نسیم سید
مست توکلی کوں تھا ؟ مجھے شا ہ محمد مری کی کتاب ” مستیں توکلی ” سے پہلے صرف ایک اچٹتی سی واقفیت تھی اس کے حوالے سے ۔ لیکن اس کتاب نے مست اور سمو کے لا فا نی عشق ، اس عشق کی کسی وجود میں حشر سامانیاں ، شا دمانیاں ، بربادیاں اور ان سے نمو پانے والی شا عری نے کسی الگ اور انوکھے احساس سے متعارف کرایا وہی احسا س جس کے لئے شا ہ محمد مری نے کہا ہے ” مین ان پچیس سالوں میں مست پر لکھتے ہوئے ہر لمحہ تڑپا ہوں ، ہر صفحہ کو لکھتے وقت ڈوبتا رہا ہوں ، دل کا ڈوبنا جانتے ہیں نا آپ ؟ ” اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میرا بھی دل نہ جانے کتنی بار ڈوبا ۔ مستیں توکلی اور سمو کی محبت کے گیت گنگنا تی بلو چستان کی فضا ئیں محبت کی روایات کی یوں پا سداری کررہی ہیں برسہا برس سے جیسے ان کا سب سے بڑا خزانہ یہی ہو۔چا ندنی راتوں میں مست توکلی گھروں کے بڑے بڑے سے چو باروں میں کہیں سے آنکلتا ہے جیسے اور اس کے کلا م کے جام پہ جام پئے جا تے ہیں اتنے جام کہ جب تک اس کلا م کے نشہ سے دھت نہ ہو جا ئیں جی نہیں بھرتا محفل میں موجود افراد کا ۔سفید پگڑیوں کے ہر پیچ میں اسی محبت کے پیچ و خم ہیں جو مست توکلی انہیں تحفہ میں دے گیا ہے ۔ گھروں میں مست توکلی کے گیت بزرگ اک عالم جذب میں یوں گا تے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بغیر بتا ئے بھی محبت کے حقیقی روپ کو پہچا ن لیتے ہیں ۔ شا ہ محمد مری کو بھی ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی مست توکلی نےڈ گریوں میں لپیٹ کے دئے جا نے والے ہوش و خرد سے بیگانہ کردیا ۔ یہ وہ نشہ تھا جو آجتک شا ہ کے وجود کا حصہ ہے اورآج تک اتر نہ پایا لہذا وہ اپنی کتاب “مستیں توکلی ” میں اپنے بارے میں لکھتے ہیں ” یہ بلو چستان کے مری قبا ئلی علا قہ میں بسا دور افتادہ گا ئوں ” ما وند ” ہے ۔ اسکے موسم گرما کی چا ندنی سے راتیں نہائ ہوتی ہیں ۔ اسی چاندنی راتوں میں اکثر ایک گھر کے آنگن میں “توکلی مست ” کا نغمہ گو نجا کرتا تھا ۔ ایک باپ تھا جو اپنے خوش قسمت بچوں کو اس دھرتی کے عظیم فلسفی شا عر توکلی کا کلام گاکر سناتا تھا ۔ کیا اس وقت وہ اس بات سے آشنا تھا کہ مست کاکلام ان بچوں کے لئے فقط ایک میٹھی لوری ہی نہیں رہے گا ؟ کیا وہ یہی چا ہتا تھا جو بعد میں ہوا ؟ ان میں سے ایک بچہ اپنے دل میں اس شا عری کا ایک ایک حرف ، ا س کی تما مترگہرا ئیوں کے سا تھ رقم کرتا جا رہا تھا ۔ سو چتا ہوں کہ روایتی ڈگری والے تہذیبی شعور کو کے تعلق کو بہت بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا رہا ہے ” گویا مست کی شا عری سموکے ذریعہ فلسئہ محبت کی حقیقت بیان کرتی ہے ۔ محبت جسم کے طواف سے الگ طریقت ہے، آگہی ہے ، وجدان ہے ، عشق کا وہ وجدان جس کے لئے میر نے کہا “عشق بن یہ ادب نہیں آتا ” مست کی محبت ہر قسم کی تفریق اور ہر بندش سے آزاد ہے بس ایک ” اس ” کا خیال اسکی کل کا ئنا ت ہے ۔ مگر یہ دوسو سال پہلے کا مستیں توکلی کون تھا ؟ اس کی سموکون تھی؟ اس کی فکر کیا تھی ؟اس نے تہذیبی شعور کی کیسے ابیا ری کی؟
میں نے بھی اکثرسو چا تھا ، اور شا ید آپ بھی سو چ رہے ہوں ۔ سمو مست کی محبوبہ تھی ، ایسی محبوبہ جس کے لئے وہ لکھتا ہے کہ تیری دیوانگی میں صحرا صحرا گھوم کے میرے تلوے اونٹ کے پیر جیسے ہو گئے ہیں ۔ اس کی تفصیلا ت تو شا ہ محمد مری کی کتاب ” مستیں توکلی “میں ملیں گیں لیکن میں مختصر اً مست اور سمو کے حوالے سے ایک متنی حوالہ پیش کرتی ہوں یہاں ۔ شا ہ محمد مری کے مطا بق مست توکلی دوسو برس قبل کے بلوچ سماج کاوہ شا عر ، فلسفی اور دانش ور تھا جو دنیا وی لحاظ سے ان پڑھ تھا ۔ اس نے انسا ن کو، محبت کو ، زند گی کو ان سب سے وابستہ فلسفے کو کتا بوں سے سیکھنے کے بجا ئے اپنے تجربات سے سیکھا اور اپنی محبت میں سمجھااور پڑھا ۔ مست اس وقت کے خستہ حال بلوچ سماج کا ایک فرد تھا ، بلوچ قبائل کھتی باڑی اور مویشی بانی کرتے تھے جو خاندان کی کفالت کے لئے اکثر نا کا فی ہوتی لہذا بلوچ قبائل اکثر ایک دوسرے پر حملہ کرکے مال غنیمت سے اپنی ضروریات پوری کرتے ۔مست توکلی نے ہوش سنبھالا تو اس قبائلی وحشت کے درمیاں گھر اپا یا خود کو اس دکھ ، اس وحشت اس افرا تفری کو اس نے دل کی گہرا ئیوں سے محسو س کیا ۔ مستیں جنگجو نہیں تھا خون ہ بہان اور خوں بہا لینا اس کی فکری روایات کے خلا ف تھا اس کے پا س تو صرف دو ہتھیار تھے ایک ” محبت ” اور دوسرا ” شا عری ” لہذا اس نے اپنی شا عری کی تلوار پر سان دھر ی اور مصروف جنگ ہو گیا ان جنگوں کے خلا ف۔ اس تلوار پر اس نے محبت کی سان دھری تھی ایسی سان کہ اس کا ہروار کاری تھا وہ نفرتوں کو کو کاٹتا اور زخموں کو محبت کے گا ز سے لپیٹ کے انکو شفا یا ب کرنے میں عمر بھر مصروف رہا ۔مستیں کا پیغام محبت تھا اور اس محبت کے پرچم کو اس نے سمو کے نام سے آرا ستہ کیا ۔ سمو اس کی فکر کےپرچم کاچاند تھی وہ اس کاسبز رنگ تھی ، سمو محبت کا ، استقامت کا ، قربانی کا ، حق کا استعارہ تھی ۔ حق پر مجھے شاہ محمد مری کی زبانی سنی ہوئ ایک داستان یاد آئ وہ سنا تی چلوں ۔ مستیں کے تعلق سے میں کچھ سوالات کررہی تھی ان سے تو انہوں نے بتا یا ” مستیں توکلی کےگا ئوں سے سو میل کے فاصلے پر ایک بستی تھی جس کے افراد گو بلوچی زبان نہیں بولتے تھے لیکن مست کی کرامات کے قا ئل تھے انہوں نے مست سے اس فیصلہ میں شرکت کی درخواست کی جس پر دوبھا ئیوں میں نا اتفا قی چل رہی تھی کہ زمیں کس کے نام ہو اور قرعہ اندازی کے ذرِیعہ اس کا فیصلہ ہونا تھا ۔ مست نے یہ درخواست قبول کرلی ۔ جب قرعہ اندازی کے وقت دو پرچی ناموں کی ڈالی جانے لگی تو مست نے سوال کیا ” دوپرچی کیوں ڈال رہے ہو ؟ وہ لوگ حیران ہوئے کہ فیصلہ دو بھا ئیوں کا ہونا ہے تو یہ کیسا سوال ہے ۔ تب مست نے کہا سمو کے نام کی پرچی کہاں ہے اس کا ونڈ ادا کرنا ضروری ہے ۔ دراصل ونڈ Wand کے معنی حق کے ہیں بلو چی زبان میں اور مست ہر بٹوارے ، ہر زمیں ، ہر جا گیر ، ہر فصل میں پہلے عورتوں کا حق نکالنے کا قا ئل تھا ۔ شاہ محمد مری کی قائم کردہ خواتیں کی بہبود کی تنظیم “سمو راج وانڈ موومنٹ ” میں ونڈ کا لفظ مست کے خواب کی تعبیر ہے ۔ بات مست کی شا عری کے حوالے سے ہو رہی تھی یہ چھوٹی سی مثال گو جملئہ معترضہ جیسی ہہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکا مست کی فکری وسعت کو سمجھنے کے لئے ۔ اس نے دوسو برس قبل ایسی زندہ شا عری کی کہ آج بھی یہ شاعری عالمی ادب کا اہم خزانہ ہے ۔ اس شا عری کے حوالے سے یوں تو ں تو شا ہ محمد مری نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت خوبصورتی سے لکھا ہے لیکن اس ایک جملے میں اس حسن کو تقریبا سمیٹ لیا ہے ” مست کی شا عری تو زرتشی بلو چوں کی مقدس دا ئمی آگ ہے جس میں وہ ساری زندگی اپنی روح ، اپنے دل اور اپنے وجود کی ہڈیاں توڑ کر پھینکتا رہا ” مست کا اپنا کوئ وجود نہیں تھا اس کا اصل ، اس کا وجود اس کی روح اس کی ” سمو ” ہے ” سمو مست کے نظام شمسی کی سو رج ہے ” ۔ یہاں سمو پر بات کرنے سے پہلے میں ایک اور بیان شا ہ محمد مری کا رقم کرنا چا ہونگی محبت کے حوالے سے ” لو گ محبت کو ایک کرہت بھرا نام دیتے ہیں ۔ “عشق مجا زی ” اور محض دامن مہر کے بد طینت کیڑے مکوڑے ہی ایسا نہیں کرتے بلکہ میں نے آ سمان شعر و ادب تک کو اس منحوس غلطی سے آلودہ دیکھا ہے ارے بھئی عشق بھی کبھی مجا زی ہوتا ہے ؟ سچ بھی کبھی مجا زی ہوتا ہے ؟ حسن بھی کبھی مجا زی ہوتا ہے ؟ دل کرتا ہے نا قابل تقسیم محبت کی مجا زی گیری اور حقیقی پن دونوں کو اکٹھا کرکے ان کبیر وصغیر دا نش وروں کی عقل کے منہ پر شرا پ سے دے ماروں ۔ بھئی یا تو لفظ محبت ، مہر ، عشق استعمال ہی نہ کرو ۔ اور اگر کرلیا تو جان لو کہ یہ لفظ خود کا فی ہے ۔ کامل ہے ۔ اسے مجا زی حقیقی کے چمچوں ، بدرقوں اور با ڈی گارڈ کی کوئ ضرورت نہیں ” ہو بہو یہی خیال مست کا رہا ہوگا محبت کے بار ےمیں وہ محبت میں ہر تفریق ہر شناخت ہر سرحد اور تمامتر ریت رواج سے بیگانہ تھا ۔” کوئ فلسفہ نہیں عشق کا جہاں دل جھکے وہیں سر جھکا ” مست بھی ایک شام مو سلا دھار بارش سے بچنے کے لئے سمو کے جھونپڑے میں پنا ہ گزیں ہوا اور پھر وہیں کا ہورہا ۔ مست ایک چرواہا تھاپیشے کے لحا ظ سے مگر ذات کا فلسفی شا عر تھا ۔ آپ کہیںگے فلسی شا عرکی کو ئ ذات کب ہوتی ہے ؟ مگر میرے خیال میں ہوتی ہے۔
سو یہ ذات کا شا عر موسلا دھار بارش سے بچنے کے لئے کو ئ جگہ تلا ش رہا تھا کہ ایک خیمہ نما گھر نظر آیا ۔ اور اس نے اس در پر دستک دے دی ۔ سمونے ترس کھا کے مسافر کو ایک چٹا ئ اورجگہ فراہم کردی ۔ سمو کی اس وقت نئ نئ شا دی ہوئ تھی اور اس کے بدن کی باس میں رنگیں لباس کی سترنگی اس کے حسن کو نشہ آور بنانے کے لئے کا فی تھی ۔ ” شام کا دھندلکا تھا ۔ معطر جڑی بوٹیون کی بھیگی خو شبوئیں تھیں ، پر کیف ہوا کے با غی جھونکے تھے، پھوار پڑرہی تھی ، اچانک تیز ہو ائیں سر سے پا ک دوپٹہ اڑا لے گئیںاور حسن وجوانی کی ملکہ کی زلفیں ہوا میں لہرانے لگیں ۔ اس دن اس نے بال کھول رکھے تھے ۔ لہراتے سیاہ بادلوں پہ بارش کے ننھے قطرے تھے اور اوپر سے بجلی کی چمک ۔ قطر ے قوس و قزح بن گئے تھے ” اور توکلی پلک جھپکنا بھول گیا \باد بر زلف تو آمد شد جہاں برمن سیاہ ہواتمہاری زلفوں پہ آئ اور جہاں مجھ پر سیاہ ہوگیا ۔ اور یوں ” بلو چستان میںمحبت کا عالمگیر چاند آنا ً فا نا ً چو دھویں کا ہوگیا ” ا س رات مست سویا نہیں پوری رات اس منظر کو نگا ہوں میں بسا ئے بیٹھا رہا ۔مست کا ذہن اس کا دل اس کی روح ا س کی سو چ اس کی شا عری ایک نکتہ پر رک گئے ۔ ایک مرکز پر ٹہر گئے ۔ وہ خود کو وہیں چھوڑ کے اٹھ تو آیااس در سے مگر پھر زندگی بھر سمو کے علا وہ اس نے نہ کچھ سو چا نہ دیکھا نہ جانا ۔
مگر یہ وہ بے خبری ہے جو انسان کو کا ئنا ت کے تما م اسرار و رموز بتا اور سکھا جاتی ہے یوں یہ عا شق فلسفے کی تما م پتھریلی وادیوں میں ننگے پیر گھومتا اور اپنے اشعار میں ان کو گھولنے میں مگن ہو گیا ۔ پرسوں میں باغارکے ڈھلوانوں سے اتر منجھر ندی کو پا پیادہ پار کیا حاجی جائیں حج کو ، میں سمو کے دیدار کو جاتا ہوں ۔۔ نیکی اور تقویٰ کو رندی سے کیا تعلق کجا وعظ کاسنا ، کجا ستا ر کا نغمہ شا ہ محمد مری نے اپنی کتاب ” مستیں توکلی ” میں صرف مست توکلی اور اسکی محبت ، مست کی سمو اور اس کی شاعری اور شا عری کے تراجم ہی نہیں پیش کئے ہیں بلکہ اس ایک جذبہ کی گہرا ئی میں جاکےانسان اور سماج کے تعلق سے اپنے اس خواب کو بھی سطر سطر رقم کردیا ہے جس نے ڈاکٹر شا ہ محمد مری کو عمر بھراسی بے چینی میں مبتلا رکھا ، اسی آگ میں جلا یا ، وہی خون رلا یا جو مستیں کا مقدر تھا ۔ انکی کتاب ” بلوچ سماج میں عورت کا مقام ” میں ہم اسی طرح شاہ کو عورت کی تذلیل ، اسکی بے وقعتی ، اس کی تکا لیف پر تڑپتا دیکھتے ہیں جیسے مست اپنی سمو کے لئے تڑپتا تھا ۔ مست کہتا ہے ۔ غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں نے میری محبو بہ کو گھر سے بہت دور چرا گاہوں پر روانہ کیا ہے وہ ننگے پیر ہے ، اور چٹانوں ، پہاڑوں اور میدانوں میں چلنے پر مجبور ہے پھر ایک اور نظم میں کہتا ہے میری دوست جھلسا دینے والے سندھ گئ ہے اس نے دور دراز علا قوں کا رخ کیا پیدل گھسٹی ہے میری محبوبہ اپنی ہم عمروں کے سا تھ بول نامی ناک کا زیور اس کی ستواں ناک میں تپ جاتا ہے اس کے نا زک بدن کو گرم لو مار دیتی ہے اور شا ہ محمد مری کہتے ہیں “CEDAW دوسو برس کے بعد بھی وہ فقرہ نہ کہہ سکا جو ہمارا دوراندیش مست کہہ گیا ۔ “میری ماہ جبیں نا زک محبوبہ بکریا ں چرانے کے لئے تو نہ تھی (اس سے تو معا شرے کو بڑے بڑے کام لینے چا ہئے تھ(انسان ہر دور میں مشقت کرتا ہے ۔ یہ اس کے انسان ہونے کی پہچان ہے ۔ پرابلم صرف اس جگہ آتی ہے جب اس کے مشقت کو تسلیم نہ کیا جائے ۔ مست نے محض ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار سمو کے توسط سے بلوچ عورت کی مشقت کو تسلیم کیا ۔ اس مشقت کی شدت کو نا پا ، تولا ، اس سے نجات کی خواہش ۔اس سے نجات کے لئے متبادل بتا ئے ۔ایک بہت ابتدا ئ طبقا تی سما ج میں یہ بات کرنا بھی بہت باریک دا نش وری ہے ۔مست عورت کے حالا ت کار کی سختی کو بیان کرتا ہے ۔مست ، سمو کی تکلیف پر نہیں کڑھتابلکہ وہ تو ان قوتوں کی نشا ن دہی بھی کرتا ہے جو سمو کا استحصال کرتی ہیں ۔ اسے مشقت کی بھٹی میں جھونکتی ہیں ۔جو سماج مست کی سمو کو ننگے پیر پہاڑوں ، ندی نالوں، چٹانوں پہ بھیڑ بکریوںکے لئے چرا گاہوں میں شب و روز بھٹکنے پر مجبور کرتا ہے وہ سماج و قوم اور وہ معا شرہ مست کی نظر میں بزدل ، کمزور ، محتاج اور غلام ہے ۔ بلا شبہ جب بھی بلو چستان میں عورتوں کی نجات کی تنظیم قا ئم ہوگی تو مست مقدس کانام سر خ روشنا ئ سے اس کے ” با نی ” کے طور لکھا جا ئے گا ۔ فکر مست کے “مست ” شاہ محمد مری جز میں کل دیکھنے والے مفکر ہیں ۔ مست کی سو چ کو اس کے دیوانگی کو ، اس کے عشق کو ، اسکی فریاد کو انہوںنے وسیع معنو ں میں سمجھا اور سمجھا یا ہے ۔ ہم اپنے اپنے ہیروکو تمامتر بر ا ئیوں سے پاک ، نیک تریں ۔ متقی وپرہیزگاراور انسانیت کے اعلی تریں مقام پر دکھاتے ہیں یہی رویہ اپنے اپنے قبائل اور اپنے سما ج کے حوالے سے ہے ۔
لیکن ہم سب انکی کتاب ” بلوچ سما ج میں عورت کا مقام ” جیسی کتاب کے مطالعہ کے بعد انکی فکر سے واقف ہو چکے ہیں وہ ہماری مروجہ رویات کی طرح اپنے ہر نا سور پر پٹی باندھ کے اسپر گلا ب چھڑک کے ” ما شا اللہ سب ٹھیک ہے ” کا دھوکہ نہ خود کو دیتے ہیں نہ ہی دوسروں کو ۔جب تک کسی زخم کو کرید کرید کے صاف نہ کیا جا ئے وہ اچھا نہیں ہوتا ۔ اسی طرح جب تک کسی برائ کو سطح پر نہ لا یا جا ئے اس کی جانکا ری نہ پیدا کی جائے اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا لہذا شاہ محمد مری نے بغیر کیسی خوف کے بلوج سما ج میں عورت کو اس کا مقا م دلا نے کے لئے ان تما م قدیم روایا ت کو گنوایا اور دکھایاجو بلوچی عورتوں کا ہر طرح استحصال کرتی ہیں ۔ ان کے دکھ کو انہوں ویسے ہی محسو س کیا جیسے مست اپنی محبوبہ کے دکھ کو محسو س کرتا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ شاہ محمد مری تو اپنے مرشد اپنے ہیرو مست توکلی کو بھی جیسا وہ تھا اسکی تمامتر خوبیوں اور خا میوں کے سا تھ تا ریخ وا دب کے اوراق میںاسے ویسا ہی دیکھنا چا ہتے ہیں ۔ انکی جھنجھلا ہٹ ا س وقت عروج پر نظر آتی ہے جب مست کو صوفی بنا نے کے پیش کئے جانے کی کا وشیں اپنی خدمات انجام دینے کے زعم میں مست توکلی پر کا نفرنسسز ممنعقد کرکے اسے ایک دیوتا بنا نے کے عزم میں پیش پیش نظر آئیں انہیں “سرکاری سرداری دانشوروں نے ہر عا شق کو کھینچ تان کرایک مجسم ملا بنا دیا ۔مست کو بھی ملا بنا ڈالا تھا ۔
فیوڈل اخلا قیات کی تھالی چا ٹنے والے دانش وروں نے توکلی کے بجا ئے اسے ” طوق علی ” بنا ڈالا تھا ۔ اس وقت کے نظر یاتی اور زرخریددونوں دانش وروں نے اس پیر ومرشد مست کو بھی مولوی ثا بت کردیا جس نے اپنی شا عری میں بغیر کسی ” جوائنٹ انویٹی گیشن ٹیم ” کی تفتیش کے اپنے بھنگ پینے کا تذکرہ کیا تھا ۔ملا سا زی کے جذبہ سے سر شار دانش وروں نے مست کی وہ شا عری ہی حدف کردی جو اسے زکوٰۃ و عشر کی وصولی کا حق دار بنانے میں مانع ہوتی ” شاہ محمد مری جیسا جی دار لکھاری ، ان جیسا کالے کو کالا اور سفید کو سفید کہنے والا حق گو آج کے مصلحتون کے اسیر دور میںملنا مشکل ہے ۔ ذکر اپنے ہیروکا ہو یا اپنی رایات کا یا اپنے سماج کے بے کس عورت کا ۔ جوسچ ہے وہ ہے۔ بلوچ سماج میں عورت کی نجا ت کے علم بردار شا ہ محمد مری یہ پرواہ نہیں کرتے کہ جب وہ انگلی رکھ رکھ کے اپنے سما ج کے گھن کھا ئ روایات کی نشاندہی کرینگے تو انکا اپنا معا شرہ اور اس کی روایات کیا انہیں معاف کردینگی؟برسہا برس سے ناک کا ٹ لینے ، چہرہ جلا دینے ، کا روکا ری کے نام پر قتل کردئے جانے جیسی بربریت برداشت کرنے والی عورت کے لئے جو جملہ شاہ نے مست کے لئے لکھا ہے وہ دراصل میں انکے لئے لکھنا چا ہونگی کہ انکی ہر تحریر میں یہ دکھ تبدیلی دیکھنے کی خوا ہش میں تڑپتا نظر آتا ہے ۔
” بلا شبہ جب بھی بلو چستان میں عورتوں کی نجات کی تنظیم قا ئم ہوگی تو شاہ محمد مری کانام سر خ روشنا ئ سے اس کے ” با نی ” کے طور لکھا جا ئے گا ” تبدیلی کی تڑپ ، تمام انسانوں کو بلا جنس کی تفریق کے یکساں حقوق حقوق ملنے کی تڑپ۔ اپنے ہیرو ز کو اور مستیں توکلی کو جیسے وہ تھے ا نہیں انسان سمجھ کے تما متر خوبیوں او رخا میوں سمیت چا ہنے دئے جانے کی تڑپ اس جذبہ کی عمیق گہرا ئ کی گواہ کتاب کی سطر سطر ہے لیکن انکے دل میں عورت کے لئے جو احترام ہے ۔ اسکے حالا ت میں تبدیلی کی جو شدید خواہش ہے اور اس کے لئے انکے قلم نے جو جدو جہد کی ہے وہ انکی کتاب ” مستیں توکلی ” میں بیشتر صفحات میں موجود ہے اور ہر دوسرا ورق اس کی پوری گواہی ہے ۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ۔ ” اس سلسلہ میں سمو کی زبانی ایک مصرع سے ذیادہ بات کو ئ بلو چ کرہی نہیں سکتا ۔ آپ عورت کے مسائل پر پوری کتاب لکھئے میں مست کا ایک مصرع لا تا ہوں ” عورت ہوں اس لئے اپنے کسی قول کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہنے دی گئ ” شا ہ محمد مری کی کتاب ” مستیںتوکلی ” صرف حسن و عش، شا عری یا عورت اور وحشی روایات تک محدود نہیں بلکہ تما م استحصا لی قوتوں کے خلا ف فکری تحریک اور انسانوں کی خودشحالی ، ترقی اور امن کی اہم دستا ویز ہے ۔ اس دستا ویز میں مستیں توکلی کی حیران کن سرشا ری بخشنے والی نظموں کے تراجم بھی ہیں اور اس کی اوریجنل شا عری بھی ہے جوکہ یقینا ً نہایت قیمی اثاثہ ہے ہمارے ادب کا ۔
دل کی آنکھ نہیں ہوتی یہ وجود کی جبلتوں کا نمائندہ ہے ،وجود کی جبلتیں خارج کے ہم جنس سے جڑنا چاہتی ہیں ۔یہ دو جسموں کے درمیان مادی حقیقت ہوتی ہے ،جن کے درمیان دماغ عمرانی معاہدہ کرواتا ہے ،اچھا دماغ خارج کی ہر حقیقت کو جاننے کی وجود کے سگنل سسٹم کے ذریعے دل کو ترغیب دیتا ہے ،دماغ وجود کی جبلتوں کو کان سے سنتا ہے اور خارج کے سماج اور پوری کائنات کو وجود کی لطیف انرجی سے دیکھتا ہے ،، دماغ جب ان دو وجدوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے تو دونوں کے وجود کی جبلتیں تبدیل ہوجاتی ہیں ،پھر دونوں وجود اپنے اندر کی لطیف انرجی کو بیدار کر کے جبلتوں کے وجود پر کمانڈ کرتے ہیں تو حقائق کے پردے چاک ہونا شروع ہوجاتے ہیں ،پھر وجود کی مادی جبلت سانوی حثیت میں چلی جاتی ہے اور لطیف مادی جبلت سماج اور کائنات سے جڑ جاتی ہے پھر وجود کی لذتیں لطیف مادی لذتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں ، پھر وہ دو وجود اکھٹے بھی ہوں تو لطیف مادی لذت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونے دیتی اگر نہیں مل سکے تو پھر بھی وہ لطیف انرجی اور احساس کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں ،بلوچ اور بلوچنی کی محبت لطیف روح کا حصہ بن گئی ۔