(ارشد علی)
مارکیز نے کہا تھا کہ ادیب کچھ بھی لکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے قاری سے اسے منوا بھی سکے۔ مارکیز کی کہی ہوئی یہ بات جہاں ہمیں ادیب کے حاصل اظہار کے وسیع کینوئس کا پتہ دیتی ہے وہی قاری کی جانب سے قبولیت کو تحریر کی کامیابی کا حتمی معیار بھی قرار دیتی ہے۔ معاصر عہد میں قاری کی بالغ نظری سے انکار کرنا ممکن نہیں لہذا آج کا قاری جنوں، بھوتوں اور پریوں کی کہانیوں کو نہ تسلیم کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی انہیں متن ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔ بلکہ وہ سفاک سچائی کو اظہارئیے میں لانے کا خواہش مند ہے جس میں اس کے تلخ شب و روز کا عکس ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی حسیاتی اور جمالیاتی تسکین کا سامان بھی طلب کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے ادیب کی ذمہ داریاں بدرجہا بڑھ چکی ہیں اور قاری کی ان توقعات کو پورا نہ اترنے اور معروض سے کٹے ہونے کے باعث بیشتر ادیب قبولیت حاصل نہیں کر پاتے اور ہمیشہ تاریکیوں میں رہ کر دائمی اندھیروں میں غرق ہو جاتے ہیں۔ اگر معدودے چند ادیب ہمیں موجودہ عہد میں اس معیار پر پورے اترتے دکھائی دیتے ہیں تو نعیم بیگ کا نام ان میں اولین نمبروں پر درج کیے جانے لائق ہے ۔ جس کا ثبوت ان کا حال ہی میں اشاعت پذیر ہونے والا افسانوی مجموعہ ” پیچھا کرتی آوازیں” فراہم کرتا ہے ۔ نعیم بیگ اپنے موضوعاتی تنوع اور مخصوص اسلوب ، جو نہ تو علامتوں اور تجریدیت سے بوجھل ہے اور نہ ہی سپاٹ اور سادہ بیانیے کے مماثل ہے بلکہ ان کے بین بین اپنی تشکیل کرتا دکھائی دیتا ہے، کے باعث معاصر افسانوی منظر نامے میں اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔ سماجی اور معاشرتی مسائل کی جھلک، حقیقت نگاری، ترقی پسندانہ فکر سے جڑت، فرد کی نفسیات کا عمیق اور گہرا مشاہدہ ، اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی نظام کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل نعیم بیگ کے افسانوں کی اساس ہیں اور وہیں ہمیں ایک بیدار مغز اور ملکی و عالمی حالات سے آگاہ صاحب بصیرت افسانہ نگار کے وجود کا پتہ دیتے ہیں۔ نعیم بیگ بطور کہانی کار پاکستان کے حوالے سے خاصے مضطرب دکھائی دیتے ہیں جس کا ثبوت ان کے افسانوں میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں کہیں وہ دہشت گردی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران اورسماجی شکست و ریخت کو متن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ” کئی ایک برسوں سے مسلسل جنگ کی صورت حال میں علاقائی اقدار ، رسم و رواج، مذہبی رواداری حتی کہ انسان دوستی تک عنقا ہو چکی تھیں۔ آج وقت کی لگام صرف دولت کے ہاتھ میں آچکی تھی اور وہی کاروبار زندگی چلا رہی تھی۔” (افسانہ : جہاز کب آئیں گے ) “شاید یہ آخری قافلہ تھا جو اپنے پیچھے گاؤں میں صدیوں کی ہنستی بستی زندگی کو چھوڑے اپنی بھیانک ویرانیوں کی تلاش میں نکل رہا تھا۔ ” (افسانہ : جہاز کب آئیں گے ) “سواری کی کمی نے ایک ہڑبونگ مچا رکھی تھی۔ سواریوں کے کرایے ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکے تھے” (افسانہ : جہاز کب آئیں گے ) افسانہ ہذا نہ صرف ٹوٹتی اقدار اور تباہ ہوتے سماجی ڈھانچے کو متن کر رہا ہے ۔ بلکہ اختتام تک آتے آتے یہ ایسی المیہ داستان کی صورت اختیار کر جاتاہے جس کا ستر سال سے اس ملک کا ہر باسی کردار ہے۔ اور وہ یہاں پہلے دن سے ہی مہاجرت اور آئی ،ڈی، پیز کی زندگی گزارنے پر مجبور، اور ان اڑتے پرندوں کا منتظر ہے جو امن کے پیامبر نہیں بلکہ بھوک مٹانے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ میر ے خیال میں آئی ڈی پیز کے مخصوص پس منظر پر یہ اردو میں لکھا گیا پہلا افسانہ تھا۔ جو نعیم بیگ کی دور رس نگاہ اور گہرے عصری شعور کا پتہ دیتا ہے۔ اس سماجی شکست و ریخت کے علاوہ نعیم بیگ ہمیں قربانیوں اور عزم کی ان داستانوں سے بھی روشناس کرواتے ہیں جو ہمارے جوانمرد سپاہی مادر وطن کی خاظر اپنی جانوں کا مسلسل نذرانہ پیش کرکے دئیے جا رہے ہیں۔ ” مادر وطن پر قربان ہونے والے افسر اور جوان تو بہت ہیں اور وہ یہ کارنامہ رہتی دنیا تک سر انجام دیتے رہیں گے اور شہید و غازی ہوتے ہوئے اپنے نام زندہ و جاوید کر جائیں گے۔ ہم نے یہ جنگ نہ صرف ان دہشت گردوں کے خلاف جیتنی ہے ۔ بلکہ اس ملک کی آنے والی نسلوں کو ایک سنہری تاریخ بھی دے کر جانا ہے۔” (افسانہ : چھتا) لیکن ان جوانوں کی قربانیاں کیوں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہیں اور یہ داستان الم کیوں جاری و ساری ہے اس کا جوا ب بھی افسانوی متن ہمیں دیتا ہے۔اور ا س سارے قضیے کی بنیادی جڑ اور سچائی کو یوں آشکار کرتا ہے۔ ” اب اس علاقے کے کئی ایک حکومتی محکمے اپنی روایتی نالائقی اور لالچ کی وجہ سے دہشت گرد تحریک کی درپردہ حمایت کر رہے تھے ۔” (افسانہ : چھتا ) افسانہ آخری معرکہ میں زیریں سطح پر نعیم بیگ اس سچائی کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں جو اس سارے معاملے کو حل کرنے کا باعث ہو سکتی ہے اسے ہم ان کی خواہش سے تعبیر کریں یا حتمی فیصلہ قرار دیں اس معاملے میں کوئی تبصرہ کرنے سے تاوقت حال گریز کرتاہوں۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ دہشت گردی کا ناسور صرف اور صرف اسی صورت میں جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔ ” لیکن اب لگ رہا تھا کہ فوج نے اپنی طاقت اور سوچ کو مجتمع کر لیا ہے۔” (افسانہ : آخری معرکہ) اس کے علاوہ اس جاری جنگ کے وہ اندوہناک مناظر جو اس دھرتی اور اس ملک کے باسیوں کو آئے روز دیکھنے پڑے اس غم و الم کی داستان اور کرب انگیز مناظر کو افسانوی متن میں یوں جگہ ملتی دکھائی دیتی ہے۔ ” دور کہیں فضاء میں جنگی جہازوں کے بم گرانے کی آوازیں اور زمین پر گولیاں چلنے کی آوازیں ایک ساتھ مل کر اپنی غم ناک دھنیں بجا رہی تھیں ۔ جنگ اپنے عروج پر تھی اور زمین اپنا خراج انسانی خون کی شکل میں وصول کر رہی تھی۔” ) افسانہ : آخری معرکہ ) ” دور دور تک انسانی لاشیں اور گاڑیوں کے ادھ جلے حصے اور بموں کے شیل کے ٹکڑے پھیلے ہوئے تھے۔ درختوں کی کئی ایک بڑی شاخیں ٹوٹ کر نیچے گر چکی تھیں۔ بظاہر انسانی جان گاؤں کے اس حصے میں نا پید ہو چکی تھی۔ البتہ انہوں نے چند ایک کتوں کے بھونکنے کی آواز ضرور سنی۔” ) افسانہ : آخری معرکہ ) دہشت گردی کے علاوہ نعیم بیگ کے افسانوں میں ہمیں اس جنوب ایشیائی ملک کہ حوالے سے کہیں کہیں یوٹوپیائی منظر کشی بھی نظر آتی ہے۔ جس میں وہ اس ملک میں مساوات، امن ، بھائی چارے کا حامل ایک غیر طبقاتی معاشرہ قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ جہاں ہر انسان کو مساوی مواقع حاصل ہوں ۔ صحت تعلیم اور روزگار پر تمام کا حق تسلیم شدہ ہواور آقا و غلام کی تفریق پر مشتمل اس سماج کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا ہو۔ افسانہ ” نیا سماج ” اور ” تسخیر” اسی فکر کے حامل ہیں ہاں یہ اضافہ ضرور کرنا چاہوں گا کہ انسانی رسائی اور نا رسائی کی داستان سے مکالمہ کرنے کے باعث افسانہ ” تسخیر ” کہیں زیادہ وسیع کینوس کا حامل ہے۔ ” اگر ہم مذہب کی اساس کو لمحہ بھر کے لیے بھول جائیں اور صرف منطق و استدلال کی زبان استعمال کریں تو تب بھی انسانی عقل کی رسائی لا محدود ہے۔” (افسانہ : تسخیر) اہم بات یہ ہے کہ عقل و دانش کی اس لامحدویت کی حاکمیت کا دور غیر طبقاتی سماج کے قیام کے بعد ہی عمل میں لایا جا سکا اور افسانوی متن بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے وہیں یہ حقیقت بھی بیان میں آتی ہے کہ کائناتی تسخیر کا عمل ہر لمحہ جاری و ساری ہے اور ابھی تک انسانی عقل کا دائرہ لامحدودیت کی حد وں کو نہیں پہنچ پایا ہے۔ ” کیا علم و دانش کی وسعت اور آگہی کی رسائی ابھی دور ہے یا الوہی علوم پر غیر مرئی قدغن ہے۔” (افسانہ : تسخیر ) نعیم بیگ کے افسانے جہاں ان خواہشات سے روشناس کرواتے ہیں جو اس خطے کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے ان کے دل میں موجزن ہیں وہیں وہ اس راہ میں حائل مشکلات بھی گنواتے جاتے ہیں اور یہ بات ہر ذی شعور کے علم میں ہے کہ پاک بھارت دشمنی اس راہ کا ایک بھاری پتھر ہے جو دونوں ملکوں کی ترقی کی راہ میں روکاوٹ ہے۔ لیکن “باؤنڈری لائن” پر ایک دوسرے کے سامنے سینہ تانے ایک دوسرے کو واصل جہنم و نرک کر نے کو تیار کھڑے صابر علی اور نریندر سنگھ کشمش ، چنے اور پلِے تقسیم کرکے ہمیں وہ راہ ضرور دکھا جاتے ہیں جو محبتوں کو ضرب دینے کا باعث بن سکتی ہے۔ اب کون جانے وہ دو پِلے اس دھرتی کے ہی بیٹے نہ ہوں۔؟؟؟ نعیم بیگ کو ایک ایسا کمال حاصل ہے جو ان کی فن افسانہ نگاری پر کامل دسترس کا عملی نمونہ ہے کہ وہ روایتی افسانہ نگاروں کی مانند قاری کو چونکانے میں اپنی توانائیاں صرف نہیں کرتے ۔ بلکہ وہ فنی مہارت اور چابک دستی سے کہانی کو نت نئی تلمیحات اور اشاروں سے مزین کر دیتے ہیں۔ اور کہانی کا تمام تر منظر نامہ تبدیل کرکے قاری کی سوچ کو اس راہ پر ڈال کر آگے بڑھنے کو چھوڑ دیتے ہیں جو راہ ان کی متعین کردہ ہوتی ہے۔ افسانہ (لکڑی کی دیوار )اور (حلف)ایسی ہی کہانیاں ہیں جن میں ہمیں ان کی یہ مخصوص افسانوی دسترس اور سماج کا گہرا مطالعہ دونوں ہی چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔(خط استواء) نعیم بیگ کا ایک اچھوتا اور منفرد افسانہ ہے اور ان کے افسانوی مجموعے میں یہی افسانہ میرا پسندیدہ ترین افسانہ بھی ہے اگر اسے میں آنے والے دور کا نمائندہ افسانہ قرار دوں تو غلط نہ ہو گا کہ اس افسانے میں نعیم بیگ نے کمرے کی چار دیواری اور بستر کی ناہمواری پر دکھ و کرب کے ساتھ موت کے منتظر لوگوں کے لیے آواز اٹھائی ہے اور میرا یہ ماننا ہے کہ ان کی اس پکار پر جلد یا بدیر ہرذی ہوش کو لبیک کہنا ہی ہو گا ۔ کہ کسی کو موت کے انتظار میں کرب انگیز گھڑیاں گزارنے سے اسے زندگی سے مکت کرنا بہرحال کہیں زیادہ دانش مندانہ رویہ قرار پائے گا۔ اس کے علاوہ نعیم بیگ کی کہانیاں سماج میں جنم لیتے انسانی المیوں ، دکھوں اور تنہائیوں سے بھی روشناس کرواتی ہیں اب ان تنہائیوں کی وجہ فطرت کا جبر (زرد پتے) ہو یا اس کی وجوہات کے سوتے ہمارے گھروں کی چار دیواری سے ہی کیوں نہ پھوٹتے ہوں(ہوک / آہٹ) بات انسانی جست کی ناکامی کی ہو (ڈیپارچرلاؤنج ) یا فرد کی نفسیاتی کشمکش سے روشناس کروانے والی تحریروں کی (سائے کے پیچھے / پیچھا کرتی آوازیں) نعیم بیگ ہمیں ہر ہر موضوع کو کامل دسترس کے ساتھ متن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے افسانوی مجموعہ ” پیچھا کرتی آوازیں” ایسی نت نئی رنگینیوں کا حامل ہے جو سوچ کے نئے در اور دریچے وا کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کے جذبات اور احساسات کو بھی اتھل پتھل کرکے رکھ دیتا ہے اور قاری کو ان صفحات میں اپنا ماضی ، حال تو کہیں مستقبل دکھائی دینے لگتا ہے۔ میرے خیال میں مقصدیت سے بھرپور ادب کے تخلیق کاروں میں نعیم بیگ معاصر ادب کا ایک اہم نام ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ مستقبل میں بھی ان سے بہرا مند ہونے کا نا صرف موقع ہمیں میسر رہے گا بلکہ اردو ادب کی افسانوں روایت میں بھی نعیم بیگ کا نام افسانے کی آبرو مندی میں اضافے کا باعث بنے گا۔