کے قانون” کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ دنیا کے مختلف خطوں اور ملکوں کے مختلف النوع معاشی اور سماجی حالات اور ترقی کی نہایت مختلف سطح کی بدولت یہ ناممکن ہے کہ پوری دنیا میں عالمی انقلاب کے لیے حالات یکساں طور پر سازگار ہوں۔
عالمی سوشلسٹ انقلاب کے بارے میں ٹراٹسکائیٹ سوشلسٹوں کا یہ ایسا مابعدالطبعیاتی غیر مارکسی تصور ہے جو انقلاب کا دعویدار تو ہے لیکن حقیقت میں اپنے رجحان اور روش میں یہ سوشلسٹ انقلاب کا مخالف ہے۔ یہ صرف عالمی انقلاب پر یقین رکھتا ہے اور اسی کے لیے کوشش کرتا ہے۔ ملکی سطح پر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرنے، اپنے ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے اور اس انقلاب کے زریعے دیگر ملکوں میں انقلابی تحریک کو مضبوط کرکے بین الاقوامی سوشلسٹ انقلاب کی کوشش کرنے کے بجائے یہ انقلابی عناصر کو براہِ راست عالمی انقلاب برپا کرنے کی غیر جدلیاتی تحریک دیتا ہے اور اس طرح انہیں ملکی سطح پر انقلاب کی کوشش کرنے والے انقلابی عناصر سے ٹکراؤ میں لے آتا ہے۔
براہِ راست عالمی انقلاب کے دعویدار ملکی سطح پر انقلاب کے لیے کوشاں عناصر کی مخالفت کرتے ہیں اور عالمی انقلاب کے اپنے مجہول نظریے اور عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر کے سوشلسٹ انقلابوں اور خصوصا روس کے سوشلسٹ انقلاب پر فضول تنقید کرتے ہوئے ان انقلابات کو یا تو غلط کہتے ہیں یا ان کی پسپائی کو عالمی انقلاب کے بجائے ایک ملک میں انقلاب کے مارکسی لیننی نظریے کو قرار دیتے ہیں۔ یہ اپنے گریبان میں جھانک کر یہ دیکھنے پر بالکل تیار نہیں ہوتے کہ دنیا میں آج تک ان کے نظریات کے تحت عمل کے زریعے گزشتہ سو سال سے زائد عرصے میں کہیں بھی اب تک عالمی انقلاب کے ابتدائی آثار بھی نمایاں کیوں نہیں ہو سکے؟ ان کے پاس اس بات کا ایک مضحکہ خیز جواب یہ ہو سکتا ہے یہ پوری دنیا میں ایک ساتھ انقلاب کریں گے!
اگر ہم گزشتہ صدی کی انقلابی تحریک کا جائزہ لیں تو عالمی انقلاب کے ان دعویداروں نے روس سے لے کر اسپین، چین، کیوبا، ویت نام، اٹلی، یونان، جرمنی، انڈیا، پاکستان ہر ملک میں ملکی سطح پر انقلاب کے لیے جدوجہد کرنے والے انقلابی عناصر کی مخالفت میں حکمران طبقات کے ساتھ منافقانہ ساز باز کر کے انقلابی تحریک کو نقصان پہنچایا ہے۔ مثلا پاکستان میں عالمی انقلاب کے داعی ٹراٹسکائیٹ سوشلسٹ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی نمائندہ پیپلز پارٹی کو محنت کش عوام کی پارٹی قرار دے کر کئی دہائیوں سے ملک کی محنت کش عوام کو پیپلز پارٹی کا دم چھلہ بناکر طبقاتی مصالحت کی انقلاب دشمن کوشش میں مصروف ہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.