(قاسم یعقوب)
کہتے ہیں کہ انسان اپنے حالات کی ’’پیداوار ‘‘ ہے یعنی اُس کے ماحول نے اُسے اُس شکل میں پیش کیا ہے جس میں وہ آج موجود ہے ورنہ وہ کچھ اور بھی ہو سکتا تھا اگر حالات اُسے کسی اور ڈھنگ میں’’ پیش ‘‘کرتے۔آپ نے اسی سے ملتے جلتے جلتے محاورے بھی سن رکھے ہیں کہ آدمی اپنے جیسوں سے پہچانا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔کیا واقعی ہم وہی کچھ ہوتے ہیں جو ہمارا ’’اردگرد‘‘ ہمیں بناتا ہے؟ اس سوال پہ تفصیل سے گفتگو درکار ہے۔
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ ایک شخص دولت کے آتے ہی بدل گیا یا اُس کے حالات بدل گئے ، یا ایک شخص آسودہ حال تھا مگر آج کل مٹی کا ڈھیر ہوکے رہ گیا۔اس کا مطلب ہے کہ وہ سب کچھ وہ تھا جو وہ اپنے حالات کے قید خانے میں مقیددیکھ رہا تھا اُس کے’’ اردگرد ‘‘ نے جو اُسے دکھایا وہ وہی کچھ دیکھنے کا پابند رہا۔عموماً اخلاقیات،جغرافیہ، زبان اور تہذیب ومعاشرت سے شخصی خاکہ ترتیب پاتا ہے۔ جس میں انفرادی اور پھر اجتماعی سوچ ابھرتی ہے۔یہی سماجی ضابطے بھی کہلاتے ہیں۔
ایک سماج ایک کُل نہیں ہوتا بلکہ بہت سے سماجی ضابطوں سے مِل کر ایک کُل کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ سماجی ضابطے ،بقول فوکو ڈسکورس(discourse) کی طرح باہمی اشتراک سے عمل آرا ہوتے ہیں۔یہ ڈسکورس خود مختار ہوتے ہیں جن کے کارفرما ہونے کے اپنے ضابطے(Principles)ہوتے ہیں۔یہ دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں مگر اصول وضوابط میں اپنے ماتحت عمل کرتے ہیں۔ان ضابطوں سے طاقت جڑی ہوئی ہے۔ فوکو کہتا ہے :
Power is everywhere, diffused and embodied in discourse, knowledge and regimes of truth
(ہر طرف طاقت ہی طاقت ہے، جو سماجی ضابطے، علم اور سچائی کی حدود میں پھیلی اور جڑی ہوئی ہے)
اگر ہم سماجی ضابطوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سماج میں حقیقت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی۔حقیقت نام کی چیز ایک زاویۂ نظر سے زیادہ کچھ نہیں، ہم جسے حقیقت کہہ رہے ہوتے ہیں وہ خود دوسری حقیقتوں سے خود کو آشکار کر رہی ہوتی ہے۔ایک سماج میں رہتے ہوئے ہم بہت سے سماجی ضابطوں کے زیرِ سایہ ہوتے ہیں۔ یہ سماجی ضابطے یا ڈسکورس فرد پر اُسی طرح ’’لاگو‘‘ ہوتے ہیں جس طرح فطرت کے جغرافیے پر اثرات۔
ان سماجی ضابطوں میں زبان (زبان کا نارم)، کلچر (کلچر کی سماجی تشکیلات)، عقائد (مذہبی اور تہذیبی)، اخلاقیات (سماجی، مذہبی اور تاریخی بیانیوں پر مشتمل) وغیرہ شامل ہیں۔ ایک فرد کبھی بھی ان سماجی ضابطوں کو توڑ نہیں پاتا۔ حتیٰ کہ ان سماجی ضابطوں کے باہر نکلنے یا جھانکنے کا راستہ بھی انھی ضابطوں کے درمیان سے راہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
ان سماجی ضابطوں (ڈسکورس) کا طاقت سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ظابطے ایک طاقت کی طرح سماج میں موجود ہوتے ہیں جس سے فرد بچ سکتا ہی نہیں۔(طاقت سے مُراد ان ضابطوں کا فرد کو اپنے حصار میں لیے رکھنا ہے) مثلاً زبان کا سارا نظام فرد پر ایک طاقت کے طور پر نافذ ہوجاتا ہے۔ زبان میں موجود نشانات(Signs)فرد کے اندروں(Inner)کی نمائندگی کرنے لگتے ہیں۔زبان میں موجود محاورے، استعارے یااچھی اوربری زبان کے استعمال کے تقاضے، سب کچھ ایک ڈسکورس کی طاقت کی صورت میں فرد پر عمل آراہوتی ہے۔فرد اس طاقت کی اندھی قوت سے ناآشنا ہوتا ہے آشنا ہوکے بھی اس کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتا۔وہ ایک زبان کی طاقت سے راہِ فرار حاصل کر بھی لے تو دوسری زبان کی طاقت اُسے وہی کروانے لگے گی جو وہ پہلی زبان کی طاقت کے زیرِ سایہ کر رہاہوتا ہے۔زبان کے ساتھ باڈی لینگوئج تک سماجی ضابطوں کی عطاہوتی ہے۔اپنی طرف سے سماجی ضابطوں سے انتہائی آزادفرد بھی زبان کے ضابطوں کا غلام ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک فرد عقائد کے حوالے سے بھی پابند ہوتا ہے۔اُسے مذہب کا حوالہ جاتی فریم مجبور کر رہا ہوتا کہ ایسے ایسے کرو، یہ کرو اور یہ نہ کرو۔وہ مذہبی ، تہذیبی اور معاشرتی عقائد کی طاقت کے زیرِ نگیں ہوتا ہے۔کپڑوں کے فیشن، کھانوں کے انداز، مذہبی پریکٹس جیسے تہوار، عبادات (زنجیر زنی،محافل، خیرات وغیرہ) سب کچھ ڈسکورس کی طاقت کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔جس کی ضرب سے فرد بچ نہیں پاتا جو کہتا ہے کہ اُس پر مذہب یا سماجی طاقتوں کی عمل آرائی نہیں، وہ اِن طاقتوں کے شعوری انحراف سے ایک نئی طاقت کے زیر سایہ چلا جاتا ہے، طاقت سے وہ بھی نہیں بچ پاتا۔ یعنی عقائد کا رَد بھی ایک اور طاقت (مذہب مخالف قوت) کرواتی ہے۔
سائنس نے بھی بہت سے عقائد کو جنم دیا ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ یہ ڈرنک یہ کھانا یاوہ طریقۂ زندگی وغیرہ مضرِ صحت ہے، اس طرح کرنے سے اس طرح ہوسکتا ہے وغیرہ یہ سب سائنسی عقائد کا درجہ اختیار کر جاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ فطرت کا نظام فرد پر اثرا انداز نہیں ہوتا ، فطرت خود ایک طاقت ہے جو فرد پر اثر انداز ہوتی ہے مگر فطرت کو ایک عقیدے کی طرح بنا کے اپنے اوپرلاگو کرنا سائنسی عقیدہ کہلاتا ہے۔جیسے صفائی ، صحت کے معیارات،کھانوں کی ترجیحات وغیرہ وغیرہ
ڈسکورس یا سماجی ضابطوں میں طاقت کیوں ہوتی ہے؟ کیا ایک فرد ان طاقتوں کاشعور رکھنے کے باوجود ان سے رہائی حاصل کر سکتا ہے؟کیا ایک فرد کا ذاتی فعل ان طاقتوں سے الگ تشکیل نہیں پا سکتا؟
ان سوالوں کے جواب میں ایک اور سوال کا جواب پا لیا جائے تو ان کے جواب بھی مل سکتے ہیں کہ کیا ایک فرد اپنے سماجی ضابطوں (اپنے اردگرد) سے ماورا ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب ہے ’’نہیں‘‘۔ فرد کو تمام کا تمام اُس کا سماجی شعور تیار کرتا ہے۔ سماجی شعور بہت سے تشکیلی ضابطوں کا مجموعہ ہے جو ایک کل کی طرح عمل نہیں کرتے (جس طرح مارکسیت ہمیں بتاتی ہے یعنی جدلیاتی شکل میں) بلکہ ان ضابطوں کا اثر ہر فرد کے ہاں مختلف ظہور پذیر ہوتا ہے۔ کسی ایک فردکو ڈسکورس زیادہ اور کسی دوسرے فرد کوکم متاثر کر سکتا مگ مگر مکمل طور پر کوئی فرد ڈسکورس کے جال سے باہر نہیں نکل سکتا۔
اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ کیا فرد اپنے اوپر لاگو ان سماجی ضابطوں کو توڑ نہیں سکتا؟ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ان سماجی ضابطوں کے حوالہ جاتی فریم کو توڑ ڈالتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں اُن پر سماجی طاقت (زبان،کلچر اور عقیدہ وغیرہ) کا عمل دخل محدود ہو جاتا ہے۔وہ جان لیتے ہیں کہ کہاں کہاں اور کس طرح ہم سماجی ضابطوں (Discourse)کے غلام ہیں ۔
اصل میں سماجی طاقت کا ظہور کبھی ختم نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کے انکار کے نتیجے میں بھی ایک فرد اُسی طاقت کے زیر اثر رہتا ہے۔ بلکہ ایسا فرد جو سماجی جابطوں سے انکار کرتا ہے یا ان کو اپنے اوپر لاگو ہونے سے روکتا ہے اُس کے ہاں ان طاقتوں کا شعور گہرا ہوتا ہے وہ تمام عمر ان طاقتوں کی ظاہری اور عملی حالتوں سے لڑتا رہتا ہے۔مثلاً عقیدہ، کلچر اور زبان کی طاقت کا انکار کرنے والا، اُسے اپنے اوپر عمل آرائی سے روکنے کے لیے ان سے کہاں بھاگ سکتا ہے؟زیادہ سے زیادہ وہ اُس کا شعور رکھ سکتا ہے اور اُس کی شدت کو کم کر سکتا ہے یا کسی دوسرے کلچر، عقیدہ یا زبان کی طاقت کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا۔ (اس ضمن میں ہمارے لیفٹ اور رائٹ بھائیوں کے مناظروں کی سادگی دیکھی جا سکتی ہے جو ایک طاقت کے زیر سایہ کسی دوسرے سماجی ضابطوں کی طاقت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں)
لہٰذا ہم سماجی ضابطوں کی طاقتوں سے نکل ہی نہیں پا سکتے۔یہ سب کچھ انسان کابیرون(Outer)ہے مگر اسی بیرون سے انسان کا اندرون(Inner)تشکیل پاتا ہے۔ طاقت کی اس حقیقت کو صرف وہبی سماجیات (God-Author Sociology)رد کر سکتی ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا کہیں وہبی سماجیات بھی ہوتی ہے؟
ایک فرد سماجی ضابطوں کی طاقت سے باہر نہیں نکل پاتا ،ہاں البتہ کسی دوسری طاقت کے انتخاب سے اپنے پہلے فرد کو تبدیل ضرور کر سکتا ہے۔ایک فرد جس طاقت کے مرہونِ منت ہے اگر اُسے ہٹا کے کسی دوسری طاقت کو اُس پر لاگو کر دیا جائے تو وہی فرد بالکل بدل بھی سکتا ہے۔سماجی ضابطوں کی طاقتوں کو جو نہیں مانتے انھیں دکھایا جا سکتا ہے کہ ایک فرد دولت آجانے کے بعد کس طرح بدل جاتا ہے، اس کاحقیقت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
ایک ناکام سے انسان کوذمہ داری کاکوئی اہم منصب دے دیا جائے تو وہ یک سر بدل جاتا ہے۔ لہٰذا کوئی حقیقت جسے ہم اٹل یا ابدی سمجھ رہے ہوتے ہیں ، اپنے ’’اردگرد‘‘ کی پیدا وار ہوتی ہے۔ اُسی حقیقت کو ذرا کسی اور سماج کے کے حوالہ جاتی فریم میں رکھ کے دیکھیں۔ ایسے لگے گا سب کچھ بدل گیا۔
ہمیں آئے دن ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ایک شخص گاؤں سے نکلا اور بالکل بدل گیا۔ حالات نے ایک شخص کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
یا ایک شخص مخصوص حالات کا شکار رہا جس کی وجہ سے کسمپرسی میں ہی زندگی گزارتا رہا۔جون ایلیا نے ہمیں کتنا اچھا سمجھا دیا ہے:
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی بد صورت نظر آتی
گویا سب کچھ سماجی ضابطوں کی اُن طاقتوں کا کیا دھرا ہے جس میں فرد ایک مجبور و محکوم ’’تیار‘‘ ہوتا ہے۔ فرد اپنی مرضی کا مالک متصور کرتا ہے مگر درحقیقت وہ ڈسکورس کی طاقتوں کا’’پیدارودہ‘‘ ہوتا ہے۔