عورتوں کو تعلیم کے ساتھ مقام بھی چاہیے
از، رابی وحید
ہماری سوسائٹی میں یہ بہت عام صورتِ حال ہے کہ عورتوں کو تعلیم کے معاملے میں بھی ایک الگ صنف کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ عورت کس طرح کی تعلیم حاصل کرے اور وہ تعلیم حاصل کر لے تو اُس تعلیم کا کیا کرے؟ہمارے بہت سے پڑھے لکھے مرد حضرات بھی عورتوں کی تعلیم کے متعلق نہایت دقیانوسی خیالات رکھتے ہیں۔عورت کو تعلیم کا حق دینے میں بھی ہمارے معاشرے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ایک طبقہ کہتا ہے ( جس میں عورتیں اور مرد دونوں شامل ہیں) کہ عورتوں کو تعلیم کی خاص ضرورت نہیں چوں کہ وہ معاشرے کا فعال کردار ادا نہیں کر سکتیں لہٰذا اُنھیں تعلیم کی سختیاں برداشت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ طبقہ اپنے سخت گیر تصورات سے بچنے کے لیے عورتوں کی معمولی یا ابتدائی تعلیم کے حق میں رہتا ہے جیسے میٹرک یا ایف اے تک کی تعلیم۔ ایسی خواتین بھی اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں ہوتیں۔ نظریہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھ لکھ کے کیا کرنا ہے
آخرکار گھر ہی سنبھالنا ہے۔ جب کہ دوسرا طبقہ ذرا فراخ دل ہے ۔یہ طبقہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے مکمل حق میں ہے ۔ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ ڈگریوں کا حصول اور اپنی بیٹیوں کے لیے ہر طرح کی تعلیمی سہولیات کی فراہمی اس طبقے کے افراد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر یہ طبقہ لڑکیوں کی تعلیم کے پس منظر میں اسے بھی بے کار اور اضافی سرگرمی سمجھ رہا ہوتا ہے۔ میں نے اکثر ایسے افراد اور خاندان دیکھے ہیں جو لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کے لڑکیوں کے رشتے ہوتے ہی انھیں گھر بیٹھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ خاندان لڑکیوں کے اچھے رشتوں کے لیے لڑکیوں کی ا علیٰ تعلیم کے حق میں ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے افراد جو اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے رشتے مانگتے ہیں ان کے ہاں بھی اسی قسم کی تفریق ملتی ہے۔ شادیوں کے فوراً بعد لڑکیوں کو گھر بیٹھنے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔
ایک اور رویہ بھی پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے گھرانوں میں دیکھا جا سکتاہے۔ یہ رویہ مرد حضرات کا ان تعلیم یافتہ لڑکیوں کے بارے میں رائے کا ہے۔ مرد حضرات اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں سے شادی تو کرتے ہیں اور انھیں ملازمت کی اجازت بھی دے دیتے ہیں مگر انھیں اور ان کی نوکری کوہمیشہ ایک بائی پراڈکٹ سمجھتے ہیں، میری بہت قریبی رشتہ دار کے خاوند اپنی بیوی کی اعلیٰ نوکری کی اجازت کو ہمیشہ اپنی فراخدلی قرار دیتے رہے۔ دوسرے لفظوں میں اُن کی کمائی کو اپنے اوپر ’’حرام‘‘ قرار دیتے رہے۔ مگر ملازمت کے معاملے میں اُن کا رویہ اپنی بیوی سے بہت معاون رہا۔ خدا کا کرنا یہ ہُوا کہ اُن کے خاوند کا انتقال ہو گیا اورپھر بچوں کی باعزت پرورش اُسی ’’حرام‘‘ کی کمائی سے ہوتی رہی۔
یہ سب عورتوں کو دوسرے درجے کی مخلوق قرار دینے سے ہورہا ہے۔ اس معاملے میں مرد بھی بہت معصوم ہوتے ہیں وہ عورت کو اجازت بھی دیتے ہیں اپنا ساتھی بھی سمجھتے ہیں مگر ایک دبی ہوئی حاکمیت اُن کے ہاں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ جو کسی نہ کسی شکل میں عورت پر تلوار کی طرح مسلط رہتی ہے۔ اور تو اور نہایت آزاد اور اپنی مرضی سے ملازمت کرنے والی عورت ساری زندگی یہی بتاتے گزار دیتی ہے کہ مجھے میرے خاوند نے بہت خوش اور آزاد رکھا ہُوا ہے۔ اُسی کی اجازت سے میں اس اعلیٰ مقام کو پا سکی ہوں۔ یعنی وہ اپنے مقام و مرتبے کو بھی ایک مرد کے ساتھ جوڑ کے متعین کرتی ہے۔
یہ سب باتیں تو ہمارے معاشروں میں ابھی بہت دور ہیں کہ عورت اپنا حق اور آزادی فطری طور پر لینے لگے مگر جس طرح کی پابندیوں کا ذکر سب سے پہلے ہُوا کہ عورت کو پڑھانے کی کیا ضرورت اس نے گھر ہی تو بسانا ہے اس قسم کے رویوں کی شدید مذمت کی جانی چاہیے۔ عورتوں کو خود بھی احساس کرنا چاہیے کہ وہ گھر بسانے کی اہم ذمہ داری‘‘ کو تعلیم کے ساتھ بھی نبھا سکتی ہیں یا شاید تعلیم کے ساتھ زیادہ بہتر طور پر ادا کر سکیں۔ عورتوں کی تعلیم مرد حاکم معاشروں میں زیادہ ضرورت کی متقاضی ہے۔ مرد حاکمیت فطرت natureکو غلبہ پانے سے شروع ہوئی تھی مگر بچاری عورت اُس کے غلبے میں آ گئی۔ عورت کو کچھ عرصہ مرد حاکمیت سے آزاد کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے کیا اُسے مرد مجبور کرتا ہے کہ وہ پابند ہی رہے، یا عورت کبھی خود بھی یہی چاہتی ہے کہ مرد اُسے دوسرے درجے کی مخلوق ہی سمجھے؟ یہ سوال معاشرے میں عورت اور مرد دونوں کے سوچنے کا ہے۔
عورت کی ملازمت جدید معاشروں میں ایک ناگزیر مجبوری کے طور پر سامنے آئی ہے۔ یہ نہیں کہ وہاں کے مرد نکمے آنے لگے ہیں بلکہ وہاں کی عورتوں نے مردوں کو اپنی ذہانت سے زیر کیا ہے۔ عورت نے اپنے آپ کو معاشرے کا کارآمد شہری منوایا ہے۔ ہمارے دیہاتوں کی قدیم معاشرت میں عورت کی اس قسم کی شدید تفریق موجود نہیں تھی۔ عورتویں کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں۔ مرد حضرات بڑی فراخدلی سے عورتوں کے ذمے کام کرتے جیسے یہ کام انھی کے کرنے کے ہیں۔ قدیم معاشرت میں بہت سے سماجی کاموں کو عورتوں کے کام سمجھا جاتا تھا مگر رفتہ رفتہ معاشرت میں تبدیلی آئی تو عورتوں کو گھروں تک محدود کر دیا۔ سینا پرونا اور کھانا پلانا اُن کے فطری کام بنا دیے گئے۔
عورت کو معاشرے کا کارآمد شہری سمجھنا اُسی وقت شروع ہوگا جب عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھنا بند ہوگا اور یہ تبدیلی سب سے پہلے تعلیم یافتہ مرد حضرات کے اذہان میں آناضروری ہے۔