(ثنا ڈار)
ہوش سنبھالتے ہی ہم نے سننا شروع کر دیا کہ یہ ملک بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا۔ پڑھنا لکھنا شروع کیا تو نصاب کی کتابوں میں ان قربانیوں کے بارے میں پڑھنے کا موقع بھی ملا۔ اسلامیات کی کتابوں میں قربانی کی تاریخ پڑھی تو پتہ چلا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علی السلام کو اللہ کی راہ میں قربان ہونے کے لئے پیش کر کے قربانی کی سب سے بڑی مثال پیدا کی۔ تھوڑے اور بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ ملک بنانے والے تو ملک بنا کر مر گئے لیکن اس ملک کو سنبھالنے اور اسکی بقا کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں پاک فوج نے دیں۔
ہاسٹل لائف میں ڈاکٹروں کے ایک ٹولے سے دوستی ہوگئی جن سے پتہ چلا کہ وہ بھی قربانی دینے کے اس مرض کا شکار ہیں۔ رات بھر جاگ کر مریضوں کی خدمت کرنے کے لئے وہ اپنی فیملی لائف کو قربان کر دیتے ہیں۔ وکلا برادری سے تعلق رکھنے والے دوستوں نے بھی عدلیہ کی بحالی کے لئے دئ جانے والی قربانیوں کی دلچسپ کہانیاں سنائی۔
آدھی زندگی والدین کے پیسوں پر عیاشی کرنے کے بعد جب خود کمانا شروع کیا تو دن رات والدین سے شکوہ کرنے لگے کہ آپ نے آج تک ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے؟ جواب شکوہ میں والدین نے بھی اپنی قربانیوں کا تذکرہ کر کے ہمیں جھنجوڑ ڈالا کہ تمہیں اس مقام تک پہنچانے کے لئے ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف کریک ڈاون کا آغاز ہوا تو دفتر والوں نے رات دو بجے فون کر کے صبح وقت سے پہلے دفتر آنے کی ہدایت کی تو دل میں خیال آیا کہ بطور صحافی ہم نے بھی اپنی پہلی قربانی دے ڈالی۔۔ دفتر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایم کیو ایم بھی رات بھر اس ملک کے لئے دی جانے والی اپنی قربانیوں کا راگ الاپتی رہی ہے۔
بقر عید قریب پہنچی تو ہر طرف پھر قربانی کی صدائیں سنائی دینے لگیں۔ کوئی بولا بکرے کی قربانی دوں گا تو کسی نے گائے میں حصہ ڈالنے کا ذکر کیا۔ کچھ حضرات نے تو پوری گائے کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ اس قربانی کے شور میں ہم ایک ہی بات سوچتے رہے کہ کہیں نہ کہیں ہم سب قربانی کے جانور ہیں۔ ہم سب نے اپنی اپنی زندگی اور اپنے اپنے شعبوں میں قربانیاں دیں ہیں۔ اس قربانی کے لفظ کو کسی ایک فرد، گروہ یا شعبے سے منسوب کر دینا سراسر نا انصافی ہے۔ کوئی گھر سے دور بیٹھا سرحدوں کی خفاظت کرتا ہے تو کوئی راتوں کو جاگ کر بیماروں کی عیادت کرتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتے ہیں تو کل کو وہی بچے والدین بن کر اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اگر جمہوریت کی بقا کی خاطر قربانیاں دے رہی ہیں تو کیا بم دھماکوں میں مر جانے والوں کی قربانیاں کسی کھاتے میں نہیں آتیں۔ دوسروں کے سامنے اپنی نام نہاد قربانیوں کی فہرست لگانے سے بہتر ہے کہ اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کر لیا جائے کہ ہم سب قربانی کے جانور ہیں اور ہم سب قربانیاں دے رہے ہیں۔