(نجیبہ عارف)
لندن میں پہلے دو ہفتے بہت مصروفیت کے عالم میں گزرے۔ سوآس میں نیا سمسٹر شروع ہوا تھا اور ہر طرف سے ورکشاپوں، سیمیناروں اور لیکچروں کے دعوت نامے موصول ہو رہے تھے۔ روز نئے نئے لوگوں سے ملاقات ہوتی، دن میں کم از کم ایک پروگرام میں، میں بھی شریک ہو جاتی۔سب سے دلچسپ سیمیناراوکسفرڈ یونیورسٹی کے ایک میوزیم کی نگران، ڈاکٹر ملائکہ کمبیراکا تھا جس کا موضوع تھا:
Trans-cultural Architecture: Identity, Practice and Syncretism in Goa
ڈاکٹر ملائکہ نے بہت سی تاریخی تصویروں کے ذریعے دکھایاکہ گوا میں تعمیر ہونے والے گرجے ابتدا میں مغربی طرزِ تعمیر کا نمونہ تھے کیوں کہ انھیں تعمیر کرنے والے پرتگالی اور دیگر مغربی اقوام کے باشندے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان پر مقامی اثرات غالب آتے گئے اور یوں گوا کے ۱۵۰ سے زیادہ چرچ جو ۱۵۱۰ء سے ۱۹۶۱ء کے درمیان تعمیر ہوئے ، مندروں اور مسجدوں کے طرزِ تعمیر کی آمیزش سے ایک منفرد انداز اختیار کرتے گئے۔ اس سیمینار سے گوا کے فن تعمیر پرنوآبادیاتی عہد ، بالخصوص پرتگالیوں کے اثرات سے متعلق کئی ضمنی باتیں بھی معلوم ہو گئیں۔مثلاً یہ کہ گوامیں پرتگالیوں نے مقامی آبادی پر تبدیلی مذہب کے لیے کتنا دباؤ ڈالا تھا۔پرجوش عیسائی پادریوں اور مبلغین نے ’’کفار‘‘ کو ’’ایمان‘‘ کی روشنی سے منور کرنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلے تھے۔ عیسائیت قبول کرنے والوں کو کیسے اس معاشرے میں تحفظ، خوش حالی اورمناصب سے نوازا جاتا تھا اور جو لوگ اپنے عقیدے پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ ہوتے انھیں کس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا۔ بعض اوقات پورے پورے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیے جاتے، ان کی عبادت گاہیں، مسجدیں ہوں یا مندر، خاک کا ڈھیر بنا دی جاتیں اور اس خاک سے کلیسا تعمیر کیے جاتے۔
(’’یہ بابری مسجد ڈھانے والے اور مغل بادشاہوں کے ہندوؤں کی عبادت گاہیں مسمار کرنے کا غوغا کرنے والے، کبھی ان کلیساؤں کے بارے میں حرف شکایت تک زبان پر نہیں لائے؟ آخراس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ میں نے اپنے ہم ذات کو چڑایا۔
’’اس لیے کہ مذہب ہمیشہ سیاست کا کھلونا رہا ہے۔ ‘‘اس نے مدبر بن کرمختصر سا جواب دیا اور خاموش ہو گیا)
ایک اور دلچسپ سیمی نار ڈاکٹر جیمز کیرن نے دیا۔ ڈاکٹر جیمز کچھ عرصہ پہلے ہی سوآس کے شعبہ جنوب ایشیائی زبان و ثقافت میں جنوب ایشیا میں اسلامی مطالعات کے لیکچرار کے طور پر تعینات ہوئے تھے۔ انھیں اردو اور پشتو دونوں زبانوں سے خاصی واقفیت ہے اور افغانستان اور پاکستان ان کے تحقیق کے خاص موضوع ہیں۔پاکستان سے ان کی دلچسپی کا ایک ثبوت ان کی پاکستانی بیگم بھی ہیں جو فیصل آباد سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا یہ سیمینار بھی، پشاور میں مقیم، جمعیت علماے پاکستان سے تعلق رکھنے والے ،مولانا بجلی گھر سے متعلق تھا۔ڈاکٹر جیمز کیرن کو گلہ تھا کہ دسمبر ۲۰۱۲ میں مولانا بجلی گھر کی وفات کی خبر نہ تو پاکستانی میڈیا پر توجہ حاصل کر سکی اور نہ ہی اہل علم وتحقیق نے انھیں اپنے مطالعے کا موضوع بنانے کی کوشش کی، حالاں کہ ان کے خیال کے مطابق شاید ہی کسی فرد واحد نے پشتو بولنے والے افراد پر اتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہوں، جتنے مولانا بجلی گھر کے ہوئے۔ ان کا یہ گلہ ان معنوں میں تو بجا تھا کہ یہ نام میرے لیے قطعاً اجبنی تھا اور میں نے پاکستانی اخبارات اور میڈیا میں کبھی اس شخصیت کا ذکر پڑھا نہ سنا۔اسی لیے میں نے ان کا لیکچر بہت دلچسپی سے سنا۔
مولانا بجلی گھر کا تعلق درہ آدم خیل کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا اور وہاں وہ ایک مدرسے میں مذہبی تعلیم دیتے تھے۔ان کی سیاسی اور تاریخی وابستگیوں کی داستان تو بہت طویل ہے تاہم ان کی وجہ شہرت طنز و مزاح پر مبنی وہ تقریریں ہیں جن کے ذریعے وہ لوگوں کو اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کرتے تھے اور ڈاکٹر جیمز کے بقول، ان کی یہ تبلیغی کوششیں نتائج اور اہمیت کے اعتبار سے رسمی اور سنجیدہ تبلیغ سے کسی طرح کم نہیں۔اس لیکچر میں انھوں نے تاریخی اور علاقائی حوالوں سے اسلام کی غیر رسمی تبلیغی کوششوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
انھی دنوں ایک ورکشاپ تعلیمی مقاصد کے نتائج کے متعلق بھی ہوئی جس کا اہتمام ایک پروفیسر صاحب نے کیا تھا ۔ اس ورکشاپ میں تدریس کو ادارے کے مجموعی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تجاویز اور تدابیر پر بحث ہوئی۔ یہ ایک انتہائی رسمی، غیر دلچسپ اور بے نتیجہ سی ورکشاپ تھی۔ جو باتیں کہی گئیں وہ سبھی اساتذہ کے علم میں تھیں۔ غالباً اس کا سب سے زیادہ فائدہ خود ورکشاپ کروانے والے پروفیسر صاحب ہی کوپہنچا کہ ان کے ذاتی کوائف نامے میں ایک اور کارروائی کا اضافہ ہو گیا۔ ہم پاکستان میں تو ایسی سرگرمیاں دیکھنے کے خوب عادی ہیں جو محض کارروائی ڈالنے کے لیے ہوتی ہیں۔بلکہ ہمارے ہاں سرکاری جامعات میں ایسی سرگرمیاں اتنی کثرت سے ہوتی ہیں کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ اس قسم کی کارروائی کی ایک مثال تو وہ سیمینار، لیکچر یا کانفرنسیں ہوتی ہیں جن میں سامعین کی نشستیں بھرنے کے لیے بعض اوقات کلرکوں، نائب قاصدوں اور عملے کے دیگر افراد کو زبردستی کرسیوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ ہر تقریر کے بعد تالیاں بجا دیں۔ اگر کہیں طالب علموں پر زور چلتا ہو تو انھیں، ان کی کلاسوں سے نکال کر زبردستی ہال میں بھیجا جاتا ہے جہاں اساتذہ ان کی حاضری لگاتے ہیں اور حاضر نہ ہونے والے طالب علموں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ پورے پروگرام کے دوران طالب علم یا تو اونگھتے رہتے ہیں یاسر جھکا کر فون یا کاغذ پر ایک دوسرے کو پیغامات لکھتے اور کارٹون بناتے ہیں۔اگر کہیں طالب علم سرکشی کر جائیں تو ان کے اساتذہ کی خوب شامت آتی ہے کہ وہ اپنے طالب علموں میں علمی ذوق پیدا نہیں کرتے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جب اساتذہ کا انتخاب اور ترقیاں ان کی علمی قابلیت کی بجائے خوشامد، جعل سازی اور سیاسی وابستگی کی بنا پر ہوتی ہوں تو خود ان میں علمی ذوق کتنا ہو گا اور کہاں سے آئے گا؟
اسی طرح کیبعض کارروائیاں، کبھی کبھی ہائر ایجوکیشن کمیشن اوف پاکستان کے زیر انتظام معاملات میں بھی نظر آتی ہیں جن میں رسمی کاغذی کارروائی مرکزی اہمیت اختیار کر جاتی ہے اور اصل مقصد کہیں پس پشت چلا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایچ ای سی نے معیار کی بلندی کی ضمانت کے لیے یہ طے کرلیا ہے کہ پی ایچ ڈی کے مقالے ، جانچ کے لیے کسی ترقی یافتہ ملک کے ماہر کو بھیجے جائیں اور اسی عمومی حکم کے ذیل میں اردو کے مقالے بھی آتے ہیں ۔ ان ’’ترقی یافتہ ممالک‘‘ میں اکثر پروفیسر وہی ہیں جو خود پاکستان یا بھارت سے پی ایچ ڈی کرکے گئے ہیں۔مگر اس قانون کے تحت ان نوجوان پروفیسروں کی رائے کو ان کے اساتذہ کی رائے پربھی فوقیت حاصل ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اردو کے طالب علم، اساتذہ اور محقق اس صورت حال پر خوش ہیں کیوں کہ باہر سے ہر مقالے پر نہایت عمدہ رپورٹ آجاتی ہے۔جب کہ پاکستان میں بعض سینئیر اساتذہ معیار پر اصرار کرتے ہیں اور بعض سیاسی و دیگر گروہ بندیوں کے باعث بغض کا اظہار کرتے ہیں۔دونوں صورتوں میں محقق کو فائدہ اسی میں نظر آتا ہے کہ مقالہ کہیں باہر بھیج دیا جائے۔
ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ مقالات میں نقل (plagiarism) کی روک تھام کے لیے ایچ ای سی بہت حساس معلوم ہوتا ہے، چناں چہ ایک ایسا مشینی نظام متعارف کرایا گیا ہے جو نقل کی روک تھام میں ممد ہے۔ لیکن اس کا سب سے مضحکہ خیزپہلو یہ ہے کہ اگر کوئی مقالہ اردو میں لکھا گیا ہے تو ایچ ای سی plagiarism کا کھوج لگانے کے لیے فرمائش کرتا ہے کہ پہلے اس مقالے کو انگریزی میں ترجمہ کروا کے لائیں۔پھر ترجمے کو اس مشینی نظام کے ذریعے پرکھا جاتا ہے۔ اس سے بھی دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ ایچ ای سی کے نزدیک plagiarism سے مراد صرف اور صرف انٹر نیٹ کے مواد سے نقل کرنا ہے، چناں چہ جو لوگ مطبوعہ یا غیر مطبوعہ مواد سے نقل کر لیتے ہیں، انھیں پکڑنے کا کوئی طریقہ نہیں اور ایک بار انھیں ڈگری مل جائے تو اسے کوئی واپس نہیں لے سکتا۔ اور سب سے عجیب بات تو یہ ہے کہ انسانیات اور معاشرتی سائنسوں میں پیسے دے کر تحقیقی مقالے لکھوانے کا رواج عام ہے۔ پہلے بھارت میں یہ وبا پھیلی اور اب پاکستان میں بھی اس کی مقبولیت میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے۔بعض مضامین، مثلاً اردو میں پی ایچ ڈی کا مقالہ ایک لاکھ روپے میں اور ایم فل کا پچاس ہزار تک میں لکھا جاتا ہے، لکھنے والے بھی انہی جامعات کے اساتذہ ہیں جو ڈگریاں تفویض کرتی ہیں۔سیاں بھئے کوتوال۔لیکن چند ہی دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس معاملے میں کسی احساسِ کم تری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ کاروبار عین لندن میں بھی ہو رہا ہے۔ بزنس، اکاؤنٹنسی اور قانون کی ڈگریاں عطا کرنے والے نجی تعلیمی ادارے کھمبیوں کے مانندشہر میں اگ آئے ہیں اور ان میں جمع ہونے والے اکثر تحقیقی مقالات اسی طرح قیمتاً لکھوائے جاتے ہیں۔ کچھ بے روزگار مگر ذہین افراد نے اسی کو اپنا ذریعۂ معاش بنا رکھا ہے اور ہر درجے اور مضمون کے مقالے کی قیمت مقرر ہے۔ ان اداروں کے گاہک بھی زیادہ تر ایشیائی ہوتے ہیں۔ زوال اور انحطاط کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
ہمارے ہاں نقالی کی عادت اتنی پختہ ہوگئی ہے کہ ہمارے ادارے بیرونی ممالک سے قوانین و ضوابط کے دفتر کے دفتر اڑا لاتے ہیں اور انھیں اپنے زمینی حقائق سے ہم آہنگ کیے بغیر لاگو کر دیتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معیار میں بلندی آنے کی بجائے چور دروازے ڈھونڈنے اورکاغذی کارروائی مکمل کر کے نظام کو ناکام بنانے کے حربے عام ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پریونی ورسٹیوں کے اساتذہ کو اگلے گریڈ میں ترقی پانے کے لیے ایچ ای سی کے منظور شدہ مجلات میں تحقیقی مقالات شائع کروانے پڑتے ہیں۔ ایچ ای سی نے مجلات کی منظوری اور درجہ بندی کے لیے جو شرائط مقرر کر رکھی ہیں، ان کا تعلق مجلات کے علمی معیار سے کم اور انتظامی امور سے زیادہ ہوتا ہے۔ بعض اچھے مجلات جامعات کی سیاست کے باعث باقاعدگی سے شائع نہیں ہوتے لیکن اس کی سزا ان مقالہ نگاروں کو ملتی ہے جنھوں نے اس مجلے میں اپنے مقالات شائع کروا رکھے ہیں۔ عام طور پرصرف جامعات کے جرنل ہی منظور شدہ جرائد کی فہرست میں شامل ہو تے ہیں۔ اب جامعات میں جو ایک دفعہ کسی نہ کسی طرح صدر شعبہ مقرر ہو گیا، وہی اس جرنل کا مدیر بھی ہوگا۔ یونیورسٹی کی سیاست اور گروہ بندی کی فضا کس سے مخفی ہے۔ نتیجہ یہ کہ سینئر اساتذہ کرام اپنے بچہ جموروں کے مقالات چھپوانے اور دوسروں کے مقالات چھپنے سے رکوانے کے لیے سارا زور صرف کر دیتیہیں۔مرد حضرات ہی نہیں،نوجوان خواتین کے مقالات بھی ان کے مربی پروفیسروں کی پرچی کی کرامت سے شائع ہو جاتے ہیں۔یہاں تک شاید پھر بھی قابل قبول ہوتا، مگر ستم تو یہ ہے کہ ان میں ایسے مقالات بھی شامل ہوتے ہیں جو دس دس ہزار روپے ادا کر کے’’ فاضل‘‘ محققین سے لکھوائے جاتے ہیں۔ جن کے ناموں سے یہ مقالات شائع ہوتے ہیں، ان سے اگر ، مضمون میں شامل چند الفاظ کے معانی ہی پوچھ لیے جائیں تو پول کھل جائے لیکن اتنی محنت کرے کون۔ انھی مقالات کے مجموعے ملک کے معتبر ادبی اداروں سے شائع بھی ہو چکے ہیں۔اب مغز کو بھس سے علیحدہ کرنے کی کھکھیڑ کون کرے۔ دھاندلی، جھوٹ، بناوٹ، منافقت اور بددیانتی کی دلدل ہے جس میں ہر ایک دھنستا چلا جا رہا ہے۔اور ستم یہ کہ کارروائی ہر جگہ پوری ہوتی ہے۔ اصول و ضوابط کے مطابق تمام بے ضابطگیاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ایسے میں جو لوگ محنت اور علم و تحقیق پر یقین رکھتے ہیں، وہ روز بروز گوشہ نشینی پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں یا اپنے لیے کسی اورمیدان عمل کے متلاشی رہتے ہیں۔فیض صاحب یاد آگئے:
ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں ہم ہی کاربندِ اصولِ وفا نہ تھے
اس لیے سوآس میں یہ ورکشاپ بھی بری نہیں لگی۔ کم از کم سچ مچ کے اصلی پروفیسر اس میں شریک تھے۔ انھوں نے سوال کیے، انھیں جواب دیے گئے اور بحث مباحثے کی فضا جعلی نہیں ، اصلی تھی۔البتہ ایک بات میں نے یہاں اوردیگریونیورسٹیوں میں بطور خاص محسوس کی کہ یہاں بھی طالب علموں میں ذوق و شوق کچھ ایسا خاص نہیں۔ ہر سیمینار میں سات آٹھ سے زیادہ سامعین نہیں ہوتے۔مگر اس سے مایوس ہو کر یہ لوگ اپنی سرگرمیاں ترک نہیں کر دیتے۔نہ ہی کلرکوں اور نائب قاصدوں کو بٹھا کر جعلی ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔چاہے گنتی کے چار لوگ ہی کیوں نہ ہوں، سیمینار ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات طالب علموں کے علاوہ شہر سے بھی موضوع میں دلچسپی لینے والے لوگ آتے ہیں اور سوال جواب کرتے ہیں۔ مکالمے کی فضا بنتی ہے۔ ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کا ماحول قائم ہوتا ہے۔ اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی تربیت ملتی ہے۔
البتہ موسیقی یا فلم سے متعلق اگر کوئی پروگرام منعقد کیاجائے تو ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ جیسے میرے یہاں ہوتے ہوئے ایک بار شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کوآنا تھا۔ جاوید تو نہ آسکے لیکن شبانہ آگئیں ۔ طلبہ نے جاوید کے نہ آنے پر اس قدر مایوسی کا اظہار کیا کہ شبانہ کو کہنا پڑا، کہ انھیں اپنی بے قدر ی کا احساس ہو رہا ہے۔شبانہ کی گفتگو کا موضوع تھا:
Can film be used as an instrumet for social change
ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، ایک بھی نشست خالی نہ تھی۔ انتظامیہ کو اپنے مہمانوں کے لیے خاص طور پر نشستیں محفوظ کرنا پڑیں۔زیادہ تر ایشیائی طالب علم ہی تھے جو ان کی کئی فلمیں دیکھ چکے تھے۔ شبانہ نے بہت عمدہ اور پر مغز گفتگو کی۔ وہ آئیٹم سونگ اورجسمانی نمائش کو فن پر ترجیح دینے کے رجحان سے نالاں نظر آئیں اورآرٹ اور اس کے متعلقات کی اہمیت پر بات کرتی رہیں۔ ان کا خیال تھا کہ بھارت میں آئیٹم سونگ کے رجحان کے باوجود، آرٹ فلمیں بھی بنتی ہیں اور دیکھی بھی جاتی ہیں لیکن آرٹ فلموں کا مقابلہ کمرشل فلموں سے نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ آرٹ کے قدردان تعداد میں ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں۔ انھیں یہ بھی شکوہ تھا کہ عورتوں کی طرح مرد اداکار بھی پٹھوں کی نمائش سے مقبولیت حاصل کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں ۔ ہیرو کی عظمت کا انحصاراس کی جسمانی طاقت پر نہیں ہوتا لیکن فلموں کے اشتہاروں میں ، جہاں پہلے صرف خواتین کے اعضاکی نمائش کی جاتی تھی وہاں اب مرد حضرات کے مسلز دکھانے کا رواج بھی چل پڑا ہے۔ اس رجحان نے نوجوانوں کو بلاوجہ احساسِ کم تری میں مبتلا کر رکھا ہے۔ قدم قدم پر جم کھل گئے ہیں اور مسلز کی غیر فطری افزائش کے لیے مضرِ صحت دواؤں کی صنعت ترقی کرتی جا رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ نوجوانوں کو ایسی ظاہری جسمانی طاقت اور نام نہاد خوب صورتی کی بجائے انسانیت کے دیگر فضائل کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ معاشرے کو سدھارنے کے عمل میں شریک ہو سکیں۔ ان کی اس بات سے نوجوانوں نے بھی اتفاق کیا کہ فلموں کے ذریعے معاشرے میں آگاہی اور شعور پیدا کیا جاسکتا ہے اور اس وسیلے کو بروئے کار لانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ نوجوان آئیٹم سونگز اور بے ہودہ موضوعات پر بننے والی فلموں کو رد کریں اور سنجیدہ ، سماجی شعور سے مملو فلموں کو فروغ دیں۔
شبانہ کی باتیں سننے کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہمارے ہاں فلموں تو کیا ڈراموں تک کا سماجی تناظر میں تجزیہ کرنا غیر سنجیدہ بلکہ قدرے نامعقول سمجھا جاتا ہے۔ایک دوبار میں نے سوچا بھی کہ کسی طالب علم سے ان موضوعات پر تحقیق کروائی جائے لیکن کسی نے بھی اسے درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ صرف ایک پی ایچ ڈی سکالر، شاہدہ رسول نے جو خودبصارت سے محروم ہیں، اس تجویز پر عمل کیا اور پی ٹی وی سے نشر ہونے والے ڈراما سیریلز کے متون کے ذریعے ان کے نسوانی کرداروں کا سماجی و تہذیبیمطالعہ کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ۔اس تحقیق کے دوران انھیں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ اس موضوع پر پہلے سے کوئی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ڈراموں کے متن حاصل کرنا بھی آسان نہ تھا۔ کئی ڈراموں کے متن صرف کیسٹ یا سی ڈی سے سن کر حاصل کیے گئے۔ لیکنوہ اپنی معذوری کے باوجود جس محنت اور خلاقی سے اس کام کوانجام دے رہی ہیں، قابلِ داد ہے۔
اس سیمینار کے کچھ دن بعد مجھے سواس کی لائبریری میں ایک انتہائی دلچسپ کتاب نظر آگئی۔ کتاب کا عنوان تھا:
The 9 Emotions of Indian Cinema Hoardings
یہ کتاب بھارتی فلموں کے ہورڈنگز کی تصویروں کا البم ہے اور ان ہورڈنگز کو مرتبین نے نو اقسام میں تقسیم کر رکھا ہے۔
شہوت انگیز (The Erotic)
شجاعت آمیز (The Valorous)
غضب ناک (The Furious)
دہشت ناک(The Terror-striken)
دل گداز(The Pathetic)
طربیہ (The Comic)
کراہت انگیز(The Disgusting)
حیرت انگیز(The Marvelous)
سکون آمیز(The Peaceful)
ان عنوانات پر ایک نظر ڈالنے سے ہی بھارتی معاشرے کی ترجیحات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ہمیں بھی اپنے معاشرے کی نبض پہچاننے کے لیے عوامی مقبولیت کے حامل ایسے ذرائع پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے جو عوام کی ترجیحات کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں۔