میں معروف سماجی ویب سائٹ کے لیے کیوں نہیں لکھتا؟

میں معروف سماجی ویب سائٹ کے لیے کیوں نہیں لکھتا؟

از، اصغر بشیر

قوم بننے کا عمل وقت اور محنت مانگتا ہے۔ مستقل عوامی بھلائی والے اعمال  و ادارے قوموں کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنی بنیاد اور تخلیق میں صبر آزما  محنت و محبت کی متقاضی اجتماعی سرگرمیاں قوموں کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔  ہر وہ عمل جو تخلیق میں شدید محنت کا طلب گار ہو تا ہے،  عوامی بھلائی کے لیے اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ آخر فطرت کے ایکو سسٹم کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔ قوم بننے کے عمل میں لکھاریوں کا مقام تقدیر لکھنے والوں کا ہوتا ہے کہ یہ لوگ عوام کے لیے منزل کا نشان طے کرتے ہیں۔ میں ادبی مراکز سے دور دراز قصبے میں رہنے والا عام سا آدمی ہوں۔

سوچنے اور لکھنے کا شوقین ہوں۔ کل ایک محسن سے بات ہو رہی تھی  تو انہوں نے کہا کہ اب آپ کی تحریریں دو تین بلاگز سے شائع ہو چکی ہیں ، اب تو آپ یقیناً معروف ویب سائٹوں کے لیے لکھنا شروع کر دیں گے کیونکہ جس کسی کی چند ایک تحریریں چھپ جاتی ہیں وہ فوراً زیادہ بڑی سائٹس سے چھپنے کی کوشش کرتا ہے اور باقیوں سے رابطہ توڑ لیتا ہے۔ میں کل سے اپنے آپ سے سوال کر رہا ہوں کہ کیا مجھے بھی دوسرے نوآموز لکھاریوں کی طرح مشہور ویب سائٹس پر شائع ہونے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم پاکستانیت کے نامیاتی کل میں بےنام جزو کی حیثیت رکھتے ہیں جو خود تو کوئی حیثیت نہیں رکھتے مگر جب چند ہم خیال لوگوں سے مل کر اجتماعی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک نمایاں وجود حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔قومی زندگی کے کسی ایک پہلو میں صرف ایک رنگ کا نمایاں ہونا انتہا پسندی کی علامت ہے۔  ایسے میں ضروری ہے کہ کسی ایک رنگ کو نمایاں نہ ہونے دیا جائے۔ بلکہ متنوع رنگوں کے امتزاج سے نامیاتی رنگت کا ظہور  ضروری ہے۔ جیسے12 Angry Men فلم کا تھیسس ہے کہ اگر کسی مظہر پر دس لوگوں کی رائے لی جائے اور پہلے 9  لوگ کسی ایک رائے پر متفق  ہیں تو دسویں آدمی کا مقام اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پہلے 9 لوگوں سے مختلف رائے دے تاکہ  مظہر کو مختلف زاویے سے سوچا اور پرکھا جا سکے۔ آج ہمیں وطن عزیز کے لیے سب سے ضروری چیز یہی ہے کہ ہم اختلاف رائے کو برداشت کرسکیں اور مکالمے کے مقام تک آجائیں۔
کوئی ادارہ کبھی بھی مطلق فلاح کا حامل نہیں ہو سکتا۔

جیسے یونان میں ارسطو، افلاطون، سقراط، اور  ہریڈوٹس جنگی کارناموں ، عوامی بھلائی اور منصفانہ تقسیم کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن آج ان کو دیکھتے ہیں تو اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کو عورتوں اور غلاموں کے ساتھ برتا جانے والا  غیر منصفانہ سلوک نظر نہ آیا۔  بات یہ ہے کہ ہر دور اور معاشرے کی اپنی سچائیاں ہوتی ہیں جو ایک مظہر کے مخصوص پہلوؤں پر زور دینے کی طرف راغب کرتی ہیں۔ اسی طرح  اگر اس دور کے یونان  اور ایران کی اخلاقی ترقی کا  تقابلی جائزہ لیا جائے تو یونان پرستی میں خاطر خواہ افاقہ ہو نے کے ساتھ ساتھ دوسری آپشنز کو ذہن میں لانے کا خیال بھی پیدا ہوتا ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ ہمیں پتہ نہیں ، بات یہ ہے کہ ہمارا پیراڈائم  ادراک کے متصادم پہلوؤں  کو سامنے لانے سے  احتراز کر رہا ہوتا  ہے۔ دماغ کا  کام یہ ہے کہ یہ سوچ کے لیے اتنا مواد فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو انسان کو فیصلہ کرنے میں آسانی دے ۔ متصادم نظریات دراصل انسانی دماغ کے لیے چیلنج ہوتے ہیں اس لیے دماغ  کھیل کھیلتا ہے۔ایسے متنوع نظریات جن سے اس کا حال میں واسطہ نہیں پڑا وہ ان کو پس پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے حالات میں دماغ تو اپنے یعنی ٹھیک کام کر رہا ہوتا ہے لیکن انسان بہتر انتخاب کے عمل سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ اختلاف سامنے آتا رہے تا کہ انسانی دماغ کو  بہتر فیصلے میں آسانی  ہو۔تصورات کی سطح پریہ لکھاریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ متنوع آراء کا ماحول فراہم کریں جس سے عمومی معاشرے میں  فری انکوائری پروان چڑھے۔

اگر چہ مشہور سماجی ویب بلاگز نے موضوع کو پھیلانے کی نسبت مخصوص لوگوں اور مخصوص موضوعات کو جگہ دی ہے۔اچھی جگہوں پہ شائع ہونا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ہے،لیکن اپنی محدود رائے کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ  معاشرے میں متنوع آراء اور ادارے پروان چڑھنے چاہیں جو اپنے طور پر عمومی عوامی شعور میں اضافہ کے لیے کام کریں۔ تخلیقی سوچ اور مکالمے کے لیے مؤثر فضاء  قوموں کی ترقی میں پہلا ذینہ ہوتی ہے۔  اس لیے میں  مشہور بلاگز پر لکھنے کی بجائے مختلف اور متنوع خیالات کی اشاعت کا حامی ہوں۔ اس صرف مشہوری کے لیے نہیں لکھوں گا کیونکہ میں دسواں آدمی ہوں۔

2 Comments

  1. محترم نعیم بیگ صاحب! آپ کے الفاظ میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ آپ ہمیشہ سے میرے لیے بہت محترم رہے ہیں۔

Comments are closed.