(ڈاکٹر قاضی عابد)
ادبی شعریات کا اٹوٹ جزو بننے اور تنقیدی تھیوری میں پڑھت کے طریقے میں ڈھلنے سے کہیں پہلے تانیثیت ایک معاشرتی تنقیدی رویے اور سیاسی شعور کے طور پر انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں مجموعی معاشرتی فکر کا حصہ بنی۔ اپنے وجود اور تشخص کے احساس نے جہاں لکھنے والیوں کو اپنی ایک علیحدہ دنیا کے ہونے کی ضرورت کا احساس دلایا وہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے مختلف تحریکیں شروع کرنے کا شعور بھی عطا کیا۔ بیسویں صدی میں فروغ پانے والی ادبی تھیوری جس قدر سیاست اساس تھی اور ہے،ا س پر گفتگو کرنے سے اردو کے وہ اشرافی ناقدین گریز کرتے ہیں جنھوں نے جدیدیت کو بھی محض ہیئتی تنقید کے بے ضرر دائرے کا کلام بنانے کی کوشش کی تھی۔ تانیثیت بھی بنیادی طور پر عورت کے وجود اور تشخص کی خودمختاری کی رد تشکیل کا کوئی واحد رویہ نہیں بلکہ یہ ادبی اور تنقیدی دبستان عورت کی دریافتِ نو کے مختلف اور بعض اوقات متضاد رجحانات کے مجموعے کے طور پر کام کرتا ہے اسی لیے بعض اوقات اسے Feminism کی بجائے Femenisms بھی کہا گیا ہے۔(۱ )
جولی فِکن اور مائیکل ریان نے اپنے مضمون ’’تانیثیت کے نقوش: ایک تعارف ‘‘ میں اس ادبی/ تنقیدی رویے کی وسعت اور پھیلاؤ پر روشنی ڈالتے ہوے لکھا ہے کہ :
’’گزشتہ کئی دہائیوں میں تانیثیتی تنقید کی کایا پلٹ اس وجہ سے ہوئی کہ اسے اندرونی سطح پر تنقید و تبصرہ اور بیرونی طور پر سخت حملوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے۔ اس کی یہ مڈبھیڑ تحلیل نفسی، مارکسیت، پس ساختیات، نسلی گروہوں کے مطالعات، پس نو آبادیاتی نظر ئیے اور مردوں اور عورتوں میں ہم جنس پرستی کے مطالعات کے شعبوں کے ساتھ ہوئی ہے۔ اس صورتحال نے اس میدان میں اتنی تفریط پیدا کردی ہے کہ اسے کسی بھی طرح ایک زمرے کے اندر ہی نہیں سمیٹا جاسکتا، حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مجموعہ مضمون Conflicts in Feminism کے عنوان سے موجودہ دور کی تانیثی تنقید کی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا : مساوات بمقابلہ اختلافات، ثقافتی تانیثیت بہ مقابلہ پس ساختیاتی تانیثیت، ناگزیریات (اساسیت پسندی) بہ مقابلہ سماجی تشکیلات پسندی (Essentialism vs social constructionism) ، تانیثیت اور جنس کا نظریہ؟ تانیثیت یا جنس کا نظریہ؟ تانیثیت نسلی خصوصیات کے حوالے سے یا پھر دوسرے حوالوں سے بھی؟ تانیثیت بین الاقوامی یا پھر قومی؟ ستر کی دہائی کے اوائل کا طالب علم اگر یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ آخر کیوں ہے کہ تانیثیت نواز تنقید کا کوئی وجود نہیں ہے تو نوے کی دہائی کے اواخر کا طالب علم اس سوال پر زور دینے کا مجاز ہے کہ آخر تانیثی تنقید کی کوئی ایک متعین سمت نہیں ہے۔‘‘(۲ )
نسبتاً درد مندی سے ان سوالوں پر غور کیا جائے تو ظاہر ہوتاہے کہ یہ تنقیدی رویہ کثیر الجہت حیثیت کا حامل ہوتا چلا گیا ہے اور اس سماج نے عورت کو گہرائی اور گیرائی سمیت سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ عورت اس تنقیدی دبستان میں مختلف جہات سے مطالعے کا موضوع بنتی ہے۔ اس کا وجود، اس کا تشخص، اس کی زندگی، اس کے بارے میں سماجی تشکیلات پر مبنی نظریات اور خود اس کی اپنے بارے میں سوچ۔
ذیل کی سطور میں انور نسیم کی کہانی ’’دھرتی اور آکاش‘‘ کا تانیثی تنقید کی مختلف جہات کے حوالے سے جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔ سب سے پہلے کہانی کے عنوان کی طرف آتے ہیں۔ دھرتی اور آکاش، ثنویت اور تضاد یا پھر تنقیدی تھیوری کی اصطلاح میں ثنوی /دو طرفہ تضاد (Binary opposition) ،عورت اور مرد کے تعلق کی اساس کی سماجی تشکیل کو سمجھنے کے لیے یا بیان کرنے کے لیے اس تضاد کی صورت کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس ثنوی یا دو طرفہ تضاد کی کئی تعبیریں ممکن ہیں اور اسے کئی طرح سے سمجھایا بھی جاسکتا ہے مثلاً
دھرتی۔۔۔۔۔۔آکاش عملی۔۔۔۔۔۔نظری
عمل۔۔۔۔۔۔فلسفہ جھکاؤ۔۔۔۔۔۔بلندی
اور اس تجنیسی سلسلے کے اپنے کئی تنوعات ہیں۔ جہاں دھرتی عمل، بیج پالنے، ثقافتی حوالہ ہونے کی علامت ہے، وہیں یہ عورت کی مجبوری، محکومی اور غلامی کی علامت بھی سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح آکاش نظریہ اور جبر کا اشاریہ بن جاتا ہے۔ اوپر سے کچھ نافذ کرنے کی کئی صورتیں بھی آکاش کے تلازماتی سماجی تشکیلاتی سلسلے کے اندر پیوست نظر آتی ہیں۔ بہرحال یہ تو بہت واضح ہے کہ اس ثنوی جوڑے کی تانیثی تعبیر تفریق کے حوالے سے ہی ممکن ہے، پھر یہ بھی دیکھا جانا ضروری ہے کہ دھرتی اور آکاش کی اساطیری تعبیر یا توضیح پھر کیا ہوگی، دراوڑی اور آریائی تناظر میں اس سلسلۂ معنی کی تخم آفرینی/ معنی خیزی کی جڑوں کے اختلاف کو کیسے دیکھا جاسکے گا۔ یہ دونوں الفاظ ایک مذہبی تعبیر کے حامل بھی بن سکتے ہیں اور اس سلسلہ فکر کو دراوڑی، آریائی اور اسلامی تناظر میں میراجی، اقبال، عمیق حنفی، زبیر رضوی، جیلانی کامران اور وزیر آغا کی شعری علامات میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
اسی عنوان کے تناظر میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہندی ، رطوریقا بھی مختلف خطوں میں عورت کے استحصال کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے یا مذہبی رطور یقا کسی سماج میں ایک سماجی تشکیل کی معاون قوت کے طور پر عورتوں کو جبر اور صبر کے ہم معنی ہونے کا درس بھی دیتی رہی ہے۔ تقریباً ہر سماج میں موجود مذہبی رطوریقا نے عورت کو حق حکمرانی دینے کے خلاف فتویٰ سازی ضرور کی۔ یہاں تک کہ اوائلی مسلم معاشرے میں جب چوتھے خلیفہ کے انتخاب کے موقع پر مسلمانوں کے ایک گروہ نے خلافت کی دعوے دار دو قوتوں کے خلاف آواز بلند کی اور یہ کہا کہ غلام اور عورت بھی خلیفہ بن سکتے ہیں تو اسلام کی تاریخ میں انہیں سیاسی وجوہ کی بنا پر خوارج قرار دے کر پہلی بار دائرہ اسلام سے اخراج کی راہ دکھائی گئی۔ خلافتِ اسلامی کی مختلف انواع پر روشنی ڈالتے ہوئے ممتاز مؤرخ ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ نے لکھا ہے کہ :
‘‘A thrid school, that of the Khawarij (Kharjiatios) favoured the rule of an elected parliament to govern the Islamic Ummah with or without an Imam or Caliph. According to them, even a female Muslim or a slave could be eligible to the office of Caliph.’’ ۳
مارگریٹ والٹرز نے اپنی کتاب ’’تانیثیت: ایک نہایت مختصر تعارف‘‘(۴) میں تانیثیت کی مذہبی بنیادوں/جڑوں پر کافی بحث کی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی ابتدائی اور خالص شکل میں دنیا کے مختلف مذاہب نے عورتوں کی آزادی اور حقوق کی بات ضرور کی مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ روایتی انداز قبائلی صورتوں کی شکل اختیار کرتا گیا اور انقلابی عمل کی بجائے روایت پرستی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ سو داسی کا تصور ہو یا راہبہ کا یا پھر ہمارے معاشروں میں مذہب کے نام پر معاشرتی تشکیل کے حامل احکامات ان کے پس پشت مذہب کی قوت کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ سو دھرتی اور آکاش بھی اسی طرح کے لسانی اشارے ہیں جن کے پیچھے عورت کو پسماندہ رکھنے کے مدلولات آگے چل کر کسی اور دال (Signifire)میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔
کہانی کا بیانیہ اپنے آغاز ہی سے جو منظر نامہ ہمارے سامنے کھولتا ہے وہ ایک کلیدی اشارہ ہے۔ قبرستان کا منظر، جہاں زندگی ہار جاتی ہے۔ کس کی زندگی۔ایک فرد یا ایک زندہ لاش کی جو ہمارے معاشرے میں عورت کی تجسیم قرار دی جاسکتی ہے۔ قبرستان میں جو لوگ دکھائے گئے ہیں کیا وہ انسان ہیں یا پھر ایک تکراری یا میکانکی عمل سرانجام دینے والے۔ جن کا روزگار لوگوں کی موت سے بندھا ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کے مرنے کی دعا مانگ رہے ہیں کیونکہ موت ان کے رزق کا سامان ہے کیا روزمرہ کی مشینی زندگی کا ایک پرزہ ہو کر انسان اتنا شقی القلب ہوسکتا ہے۔
یہ منظر آئندہ پیش آنے والے واقعات کے لیے ایک ذہنی پس منظر بھی تشکیل دے رہے ہیں :
’’ارے دینو اگر آج پچھلے پہر بھی کوئی کام مل جائے تو بہت ہی اچھا ہو۔ مجھے آج روپوں کی سخت ضرورت ہے‘‘ ایک نوجوان مزدور اپنے دوست سے کہہ رہا تھا۔ انسان کتنا خود غرض ہے۔ ایک کی موت دوسرے کی زندگی بن جاتی ہے۔ میں انہی خیالات میں گم قبرستان سے ہسپتال کو جارہا تھا۔‘‘(۵)
باز آفرینی کی تکنیک میں لکھی گئی اس کہانی کا اگلا منظر راوی کی اپنے دوست سے ملاقات ہے جس کے سامنے راوی محمودہ(ایک عمومی نسوانی کردار) کی کتھا بیان کرتا ہے۔
’’ذرا قبرستان تک گیا تھا ‘‘
کیوں خیریت تو تھی اس نے بڑے تعجب سے پوچھا
’’محمودہ آج صبح۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ہوں، محمودہ کون تھی، تمہارئی کوئی عزیزہ تھی کیا؟ ‘‘
’’محمودہ کون تھی؟ میں نے بے خیالی میں کہہ دیا جانے محمودہ کون تھی۔‘‘(۶ )
محمودہ کون تھی؟ اس حال میں تانیثیت کی شعریات کا ایک اہم حصہ تشخص کا بحران ضرور ہے اور اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا مگر یہ سوال کہانی میں اس کے تعارف کا وسیلہ بنے گا اور یوں قاری کے سامنے اس نسوانی کردار کی زندگی کے کچھ گوشے اپنے سماج کے تعصبات اور مبنی بر تعصب سماجی تشکیلات کے کھلنے اور اس کی رد تشکیل کے کچھ نمونے سامنے آئیں گے۔
’’آہستہ آہستہ ڈرائیو کرتا ہوا جب میں چیئرنگ کراس سے ذرا آگے نکلا تو فٹ پاتھ کے کنارے لگے ہوئے لیمپ لائٹ کی زرد روشنی میں مجھے ایک دھندلا سا ہیولیٰ نظر آیا۔ کوئی فقیر ہو شاید! اس کی چال میں بڑی شدید لغزش تھی۔ شاید کوئی شرابی۔۔۔۔۔۔
میں نے کار کو اور آہستہ کرلیا۔ یہ تو کوئی عورت ہے۔ بھاری بھرکم جسم، تیس سال کی ہوگی شاید، مگر یہ آدھی رات گئے یوں بارش میں اس ٹھٹھری ہوئی رات میں تنہا کہاں ماری ماری پھر رہی ہے۔ شاید کسی شکار کی تلاش ۔۔۔۔۔۔‘‘(۷ )
اس تعارف میں شکار کی تلاش کے لسانی اشارے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تانیثی تنقید کا کوئی بھی طالب علم اس پر بات کیے بغیر آگے نہیں بڑھے گا۔ اس لسانی اشارے میں جو مفہوم موجود ہے وہ بظاہر ڈھکا چھپا ہے لیکن اس کے معنی کھلے ہوئے ہیں۔ کس شکار کی تلاش ہے۔ اب تانیثی تصور نقد یہ سوال ضرور اٹھائے گا کہ آیا یہاں مسئلہ مردانہ سماج کے ذہنی تعصبات کا ہے یا یہ مصنف کی ارادی تشکیل ہے۔ مصنف کی ارادی معنویت پر تو تانیثیت بھی دوسرے مابعد جدید مکاتبِ نقد کی طرح ایمان نہیں رکھتی لیکن کہانی کا راوی اس سماجی تشکیل کا حصہ ضرور ہے جس میں عورت کو جنس کا واحد کھلاڑی تصور کیا جاتا ہے اور مرد ساجھے دار ہوتے ہوئے بھی گناہ گار نہیں کہلاتا۔ آخر اسے کس طرح کے شکار کی تلاش ہے، کیا عورت ہی ہر وقت اور صرف محض شکار کی تلاش میں ہوتی ہے۔ یہ مرد اساس معاشرے میں عورت کے حوالے سے تشکیل دئیے گئے تعصبات ہیں جو اس طرح کے لسانی اشارے ترتیب دیتے ہیں۔
اسی طرح کے لسانی اور سماجی تعصبات کے اندر سے محمودہ کا تعارف برآمد ہوتا ہے۔ محمودہ کا ماضی مگر ایک عورت کا ماضی اس کے حال اور مستقبل کی طرح کون بناتا ہے، حالات/انسان/معاشرہ/ مردانہ معاشرے کے تعصبات، یہ سب چیزیں مل کر سماج میں عورت کی حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔
یاسین صاحب کی بیٹی, ظفر ڈسپنسر کی بیوی, احمد کی محبوبہ/ سمگلنگ میں معاون ایک روایتی گھر میں لاڈ پیار سے پلنے والی لیکن پھر باپ کی آواز میں ’’بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں۔ بے حدشرارتی، ہنس مکھ اور بے حد خوبصورت یہ اس کا فطری روپ ہے مگر پرایا دھن بن کر اسے ایک سماجی تشکیل میں ڈھلنا ہے۔ پرایا دھن کیا ہوتا ہے۔ وہ جو آپ کے آنگن میں جنم لے، اس کی ایک خاص وضع میں پرورش ہو اور پھر سماج اور مذہب کے نام پر اسے اندھیرے کے حوالے کردیا جائے۔
پرایا دھن کون کہہ رہا ہے؟ باپ مگر باپ خود مجبور ہے ایک سماجی تشکیل کے آگے، دھن کی معنویت پر غور کرنے کی ضرورت ہے، عورت کے حوالے سے ہمارے محاورے اور لطائف بھی سماجی تشکیل کی ایک شکل ہیں۔ انہیں تانیثی شعور کس طرح پڑھنا سکھاتا ہے۔ جب ہم انہیں ایک سماجی تشکیل کے رد (تانیثی نقطۂ نظر سے) کے طور پر پڑھیں گے تو ساختیات کا لانگ (نظام) اورپیرول (کارکردگی) کا رشتہ ختم ہوجائے گا یا قطع ہوجائے گا اور رد تشکیل کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
آگے کے مکالموں میںیاسین صاحب کی دوسری بیوی اور یاسین صاحب کے مکالمے دیکھیں، خاص طور پر دوسری بیوی جو محمودہ سے جان چھڑانا چاہتی ہے (وہ خود بھی ایک منفی کردار کی سماجی تشکیل ہے) جب کہتی ہے کہ :
’’آپ کی بیٹی میں کون سے لعل لگے ہوئے ہیں۔ ‘‘
ان دونوں سماجی تشکیلات کو ملا کر پڑھیں اور دیکھیں کہ سماجی تشکیلات کس قدر غیر فطری ہوتی ہے کہ ان کے درمیان متجانس رشتہ جو ایک نحوی ترتیب کی جان ہوتا ہے مفقود ہے۔ یہاں پر ایک مرتبہ ٹھہر کر اس جملے پر غور کرنے کی ضرورت ہے’’آپ کی بیٹی میں کون سے لعل لگے ہوئے ہیں‘‘۔
یہ بھی وہ سماجی تشکیل ہے جسے مولوی نذیر احمد کے کردار اصغری کا معنوی پھیلاؤ قرار دیا جاسکتا ہے۔ عورت کے ساتھ سگھڑاپا اور اس جیسے گھریلو اوصاف منسوب کئے جاتے ہیں جو عورت کا غیر فطری بہروپ ہوسکتا ہے۔ کیا عورت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ اوصاف ماں کے پیٹ سے ساتھ لے کر آئے۔
ان اوصاف سے عاری محمودہ آخر ظفر ڈسپنسر کی بیوی بن جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے شوہر کا پیٹ پالنے کے لیے ایک خاموش سمجھوتہ کرنے والی دیگر کئی مردوں کی جنسی رفیق۔۔۔۔۔۔
مگر محمودہ نے یہ سمجھوتہ کرنے سے پہلے بار بار بغاوت ضرور کی ہے۔ کبھی شادی کی پہلی رات میکے واپس آکر اور کبھی کچھ اور شکلوں میں مگر سوتیلی ماں، سگے باپ اور نشے کے عادی شوہر نے اس کی خوبصورت زندگی کو سمجھوتے کی کھتونی میں ڈھال دیا۔
’’دیکھو نیاز یار اپن ذرا سگریٹ لے آئیں۔ تم محمودہ سے باتیں کرو‘‘ اور نیاز میرے قریب آن بیٹھا میں خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئی
کیا اس سسرے کے ساتھ اپنی زندگی برباد کررہی ہو۔ قسم خدا کی تم تو نمبرون ہیرا ہو‘‘ نیاز کے منہ سے آتی ہوئی شراب کی بو میرے نتھنوں میں گھسی جارہی تھی۔
تمہیں میرے خاوند کے متعلق ایسے الفاظ کہنے کا کیا حق ہے۔
نیکی اور شرافت کی قندیل ابھی بہت روشن تھی
’’خاوند، سرتاج، مجازی خدا‘‘ اس نے بڑا بھرپور قہقہہ لگایا۔
تمہارا خاوند۔‘‘(۸ )
روایتی تنقید جوہر کہانی کے بیان کنندہ/راوی/ ہیرو کو مصنف سمجھ کر یا اس کی خودنوشت سمجھ کر پڑھنے کی عادی ہے ان جملوں کے اندر چھپی سماجی تشکیلات یا طاقت اور اقتدار اور بیان کے باہمی رشتوں کو سمجھنے سے قاصر رہ سکتی ہے لیکن نسائی شعور کی حامل تنقید ان جملوں کے عقب میں موجود عمل کو شناخت کرلیتی ہے۔
باپ (یاسین)، خاوند(ظفر ڈسپنسر) یا نیاز (خریدار ) اس ساری صورت حال کے تشکیل کنندہ ہیں جو مذہب ، روایت،خاندان، معاشرت اور اقدار کے نظام کے نام پرمحمودہ کو اس حال میں پہنچا رہے ہیں، کچھ عامل بن کر اور کچھ معمول بن کر لیکن اس ساری صورتحال کے وقوع پذیر ہونے کے ذمہ دار یہ سب ہیں۔
رات کے بدلتے ہوئے خریداروں میں اب ایک اور کردار کا اضافہ ہوتا ہے جو جنس کے تعیشات کی بجائے محمودہ کو اور طرح سے استعمال کرنے والا ہے اور یہ کردار احمدہے :۔
’’ظفر کو پھر سگریٹوں کی طلب ہوئی اور احمد چپ چاپ بیٹھا خلاؤں میں گھورنے لگا۔ عجیب احمق ہے۔ شاید ابھی اسے پیاس نہ لگی ہو۔ خیر مجھے کیا ہے جو جی چاہے کرے۔
آپ کا نام کیا ہے اس نے بے خیالی میں پوچھا
میں سٹپٹا گئی، آپ کا۔۔۔۔۔۔ مجھے تو سب تم، تمہارا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ بھلا میرا کیا نام ہوسکتا تھا، میں تو وہ سیتا تھی جسے رام خود راون کی قید میں چھوڑ کر، کہیں غائب ہوگیا تھا۔‘‘(۹ )
اب کہانی میں نسائی شناخت کا بحران در آیا ہے۔ پہلی بار یہ سوال جو ایک مرد کی طرف سے مختلف انداز میں پوچھا گیا۔ محمودہ کے اندر تشخص کا بحران جگا گیا ہے۔وہ کون ہے، کون تھی، کیا نام تھا ایک مرد ایک اور بہروپ بھر کے اس کے استحصال کی کوشش میں مصروف ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ اب اس کے حسن کی کشش سے مادی دنیا میں ایک اور کام لیا جانا ہے۔ صارف معاشرے میں انسان بھی صَرف کی ایک شَے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہاں پر وہ سنجیدہ صورتحال جنم لے رہی ہے۔ جہاں عورت نے دہرا عذاب اٹھانا ہے۔ صارف معاشرے کی ایک عورت فرد کے طور پر۔۔۔ جہاں کاروبار کی دنیا اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے گی اور ایک طرح سے اپنا معمول بنائے گی اور اپنی مرضی کا ایک کردار ادا کراکے زندگی کے بے رحم سٹیج پر مرنے کے لیے چھوڑ دے گی۔
کچھ اقتباسات دیکھیں:۔
’’نام پوچھ کے کیا کرو گے؟ آج شام ظفر کو شراب پلادی تھی۔ اب وہ سگریٹ لینے چلا گیا ہے۔ دو گھنٹے بعد واپس آئے گا اور تم۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میری آواز میں طنز کا زہر بھرا ہوا تھا۔
’’ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ ہر عورت کا نام ہوتا ہے، اس لیے پوچھ لیا تھا۔ آپ خوامخوا کیوں بگڑ رہی ہیں۔ ‘‘
’’آپ! پھر وہی بات!‘‘ یہ شخص ضرور دیوانہ ہے اور ضروری نہیں کہ ہر نام کے ساتھ ایک عورت بھی ہو۔ طنز ابھی تک برقرار تھا۔ ’’ویسے لوگ مجھے محمودہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ‘‘
اچھا نام ہے۔ ظفر آپ کا خاوند ہے کیا؟ ‘‘
’’امی اور ابا نے مجھے یہی بتایا تھا کہ اس شخص کے ساتھ تمہارا بیاہ کیا جارہا ہے۔ یہ تمہارا جیون ساتھی ہے۔ یہ تمہارے دکھ درد میں شریک ہوگا۔ ‘‘
’’اوں! باتیں تو بہت اچھی کرتی ہیں آپ۔ آپ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں کیا؟ ‘‘
اطمینان، مسرت، سکونِ قلب بڑے اجنبی اور غیر مانوس سے الفاظ ہیں۔ یہ کس دنیا کی باتیں کر رہا ہے۔ ’’آپ کو یہاں آنے کے بجائے سیدھا پاگل خانے جانا چاہیے تھا۔‘‘ میں نے پھر تلخی سے جواب دیا۔‘‘(۱۰ )
’’پوری بات تو سن لو۔۔۔۔۔۔ یہاں سے کچھ سونا ساتھ لیتی جانا اور میرے چند دوست وہاں ہیں۔ وہ جو چیزیں تمہیں دیں مجھ تک پہنچا دینا۔ ‘‘
سونا! چیزیں! مشرقی پاکستان۔ نہیں نہیں احمد کا کاروبار۔ احمد جس کی معصوم بھوری بھوری آنکھیں ہیں جو شام کو کلب میں ٹینس کھیلتا ہے، جس کی اتنے معزز لوگوں سے دوستی ہے، جسے ہر کوئی شریف تصور کرتا ہے، جو مجھے آپ اورمحمودہ جی کہتا ہے۔۔۔۔۔۔
’’دیکھو احمد مجھے ذرا تفصیل سے بتاؤ کہیں تم۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ہاں میں سمگلنگ ہی کرتا ہوں۔ تم یہی کہلوانا چاہتی تھی ناں! یہ زندگی پنڈی کی زندگی سے بہت بہتر ہوگی۔ میں تمہیں ہر مہینہ پانچ سو روپے۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’پانچ سو روپے مگر احمد میں تو صرف تمہاری۔۔۔۔۔۔ ‘‘
ہاں بابا میں کہیں بھاگا تو نہیں جاتا۔ پگلی مت بنو محمودہ جی! رات کو خوب سوچ لو۔ اگر تم میری مدد نہ کرنا چاہو تو پھر اپنے خاوند کے پاس۔۔۔۔۔۔۔‘‘(۱۱ )
’’وہ کیا چاہتی تھی۔ وہ احمد کو بتا دے اسے کس چیز کی تلاش تھی۔ احمد میں تو تمہارے ساتھ اپنی پیاسی روح کی تشنگی بجھانے کے لیے آئی تھی۔ میں جو بچپن سے لے کر آج تک خلوص اور پیار کی تلاش کے لیے دربدر بھٹکتی پھر رہی ہوں۔ مجھے صرف تمہارے منہ سے ادا کیے ہوئے چند پیار بھرے لفظوں کی تمنا ہے۔ محمودہ جی تم کتنی اچھی لگتی ہو! اور پھر تشنگی اور محرومی ختم ہوجائے گی۔ مجھے تمہاری دی ہوئی ساڑھیوں اور سنہری گھڑیوں کی ضرورت نہیں۔ مگر اس نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ وہ بالکل خاموش بیٹھی احمد کی معصوم بھوری آنکھوں اور سیاہ گھنگھریالے بالوں کو تکتی رہی اور اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
’’حد ہوگئی آخر اس سارے ناٹک سے مطلب کیا ہے تمہارا۔میں تم سے بیاہ رچالوں۔ تمہیں اپنا جیون ساتھی بنالوں۔ تم جو ظفر ڈسپنسر کی بیوی۔۔۔۔۔۔‘‘(۱۲ )
’’محمودہ کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے زندہ جسم میں کیل گاڑھ رہا ہو۔ جیسے کسی نے اس کو سات منزلہ مکان کی بلندیوں سے اٹھا کر نیچے گرادیا ہو۔ اس کا جسم تپتی ہوئی ریت اور دہکتے ہوئے انکاروں پر لَوٹ رہا ہو۔ احمد اسے ایک بازاری عورت سمجھتا ہے۔ یہ طعنہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔
’’احمد تم نے مجھے محض ایک کھلونا سمجھا۔ جب تک تمہیں میری ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’بے کار باتوں میں میرا وقت ضائع نہ کرو‘‘ اور وہ تیزی سے ڈرائنگ روم کی طرف چلا گیا جہاں رضیہ اس کی منتظر تھی۔‘‘(۱۳ )
وہ محمودہ جس نے ایک شوخ چنچل لڑکی کی طرح یاسین صاحب کے گھر جنم لیا۔ ظفر ڈسپنسر کی بیوی بنی۔ کئی مردوں کے ساتھ شوہر کے نشے کی وجہ سے ہوئی اور پھر ایک سراب کے پیچھے دوڑتے سمگلر بنی اور پھر پیوند خاک ہوگئی۔ آخر وہ کیا تھی۔۔۔۔۔۔ ایک عورت جسے مردوں کے معاشرے نے جو بنایا وہ بنتی چلی گئی اور ایک مرد اساس معاشرے میں ایک فرد کے طور پر نہیں ایک معمول کے طور پر خاک بسر ہوئی۔ ایک بہت مختصر سوال چھوڑتے ہوئے، محمودہ کون تھی؟۔۔۔۔۔۔ دھرتی یا آکاش یا دونوں کا رزق۔۔۔۔۔۔ کہانی کار یا بیان کنندہ نے جن سماجی تشکیلات کو اس مرد اساس معاشرے کے اندر اجاگر کیا ہے وہ حوا کی بیٹی کی تخلیقی رد تشکیل ہے۔ انور نسیم کی یہ کہانی بیک وقت عقلی اور جذباتی سطح پر سفرکرتی ہے ۔یہ اردو کا ایک اچھا کثیر الجہتی بیانیہ ہے جس میں معنی کی کھلی اطراف ہر بار ایک نئی نسائی ردِتشکیل کی دعوت دیتی ہیں۔
حوالہ جات و حواشی
۱۔ Jame Freekman, Feminism, Delhi, Viva Books, 2002, P1
۲۔ جولی فِکن اور مائیکل ریان، (ترجہ ارجمند آرا)، تانیثیت کے نقوش: ایک تعارف، مشمولہ، تنقید، جلد ۲، شمارہ۔۱، علی گڑھ، مسلم یونیورسٹی، ۲۰۰۶ء، ص۲۳۹، ۲۴۰،
۳۔ Baloch, Inayat Ullah, Dr. Islamic Universalism, The Caliphate and Mohammad Iqbal, Rediscovering Iqbal, Edited Gita Tharampal Frick, Ali Usman Qasmi, 2010, Hiedleberg,
Drawpadi Verlag, P-136
۴۔ Walters, Margreat, Feminism: A very short introduction, 2005, Karachi, Oxford University, Press
P-6,16
۵۔ انور نسیم، ڈاکٹر، ’’دھرتی اور آکاش‘‘، مشمولہ: وہ قربتیں،یہ فاصلے‘‘، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۶ء، ص۷۵
۶۔ ایضاً، ص۷۵، ۷۶ ۷۔ ایضاً، ص۷۶، ۷۷
۸۔ ایضاً، ص۸۷، ۸۸ ۹۔ ایضاً، ص۹۰
۱۰۔ ایضاً، ص۹۰ ۱۱۔ ایضاً، ص۹۳
۱۱۔ ایضاً، ص۹۹ ۱۳۔ ایضاً، ص۱۰۱
***