قوموں کے وقار میں شکست کی اہمیت
(اصغر بشیر)
ہم کرکٹ پھر ہار گئے۔ ہار جیت زندگی کا حصہ ہوتی ہے ۔ دنیا میں قومیں پروقار مقابلےسے پہچانی جاتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم اور ہمارے نمائندے ایسے ہیں کہ گھروں میں ٹی وی دیکھنے والوں کے سر فخر سے بلند کر سکیں؟ آج ہم بحیثیت قوم صرف وقار کے پیاسے ہیں۔ اسی پیاس کے نتیجے میں مختلف سوال اذہان میں اٹھتے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہر ایک کے پاس اپنا نقظہ نظر ہے۔ہم کب تک ہارتے رہیں گے؟ہم کب تک مصلوں پر بیٹھ کر ٹیم کے جیتنے کی دعا مانگتے رہیں گے؟ ہم کب تک ہارنے کے بعد اپنے ٹی وی سیٹ توڑتے رہیں گے؟ ہم کب تک اپنی ہر ناکامی کو دشمن کی سازش کا شاخسانہ قرار دیتے رہیں گے؟
یہ سوالات اسی وقت جنم لیتے ہیں جب ہم مظاہر کا غیر جانبدارانہ انداز میں جائزہ لینے کے بجائے مخصوص روایتی انداز سے ہر چیز کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں اداروں کی روایات کی پاسداری نہیں کی جاتی ، تو ان اداروں کا مستقبل غیر یقینی رہتا ہے۔ یہی غیر یقینی صورت حال عوام کو مجبور کرتی ہے کہ وہ موجود کو آنے والے پر ترجیح دے اور ایسے کسی بھی عمل کی مزاحمت پر اکسائے جس سے موجودہ سکوت ٹوٹنے کا خدشہ ہو۔پاکستانی عوام بھی پچھلی کئی دہائیوں سے ہونے والی سیاسی و سماجی اتھل پتھل سے اسی نفسیاتی کشمکش کا شکار ہیں۔ یہ رویہ ہماری زندگیوں میں وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے جس کے واضح اثرات ہمارے اجتماعی معاشرتی رجحان میں نظرا ٓتے ہیں۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو عوام موجودکو مستقبل کے انجان پر ترجیح دینے میں حق بجانب ہیں کیونکہ آخرکار تکالیف عوام کو ہی جھیلنا پڑتی ہیں ۔ اس رویے سے لمحاتی سکون تو میسر آسکتا ہےلیکن اس رویے سے قومیں ترقی نہیں کرتی ۔
وطن ِ عزیز میں اگرچہ دشمن اپنی سازشوں کے نشانات گلی گلی چھوڑ جاتا ہے۔ پھر بھی اگر کرکٹ کے خلاف اجتماعی سازش کو دیکھا جائے تو بس یہ ہے کہ اس نے ہمارے ذہنوں میں ڈال دیا ہے کہ چند جوئے کے گھوڑوں کے سوا ہم کرکٹ کھیل ہی نہیں سکتے ۔اسی طرح ہم نے جنرل راحیل شریف کو چند انجان وجوہات کی بناء پر ملک کا واحد مسیحا سمجھ لیا ہے کہ ان کے بغیر ملک میں امن و امان قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ اس طرح کے حقائق زندگی کے ہر پہلو میں دشمن کی گہری سازش بن کر ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے اعمال ایک طرف شخص کو اپنے اختیارات کی حدود سے تجاوز کرنے پر اکساتے ہیں تو دوسری طرف شخصیت پرستی پر مجبور کرتے ہیں کہ کیونکہ ایسی صورت میں عوام کے نزدیک شخصیت ادارے کی اتھارٹی سے زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔
شخصیت پرستی کا فائدہ ہمیشہ اہل ِ اقتدار کو ہوتا ہے۔ آج جبکہ جنرل صاحب کو بھی کیش کروانے کی پوری پوری تیاریاں ہو رہی ہیں اور سیاسی جماعتیں اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ایسی صورتحال میں ہم حالات کے بہتر ہونے کی امید کس طرح رکھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے ہیروز اپنی کارکردگی کی مدت پوری کر چکے ہیں اور ہم پھر بھی ان سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمیں تخیلاتی ماضی کے خوابوں میں لے جائیں ۔
حکومت کوچاہیے کہ اپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس کرتے ہوئے اداروں کے تقدس کو ہر ایک سے مقدم قرار دے اور ایسے کسی بھی عمل سے گریز کرئے جو اداروں کو مناسب انداز سے اپنی کارکردگی دینے میں رکاوٹ بنے۔اس وقت حکومت اگر مختلف سیاسی پارٹیوں کے پریشر میں آکر جیبیں بھرنے کی روایت ڈال دیتی ہے تو حکومت ایک طرح سے اپنی کمزوری چھوڑ جائے گی جس کی وجہ سے کئی دہائیوں تک نواز حکومت پر تنقیدہوتی رہے گی۔ لیکن اگرحکومت دھرنا سیزن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنتی ہے تو یہ پاکستان کے لیے صحت مند سیاسی ماحول کے آغاز کی نشانی ہوگی جس میں ہر ایک اپنی حدود و قیود جانتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے بشمول آرمی اپنی حدود میں رہ کر اپنے فرائض سر انجام دینے کے پابند ہوں۔آج اگر عوامی فلاح کے لیےقانون توڑاجا رہا ہے تو لازمی طور پر کل کوئی اسے اپنے ذاتی فائدے کے لیے بھی توڑ سکتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو قیام ِ پاکستان سے لے کر اب تک ہوتا آیا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ شخصیت پرستی کی روایت کو توڑ کر اداروں کے تقدس کو بحال کیا جائے تا کہ امن کی جنگ کو کرکٹ میچ بننے سے بچایا جا سکے۔
میں ایک روزن کا شکر گزار ہوں جس نے اتنا اچھا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔