نعیم بیگ ۔ حقا ئق کے وجدان اور مشاہدات کے دان کا تخلیق کار

 

(نسیم سید)

نعیم بیگ کے افسانوں پر کوئ با ت کر نے سے پہلے کیوں نہ انکا تعارف انکے اپنے ہی الفاظ میں کرا یا جا ئے
“میں نے حقیقی زندگی کو کبھی سراب یا روحانی طلسم کدہ میں رکھ کر نہیں دیکھا ”
” حقا ئق کا وجدان اور مشا ہدات کی یکجا ئ” ” انہی دو عنا صر پر مبنی سچا ئ اور حقیقت کی طرف میری جستجو کا سفر ہے ”
یہ دو سطور انکا وہ مکمل تعارف ہے جو انکے افسانوں میں انکی جستجو کی مختلف تصاویر بناتا ہے ۔ نعیم بیگ کے ا فسانوی مجمو عہ ” یو ڈیم سالا ” کے پیش لفظ میں انکے یہ الفاظ مجھے انکے افسانوں کا مکمل تعارف محسو س ہو ئے کہ دراصل نعیم بیگ کے تخلیقی نا بغے کی تشکیل میں حقا ئق کا وجدان اور مشاہدات کا دا ن ہی انکی شنا خت کا اعلان رقم کرتے ہیں ۔ زندگی کے روز و شب کا کڑوا کسیلا ذا ئقہ ، مسافتوں کی آبلہ پا ئ ، بورژوائ نظام کی مضطر ب حیرانیاں ، بھوک کے سسکتے مناظر انکے فکری سفر کے وہ نمونے ہیں جنہیں وہ اپنی فکر کی کھڈی پر چڑھا کے ریشم اور سو ت کی آ میزش والے لہجے سے ایسی مہارت سے بنا تے ہیں کہ جو کچھ دکھانا مقصود ہو من و عن دکھا دیتے ہیں ۔حقا ئق کا وجدان اور مشا ہدا ت کی یکجا ئی کے اس سفر میں نعیم بیگ نے واقعیت نگا ری اور حقیقت نگاری کے درمیان فنی امتیاز اور فرق کی اصلیت دریافت کرلی ہے ۔وہ جا نتے ہیں کہ حقیقت پسند افسانہ نگار سب سے پہلے کسی خاص واقعے ، واردات و سر گزشت سے پیدا ہو نے والے احسا سا ت ، ا ثرا ت ،عوا مل اور کیفیات کو مخصوص تنا ظر ، کرداروں اور حوالوں سے اپنی تخلیقی عمل کا حصہ بنا تا ہے پھر اپنے تخلیقی
شعور ، مشا ہدے اور ژرف نگہی کو افسانے کے پیکر میں ڈھالتا ہے ۔نعیم بیگ کے افسا نوں میں مر کزی خیال ، پلاٹ کی تشکیل ، کردارون کی ذا تی اور صفاتی شخصیت ، بیا نئے کی جز ئیا ت ، زمان و مکان میں منطقی ربط کے سا تھ سا تھ سما جی ، نفسیاتی اور جنسی حقیقت نگاری کچھ ایسی فنی مہارت سے یکجا کئے گئے ہیں کہ انکا فن اپنے قاری کو اپنا معترف بنا جا تا ہے ۔نقل مکا نی جسے اکثر ہم ہجرت کے نام سے جا نتے ہیں انکے لئے ایک عجب جان لیوا تجربہ ہے ۔.جو بچپن کے بجا ئے جوانی میں اپنے ما حول اپنی رشتوں اور اپنی محبتوں سے بچھڑے جائیں اجنبی زمینیں ان سے پورا خراج لیتی ہیں اور قدم قدم پر نہ صرف اجنیبیت کا احساس جان لیوا ہوتا ہے بلکہ معا شی بدحالی بو کھلا کے رکھ دیتی ہے ۔ ایسے میں اگر کو ئ اپنے جیسا ، اپنی زبان بولنے والا ، اپنے جیسے حالا ت میں گھرا ہوااور اس نقل مکا نی کے تمامتر دکھوں اور مسا ئل کو سمجھنے والا مل جائے تو طمانیت کا وہ احساس ہوتا ہے جس کو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو ان سب معاملات و حالات سے گزر چکے ہوں یا گزر رہے ہوں ۔ نعیم بیگ نے اس احوال کو انتہائ مہا رت سے ” یو ڈیم سالا ” میں کس طرح سمو دیا ہے دیکھئے
” تم سارا دن کیا کر تے ہو؟
میں نے رنجید گی سے پو چھا
” بس جاب کا تلا ش، کبھی ادھر کبھی ادھر ۔ شام کو کونش پر آجا تا ہے ۔گلف نیوزمیں جاب تلا ش کرتا ہے اور اپنا بھوک اور پیاس کو رات تک روک کے رکھتا ہے ۔بس اب ٹائم ہونے والا ہے ۔ کچھ دیر میں جا ئے گا ،کام کرے گا اور کھانا کھا ئے گا ”
میں نے کچھ سو چتے ہو ئے کہا ” کہا میں بھی تمہارے سا تھ چل سکتا ہوں ؟ آ ئ ول شیئر یورورک “اشو ک نے کچھ عجیب نگا ہوں سے مجھے دیکھا اور بولا  ” یو ڈیم سالا ۔ کل رات سے بھوکا ہے اور بولتا نہیں ہے”
اور آ گے بڑھ کے اس نے مجھے گلے لگا لیا ۔ ہم دونون کی آ نکھوں میں آنسو تیر رہے تھے ” صرف چند مکلا لموں میں ایک پورے المیہ کو سمیٹ لینا معمولی کام نہیں ۔ کینڈا میں اور امریکہ میں نہ جا نے کتنے ڈاکٹر ٹیکسی چلا رہے ہیں کیونکہ یہاں ہماری ڈگریاں کا غذ کے ٹکڑوں سے ذیا دہ اہمیت نہیں رکھتیں اسوقت تک جب تک مقامی علمی اداروں سے ہم پلہ سند نہ حاصل کرلیں ۔ہمارا تعلیمی معیار جس مقام پر ہے اس کے سبب یہاں کی اسناد حاصل کرنابھی کا ردارد ہے یہ اور دیگر اسباب ابتدا ئ چندسال چکی کی مشقت بنا دیتے ہیں زندگی کو جسے نعیم بیگ نے نہ صرف موضوع بنا یا ہے بلکہ پورا پورا انصا ف بھی کیاہے اس موضوع سے اور یہی ا نکا وہ سلیقہ ہے جو انکے تخلیقی وجود کا جو ہر ہے ۔نعیم بیگ کو زندگی جس راہ پر لے گئ اس سے سر سری نہیں گزرے ۔ جس منظر نے انہیں خود میں قید کیا اسے اپنے حروف کی نقرئ زنجیر میں اسیرکرکے امر کردیا ۔نعیم بیگ کا تصور حقیقت نہ صرف خود متحرک اور ہمہ جہت ہے بلکہ ا نکے یہاں جو حقیقت بیان ہو تی ہے وہ اپنے امکا نی پہلو کے ذریعہ انسانی زندگی کی اس صدا قت کو اجا گر کرتی ہے کہ ہمارے تجربے میں آ نے والی ہر حقیقت اور ہر سچا ئ کسی اعلی اور بڑی سچا ئ کا تسلسل ہے ۔ نعیم بیگ کی فکر انسان کے وجود کو اسکی روح کے سا تھ سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کی ایک جھلک ان کے افسانے ” آخری لمحہ ” میں دیکھی جا سکتی ہے ۔مشتری طوائف ہے اور طوائف صرف بدن ہو تی ہے طے شدہ معاشرتی قوانین کے مطا بق ۔ مگر نعیم بیگ کو مشتری کے بدن سے غرض نہیںاور وہ اس کی سیر کا سامان مہیا نہیں کرتے اپنی کہانی میں بلکہ اسکی سرشت کی نیکی اور اس میں مضمر خیر
کی خبر دیتے ہیں۔” مشتری انور کی زبان سے محبت کی یہ تذلیل نہ دیکھ سکی اس نے ٹریگر دبا دیا ۔ گولی سیدھے اس کے ) اپنے (سینے میں اتر گئ ”

نعیم بیگ کے افسانون کے مو ضوعات رنگا رنگ ہیں اور ہر رنگ اپنی شنا خت الگ سے کراتا نظر آ تا ہے ۔علامت میں نعیم بیگ آفاقیت کے قا ئل نظر آتے ہیں انکا افسانہ ” ڈیپارچر لا ئونج” اس کی ایک خوبصورت مثال ہے نعیم بیگ نے نہ صرف افسانے بلکہ نا ول کی دنیا میں بھی اپنی شنا خت کو مستحکم بنا یا ہے ۔ اس حوالے سے انکے نا ول ” کو گن پلا ن ” کا ذکر نہ کرناممکن نہیں ۔ناول کا متن موجودہ عہد کے سیاسی اور سماجی منظر نامے کا گواہ ہے ۔ ناول کے مکالمے اسکا پلاٹ منظر نگاری جزیات نگاری بلا شبہ اس نا ول کو اہم مقام دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ اپنی اہمیت اور حیثیت منوانے میں کامیاب ہے ۔نعیم بیگ ایک حقیقی تخلیق کار ہیں ایسے تخلیق کا ر جنکی فکر کا ئنا تی وسعت رکھتی ہے ۔ انکی افسانہ نگاری الفا ظ کا گورکھ دھندا نہیں بلکہ سا نس لیتے اور با ت کرتے حروف کے حسن وجمال میں خیال کو پرونے کے پر قدرت رکھتے ہیں ۔زندگی کے تمام روپ اس تخلیق کار کی نگا ہ میں ہیں اور وہ اپنی فنی دسترس سے ان کو ہو بہو دکھا دینے پر قادر ہے ۔ نعیم بیگ کی نہ صرف افسانوں کی کتاب ” یو ڈیم سالا ” کو پڑھ کے میں نے انکے اندر کی فنکارانہ کا ئنات کی سیر کی بلکہ افسانہ فورم پر انکے تبصرے بھی مختلف تخلیقات پر دیکھے ہیں جو انکی فکری گہرائ ، گیراِئ مشاہدے ،مطالعے اور فنی ریا ض کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔