غرفشی اور تشدد: تعلیمی اداروں کے لیے اہم چیلنجز
از، فیاض ندیم
خوش گوار، پر امن اور شائستہ ماحول کسی بھی تخلیقی کام کے لئے پہلی شرط ہے۔ ایسا ماحول جس میں ہر وقت جان، عزت اور نفسیاتی سکون کی تباہی کا خطرہ رہے، وہاں تخلیقی سر گرمیاں نا پید ہو جاتی ہیں۔ ڈر کے ماحول میں ذہن کسی بھی مثبت سرگرمی کے قابل نہیں رہتا۔ سوچ کی کڑیوں کو جوڑنے کے لئے اضطراب سے پاک اور ہم آہنگی سے بھر پور فضا نہایت ضروری ہوتی ہے۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو ذہنی سکون اور یکسوئی کا متقاضی ہے۔ ایک طالب علم کے لئے سکول، کالج یا یونیورسٹی اُسی وقت مفید ثابت ہو سکتے ہیں جب وہ ان کے ماحول میں امن ، سکون اور مانوسیت محسوس کرتا ہو۔ یہ جگہیں اُس کو ذہنی انتشار سے بچنے کی فضا فراہم کرتی ہوں۔ ڈر اور خوف کی آلودگی سے پاک ہوں۔ بصورتِ دیگریہاں طالب علم بجائے علم کے نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوگا، اعتماد سے خالی ہو جائے گا اور کسی بھی تخلیقی صلاحیت سے محروم رہے گا۔ غرفشی bullying اور تشدد violence تعلیمی ماحول کے خلاف ایسے عوامل ہیں جو تعلیمی عمل کو مسدود کرتے ہیں اور پوری تعلیمی سر گرمی کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔
غرفشی ایک ایسا عمل ہے جو مسلسل جان بوجھ کر کسی کو جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے بار بار کیا جاتا ہے۔ یہ عمل انفرادی طور پر کوئی طالب علم دوسرے طالب علم کے ساتھ، کوئی فرد کسی فرد کے خلاف، یا کوئی گروپ کسی دوسرے کمزور گروپ کے خلاف کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا ابنارمل عمل ہے جو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں۔ طالب علموں کے درمیان غرفشی (bullying) کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت عمل میں آسکتی ہے۔ یہ سکول یا ادارے کے احاطے میں، اداروں کے باہر راستوں پر یا انٹرنیٹ کے ذریعے سماجی رابظے کی ویب سائٹ کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں جسمانی نقصان پہنچانے کے علاوہ برے ناموں سے پکارنا، گروپس بنا کر دوسروں کو دحمکانا، نفسیاتی طور پر پریشان کرنا یا دوسروں کے بارے غلط افواہیں تسلسل سے پھیلاتے رہنا تاکہ دوستوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے کسی کو مکمل تنہائی میں دھکیلا جائے یا دوسروں کے سامنے کسی کو نیچ ثابت کیا جائے اور جنسی طور پر پریشان کرنا شامل ہیں۔
جو لوگ غرفشی کا شکار ہوتے ہیں ان پر اس کے اثرات بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ جو ان کے تعلیمی کیرئر کی تباہی کے علاوہ اُن کو پوری زندگی کے لئے ذہنی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے اُ پ کو مسلسل ذہنی دباؤ میں محسوس کرتے ہیں اور غرفشی سے پیچھا چھڑانے میں اپنی آپ کو بے یارو مددگار پاتے ہیں۔ ان پر ایک بے چارگی کا عالم رہتا ہے اور وہ کسی بھی کام میں دل نہیں لگا پاتے۔ ایسے افراد کے لئے خطرہ رہتا ہے کہ وہ ذہنی بیماریوں مثلاََ انتہائی ڈیپریش اور بے چینی کا شکار ہو جائیں۔ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے لگیں، یہاں تک کہ خود کشی کرنے تک پہنچ جائیں۔ اپنی تعلیم میں مسلسل ناکامیوں کا شکار رہیں اور دوست بنانے کی اہلیت سے محروم رہیں۔ اور ان پر اس کا اثر لمبے عرصے تک جاری رہتا ہے اور بعض اوقات تو جوانی تک یا پوری عمر اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پاتے۔
اسی طرح تشدد اداروں میں تعلیمی ماحول کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ تشدد بھی طاقت کے توازن میں بگاڑ، گرپ بندی اور طلبا کے سماجی پس منظر اور معاشی عدم توازن کی وجہ سے اداروں میں جڑ پکڑتا ہے۔ bullying ایک مسلسل اور بار بار دہرایا جانے والا عمل ہے، جبکہ تشدد زیادہ سفاکیت والا عمل ہے جو کبھی کبھار عمل میں آتا ہے اور اس کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ ہر بار ایک ہی طالب علم یا طالب علموں کا گروپ اس کا نشانہ بنے۔ مثلاََ اداروں میں دو گروپوں کے درمیان شدید لڑائی کا ہونا جس میں جسمانی طور پر طلبا زخمی ہوں، یا سکولوں اور کالجوں میں فائرنگ کے واقعات کا ہونا۔ اس طرح ہمارے سکولوں میں اساتذہ کا طلبا پر تشدد بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ بلکہ یہ تو تشدد اور غرفشی دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔ جب ایک طالب علم کو نالائق سمجھ کر استاد روزانہ اس کی پٹائی لگا دیتا ہو۔ ظاہر ہے ایسا طالب علم سکول جانے سے گھبرائے گا اور اساتذہ اور سکول کے لئے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوگی۔ یہ نفرت اس میں ایک ہیجانی کیفیت کا باعث بنے گی اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟
تعلیمی ادارے بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور ظاہر ہے معاشرے کے ماحول کی خصوصیات کا اداروں کے ماحول پر اثر پڑتا ہے۔ جس طرح کا ماحول گھروں میں ہوتا ہے، بچے سب سے پہلے اپنے رویوں کی وہیں تشکیل کرتے ہیں۔ اگر معاشرہ نفرت کو پروان چڑھاتا ہے تو اداروں میں بھی نفرت کا کسی نا کسی طرح اظہار ملے گا۔ معاشرے میں تشدد ہوگا تو اداروں میں بھی تشدد آئے گا۔ سکول میں طلباء کے درمیان فرق ہوتا ہے، میلانات میں، جسمانی طاقت میں، معاشی اور معاشرتی سطح میں۔ اگر سائنسی بنیادوں پر ان تغیرات سے معاملہ نہ کیا جائے تو یہ اداروں میں مصیبتوں کو جنم دیتے ہیں۔ زیادہ صحت مند لڑکے کمزوروں کو مارپیٹ کا نشانہ بنا سکتے ہیں، چالاک لڑکے سست لڑکوں کا ٹھٹھہ کرتے ہیں، امیر گھرانوں کے طلباء غریب گھرانوں کے طلباء سےنفرت کرتے ہیں اور زیادتی کے مرتکب ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اگر ان تغیرات کو مثبت انداز سے ہینڈل کیا جائے تو یہی فرق نعمت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے ایک دوسرے کی عزت کرنا سکھایا جا سکتا ہے، طلبا میں برداشت کی خصوصیات پیدا کی جا سکتی ہیں اور یہی تغیرات ایک بہترین معاشرتی تعلیم کے لئے ریسورس کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔
دنیا میں غرفشی اور تشدد کی تشخیص اور اسے روکنے کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام ہوتا ہے۔ اس سے متعلق حقائق کو اکٹھا کیا جاتا ہے، وجوہات کو جانچا جاتا ہے۔ bullies اور bullied کی خصوصیات کو سمجھا جاتا ہے۔ اس کو کنٹرول کرنے والے زمہ دار افراد کا تعین کیا جاتا ہے، انتظامی ڈھانچہ ترتیب دیا جاتا ہے اور اسے روکنے کے لئے حل تلاش اور تجویز کئے جاتے ہیں۔ یہ تجویز شدہ حل تجرباتی بنیادوں پر استعمال کئے جاتے ہیں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلسل ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے اور ایسے ایسے موثر طریقے سامنے آتے ہیں جن سے سکولوں کا ماحول پر امن اور بھائی چارے پر مبنی بنانے میں مدد ملتی ے۔ جس میں طالب علم ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھتے ہیں۔ تغیرات کا احترام سیکھتے ہیں اور تشدد سے دور رہتے ہیں۔
لیکن یہ بھی ایک قدرتی امر ہے کہ جہاں مثبت تبدیلیوں کی کوشش کی جاتی ہے، منفی رجحانات بھی نت نئے انداز سے سامنے آتے ہیں۔ bullying اور violence کے نئے نئے انداز اپنائے جاتے ہیں۔ جس میں تیکنالوجی کا استعمال، انٹرنیٹ اور سو شل میڈیا پر مختلف گروپس بنا کر تنگ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا اس کی روک تھام بھی ایک مسلسل عمل ہے، تاکہ آنے والی نسلوں کو اس کے برے اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے اور معاشرے سے تشدد، عدم برداشت، حق تلفی، دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے اور نفسیاتی، جسمانی اور جنسی زیادتی جیسے برے عوامل کو روکا جا سکے۔ لہٰذا اساتذہ، اداروں کے منتظمین، پالیسی سازوں، والدین، اور معاشرے کے دیگر زمہ داران کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ جدید تیکنیکی مہارتوں کے استعمال سے واقف رہیں۔ اپنے بچوں کی مہارتوں ، رجہانات، میلانات اور صلاحیتوں سے واقف ہوں، تاکہ انہیں منفی ڈائریکشن ملنے سے پہلے، مثبت راستے پر لگایا جا سکے۔
Bullying میں صرف مظلوم طا لب علم کا ہی نقصان نہیں ہوتا، جو طالب علم Bully کرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی نقصان میں ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے لڑکے زیادہ با صلاحیت ہوتے ہیں اور اپنی زیادہ تر صلاحیتیں اسی منفی عمل کی نذر کر دیتے ہیں۔ یہ نفسیاتی طور پر احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے جذبات کے اظہار کے لٗئے اس طرح کی ظالمانہ سرگرمیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس عمل میں مسلسل ملوث رہنے کی وجہ سے یہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادہ سے زیادہ الجھتے چلے جاتے ہیں اور معاشرے کا مفید شہری بننے کی بجائے مجرمانہ رجحانات کے حامل بن جاتے ہیں۔
دنیا میں اس مسئلے پر بہت سنجیدہ سوچ پائی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اس بارے میں بہت پہلے سے سائنسی بنیادوں پر کام ہوتا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ادارے موجود ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اساتذہ، منتظمیں اور تعلیمی لیڈرز کی باقائدہ ٹریننگز ہوتی ہیں اور سکولوں میں ایک چوکس کمیٹی یا ایسوسی ایشن موجود ہوتی ہے جو ان مسائل سے نمٹنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے۔ گذشتہ دہائی سے ترقی پذیر ممالک میں بھی اس مسئلے کی طرف بہت توجہ دی جا رہی ہے۔ بھٹان گورنمنٹ نے Happy Schools…. Happy Society کے سلوگن کے ساتھ ایک مہم شروع کی ہوئی ہے۔ گذشتہ ماہ کوریا میں اسی سلسلہ کے ایک symposium میں بھٹان وزارتِ تعلیم کے کچھ افسران کے ساتھ اس بارے بات ہوئی تو انہوں نے اس کے مثبت نتائج کے بارے میں بتایا۔ اسی طرح بہت سے افریقی ممالک کے مندوبین سے بھی اس بارے بات چیت ہوئی اور بہت سی حیران کن معلومات حاصل ہوئیں۔ روانڈا جیسا ملک جس کا زکر ہم انتہائی پس ماندگی کی مثال کے طور پر کرتے ہیں، وہاں کے محکمہٗ تعلیم کے آفیشئلز کے ساتھ بات کر کے لگا کہ وہاں اس بارے میں کتنا شعور موجود ہے اور وہاں اس مسئلے سے نمٹنے کی کس قدر اعلٰی مہارتیں موجود ہیں اور انہیں کس طرح بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
ہمارے ملک میں بھی دیگر دنیا کی طرح یہ مسئلہ خطرناک حد تک موجود ہے۔ ہمارے سکولوں اور کالجوں میں بھی آئے روز تشدد اور غرفشی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان پر سنجیدگی سے سوچنے کا ابھی تک کوئی عمل ہمارے ہاں موجود نہیں ہے۔ نہ تو اس بارے کوئی ریسرچ موجود ہے، نہ ڈیٹا ہے اور نہ ہی ایسے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت اور مہارت۔ ہمارے اساتذہ کی ٹریننگ کے جتنے بھی ادارے ہیں ان کے کیریکلم میں اس بارے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاں اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ ہمارے کلاس رومز کا سرسری سا جائزہ لینے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں طالب علم ایک دوسرے کے ساتھ کس رویے سے پیش آتے ہیں۔ ہمارے کھیل کے میدانوں میں آپ ذرا سی توجہ دے کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بعض طالب علم کس حد تک نظر انداز ہوتے ہیں، اکیلے پن کا شکار ہوتے ہیں، دوست بنانے میں ہچکچاتے ہیں اور bully لڑکوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ ہمارے سکولوں کے واش رومز کی دیواروں پر لکھی تحریروں کو پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ کون سی کلاس کا کون لڑکا کس لڑکے کو ہراساں کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ اساتذہ کے تشدد کی قبیح تر حالت ہمارے یہاں اب بھی موجود ہے۔
لیکن یہ سب غفلت کی حد تک نظر انداز ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم اس کے مجموئی برے اثرات سے بھی نا واقف رہتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سا بچہ ہمارے ہاں طالب علم کی حیثیت سے آیا تھا اور ایک ذہنی مریض یا مجرم بن کر ہمارے ادارے سے فارغ ہوا۔ اس کا آخری نتیجہ معاشرے میں عدم برداشت، غیر رواداری، کمزور کی تضحیک، تشدد، اور غاصبانہ رویوں اور دہشت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
بہت اعلی تحریر ہے اور ایک اچھوتا موضوع ہے جس کی اہمیت سے اکثریت بے خبر ہے۔