مذمتی بیانات بیانیہ ہوسکتے ہیں؟
(خورشید ندیم)
وہ بیانیہ جس نے مسلم نوجوانوں اور معاشروں کو انتہا پسندی کے راستے پر ڈالا، چند نکات پر مشتمل ہے:
1 ۔ خلافت، ایک دینی اصطلاح ہے اور قیامِ خلافت ایک دینی ذمہ داری۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک سیاسی وحدت ہیں اور یہ ان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ مل کر ایک نظم اجتماعی تشکیل دیں۔ ان کا ایک خلیفہ ہو اور وہ اس کی اتباع کریں۔ اس تصور کے حق میں جو لٹریچر وجود میں آیا اس میں ‘خلافت‘ اور ‘اسلامی ریاست‘ مترادف الفاظ ہیں۔ علم کی دنیا میں علامہ رشید رضا تک خلافت کی اصطلاح مستعمل رہی۔ اس کے بعد ‘اسلامی ریاست‘ نے ‘خلافت‘ کی جگہ لے لی۔ دور جدید میں ایک بار پھر ‘خلافت‘ کو اپنا لیا گیا۔
2 ۔ مسلمانوں کی سیاسی وحدت کی اساس صرف مذہب ہے۔ اس کے علاوہ وحدت کی ہر بنیاد، وہ رنگ ہو یا نسل، جغرافیہ ہو یا زبان، باطل اور غیر اسلامی ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں میں کوئی سیاسی نظم اگر قائم ہو گا تو صرف مذہب کی بنیاد پر۔
3 ۔ قومی ریاست عہدِ حاضر کا ایک تصور ہے جو غیر اسلامی ہے۔ یہ جغرافیہ یا نسل کو اجتماعیت کی اساس کے طور پر قبول کرتا ہے۔ دور جدید میں استعماری قوتوں نے قومی ریاست کے غیر اسلامی تصور کی آبیاری کی اور مسلمانوں کو رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم کر دیا۔ بطور مسلمان ہم اس کو ماننے کے پابند نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو مل کر اس کے خلاف متحرک ہونا چاہیے اور ایک عالمگیر خلافت قائم کرنی چاہیے۔
4 ۔ جمہوریت ایک کفریہ نظام ہے۔ اس میں انسانوں کو صرف گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا۔ اس نظام میں عامی اور عالم دونوں کی رائے ایک جیسا وزن رکھتی ہے۔ یہ غیر اسلامی تصور ہے۔ اسلام میں جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ یہ خدا کی حاکمیت کے مقابلے میں جمہور کی حاکمیت کا تصور ہے۔
5۔ اﷲ تعالیٰ اس کائنات کا حقیقی فرماں روا ہے۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ انسانی سماج اور ریاست پر بھی اس کی فرماں روائی قائم ہو جائے۔ لہٰذا اقتدار اصلاً مسلمانوں کا حق ہے جو اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو قائم کرتے ہیں۔ اسلام نے اگر مذہبی آزادی کو روا رکھا ہے تو صرف انفرادی سطح پر۔ غیر مسلموں کو زمین پر حق اقتدار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کہیں انہیں اقتدار حاصل ہے تو ہم بزور ان کا یہ اقتدار ختم کریں گے۔ جب تک ہمارے پاس طاقت نہیں، ہم بادل نخواستہ ان کے اس اقتدار کو گوارا کریں گے۔
6 ۔ موجودہ مسلمان حکمران نفاذِ اسلام کی راہ میں رکاوٹ اور مسلم دشمن طاقتوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دینی لحاظ سے ان حکمرانوں کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن کا تعلق اجتماعیت سے ہے جیسے جہاد یا حدود کا نفاذ۔ کچھ وہ ہیں جو شہریوں پر انفرادی سطح پر نفاذِ اسلام سے متعلق ہیں جیسے حجاب اور داڑھی کی پابندی۔ مسلمان حکمران ان دینی ذمہ داریوں سے روگردانی کر رہے ہیں۔ قرآن مجید (المائدہ 5:44) کی رو سے یہ بالفعل کافر، لہٰذا مرتد ہو چکے ہیں۔ چونکہ اسلام میں ارتداد کی سزا موت ہے، اس لیے ان کا خون مباح ہے۔ یعنی یہ واجب القتل ہیں۔ جو لوگ ریاست و حکومت کے اہل کار ہوتے ہوئے، ان کے معاون اور دست و بازو ہیں، ان کا شمار بھی انہی کے طبقے میں ہو گا، لہٰذا ان پر بھی ارتداد کی سزا نافذ ہو گی۔
7۔ ارتداد کا ارتکاب صرف حکمران ہی نہیں، عام لوگ بھی کرتے ہیں۔ جیسے کسی مسلمان کی طرف سے دینی شعائر یا انبیا کی توہین جیسے افعال ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے مجرموں پر ارتداد کی سزا نافذ کرے۔ اگر حکومت اسلامی نہیں ہے یا اس ذمہ داری کو نبھانے میں تساہل کا مظاہرہ کرتی ہے تو یہ غیرتِ ایمانی کا تقاضا ہے کہ لوگ خود ایسے مجرموں کو سزا دیں۔
8۔ اسلامی ریاست کے مسلم اور غیر مسلم شہری برابر نہیں ہیں۔ چونکہ اسلامی ریاست ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے، اس لیے جو لوگ اس نظریے پر ایمان نہیں رکھتے، ریاست کے ساتھ ان کی وفا وداری پوری طرح ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا مسلم اور غیر مسلم کے شہری حقوق برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی فرق کی وجہ سے ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کوکلیدی منصب نہیں دیے جا سکتے۔ ارتداد کی سزا کے حق میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ ریاست کے نظریے سے بغاوت ہے اور بغاوت کی سزا ہر مذہب اور قانون میں موت ہے۔
9۔ جہاد کی علت کفر کا خاتمہ اور غلبہ اسلام ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جہاد کفر کے خاتمے اور اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ فرضِ عین ہے۔ یعنی ہر مسلمان پر فرض ہے۔
10۔ جہاد کا اعلان حکمران کرتا ہے۔ اگر حکمران اس سے غافل ہوں تو جہاد کا حکم معطل نہیں ہوتا کیونکہ اسے قیامت تک باقی رہنا ہے۔ یہ ذمہ داری پھر مسلمانوں کو اپنے طور پر ادا کرنا ہو گی۔ اس وقت جہاد کے لیے قائم تنظیمیں یہ فریضہ ادا کر رہی ہیں۔ لہٰذا ان کی نصرت دین کا تقاضا اور ان کی مخالفت دین کی مخالفت ہے۔
یہ ہے وہ بیانیہ جس نے مسلم دنیا میں انتہا پسندی اور نتیجتاً دہشت گردی کے بیج بوئے۔ ان تمام نکات کے حق میں دینی دلائل دیئے جاتے ہیں۔ قرآن و حدیث اور فقہی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے۔ علما کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اس بیانیے کی حقیقت واضح کریں۔ وہ ان تمام نکات پر اپنی موقف سامنے لائیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ان کے نزدیک کیا یہ بیانیہ دینی اعتبار سے درست ہے؟ ان نکات کا دو اور دو چار کی طرح جواب چاہئے۔ مثال کے طور پر کیا اسلام مذہب کے علاوہ اجتماعیت کی کسی دوسری اساس کو قبول کرتا ہے؟ کیا قومی ریاست اسلام کی رو سے جائز ہے؟ ان سوالات کے یہ جواب نہیں ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اس کے آئین میں قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی ممانعت ہے۔ علما کو یہ بتانا ہے کہ مذہب کے علاوہ اجتماعیت کی کوئی دوسری اساس، دینی نقطہ نظر سے جائز ہے یا ناجائز؟
اس کے بعد اگلا مر حلہ آئے گا۔ اگر یہ نکات درست ہیں تو پھر جوابی بیانیے کی کوئی ضرورت باقی نہیں۔ اس کے بعد دینی حوالے سے لازم ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں کی نصرت کی جائے جو اسے درست سمجھتے ہیں۔ اگر غلط ہیں تو واضح کیا جائے کہ کیوں؟ علما کو یہ سمجھانا ہو گا کہ اس بیانیہ میں قرآن و حدیث سے استدلال میں کیا غلطی کی گئی ہے؟ آخری مرحلے میں انہیں ایجابی طور پر یہ بتانا ہو گا کہ جوابی بیانیہ کیا ہے؟ قرآن و سنت اس باب میں ہمیں کیا رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
اب مذمتی بیانات کو بیانیہ قرار دینے سے بات نہیں بنے گی۔ مسلمان معاشروں کو اب اس ابہام سے نکلنا ہے اور ریاستوں کو بھی۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، ریاستی اور معاشرتی سطح پر معاملہ بدستور غیر واضح ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسے اصل جگہ سے مخاطب نہیں بنایا گیا۔
بشکریہ مصنف