عالمی صورتِ حال اور مقامیت کے تقاضے
(سید کاشف رضا)
سرد جنگ کے زمانے تک تو دنیا میں دو ہی نظام آمنے سامنے تھے: سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت۔ اشتراکیت کی فتح کے بعد امریکی نیو کونز نے نئے اہداف کی تلاش شروع کی۔ سیموئل ہنٹنگٹن نے ’تہذیبوں کا تصادم‘ نامی کتاب لکھی جو ہمارے ہاں کے مذہبی انتہا پسندوں کو بہت پسند آئی۔ مذہبی انتہا پسندوں کے ان نئے محبوبوں کا نمونہِ کلام دکھانے کے لیے صرف اس بات کا تذکرہ کر دوں کہ مشہور نیو کون رہ نما جینی کرک پیٹرک (Jeane Kirkpatrick )نے ایک مرتبہ اس بات کی سفارش کی کہ امریکا کے لیے بہتر یہی ہے کہ جمہوریت کے قیام کے لیے بہت زیادہ واویلا نہ کرے اور ایسی آمریتوں کی حمایت میں کوئی عار نہ سمجھے جو امریکی حکومت کا دم بھرتی ہوں۔ اس سے پہلے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کا اپنے وقت کے ایک ڈکٹیٹر اناستاسیو سوموزا سے متعلق یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ’’ سوموزا کتیا کا بچہ ہوا کرے؛ وہ ہمارا کتیا کا بچہ ہے۔‘‘ کچھ ایسے ہی بچوں کی پرورش امریکا نے دنیا بھر میں کی جن میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے۔ دنیا بھر میں امریکی مظالم اور ارذل ترین ڈکٹیٹروں کی حمایت میں امریکا کے وہ عناصر پیش پیش رہے جنھیں آج نیو کونز کہا جاتا ہے۔
امریکا میں اشتراکیوں کو تو میکارتھی ازم کے ذریعے پہلے ہی غدار قرار دلوایا جا چکا تھا، مگر پھر وہاں ایک نئی لہر لبرل ازم کے خلاف بھی چلی۔ یہاں پچھلے چند سال سے ’لبرل فاشسٹ ‘ کی ایک اصطلاح بہت معروف ہے اور جو بھی طالبان اور مذہبی انتہا پسندوں کی مخالفت میں آگے بڑھتا ہے اس پر بلا سوچے سمجھے تھوپ دی جاتی ہے۔ کسی بھی زمانے میں معروف سیاسی اصطلاحوں کو جاننا اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ انھیں نہ جاننے کی صورت میں آپ وہ شخص بن سکتے ہیں جو ایک اور شخص کے پیچھے اس لیے بھاگ رہا تھا کہ اُس نے اُسے چھ روز پہلے گینڈا کہا تھا، اور گینڈا اس نے آج ہی دیکھا تھا۔
پانچ سال پہلے نیو کونز کے ایک ہونہار بروا جوناہ گولڈ برگ نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا: لبرل فاشزم۔ اس کتاب میں اس نے لبرل ازم کی بھد اڑائی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ وسطی یورپ میں ابھرنے والی فاشزم کی تحریکوں کو بھی لبرل مفکرین کا تعاون حاصل تھا۔ اس کتاب کا مارکیٹ میں آنا تھا کہ نیو کونز کے ہاتھ میں ایک فقرہ آ گیا۔ اب وہ اپنے مخالفین کو لبرل فاشسٹ کہنے لگے۔
دنیا میں انسانی حقوق، جمہوریت اور مساوات جیسے تصورات کو پروان چڑھانے میں لبرل سلسلہ فکر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ہر سلسلہِ فکر اپنے ساتھ کچھ سائیڈ افیکٹس بھی لے کر آتا ہے۔ سوشلزم کے بانیوں کی نیک نیتی سے کسے انکار ہوگا، لیکن اسی کے نام لیواؤں نے دنیا میں بدترین آمریتیں بھی قائم کیں۔ معاشی لبرل ازم نے دنیا میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم پیدا کی جس کی بدولت آج دنیا شمال کے چند امیر ملکوں اور جنوب کے کئی غریب ملکوں میں بٹی ہوئی ہے۔ لبرل ازم اور خصوصاً معاشی لبرل ازم کا جواب بھی مغرب ہی سے آیا ہے، سو وہاں لبرٹیرین ازم اور نراجیت (anarchism) جیسے تصورات کو بھی فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ آج چومسکی اور دیگر مفکرین جس لبرٹیرین فکر کی بات کرتے ہیں اس نے بھی لبرل ازم سے بہت اخذ و استفادہ کیا ہے۔ لبرٹیرین فکر ریاست کے اختیارات کو محدود اور انسان کی آزادیوں کو وسیع تر کرنا چاہتی ہے۔ پھر اختلافی ڈسکورس کو برداشت کرنے کا ماحول بھی مغربی لبرل ازم ہی کی دین ہے، ورنہ مذہبی اور سوشلسٹ ریاستوں میں اس کا تصور بھی محال تھا۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس جب اپنی نو آبادیات پر ظلم ڈھاتے ہیں تو انھی کے اندر برٹرینڈ رسل اور ژاں پال سارتر بھی پیدا ہوتے ہیں جو ان زیادتیوں پر احتجاج کرتے ہیں اور ان کی حکومتیں انھیں پھانسی پر نہیں چڑھاتیں، نہ ہی سائبیریا بھجواتی ہیں۔ امریکا ویت نام میں لاکھوں افراد کو قتل کرتا ہے تو خود امریکا میں ہی جنگ مخالف تحریک بھی جنم لیتی ہے۔ لبرل معیشت دانوں کا سرمایہ دارانہ نظام جب ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تحفظیت (protectionism) کے نام پر بیل آؤٹ کرتا ہے تو خود امریکا ہی کے اندر سے نوجوانوں کی ایک تحریک بھی سامنے آتی ہے جو اس کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ یہ متضاد سلسلہ ہائے فکر اور ان کی متصادم حرکیات ایک زندہ معاشرے کی دلیل ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب کو دیکھ لیجیے۔ فی کس آمدنی میں دنیا کے امیر ترین ملکوں کے ہم پلہ، لیکن معاشرہ کسی بھی قسم کے تحرک سے محروم۔ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے۔ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔ یہ جو مغرب میں ہمیں اتنے متضاد نظام ہائے فکر ایک دوسرے سے پر امن طریقے سے برسرِ پیکار نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ روشن خیالی کی وہی روایت ہے جو پچھلے کئی سو برس سے مغرب میں پروان چڑھ رہی ہے۔
کسی مخالف کی پگڑی اچھالنے کی خواہش تسلیم لیکن فکری مغالطے پیدا کرنے کی کوشش کو بد دیانتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں عموماً لبرل ازم کا مطلب سیاسی رویوں میں اعتدال لیا جاتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں ایسے فقرے بھی سنتے ہیں کہ ’میں لبرل مسلمان ہوں‘۔ مگر در حقیقت لبرل ازم ایک سیاسی و معاشی سلسلہِ فکر کا نام ہے جس سے وابستہ مفکرین کے خیالات ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ جان لاک سے لے کر اب تک لبرل سلسلہ فکر نے کئی جہانوں کی سیر کی ہے۔ پھر یہ ہے کہ یہ سلسلہِ فکر یورپ میں کئی سو برس کی فکری جدلیات کا امین ہے، دو فقروں میں اسے رد کرنے کی خواہش کو معصومیت ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں جو مفکرین اور کالم نگار مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں، جو اقلیتوں، خواتین اور پچھڑے ہوئے طبقے کے حامی ہیں، ضروری نہیں کہ انھوں نے لبرل فلسفے سے بھرپور آگاہی بھی حاصل کر رکھی ہو۔ مذہبی دہشت گردی کے مخالفین میں تو کئی سوشلسٹ فکر کے بھی حامل ہیں۔ کئی اسلامی فکر کے کسی نہ کسی سلسلے سے بھی منسلک ہیں جن میں جاوید احمد غامدی اور شہید ڈاکٹر فاروق خان جیسے جامع العلوم سکالر بھی شامل ہیں اور مولانا حسن جان شہید اور مفتی سرفراز احمد نعیمی شہید جیسے جیّد علمائے کرام بھی۔ تو کیا مذہبی دہشت گردی کے ہر مخالف پر لبرل فاشسٹ کا لیبل چسپاں کر دیا جائے گا؟ کیا انھیں ان تمام جرائم کا حامی قرار دے دیا جائے گا جن میں مغرب کے لبرل سلسلہ فکر کے وارث مبینہ طور پر ملوث رہے؟ کیا یہ خود فاشزم کی ایک نئی صورت نہیں؟ ہاں ان لوگوں کو فاشسٹ کہا جا سکتا ہے جن کی روشن خیالی ملک بھر میں عشرت کدے کھول دیے جانے اور داڑھی والے تمام انسانوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دینے کی خواہشات تک محدود ہے اور جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی ڈکٹیٹر کی حمایت پر بھی کمر بستہ ہیں۔ سر پر بھرا ہوا گلاس رکھ کر ناچنے کی صلاحیت روشن خیالی کی دلیل کہاں سے ہو گئی؟ ان لوگوں کو فاشسٹ کہا جا سکتا ہے، مگر لبرل نہیں۔ انھیں کیا معلوم لبرل ازم یا کوئی بھی دوسرا فلسفہ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ وہی عناصر ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی آئین شکنی کے خلاف جب اُس پر مقدّمہ چلانے کی بات ہوتی ہے تو اس کے حق میں دلیلیں تراشنے لگتے ہیں۔ یہ وہی عناصر ہیں جنھیں مصری فوج کے ہاتھوں محمد مُرسی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے پر خوشی ہوئی ہے۔ دہرے معیار رکھنے والے ان عناصر کو کسی طور لبرل نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے بجائے انھیں صرف فاشسٹ کِہ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کوئی بھی شخص جو جمہوریت کو بہ طور اصول عزیز رکھتا ہے، اسے مصر میں جمہوریت بھی اتنی ہی عزیز ہونی چاہیے جتنی پاکستان میں۔ ایسی ہی منافقت ہماری اسلامی جماعتیں بھی دکھاتی ہیں جب وہ شام اور مصر میں جمہوریت کی حمایت کرتی ہیں لیکن جب بحرین اور سعودی عرب میں جمہوریت کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے تو اسے خطے میں عدم استحکام کی سازش قرار دینے لگتی ہیں۔ سیکولر فاشسٹ ہوں یا سیاسی اسلام کے شائق، دونوں اپنی کھلی جانب داری میں سب سے پہلے اصولوں اور دانش ورانہ دیانت داری کا خون کرتے ہیں۔
جہاں مغرب کے لبرل اور کنزرویٹو ڈسکورس کو خود مغرب میں ہی چیلنج کیا جا رہا ہے وہاں اسلامی دنیا ، مغربی دنیا کے اس غالب سیاسی ڈسکورس کے متوازی اپنا کوئی ایسا ڈسکورس سامنے لانے میں اب تک ناکام رہی ہے جو اپنی فکریات میں ہی قابلِ عمل نظر آتا ہو۔ اقبال کے خطبات کا مجموعہ ’’اسلام میں مذہبی فکر کی ترتیبِ نو‘‘ ایسے ہی ڈسکورس کی کوشش تھی۔ ہاں مصر اور سعودی عرب سے القاعدہ کی فکر ضرور پھوٹی ہے، جس نے اب تک سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر اس فکر کو کوئی مغرب کے لبرل ڈسکورس کے مقابل کھڑا کرنے کا حامی ہے تو اسے یہی کہا جا سکتا ہے کہ بھائی سلسلہِ فکر تو وہ امپورٹ کیا جائے جو اپنی پیدائش کی سرزمین پر قابلِ عمل ثابت ہو چکا ہو۔ اس فکر کی رو سے پہلے تو مسلمان آپس میں لڑ بھڑ کر فیصلہ کریں گے کہ مغرب اور اس کی فکر سے لڑنا کس کو ہے۔ اس کے بعد جو مسلمان بچیں گے، اگر وہ بچے، تو وہ مغرب کو مشرف بہ اسلام کریں گے جس کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا۔
بات ہو رہی تھی امریکا میں کنزرویٹو مفکرین اور لبرل بائیں بازو کے اختلاف کی، جس میں نیو کونز کو ’لبرل فاشزم‘ کی ترکیب ہاتھ آئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان نیو کونز کے پسندیدہ فقرے کو پاکستان میں اڑایا بھی تو کس نے؟ انھی مذہبی انتہا پسندوں اور ان کے فکری ہم نواؤں نے جن کے خلاف امریکا نے ’وار آن ٹیرر‘ شروع کی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چالیس سال سے مظلوم بنگالیوں، بلوچوں ، مذہبی اقلیتوں، پچھڑے ہوئے طبقوں اور ڈرون حملوں کے شکار مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند کرنے والی عاصمہ جہانگیر کو تو آج لبرل فاشسٹ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ خود مقرر کردہ صحافتی مفتیوں اور ان کے غیرت بریگیڈ نے امریکی نیو کونز کا ایسا فرنچائز پاکستان میں کھولا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے ہر مخالف کے لیے ’لبرل فاشسٹ ‘ کا تمغہ انھی کے آؤٹ لیٹ سے برآمد ہوتا ہے۔ انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا لبرل مفکر کارل پوپر (Karl Popper) ریاستی اداروں کی تشکیل کے دوران ریاست کے ’اخلاقی ڈھانچے ‘کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کا حامی تھا۔اپنی کتاب ’ایک بہتر دنیا کی تلاش ‘ ( In Search of a Better World) میں اس نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ کسی ریاست کا ’قانونی ڈھانچہ‘ اس ریاست کے ’اخلاقی ڈھانچے‘ سے مطابقت رکھے گا۔ کیا ہماری ریاست کا اخلاقی ڈھانچہ ریاست کے غالب مذہب اسلام پر مبنی نہیں؟اگر ہے تو مذہبی انتہا پسندوں کو ملک کی چھیانوے فی صد آبادی پر عدم اعتماد کیوں ہے؟
آج فکری محاذ پر امریکا کے جنگ پسند نیو کونز اور پاکستان کے کچھ سیاسی و صحافتی پاک باز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس نظریاتی اتحاد میں ہندوستان کے ہندو انتہا پسند بھی ان کے شریک ہیں ۔ سو دنیا بھر کے انتہا پسند نظریاتی طور پر تو متفق ہیں لیکن جب بات دشمن کی شناخت کی آتی ہے تو کسی کو یہ دشمن ہرے رنگ کا نظر آتا ہے، کسی کو سرخ رنگ میں اور کسی کو سیاہ رنگ میں۔ یہ لوگ نظریاتی طور پر اتحادی ہیں اور عملی طور پر دشمن؛ اور ان نظریاتی اتحادیوں کی عملی لڑائی میں پوری دنیا کے معصوم عوام گھن کی طرح پس رہے ہیں۔
برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کر دوں کہ کچھ ایسے معصوم مارکسی بھی ہیں جنھیں لبرل فلسفے سے خدا واسطے کا بیر تھا، سو انھیں بھی اپنے نظریاتی مخالفین پر منطبق کرنے کے لیے ’لبرل فاشسٹ ‘ کی اصطلاح پسند آئی اور وہ یہ بھول گئے کہ جوناہ گولڈ برگ کی کتاب کا ذیلی عنوان تھا: ’’امریکی بائیں بازو کی خفیہ تاریخ‘‘، مگر شاید امریکی بایاں بازو بھی چونکہ ’امریکی‘ ہے اس لیے ان معصوم مارکسیوں کے نزدیک نا مطلوب ہے۔
یہ ہے وہ عالمی صورتِ حال اور وہ فکری فضا جس سے کچھ نہ کچھ آگاہی ہمارے ادیبوں کو ہونا چاہیے تھی، لیکن یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ شاعر ادیب کتابیں تو کیا اخبار بھی نہیں پڑھتے۔ اوپر سے فیس بک کی آمد کے بعد ہر شاعر، ادیب کو کبھی نہ کبھی کسی سماجی، سیاسی یا مذہبی معاملے پر جب کومنٹ کرنا پڑ جاتا ہے تو اس کی علمی معصومیت عیاں ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اگر انھیں اس معصومیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جائے تو ان کے اندر کا ’داہ جماعت پاس، ڈائریکٹ حوالدار ‘سامنے آ جاتا ہے۔ٍ
ٍ نائن الیون کے بعد پاکستان کئی حوالوں سے تبدیل ہوا۔ جب نائن الیون ہوا تو ہمارے ملک پر ایک بار پھر ایک فوجی حکم راں مسلط تھا۔ نائن الیون ہوتے ہی گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا۔ کہاں تو یہ عالم تھا کہ بل کلنٹن ہمارے نئے بزرج مہر کا حال تک نہ پوچھتے تھے اور کہاں یہ وقت آیا کہ واشنگٹن اور جی ایچ کیو کے درمیان ہاٹ لائن قائم ہو گئی۔ جس حکم راں نے ہماری قوم کو مشرف بہ پرویز کیا تھا وہ اندرونِ ملک تو لوگوں کو ’کک‘ مارا کرتا تھا جبکہ بیرونِ ملک ’فاختہ‘ کہلاتا تھا۔ مختلف اقسام کی نفسیاتی پے چیدگیوں میں مبتلا اس حکم راں نے پاکستان کا وہ حال کیا جو وہ بندر کرتا ہے جس کے ہاتھ میں استرا آ جائے۔ ہمیں وہ جنگ لڑنی پڑی جو جب شروع ہوئی تھی تو ہماری نہیں تھی۔ اور اس جنگ میں اب تک پاکستان کے پینتیس ہزار سے زائد بیٹے اور بیٹیاں قربان ہو چکے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ستم کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ امریکا جن مذہبی انتہا پسندوں اور جنگجوؤں سے لڑ رہا تھا، انھوں نے امریکا کا بدلہ پاکستان کے عام شہریوں سے لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ پاکستان جہاں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغان عوام سے ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ پاکستانیوں نے متحدہ مجلس عمل کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیے تھے، اسی پاکستان کو دہشت گردوں نے زخموں سے چور چور کر دیا۔ اگر جنگ جوؤں کو پاکستان کی سرکاری پالیسی سے حساب چکانا ہوتا تو وہ صرف سرکاری اداروں اور سپاہیوں کو نشانہ بناتے۔ لیکن ایک خاص کلچر کے حامی ان جنگ جوؤں کو زندگی کی عام خوشیوں میں خوش ہوتے، شادی بیاہ پر ناچتے، مزاروں پر دھمالیں ڈالتے، مجلسوں میں ذکر اہل بیت سنتے، محفلوں میں درود و سلام پڑھتے پاکستانیوں کے طریقہ زندگی سے بھی نفرت تھی۔ اس نفرت کی قیمت پاکستان نے ادا کی۔ ہماری فوج کے جتنے سپاہی، جتنے افسر ان جنگ جوؤں کے ہاتھوں مارے گئے اتنے بھارت کے ساتھ چار جنگوں میں بھی نہیں مارے گئے تھے۔ لیکن پھر ان جنگ جوؤں کو اسی زخم زخم وطن سے اپنے ہم نوا اور غم گسار بھی مل گئے۔ وہ غم گسار جو کہتے تھے کہ خودکش حملے اس لیے ہو رہے ہیں کیونکہ ڈرون حملے نہیں رک رہے۔ کسی نے مڑ کر یہ نہ پوچھا کہ مجلسوں، مزاروں اور درباروں پر خودکش حملوں میں قتل ہونے والے معصوم لوگوں کے کتنے لواحقین خود کش بنے؟ دہشت گردی کی جنگ امریکا کے خلاف تھی تو پاکستان کے نہتے شہریوں کا قتل عام کیوں شروع ہو گیا؟ ہزارہ قبیلے کو کیوں ریڈ انڈین بنا دیا گیا جو ہر سال ستائیس رمضان کو یوم القدس منا کر مرگ بر امریکا ، مرگ بر اسرائیل کے نعرے لگایا کرتا تھا؟ صدیوں سے اپنی قبر میں سویا ہوا رحمان بابا بھی کیا امریکا کا پٹھو تھا کہ اس کا مزار بم سے اڑا دیا گیا؟ یہ وہ سوال تھے جنھوں نے بہت سے ادیبوں، شاعروں کو تنگ کیا، مگر بہت سے ادیب، شاعر ان حالات میں بھی قافیے پر قافیہ ہی ٹانکتے رہے۔
آج مجھے ان شاعروں کا ذکر کرنا ہے جنھوں نے بدلے ہوئے اس پاکستان کا درد اپنی شریانوں میں محسوس کیا۔ یہی وہ شاعر ہیں جن کا ہاتھ اپنے زمانے کی نبض پر ہے اور یہی وہ شاعر ہیں جن کی شاعری میں روحِ عصر کا ہیولہ ابھرتا ڈوبتا دکھائی دیتا ہے۔
اب جب کہ میں ادیب کے لیے سماج سے واقفیت اور روحِ عصر کی شناخت کی اس قدر حمایت کر چکا ہوں تو وقت آ گیا ہے کہ میں یہ بھی اعلان کر دوں کہ اعلیٰ ادب کی تخلیق کے لیے بس یہی دو چیزیں کافی نہیں۔ انسان کے دکھ سکھ بہت پے چیدہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شاعر یا ادیب شہر کے کسی چوک میں ہونے والے بم دھماکے یا کسی ڈرون حملے پر براہ راست نہ لکھ رہا ہو لیکن ایسی الم ناک مصیبتوں سے پیدا ہونے والا دکھ، مایوسی اور انسانی المیہ اس کی تحریروں میں در آیا ہو۔ ادب کے لیے جو اہمیت سماجی تبدیلیوں اور روحِ عصر کی شناخت کی ہے، اتنی ہی اہمیت، اگر اس سے زیادہ نہیں تو، تاریخ اور انسان کی ازلی ابدی کہانی کی جان کاری کی بھی ہے۔ ادیب آج کے حالات کو ،یا کسی ایک انسان کی کہانی کو ،جب ابدیت کے پہلو میں رکھ کر دیکھتا ہے تو تبھی اس کی تحریروں میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے؛ ورنہ اس کی تحریر ایک کومنٹ بن کر رہ جاتی ہے۔ دنیا کے بڑے ادیب وہی ہیں جنھوں نے انسانی دکھ سکھ کو مجموعی زندگی بلکہ ابدیت کے پہلو میں رکھ کر دیکھا اور دکھایا۔ پھر یہ بھی ہے کہ بہ قول جون ایلیا ہماری دنیا رشتوں کا ایک کارخانہ ہے جس میں ایک کل دوسری کلوں سے جڑ کر ہی اپنی شناخت اور اپنے معنی پیدا کرتی ہے۔ سماج فرد پر اور فرد سماج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پھر افراد اپنے باہمی رشتوں کی مدد سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ادب اور شاعری کا بنیادی موضوع انھی رشتوں کا تصادم اور تال میل ہے۔ ہمارے جذبات اور محسوسات کسی نہ کسی رشتے سے ہی پیوست ہوتے ہیں۔ اسی سے انسانی المیہ بھی جنم لیتا ہے اور انسانی تماشا بھی۔ اینا کارینینا کیا ہے؟ کہانی تو بس اتنی سی ہے کہ ایک عورت ہے جو ایک عدد شوہر رکھنے کے باوجود بے قرار ہے اور ایک ایسے محبوب کے عشق میں مبتلا ہے جسے وہ نہ پا سکتی ہے نہ چھوڑ سکتی ہے۔ لیکن ساڑھے آٹھ سو صفحے کی یہ کہانی ہمیں اس عورت کے اتنے پہلوؤں سے ملواتی ہے کہ ہم اینا کو ایک جیتی جاگتی عظیم عورت سمجھنے لگتے ہیں۔ کسی اور کا تو پتا نہیں، لیکن مجھے تو اینا کسی عام عورت سے زیادہ ہی یاد آتی ہے۔ خدا کی تخلیق کے بالمقابل ایک اور تخلیق؛ ویسی ہی جیتی جاگتی، لیکن کہیں زیادہ یادگار۔ بیابان و کہسار و راغ آفریدی۔ خیابان و گلزار و باغ آفریدم۔
مجھے کہنا صرف یہ تھا کہ ادب کو اعلیٰ ادب بنانے کے لیے انسانی تاریخ، ازلی ابدی انسانی المیہ اور انسانی تماشا، رشتوں کا تصادم اور تال میل سب کی جان کاری اور گہری بصیرت کی ضرورت ہے۔ لیکن جب کسی قوم پر کوئی بڑی افتاد آتی ہے تو مذکورہ بالا تمام عناصر کی ہیئت اور معنی بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان پر بھی ایسی ہی افتاد پڑی ہے۔