(حُر ثقلین )
ایٹمی ہتھیاروں کا حصول گزشتہ صدی کا مقبول ترین نظریہ تھا۔ طاقت کا توازن اپنے حق میں رکھنے کے لیے بڑی طاقتوں نے ایٹم بم کا حصول لازمی قرار دیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کا اختتام بھی اسی ہتھیار کے استعمال کے ساتھ ہی ہو گیا تھا ۔دنیا یہ جان چکی تھی کہ یہ ہتھیار کوئی چلانے کی چیز نہیں ہے۔اس کی تباہی کے اثرات صدیوں تک دنیا میں باقی رہتے ہیں۔ پھردوسری عالمی جنگ سے لے کر اب تک یہ ہتھیار دوبارہ استعمال نہیں کیا گیا۔ایٹمی ہتھیاروں کی حامل پانچ بڑی طاقتوں نے اس کا سول استعمال شروع کیا اور انسانیت کے لیے خطرناک شے کو مفید بنا دیا۔البتہ امریکہ اور روس کی سرد جنگ نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ بھی جاری رکھی مگر سرد جنگ کے اختتام پر یہ دوڑ بھی ختم ہو گی۔مہذب دنیا اس نتیجے پر پہنچی کہ ان ہتھیاروں کا فوجی استعمال کسی صورت قابلِ قبول نہیں لہذا اس کی مزید پیداوار اور بنانے کی صلاحیت کو حاصل کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔سلامتی کونسل کے جن پانچ مستقل ارکان کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے ان کے علاوہ کوئی اور ملک یہ صلاحیت حاصل نہیں کر سکتا تھا۔اس عنوان پر سخت عالمی قوانین بنائے گئے۔ان قوانین پر عملدرآمد اور نگرانی کے لیے ادارے بھی بنائے گئے۔مگر اس تمام کے باوجود بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے اس خطے میں طاقت کے توازن کو بیگاڑ دیا جس کے جواب میں پاکستان کے لیے بھی لازم ہو گیا کہ وہ اپنی بقاء اور سلامتی کے لیے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرے اس نے قلیل عرصے میں ان تھک محنت کے بعد اپنے وسائل سے یہ صلاحیت حاصل کر کے خطے میں بھارت کی بالادستی کا خاتمہ کر دیا۔مگر بدقسمتی سے اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کی ایسی دوڑ شروع ہوئی ہے کہ جو اب رکنے کا نام ہی نہیں لیتی ہے۔
بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا بھی خواہش مندہے۔وہ سمجھتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایٹمی قوت حاصل کر کے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنا جا سکتا ہے۔اس مقصد کے لیے وہ نیوکلر ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے اپنے وسائل بے دردی سے خرچ کر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب وہاں غربت کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہی بڑھتی ہوئی غربت اس کی تباہی کا سبب بنے گی۔دوسری طرف پاکستان بھی اس میدان میں بھارت کے مقابلے میں اپنے وسائل کو خوب صرف کر رہا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کی خارجہ اور دفاع کی پالیسی کبھی آزاد نہیں رہی اس نے ہمیشہ بیرونی اثر کے تحت اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ مقابلے کی فضاء بنائی مگر اس نے ہمیشہ پاکستان کو اپنی پسندکے میدان میں اتارا ہے۔پاکستان اب خواہ مخواہ اپنے وسائل ان ہتھیاروں کے حصول کے لیے صرف کر رہا ہے۔ایٹم بم صرف بڑی جنگ کی شروعات کوروکنے کا کام کرتا ہے اور وہ پاکستان کے پاس ہے۔مگر اب جنگ کا انداز بدل گیا ہے۔ مکمل جنگ سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ کم شدت والی جنگیں (Low Intensty Confelect)ہو رہی ہیں۔ ان جنگوں کا دورانیہ بھی طویل ہوتا ہے جیسا کہ بھارت بلوچستان میں کھیل کھیل رہا ہے۔اسی طرح LOCپر چھوٹی چھوٹی جھڑپیں معمول کے مطابق ہو رہی ہیں۔بھارت نے افغانستان کو ساتھ ملا کر وہاں سے بھی جھڑپیں شروع کروا دی ہیں اب پاکستانی فوج وہاں بھی مصروف ہے۔ہمیں ایران سے بھی سرحدی خطرات ہیں۔پراکسی وار لمبی ہوتی جا رہی ہے۔اندرونِ ملک دہشت گردی کے خلاف استعمال ہونے ولابجٹ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ملک میں ایک کے بعد ایک فوجی آپریشن شروع کیا جا رہا ہے۔پاکستان کے وسائل اتنے ہی ہیں مگر اس کے دشمن زیادہ ہو گئے ہیں۔1947میں پاکستانیوں نے ایک welfare stateکا خواب دیکھا تھا مگر بدقسمتی سے انہیں security stateکی تعبیر ملی۔قیادت اور پارلیمنٹ کی غیر سنجیدگی کے باعث ملک اس طرح کے مسائل میں گھرتا جا رہا ہے ۔کوئی حقیقت کو درک کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔قومی سلامتی کے ادارے جو پالیسیاں بنا رہے ہیں ان پر بحث ہی نہیں کی جاتی اور نہ ہی سوالات اٹھانے کی زحمت گوارا کی جاتی ہے۔جہاں پالیسیاں بننی چائیے وہاں خاموشی ہوتی ہے۔ہمارے سامنے جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کی مثال موجود ہے۔شمالی کو ریا نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی اور اب تک میزائلوں کی دوڑ دوڑ رہا ہے وہاں غربت اور افلاس کا راج ہے۔جنوبی کوریا نے تعلیم، سائنس،تجارت اور اقتصادیات کے شعبوں پر توجہ دی وہاں امریکی اور یورپین روزگار کی تلاش کے لیے آتے ہیں ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے طالب علموں کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں جنوبی کوریا کی یونیورسٹیوں میں داخلہ ملے۔پاکستان کو یہاں سے سبق سیکھنا چاہیے۔بھارت کی مرضی کے میدان میں مقابلہ کرنے کی بجائے اپنا میدان خود سجانا چاہیے۔پاکستان نیوکلر میدان میں 1st,2nd or 3rd capabiltyکی صلاحیت حاصل کرنے کی بجائے تعلیم ،سول ٹیکنالوجی،تجارت اور معاشی میدان میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوائے اور فلاحی ریاست کی منزل کو حاصل کرے۔اس نئی صدی میں سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیےsecurity stateکی بجائے welfare stateہونا لازمی ہے۔