معذور افراد کی بنیادی سہولیات کا فقدان اور چند اہم اور جائز مطالبات
از، ماہین خدیجہ
سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ آئین اس بارے میں کیا کہتا ہے؟1973 کا آئینِ پاکستان افرادِ باہم معذوری کے حوالے سے خاموش ہے – بظاہر اس میں ان کے حقوق غیر معذور افراد کے حقوق جیسے ہی ہیں – 12مارچ 1996 میں پاکستان نے حقوق و قوانین پر دستخط کیے ۔اگست2011 میں پاکستان نے عالمی معاہدہ برائے افرادِ باہم معذوری کے حقوق پر دستخط کیے – جس کا آرٹیکل 6 خواتین باہم معذوری کے متعلق ہے – جس کا خلاصہ یہ ہے ۱۔ تمام ارکانِ معاہدہ خواتین کے خلاف کیے جانے والے امتیازی سلوک کے بارے میں آگاہ ہیں اور اس کے خاتمے کے لئے کام کریں گے تاکہ وہ بنیادی انسانی حقوق سے استفادہ کر سکیں اور ایک خود مختار زندگی گزار سکیں – ۲۔ تمام ارکانِ معاہدہ خواتین باہم معذوری کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے تمام ضروری اور عملی اقدامات کریں گے۔ خواتین باہم معذوری کے حقوق معاشرے میں خواتین باہم معذوری ، اپنے خواتین ہونے اور معذوری کی وجہ سے دوہری پسماندگی کا شکار ہیں اور خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بنیادی انسانی حقوق جیسا کہ صحت ، تعلیم ، ہنر اور روزگار جیسی سہولیات سے محروم ہیں۔ اسقاطِ حمل ، تولیدی عمل سے جڑا حق ہے اور ماں بننے کے اس عظیم منصب اور محبتوں کی اس امانت داری سے محروم کرنا خواتین باہم معذوری کے لئے باعثِ تشویش ہے ۔ معذور افراد کے لئے نس بندی سے جڑی قانون سازی خواتین باہم معذوری کے تولیدی عمل کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے – معذور خواتین کے جنسی اور تولیدی حقوق اکثر رد کیے جاتے ہیں – انہیں اسقاطِ حمل اور نس بندی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے – معذوری سے جڑی معلومات کی غیر آگاہی کی وجہ سے انہیں والدین بننے کی صلاحیت کے قابل نہیں سمجھا جاتا – تولیدی صحت کی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اکثر معالج کی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ ان کے معذوری سے جڑے مخصوص حالات سے ناواقف ہوتے ہیں۔ کاروباری مراکز میں بھی معذور خواتین کو مناسب اور جائز طریقے سے شامل نہیں کیا جاتا اور ان کے حقوق تلف کیے جاتے ہیں اور انکی معذوری کی وجہ سے انہیں جنسی طور پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ صنف اور معذوری کی وجہ سے امتیازی سلوک خواتین میں شرح خواندگی میں کمی کا باعث ہے – عالمی اندازے کے مطابق افراد باہم معذوری کی شرح میں خواندگی تین فیصد اور خواتین باہم معذوری میں ایک فیصد ہے – معذوری ترقی سے جڑا مسئلہ بھی ہے کیونکہ معذوری غربت پر اثرانداز ہوتی ہے اور غربت کی وجہ سے معذوری بڑھتی ہے – موجودہ اندراج و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر آٹھ میں سے ایک فرد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے – 1998 کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی کا دو اعشاریہ چار فیصد افراد باہم معذوری پر مشتمل ہیں اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزریشن کے مطابق جو کہ کل آبادی کا دس فیصد حصہ ہے – ایک اندازے کے مطابق 66 فیصد آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جو دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ، صرف 28 فیصد تعلیم یافتہ اور 14 فیصد روزگار سے منسلک ہیں جبکہ 70 فیصد اپنے خاندان پر معاشی لحاظ سے انحصار کرتے ہیں – 49 فیصد معذوریاں کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے ہیں – 35 فیصد پیدائشی معذوریوں اور 14 فیصد حادثاتی معذوریوں کے مقابلے میں – پاکستان میں افراد باہم معذوری کا شمار زیادہ تر بے بس لوگوں میں ہوتا ہے – معذور افراد کو تعلیمی ، تربیتی مہارتوں اور روزمرہ کی زندگی گزارنے میں بے حد مشکلات کا سامنا ہے – معذور افراد کے لیے رکاوٹیں اور مشکلات : معذور افراد کے لئے رکاوٹیں اور مشکلات وہری مصیبت لاتی ہیں – یہ رکاوٹیں عام طور پر وہیل چیئرز کے استعمال کے لئے ڈھلوانی راستے کا نہ ہونا ، بریل کا نہ جاننا ، بصارت سے محروم افراد کے لئے آواز میں ریکارڈ کی گئی معلومات کا نہ ہونا بھی شامل ہے – اس کے علاوہ دیگر کئی رکاوٹیں ہیں جو کہ معذور افراد کی خود مختارانہ ، آزادانہ زندگی کو درپیش ہیں جن میں سب سے اہم معذوری سے جڑا تعصب ہے اور یہی رکاوٹیں کامیابی کے حصول سے جڑی توقعات کو پورا نہیں ہونے دیتیں – آپ نے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو صحت مند زندگی گزار رہے ہوتے ہیں پھر اچانک کسی حادثے کی نذر ہوجاتے ہیں ، ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور کچھ کے مقدر میں لکھی گئی عمر بھر کی معذوری زاد راہ بن جاتی ہے۔ معذورایک ایسا لفظ ہے جو کانوں میں پڑتے ہی پورے بدن میں لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ایسے لوگوں کو دیکھتے ہی ہماری حالت غیر ہو جاتی ہے . زبان پر ہمدردانہ الفاظ کے ساتھ اس حالت کے خوف کی وجہ سے استغفار کی تسبیح شروع ہو جاتی۔مگر اگلے ہی لمحے جب یہ لوگ نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ سے بہی اتر جاتے ہیں۔ معذور افراد معاشرے کے ڈس ایبل افراد نہیں ہوتے بلکہ انہیں ہمارے رویے ڈس ایبل کر دیتے ہیں. معذوری کی حالت میں اگر گھر کا ماحول اچھا مل جائے تو انسان بیماری سے مقابلہ کرلیتا ہے اگر ماحول اس کے برعکس ہو تو پھر زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور جسمانی معذوری کے ساتھ ذہن بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یعنی پھر جسمانی اور ذہنی دونوں قسم کی ڈس ایبلیٹی سے دوچار ہونا پڑنا ہے ۔۔ والدین اپنا خون پسینہ ایک کرکے انھیں تعلیم دلواتے ہیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر معاشی اعتبار سے خود کفیل ہوں اور والدین کی جسمانی مشقت کا کچھ صلہ ملے لیکن حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے معذور افراد ہر میدان میں پیچھے ہیں۔ آئین میں معذور افراد کا کوٹہ دو فیصد ہے لیکن پھر بھی انھیں ملازمتیں نہیں ملتیں اور اگر وہ میرٹ پر پورے اتر بھی جائیں تب بھی انھیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ھے بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بے روزگار ہیں جس کی وجہ سے وہ مانگنے اور سوال کرنے پر مجبورہوگئے ہیں۔ جائز اور اہم مطالبات سکولوں ، کالجوں، ہسپتالوں اور تمام پبلک مراکز میں ریمپس کی سہولت کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ معذور کی رسائی ان تک ممکن ہوسکے ایسے افراد کو سب سے پہلے ریمپس کی سہولت درکار ہوتی ہے. (ریمپس یا سلائیڈ اسے کہا جاتا ہے جس سے وہیل چیئر گزر سکے) ، تاکہ ان کو کلاسز لینے کے لئے اپر سٹوری پر جانے میں کوئی مسئلہ نہ ہو مگر یہ سہولت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں اگر ہوں بھی تو اتنے تنگ کہ وہاں سے گذرنا بھی ایک امتحان ہوتا ہے. اس کے ساتھ ایک اور المیہ بھی ہے کہ یہاں پر تعلیمی کاروبار کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری مافیا بھی کسی سے کم نہیں جنہیں سوائے اپنی ذات کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انہی تعلیمی اداروں میں معمولی تنخواہ پر قوم کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ کرام بھی ہیں جن کے دل میں تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کے دکھ درد کا بھی احساس ہوتا ہے۔ کم از کم سرکاری اداروں میں اگر کوئی بلڈنگ بناتے ہوئے سیڑھیاں بنائی جاتیں ہیں تو ریمپس کیوں نہیں بنائے جاتے؟ مجھے مختلف ہاسپٹلز جانے کا بھی اتفاق ہوا تو دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ چلنے پھرنے سے معذور افراد کے ڈاکٹر صاحبان اوپر والی منزل پر براجمان ہوتے ہیں ان تک جانے کے لئے سیڑھیاں عبور کرنی پڑتیں ہیں ، ہسپتال میں تو ریمپس کی سہولت ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ جسمانی معذوری کے افراد کے چیک اپ کے لئے ڈاکٹرز کو گراؤنڈ فلور پر کمرے دینے چاہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ کیا سارے انسان ایک جیسے نہیں ہوتے اگر جواب ہاں میں ہے تو ساری سہولیات نارمل افراد کے لیے ہی کیوں ؟ سکول کالج اور یونیورسٹی سے لے کر ہاسپٹلز اور عام مراکز پر اس سہولت کا فقدان اچھے خاصے افراد کو اپنی معذوری پر کڑہنے پر مجبور کر دیتا ہے اور یہ لوگ معاشرے کے ڈس ایبل افراد کی فہرست میں آ جاتے ہیں. ہمارے ملکِ پاکستان کی دس سے پندرہ فیصد تک آبادی معذورافراد پر مشتمل ہے ، یہ صرف میری ہی نہیں بلکہ ان سب کی آواز ہے جو اس درد ناک اذیت میں مبتلا ہیں دکھ تو یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو خود کو معاشرے میں ایبل کہلاتے ہیں ان کو کبہی خیال نہیں آتا کہ ایبل سے ڈس ایبل ہونے میں دیر نہیں لگتی. میری یہ آواز ان افراد کے لیے بھی قابل فکر ہے جو ذہنی معذور ہیں . جو تندرست و توانا ہوتے ہوئے بھی فکری معذوری کا شکار ہیں. ہر قوم کا ایک وقار ہوتا ہے اور ہر مذہب نظریات کی بناء پر اپنے ماننے والوں کو کسی نہ کسی حد تک ایک باقاعدہ نظامِ زندگی فراہم کرتا ہے جس میں صرف انتظامی امور کا ہی احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ معاشرتی اقدار بھی تعلیم کی جاتی ہیں. اگر ہم اسلام کا مطالعہ کریں تو اخلاقیات اور انسانیت کے چیپٹرز میں انفرادی و معاشرتی سطح پر انسانی جذبات کی قدر کرنا اور احساس کمتری سے نکال کر باوقار زندگی کی طرف آنے کے دروس و احکام تو ملیں گے ہی مگر ساتھ میں حق تلفی کے متعلق وعیدیں بھی موجود ہیں. لیکن میں کسی مذہبی جذبے کا سہارا نہ لیتے ہوئے فقط اپنے قومی وقار کی گمشدگی کا رونا رو رہی ہوں. صاحبان فراست سے پوچھتی ہوں کہ ہمارے آئین میں خواتین باہم معذوری کے حقوق موجود ہونے کے باوجود محروم رکھا جانا کیا ہمارے قومی وقار پر دھبہ نہیں؟ کیا یہ معاشرتی بگاڑ کا حصہ نہیں؟ کیا معذور خواتین و افراد کو حق اور مواقع فراہم کرنے سے ہمارے ملک کی افرادی قوت میں اضافہ نہیں ہوگا؟ آخر میں یہ بھی کہنا چاہوں گی وہ افراد جو معذوری کا شکار ہیں جب تک وہ اپنے آپ پر رحم کرنا نہیں چھوڑیں گے ، اپنی معذوری کو حادثہ سمجھیں گے ، ہمیشہ دوسروں پر انحصار کریں گے ، تعلیم سے دور رہیں گے ، اپنے حقوق و فرائض سے بے خبر رہیں گے تو یاد رکھیئے کہ آپ کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں اور دوسرے لوگ آپ کو بتائیں گے کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔لہٰذا اپنے حقوق جانیے ، تعلیم حاصل کیجیے اور معاشرے میں عزت و و قار کی زندگی گزاریے ۔۔ اس کے بعد ہی لوگ آپ کی بات سنیں گے ۔۔