(حُر ثقلین)
کسی بھی مہذب اور فلاحی معاشرے میں عدل اور انصاف کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔دنیا میں وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جن کے ہاں عدل کی بنیاد پر نظام رائج
ہوتا ہے۔جہاں انصاف کی حکمرانی ہوتی ہے۔ظالم فخر کے ساتھ سر اٹھا کر نہ چل سکتا ہو۔مظلوم کی داد رسی کی جاتی ہو۔کرپشن اور بدعنوانی کے مرتکب افراد قانون کی گرفت میں ہوں۔موجودہ دور میں ہمیں جب بھی فلاحی ریاست کی کوئی مثال دینا مقصود ہو تو ہماری نظریں یورپی معاشرے پر جا کر ہی رکتی ہیں۔یورپ میں فلاحی ریاست کا تصور قابلِ عمل بھی ہے اور شاندار بھی ہے۔وہاں پر رائج قوانین کی بنیاد عدل پر ہی ہے۔انصاف ہر شخص کے لیے ہیں۔معاشرے کے تمام افراد کے لیے قانون یکساں ہے۔ایشیائی ممالک میں جنوبی کوریا فلاحی ریاست کی عمدہ مثال رکھتا ہے۔وہاں پر قانون کی عملداری اس قدر شاندار ہے کہ اب وہاں پر سالانہ جرائم کی شرح صفرہے۔ کرپشن کرنے پر با اثر حکومتی افراد کو بھی احتساب کی چکی میں پسنا پڑتا ہے۔یورپ میں بھی مالی کرپشن موجود ہے مگر پکڑے جانے پر قانون کا بیلنا بد عنوان عناصر سے سب کچھ نچوڑ لیتا ہے۔
اب اگر ہم پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیں تو صورتِ حال افسوس ناک حد تک خراب ہے۔پاکستانی معاشرہ فلاحی معاشرے کی منزل سے کوسوں دور ہے۔اور اگریہاں روش یوں ہی رہی تو کئی سالوں تک منزل کا حصول ناممکن دیکھائی دیتا ہے۔ پانامہ پیپرز کا معاملہ سامنے آنے پر ملک میں جو بحث جاری ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمیں ابھی قانون کی حکمرانی اور نظامِ عدل قائم کرنے کے لیے کتنا سفر طے کرنا پڑے گا۔پانامہ پیپرز سکینڈل میں دنیا بھر کے لوگوں کے نام آئے ہیں۔جن ممالک میں قانون کی حکمرانی ہے اور عدل کی بنیاد پر نظام قائم ہے وہاں کے ملوث افراد اگر حکومتی عہدوں پر فائز تھے تو انہیں ان عہدوں سے الگ ہونا پڑا۔دیگر افراد کو حساب کتاب دینا پڑا۔اُس طرف جہاں قانون نے تھوڑا دیر کی وہاں کے افراد باہر نکلے اور اس سکینڈل میں ملوث افراد کو احتساب کے عمل میں شریک ہونے پر مجبور کر دیا۔مہذب اور فلاحی معاشروں میں کسی بھی فورم پر اور کسی بھی جانب سے اس سکینڈل میں ملوث افراد کے حق میں کوئی آواز بلند نہیں کی گئی۔جبکہ پاکستان میں حکمران خاندان کا اس سکینڈل میں نام سامنے آنے پر لوگوں کی اکثریت اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے رہی ہے۔صرف عمران خان اور شیخ رشید ہی زور شور سے احتساب کا نعرہ بلند کیے ہوئے ہیں۔اگرچہ کہ ان ہی دو کی کوششوں سے ہی یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ عدالت میں اب زیرِ سماعت ہے مگر اس کو یہاں تک لانے میں ان دو کو کس قدر جدوجہد کرنا پڑی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔معزز عدالت نے اس کیس کو انتہائی توجہ سے سنا لوگوں کی نظریں اُن پر ہی مرکوز تھیں مگر 9دسمبر کو معزز عدالت نے پارٹ ہرڈ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جب اس کیس کو جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کیا تو لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات نے جنم لیا۔پارٹ ہرڈ کے مطابق کیس کو نئے سرے سے بھی سنا جا سکتا ہے۔اس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ یہ مقدمہ اب طول پکڑے گا۔لوگوں کے ذہنوں میں اصغر خان کیس بھی موجود ہے جس کا فیصلہ ایک طویل مدت کے بعد ہوا اور جس پر عملدرآمد ہونا اب تک باقی ہے۔بھارت اس عنوان کے تحت ہر گز مثالی ملک نہیں ہے مگر وہاں بھی فضائیہ کے ایک سابق سربراہ ایس پی تیاگی کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملتا ہماری منزل بہت دور ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں دو طرح کے نظام پائے جاتے ہیں۔طبقہ اشرافیہ اور با اثر افراد کے لیے الگ نظام ہے اور مظلوموں اور پسے ہوئے طبقے کے لیے الگ نظام ہے۔اب تو رہنے کے لیے کالونیاں بھی الگ الگ تشکیل پا چکی ہیں۔امیر اور غریب کے لیے قانون اور انصاف کے الگ الگ تقاضے معاشرے کو صرف تباہ ہی کر سکتے ہیں اسے فلاح کی طرف نہیں لے کر جا سکتے ہیں۔ کہنے کو تو پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام کے نظام حیات کی بنیاد عدل پر ہی رکھی گئی ہے مگر مقامِ افسوس ہے کہ یہاں اسلام عدل کے بغیر ہی نافذ کرنے کی خواہش کی جاتی ہے۔اسلامی تاریخ میں موجود عدل و انصاف کی مثالیں تو بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں مگر ان مثالوں کی تقلید نہیں کی جاتی ہے۔اگر ہم نے اسلامی معاشرے کو یورپ کے مقابلے میں پیش کرنا ہے تو ہمیں عدل اور انصاف کو اپناتے ہوئے سب کے لیے یکساں قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہو گی۔بصورتِ دیگر فلاحی ریاست کا قیام ناممکن ہے۔