ماضی، حال اور نوجوان
(معصوم رضوی)
پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں ورلڈ کپ جیتنے کی 25ویں سالگرہ منائی گئی، دنیا کیلئے یہ شاید عجیب ہو مگر ہمارے لیئے ایسا کچھ نیا نہیں، ماضی قریب کی کوئی خوشگوار یاد موجود نہ ہو تو ماضی بعید سہارا دیتا ہے۔ جہاں آپ کوئی اچھی بات کریں لاشعوری طور پر سلسلہ ماضی سے جڑ جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ صورتحال عکاس ہے کہ ہمارا حال تہی دامن ہے، اگر کچھ بچی کھچی خوشگوار یادیں ہیں تو انکا تعلق ماضی قریب یا بعید سے ہے۔ گزشتہ دنوں کرکٹ میچ ساتھ دیکھتے ہوئے باتیں بھی ہو رہی تھیں، ماجد، ظہیر عباس، عمران، جاوید میانداد اور وسیم باری کے قصے بھی چل رہے تھے، میرے ساتھ میچ دیکھتے ہوئے بیٹے نے کہا آپ لوگ خوش قسمت تھے کہ کرکٹ کے اتنے بڑے ہیروز ملے، ہمارے پاس ہیرو بنانے کیلئے ایسے کھلاڑی موجود ہی نہیں ہیں۔ جملہ تو سادہ سا تھا مگر نجانے کیوں میں ہل کر رہ گیا کیونکہ یہ سادہ جملہ صرف کرکٹ پر نہیں بلکہ ہماری زندگی کے ہر شعبے پر لاگو ہوتا ہے۔
نوجوان نسل کرے بھی تو کیا کرے، اچھے سیاسی دور کی بات ہو تو ذوالفقارعلی بھٹو یا بینظیر بھٹو کو یاد کیا جاتا ہے، آمرانہ ادوار میں ایوب خان دور کی ترقی کا ذکر ہوتا ہے۔ بااصول سیاست کی بات ہو تو مولانا مودودی، نواب نصراللہ خان، مولانا بھاشانی، ولی خان، مفتی محمود، پروفیسر غفور کی یاد آتی ہے۔ انتظام و انصرام کی بات ہو تو اے ٹی نقوی، ایئر مارشل ریٹائرڈ نور خان، نواب کالا باغ، ادب کی بات ہو توسبط حسن، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، استاد دامن، فیض، ن م راشد، مجید امجد، شیخ ایاز، پروین شاکر جیسی شخصیات زندہ لگتی ہیں۔ کھیلوں کا ذکر ہو تو جہانگیر خان، شہناز شیخ، اصلاح الدین جیسے مشاہیر نظر آتے ہیں۔ سائنس اور تعلیم کی بات ہو تو ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر قدیر، پرویز ہودبھائی، پروفیسر کرار، ڈاکٹر اشتیاق، انیتا غلام علی سمیت بیشمار نام سامنے آتے ہیں، تلخ حقیقت ہے بیشتر کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے اور جو کھرچن اب موجود ہے اسکا تعلق بھی ماضی قریب کی تربیت و پرورش کا نتیجہ ہے۔ یہ پورے معاشرے کیلئے لمحہ فکریہ ہے، نئی نسل کس جانب دیکھے، آج سیاست و حکومت کی بات ہو تو پاناما اور سرے محل اسکینڈل، انتظامیہ کی بات ہو تو بیوروکریسی کی کرپشن اور نااہلی کی داستانیں، کھیل کی بات ہو تو اسکواش اور ہاکی کا تو ذکر ہی نہیں ہوتا رہ گئی کرکٹ تو فکسنگ اور خراب پرفارمنس کے قصے، شعر و ادب کی بات ہو تو سنسان میدان، تعلیم و صحت کی بات ہو تو ذھن کا پردہ خالی رہتا ہے۔
ایک بار پھر چلتے ہیں ورلڈ کپ جیت کی 25ویں سالگرہ کی جانب، ٹی وی پر بیٹھے 75 سے 50 سالہ کچھ باریش اور کچھ بے ریش بوڑھے کرکٹر ماضی کو کھنگال کر چوتھائی صدی پہلے انگلینڈ کی شکست سے متعلق جزیات کو تازہ ڈھنگ سے بیان کر رہے ہیں۔ خود میں نے بھی یہ پروگرام دیکھا، سچ ہے کہ ماضی قریب سے کوئی خوشگوار یاد وابستہ نہ ہو تو ماضی میں دور کا سفر لازم ہو جاتا ہے۔ میری نسل کے لوگ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں nostalgia راج کرتا ہے، ماضی جگمگاتا اور حال مدہم نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو زمانہ حال کی ابتری معاشرتی زوال کی داستان ہے۔ پاکستانی معاشرے میں قابلیت و اقدار کے فقدان کی ذمہ دار ہماری نسل بھی ہے کیونکہ ہم نوجوانوں کو ایسا کچھ نہیں دے سکے جو انہیں سر فخر سے اٹھانے کا موقعہ میسر کر سکے۔ رہی بات قومی قیادت کی تو خواہ یہ جمہوری یا غیر جمہوری، ان کے پاس پیش بینی کی صلاحیت سرے سے موجود ہی نہ تھی یا وقتی اور ذاتی مفادات حواسوں پر چھائے رہے۔ بہرکیف یہ تو خود ایک الگ موضوع ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ معاشرتی زوال کی سب سے بڑی ذمہ داری نام نہاد سیاسی و مذھبی قائدین پر عائد ہوتی ہے جو معاشرے پر پڑنے والی ہر ضرب کو قومی سلامتی اور ملکی مفاد کا چولا پہنا کر خود کو مضبوط اور طاقتور کرتے گئے۔ قائد اعظم کے بعد ملکی سیاست، سیاسی و مذھبی قائدین، فوج اور نوکر شاہی کے گھر کی لونڈی بن گئی اور نتیجہ یہ ہے کہ نسل در نسل اقتدار پر کرپشن کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ آج ستر سال بعد بھی پاکستان کا مستقبل غیر یقینی حالات و خدشات سے دوچار ہو تو اس میں قصور میرا اور آپ کا بھی ہے، باقی رہی بات قائدین کو تو حضور ان قائدین کو بھی ہم اور آپ ہی بونے سے دیو بناتے ہیں۔
سری لنکا پاکستان سے کہیں زیادہ چھوٹا اور کم وسائل والا ملک ہے، بھارتی سازشوں اور دہشتگردی کے خلاف طویل جنگ لڑنے کے بعد آج ایک مستحکم ملک کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ سری لنکا نے 1983 سے 2009 پورے 25 سال اندرونی دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی اور بالاخر باغیوں کے لیڈر ولاپلائی پربھاکرن کو مار کرتامل ایلام کے فتنے کو ختم کر دیا۔ تامل باغیوں کو پیچھے طاقتور پڑوسی بھارت موجود تھا جو کہ اسلحہ، اور مالی معاونت سمیت ہر طرح کا اندرونی اور بیرونی تعاون فراہم کر رہا تھا۔ پچیس سالہ خانہ جنگی کے دوران ایک لاکھ افراد مارے گئے، 200 ارب ڈالر کے اخراجات برداشت کرنے پڑے، جنگ کے بعد 12 لاکھ بیدخل افراد کو آباد کرنا پڑا۔ بہرحال اب صورتحال یہ ہے کہ UNDP Human Development Index کی تازہ رپورٹ کے مطابق 197 ممالک میں سری لنکا کا نمبر 73 اور پاکستان کا 147 ہے، ساتھ ہی یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ سابقہ مشرقی پاکستان جو 1971 میں بنگلہ دیش بنا، اس انڈیکش میں139 نمبر پر موجود ہے۔ پاکستان ان دونوں ممالک سے کہیں زیادہ بڑا، عظیم وسائل اور بہتر محل و وقوع سے مالا مال ہے۔ ایک دو نہیں درجن بھر مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں ساتھ یا بعد میں آزادی پانیوالے چھوٹے ممالک پاکستان سے کہیں آگے نکل گئے، سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟
جو قائدین ستر سال بعد پینے کا صاف پانی فراہم نہ کر پائیں، تعلیم و صحت کی سہولیات ناپید ہوں، شہریوں کی حفاظت کی ضمانت نہ دے سکیں، انصاف کی فراہمی سوالیہ نشان ہو، ملک میں کوئی مربوط نظام نہ ہو تو یقینی طور پر قیادت کیساتھ چھوٹے موٹے نہیں بلکہ اہلیت کے بنیادی مسائل ہیں۔ اگر ستر سال بعد انہیں بتانا پڑے کہ مستقبل موٹر وے سے نہیں بلکہ تعلیم سے وابستہ ہوتا ہے، ایسی ترقی جو غریب کو مزید غریب اور امیر کو امیر ترین بنائے معشیت نہیں بلکہ قومی ڈاکہ کہلاتی ہے۔ ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، بڑھتے جرائم، حکام کی من مانیاں کسی اور کے نہیں بلکہ انہی قائدین کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ اگر ان قائدین کو یہ بھی بتانا پڑے کہ بنیادی حقوق کوئی خیرات نہیں بلکہ انکی اپنی نا اہلی کے باعث ستر سال سے قرض ہیں۔ خیر قائدین کو تو بہت کچھ اور بھی بتانے کی ضرورت ہے مگر بتانے سے پہلے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان نام نہاد قائدین کا سارا دم خم، طمطراق، بھرم، عزت، شہرت اور دولت آپ کی مرہون منت ہیں جن سے وہ ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں۔ اس سے آگے کچھ کہنا محال، بس آغا شورش کاشمیری کی زبانی سن لیجیئے
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں