(عنبر قریشی)
خواتینیات (فیمینزم) کی اصطلاح سے واقفیت تو بہت بعد میں ہوئی مگر اس تصور سے آگاہی تب سے ہی ہو گئی تھی جب مجھے معاشرے اور اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کی سمجھ آنے لگی۔ جب مجھے انگلش لٹریچر کی تھیوریز پڑھتےہوئے اس لفظ سے آگاہی ہوئی اور سننے کو ملا کے یہ مغربی تحریک عورت کے برابر کے حقوق مانگتی ہے تو مجھے احساس ہوا کے یہ روح مغرب کی نہیں بلکہ اسلام کی اس روح سے کہیں جا ملتی ھے جہاں زندہ درگور ہونے والی لڑکیون کو پہلی بار جینے کا حق دیا گیا تھا- جہاں بیٹی کی پیدائش پر ماتم کی بجائے بیٹی کو رحمت کا باعث قرار دیا گیا- جہاں ہمارے اپنے محبوب رسولؐ جنہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت سمجھا جاتا ھے اپنی بیٹی فاطمہ کی آمد پر کھڑے ھو کر ان کو پیار کیا کرتے تھے وہاں فیمینزم کو مغرب سے جوڑدینے والوں کو شاید ایک یہی جائے فرار نظر آتی ھے اس نظریے سے منھ موڑنے کے لئے-
بظاہر ہمارے ملک میں، قانون میں اور لوگوں کے کہنے کے مطابق عورتوں کو تمام حقوق دیئے جاتے ہیں اور وہ ایک بہترین زندگی گزارتی ہیں۔ میں خود اس بات سے متفق ہوں کے عورت کو کمزور پیدا کیا گیا ھے اور میں میں عورتوں کی مردوں پر برتری کی قائل نہیں- مجھے مردوں کے اعلی مقام، اعلی صفات اور صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہے، اعتراف بھی ہے، اور احترام بھی۔ میں جانتی ہوں آج کے ھمارے معاشرے میں عورت کی بہت قدر بھی کی جاتی ھے اور عورتوں کے حقوق کا بہت خیال بھی رکھا جاتا ھے۔ میں خود ایسے خاندان کا حصہ رہی جہاں میرے بھائی کو تو کسی چیز کے لیئے منع کیا جا سکتا تھا مگر میری ھر خواہش کو میرے منہ سے نکلنے سے پہلے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ میں نے اپنے اردگرد ایسی خواتین کو دیکھا جن کی تعلیم پر کوئی پابندی نہ تھی جو یونیورسٹیوں میں مرد حضرات کے ساتھ بلکہ ان سے بہتر کارکردگی دکھا کر تعلیم ھاصل کرتی رہیں۔ میں نے ایسی خواتین کو بھی دیکھا جو معاشی طور پر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہیں اور ان کے گھر سے باہر نکلنے پر یا کمانے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ ان کو جینے کی اور آسمانوں کوچھو لینے کی مکمل آزادی دی گئی۔
مگر اس صنف نازک کےلئے حقوق کا مطلب اور اس کی خواہشات صرف فیمینزم کی علمبردار تحریکوں کے دیئے گئے اصول جیسے تعلیم اور روزگار کی آزادی سے بڑھ کر کیا ہے یہ شاید صرف وہی جان سکے جس نے عورت ھو کر ان خواہشات کو محسوس کیا ھو اور اپنے معصوم جذبوں کو دھیرے دھیرے سینچا ہو، ان کو اپنے اندر پالا ہو، چپ چاپ ان کے پورا ھونے کے دعائیں مانگی ہوں اور ساری دنیا سے چھپ کر ان ک نہ پورا ھونے پہ چپکےچپکے چھپ کے چند انسو بہا کریوں ہوگئی ہو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ ہمارے معاشرہ عورت کو باہر نکلنےکی اجازت تو دیتا ہےمگر یہی معاشرہ عورت کے گھر سے نکلتے ھوئےچھوٹے بھائی جسے خود ابھی اپنی حفاظت کرنا بھی نہیں آتا اسے محافظ بنا کے بھیجا جاتا ہے اور خاتون ک ساتھ محافظ ہونے کی ضرورت بھی اسی معاشرے کا حصہ ھے جہاں عورت کا نکلنا بھی یہی معاشرہ محال کرتا ہے اور پھر اس کے ساتھ محافظ بھی وہی معاشرے کا مرد نکلتا ہے۔ میں نے عورت کو دن بھر روزی کمانے کی اجازت ملتے تو دیکھا مگر کام سے واپس آ کر اسی عورت کواپنی ہمت، طاقت اور صحت کی پرواہ کئے بغیر گھرکے کاموں میں مگن پایا- کاموں کو عورت کی ذمہ داری کے زمرے میں ڈالنے والوں کو یہ احساس نہ ہوا کہ یہ مضبوط عورت کام کر کے نہیں تھکتی مگر کسی کو یہ احساس ہو کہ یہ بھی ایک انسان ہے جو تھک سکتی ہے اس احساس کی موجودگی کی خواہش کو پالتی ھے یہ عورت۔ اسی عورت کو کھانے میں نمک مرچ کی زیادتی یا کمی پر ڈانٹ کھاتے دیکھا اور اسی کو چپ چاپ سب سنتے دیکھا کیوں کہ اگر وہ ایک لفظ بھی آگے سے بولے گی تو یہی معاشرہ جو اسے باھر نکلنے کی اجازت دیئے بیٹھا ہے عورت کی کہی سچی بات کو بھی زبان درازی کہنے سے نہیں کترائے گا۔ یہاں جب بھی قربانی مانگی گئی وہ عورت سے تھی کیوں کہ وہ کمزور ہے اور اسے ہمیشہ ایک سہارے کی ضرورت رہی چاہے وہ کتنے آزادی کے دعوے کر لے اور یہ سیارا ھمارا معاشرہ مرد کو ہی بناتا ہے اور سمجھتا یے-
میں عورت پر ہونے والے بھاری بھرکم ظلم کی داستانوں کا ذکر نہیں کر رہی کیوں کہ بقول ہمارے آج کی عورت تو مکمل طور پر آزاد ہے- میں تو صرف ان خواہشات کی بات کر رہی ہوں جو کل کی عورت کے دل میں بھی تھیں، آج کی عورت بھی رکھتی ہے- مگر یہ باریک نکتہ ہمارا معاشرہ نہیں سمجھے گا کہ یہ صنف نازک جو گھر والوں کو گرم کھانا دے کر خود ٹھنڈا کھانے پر بھی خوش ہے جو اپنے نام کی پکار پر کھانا بیچ میں چھوڑ کر پانی پلانے کو بھی تیار رہتی ہے جو اپنے نئے جوڑے کی خواھش دل میں دبا کر اپنے بچوں کے لئے کسی بھی طرح نئے جوڑے کا انتظام کر سکتی ہے، جو اپنے سر کے درد اور کمر کے درد پر اف تک کئے بغیر گھر میں کسی کی بیماری پر سارا دن سرہانے کھڑی رہتی ہے، جو سب سے پہلےاٹھ کر اور سب سے آخر میں سو کر سارے دن کا کام مجبوری میں نہیں بلکہ اپنی خوشی اور ذمہ داری سمجھ کر سر انجام دے سکتی ہے، جو اپنا سب کچھ قربان کرنے اور اس پر اف تک نہ کرنے کی پابند ھوتی ھے، جو اپنے اندر ھزاروں باتیں سہہ کر اپنے وہ آنسو جو اس نازک اندام کی سہمی سہمی آنکھوں سے چھلکنے اور ٹپکنے کہ مچل رہے ہوں ان کو پی سکتی یے وہ اس سب کے بدلے میں زیادہ کچھ کی خواہش نہیں کرتی اس کے لیے دو بول محبت کے کسی انعام و اکرام سے بڑھ کے ھوتے ھیں اس کے لیے تو یہی کافی ھوتا ھے کے وہ اپنے تھکے ھاتھوں اور ٹوٹتے بدن کے ساتھ کڑوی کافی بھی بنا دے تو کوئی محبت سے اسے ڈانٹے بغیر پی لے-
ہمارے فیمینزم کے علمبردار حقوق کے لیے تو لڑ لیں گے اور لڑ رہے ھیں مگر کوئی یہ معصوم خواہشات شاید سمجھ نا پائے کہ ھر دور کی عورت جینے کا حق مانگتی ھے خوش رہنے کا حق مانگتی ھے اور سب سے بڑھ کر احساس کی خواہش کرتی ھے کے کوئے اس کے جذبات کی قدر و قیمت جاننے اور سمجھنے والا ہو-