پروین طاہر
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اپنی کتاب، اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر ، کے بابِ اوّل میں تحریر کرتے ہیں:
’’انسان اور اس کے معاشرے کے کئی رُخ اور کئی مظہر ہیں جن کی مجموعی شکل کا نام زندگی ہے۔ یہ رُخ اور مظاہر خارجی بھی ہیں اور داخلی بھی۔ جسمانی بھی ہیں اور روحانی بھی۔ انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ حسن و جمال کا ہمہ گیر احساس ان کے مجموعی تاثر کے نتیجے میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ زندگی ازل سے حسن، خیر اور صداقت مطلق کی جستجو میں ہے۔ ارتقائے حیات کے اِس عمل کے ساتھ ابدی مسرتوں سے ہمکنار ہونے کی آرزو بھی بنیادی انسانی اقدار میں سے ہے لیکن اس منزلِ مقصود تک جانے کے لئے دُکھ کے ساگر کو پیر کر جانا پڑتا ہے۔ مقصود نمائی اور امرِ واقع کی کشمکش میں انسانی ذہن جو تخلیقی پیکر تراشتا ہے وہ اسی احساسِ جمال کے ہمہ گیر تصور کا پتہ دیتے ہیں۔‘‘
(از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر۔ صفحہ ۱۱)
مندرجہ بالا پیرا گراف میں اُن تمام ابتلاؤں، قضیوں اور کاوشوں کا ذکر ہے جن سے شاعر ہمہ وقت دوچار رہتا ہے۔ موجود اور مقصود کی یہی کشمکش ہر انسان پر مختلف طریقوں سے وارد ہوتی ہے۔ اور یہی وہ کشمکش ہے جو انسان کی توجہ جبر و اختیار، مقدر، جہد کی حد اور سعی کی بارآوری کے تناسب کی طرف مبذول کراتی ہے۔ اور انسانی ذہن کو جو اِس کائنات کا حسین و جمیل عجوبہ ہے۔اُسے خواب دیکھنے پر اُکساتی ہے۔ کچھ انسانوں کے ہاں خواب اور تخیل کا عمل گہرا اور وہبی ہوتا ہے۔ انسانوں کا یہی طبقہ تخلیق کار کہلاتا ہے۔ اسی خواب کی تعبیر نامکمل کی لاشعوری تکمیل کے لئے تخلیق کار کہیں مجسمے میں تراشتا ہے،کہیں کینوس پر رنگ بکھرتے ہیں۔ کہیں کائناتی بے ہنگمی اور شور کو کم کرنے کے لئے سُر اور ٓہنگ کے سنگم سے لازوال نغمے اور سمفنیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور شاعری کے صوتی و معنوی حسن سے ایکچوئل کی بد ہیئتی اور بد صورتی کم کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔
عنبرین صلاح الدین بھی ایسی ہی صاحبِ جمال شاعرہ ہے جس کا پلڑا ایکچوئل کی طرف کم اور آئیڈیل کی طرف زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی شاعری کو پڑھتے ہوئے جو دو الفاظ فوراََا دل و دماغ کو گھیر لیتے ہیں وہ ہیں حسن اور معصومیت ۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ باشعور نہیں اور وہ معاشرے کے ایکچوئل کی طرف آنکھ بند رکھتی ہے ، بلکہ یو ں کہوں گی کہ ابھی وہ خواب دیکھنے کی عُمر میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کا جھکاؤ ابھی ٓئیڈیل کی طرف زیادہ ہے۔ خدا اس کی معصومیت اورشعری جمال کی حفاظت یونہی کرتا رہے۔ اگر فنی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو قاری کا دھیان جس طرف سب سے پہلے جاتا ہے ، وہ ہے ہیئت کو جذبات کے مطابق برتنے کا سلیقہ۔ اِس ضمن میں اس کی کتاب کی سب سے پہلی نظم ’’ایمبولینس کے اندر سے‘‘ کا ذکر کروں گی۔ یہ نظم شاعرہ کی ذاتی زندگی کے ایک سانحے سے متعلق ہے جس میں ایک مقدس رشتے سے بچھڑنے کے بعد کا دُکھ، کرب، کھو دینے اور ہاتھ ملتے رہ جانے کا تاثر شدید، گہرا اور جذباتی ہے۔ اِس دُکھ اور کرب کو یقینََا ماں بولی یا پھر ماں بولی سے وابستہ کسی شعری ہیئت میں کہا جا سکتا ہے۔ اِس نظم میں عنبرین نے ماہیوں یا پھر بولیوں کی ہیئت میں لکھا۔ اگر اِس نظم کو کسی اور ہیئت میں لکھا جاتا تو شاید وہ اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار اتنی شدّت سے خود کر پاتیں اور نہ قاری تک اُس دُکھ کی ترسیل ہو پاتی۔
صدیوں جیسے پل
کانوں میں سر سر کرتا ہے
وقت کا مایہ جل
لفظ نہیں بن پائیں
ہاتھوں پیروں میں بے چینی
سانسیں اُکھڑی جائیں
کیسے کہوں یہ بات
اِک شریان سے نکلا خوں اور
زیست کو ہو گئی مات
سنگت ختم ہوئی
ساری باتوں کی اِک بات ہے
مہلت ختم ہوئی
احساس اور جذبے کی شدت میں لپٹی ہوئی ایک اور نظم دیکھتے ہیں جو آزاد ہیئت میں ہے۔
جو کچھ میں نے تمہیں لکھا تھا
شبد نہیں تھے
میرے ہاتھ کی ہر اُنگلی سے خون بہا تھا
مجھ کو تم ہی شبدوں کی دیوی کہتے تھے
یوں میرے شبدوں کا تم اپمان کرو گے
میرے دھیان میں کب ایسا تھا
میرا لہو اتنا سستا تھا
عنبرین سچے جذبات کی شاعرہ ہے۔ وہ اپنے خوب صورت جذبات کو مصلحت آمیز لہجے، علامتی گنجلکوں، نامانوس استعارات اور ثقیل زبان سے آلودہ نہیں ہونے دیتی۔ جذبات کی سچائی اور زبان و بیان کی سادگی اس شاعری کو قابلِ قرات بناتی ہے۔ اُس کے جذبات کی سچائی ہرگز کھُردری نہیں بلکہ بعض اوقات اور بعض مقامات پر تو اتنی سیال اور اتنی سب لائمڈ ہے کہ اُس کی نظموں میں وہ وجدانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جہاں حقیقت اور مجاز کی سرحد کا پتا نہیں چلتا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دونوں کی سرحدیں اوورلیپ کر جاتی ہیں۔ اور خوب صورت تخلیقی تجربہ ایک کومل اور سبک شعری پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اُس کی ایک نظم ’’کس صدا کا جادو ہے‘‘ منفرد شعری و تخلیقی کیفیات کا کولاج سا ہے۔ جس کو پڑھتے ہوئے قاری عجیب سی مسرت اور لطیف سے انبساط سے دوچار ہو جاتا ہے۔
اُس کی اور مری خاطر
یہ زمین، یہ تارے
گھومتے ہیں مستی میں
جتنے راز پنہاں ہیں
اوج میں، بلندی پر
اور زمیں کی پستی میں
جانتی ہیں سب کا سب
اُس کی اور مری آنکھیں
جو چھپا ہے ہستی میں
ہم نے خود اتارے ہیں
معجزات کے موسم
آرزو کی بستی میں
دوریوں میں سمٹا ہے
اک وصال کا عالم
ایک ربط ہستی میں
شش جہات مستی میں!!
ہجر اور دُکھ شاعر کا تخلیقی اثاثہ ہیں۔ ہر شاعر نے ہمیشہ اُس دُکھ کو اپنے احساسات اور فکری اُپچ کے مطابق برتا ہے۔ عنبرین کی شاعری میں دُکھ اور وچھوڑے کا یہ احساس جابجا مِلتا ہے۔ اُس نظم کی سطریں ہوں یا غزل کے مصرعے، ایک محبت، سرشاری، ہجر اور پھر ایک نا مختمم دُکھ کی داستان کا سب سے دلکش باب، عنبرین کی شاعری کا مرکز، اُس کی ذات اور محبت کا ارتکاز وہ سمتِ واحد ہے جس کی طرف اُس نے ساری زندگی دیکھا۔ جہاں اُس کے خوابوں کا رستہ تھا۔ یہ سمتِ واحد جس کے پاس ہو، وہ مجاز سے حقیقت کا سفر جلد طے کرتا ہے۔ اور ایسے شاعر کی شاعری میں خیر و برکت کی پیش بینی کی جا سکتی ہے۔
مجھے بس ایک جانب دیکھتے رہنے کی عادت تھی
بھلا کیا تھا مرے اُس دوسری جانب
مجھے کیسے خبر ہوتی
مری سب آرزوئیں، خواہشیں، ادراک کے منظر
مرے اُس اِک طرف تھے
دوسری جانب خلا تھا،
یا مجھے ایسا لگا تھا!
کوئی روزن، دریچہ، کوئی دروازہ
اگر تھا بھی تو بس
اُس ایک ہی جانب کھُلا تھا
جس طرف خوابوں کا رستہ تھا!
مجھے بس ایک جانب دیکھتے رہنے کی عادت تھی
جہاں تم تھے!
اگرچہ عنبرین کی شاعری کا داخلی رنگ زیادہ گہرا ہے لیکن وہ زمین، ملک اور سوسائٹی کے اندر ہونے والے واقعات، آفات، مختلف مظاہر، سیاست اور ’خلافت‘ سے آنکھیں موند کر بیٹھی ہوئی ایک منفعل شخصیت ہرگز نہیں بلکہ وہ ایک حساس انسان ، حب الوطن شاعرہ ہے۔ وہ انسان اور انسانیت کی قدرو قیمت سے آگاہ ہے۔ انسان دوست اور ہمدرد ہے۔ اُسے زلزلے، آفات، ہنگامے، بم دھماکے ، انسانی لاشیں اور خوں آلود مناظر متاثر کرتے ہیں۔ اور یوں اس دُکھ میں وہ ایسی نظمیں تخلیق کرتی ہے جو قاری کی توجہ یقیناًاپنی طرف مبذول کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی دھرتی ماں سے گہری نسبت رکھنے والی شاعرہ ہے جو اس مُلک کی نظریاتی بنیادوں سے جڑی ہوئی ہے۔
مرا قصہ
زمینِ پاک سے وابستگی کا ایک منظر ہے
مرے سارے حوالے، میری ہستی
اور مرا ایماں اِسی سے ہے
مرے ہونے کا ہر اِمکاں اِسی سے ہے
لیکن اس نظم میں آگے چل کر وطن کے ساتھ وابستہ نظریاتی، تاریخی، اور تہذیبی سچائیوں کے فقدان پر کُڑھتی بھی ہے۔ اور سخت ہیجان اور پریشانی میں مبتلا نظر آتی ہے۔ جس وجہ سے اُس عمومی کومل اور مدھم لہجے میں ذرا بلند آہنگی اور غصہ، افسوس اور تاسف شامل ہو جاتے ہیں۔
تمہارے فکر کے چشمے جہاں سے پھُوٹتے تھے
اب وہاں پر ریت اُڑتی ہے
کہیں حدِّ نظر تک زندگی کا
آگہی اور عافیت کا
کوئی نخلستان اب زندہ نہیں ہے
یہاں انسان اب زندہ نہیں ہے
اُس کی’’ ۲۰۱۰ کی ایک نظم‘‘ کا بند ملاحظہ کیجئے جو شاعرہ کا معاشرے کی طرف روئیے اور ہم وطنوں کی طرف ایک گہری اور وابستہ نگاہ کا پتہ دیتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں محفوظ محسوس نہیں کرتی۔ اُسے گولیاں کھاتے، چیختے لوگوں کی صدائیں پریشان کرتی ہیں۔ وہ اہلِ وطن کا دُکھ اپنے دل پر سہتی ہے، روتی ہے اور نظم لکھتی ہے۔
میں نے یوں گھٹنوں کو باہوں میں دبا رکھا ہے
جیسے میں خود کو بچا ہی لوں گی
اور مجھے گولیاں چلنے کی صدا آتی ہے
لوگ بھی چیخ رہے ہیں ایسے
شہرِ پرنور میں سب آگ لگی ہے جیسے
اور کہیں میلوں پرے لوگ اکٹھے ہو کر
میرے ایمان کو شعلوں میں جلانا چاہیں
لاٹھیاں مار کے جسموں سے چھڑانا چاہیں
شہرِ اقبالؒ ! تری ایک گلی میں ہم بھی
اپنے ایقان کی روحوں کو بچانا چاہیں
اور ہم اب بھی ہیں زندہ لوگو!
دوستو مجھے نوجوانوں کی شاعری اِس لئے پسند ہے کہ اُن کے پاس خواب ہیں۔ خواب دیکھنے کا حوصلہ ہے۔ خواب دیکھنے کی وجوہات ہیں۔ خوب صورت گمان ہیں جو نحوست بھرے واہموں پر بھاری ہیں۔ ان کی شاعری میں رنگ اور رس ہوتا ہے کہ ان کے پاس حوصلہ ہے سمدر کے کنارے رگیدتے پانی سے ٹکر لینے کا۔ ساعتِ ناشاد اور خطہ برباد کی ویرانیوں میں قدم دھرنے کا، وہ اندھیروں اور چاند تاروں سے خالی آسمانوں کو دیکھ کر بھی حوصلہ نہیں ہارتے اور وقت کی پے در پے ستم ظریفیوں، تباہ کاریوں، ناانصافیوں کے بعد نئے سرے سے خواب دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نہیں ہے خوف اگر خواب رنگ کھو بیٹھے
ہماری آنکھ سلامت ہے، خواب دیکھیں گے
خیال و خواب نئے راستے بتائیں گے
ہوا کے رُخ کو اُسی سمت پھیر لائیں گے
ہم آسماں سے ستارے سمیٹ لائیں گے
اِسی زمین پہ پھر دیپ جگمگائیں گے!
ہماری دُعا ہے کہ خدا عنبرین کے شعور کو مزید گہرا کرے۔ اس کے تخلیقی تجربے کو مزید وسعتوں سے ہمکنار کرے اور وہ ہمیں خوب سے خوب تر کی منزلوں کی طرف ہی گامزن نظر آئے۔ کیونکہ خدا اپنے دئیے ہوئے، بخشے ہوئے، جمال کی حفاظت خود کرتا ہے۔ اور کمال حاصل کرنا انسان کی سچی کاوشوں پر منحصر ہے۔