نورانی ٹوٹے

نورانی ٹوٹے

از، شکور رافع 

مستونگ،گڈانی اور شاہ نورانی کے کرب نے تخلیقی جوہر مار سا دیا ہے۔فنون لطیف کثیف دکھائی دیتے ہیں۔ کہانی گم سی ہو چکی۔ دل دلیلوں پہ اتر آیا ہے کہ رونا دھونا ہو چکا، یہ بتاؤ کہ تم ادیب سے پروپیگنڈہ سیکرٹری کب سے بن گئے۔ کہانی لکھنا کیوں چھوڑ دی۔ ادھوری کہانیاں کب اور کیسے مکمل ہو گی۔اس اعتراف کے ساتھ کہ شعوری بڑھاوا تحریر کا بے ساختہ تاثراتی اسلوب برباد کردے گا مگر دل وحشی کو جواب تو دینا ہے۔اس کے لیے خارج سے مایوس ہوکر من کی دنیا میں جھانکا۔ حواس کی مجلس شوریٰ کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو ٹکا سا جواب آیا کہ بے حسی تمہارے بس کی بات نہیں تاہم ’حواسی شوریٰ‘نے رومانوی کہانی مکمل کرنے کو یہ سفارشات پیش کی ہیں۔
[]اگر ریاست قتل و غارت کو بین نہیں کر سکتی توکچھ عرصہ ذرائع ابلاغ پر قتل و غارت کی خبروں کو ہی بین کر دے جیسے انڈین گیت یاڈان کی خبروغیرہ بین کی ہے تو شایدیکسوئی ملنے پر کہانی مکمل کی جاسکے۔
[]مقتدر قوتیں ادب اور ادبی تحریر کی کم از کم یہ حیثیت تسلیم کر لیں کہ وہ سماج کو متاثر کر سکتے ہیں۔(بھلے نہ کر سکتے ہوں۔) قوال،شیف، نجومی، عامل،بھانڈ وغیرہ کونجی چینلز پہ بلایا جا سکتا ہے تو ادیبوں کو بھی بلا کر عصر حاضر کی جمالیاتی حسیت پہ گفتگو کروا لینے میں کیا ہرج ہے۔ اس سے ادب کی حدود و قیود کو جان سکنے کی اور خود بھی سٹوڈیو جا سکنے کی کوشش میں لفظ و معانی سے کھوئی کہانی تک کو تلاشا جا سکتا ہے۔
[] ایک ادبی دانشور تسلیم کرتے ہوئے بندے کو کوئی چھوٹا موٹا اعزاز ہی دے دیا جائے جسے اس مسلسل ظلم پر واپس کرنے کا اعلان کر کے اپنے سماج کو چونکا نے والا واحد زندہ ادیب بن سکتا ہوں۔انڈیا میں ، ساٹھ ادیبوں فنکاروں نے گاؤ کشی پر صرف تین خون ہونے پر سرکاری اعزازات واپس کر دئیے تھے ۔ ایسے احتجاجی فیصلوں پرملنے والی عوامی مقبولیت اور محبت سے ہی وہاں کے آرٹسٹ کو اپنی کہانی لکھ سکنے کا اعتماد ملا ہے جبکہ تشدد آمیزمحرکات سے لے کر ’مودیاتی سیاسیات‘ تک کو بے اعتمادی۔
اورحسیات کا آخری مشورہ یہ ہے کہ میں متشدد فرقوں میں شامل ہو کر ان کی کسی مجلس میں کہ جہاں سب زعما موجود ہوں ، جان لینے کے معاملہ پر کھلم کھلا اور غیر مشروط فتویٰ مانگوں اور اسے اپنی ہی زندگی سے مشروط کر دوں جو بھری محفل میں میری اپنی پستول کی زد میں ہو ۔
اس سب سے اتفاق۔۔ تاہم ماؤں کے ساتھ مجھے بھی بانجھ کردینے والے عالمی کھلاڑیوں سے کچھ نہیں کہنا۔۔۔یہ بھی نہیں کہنا کہ وہ ایسا نہ کریں ۔۔ یا یہ کہ وہ ویسا وہاں کریں جہاں کم از کم طبی سہولیات موجود ہوں۔۔ یا یہ کہ وہ ایسا کرنا ہی چاہیں تو مزدوروں،فقیروں کے ساتھ امیروں کوبھی یاد رکھیں۔
یا یہ کہ بلوچستان پہ ایسے چند اور حملوں کے بعد سن اکہتر کے خواہشمند سن رکھیں کہ اب کی بارچھوٹے جغرافیہ والا’دیش ‘ نہیں ،اور بڑا ’چینی خویش‘ بنے گا ۔
مجھے یہ بھی نہیں کہنا کہ نیپ سے سی پیک تک کون نازک کمریا کے سنگ سراپا دھمال ہے ، کون آمادہ قتال ہے اور کون سراپا زوال ہے۔
سب اپنی اپنی کہانیاں مکمل کرتے پھررہے ہیں۔ایسے میں کسی کو کیا کہنا ۔ صرف یہی کہنا ہے کہ مجھے بھی کہانی مکمل کرنے دی جائے۔
عالمی کھلاڑی اگر سوچنے والوں کو پراگندہ خیالی کے ایسے ہی دوراہے چوراہے پہ لانا چاہتے ہیں تو انہیں مبارک ہو۔ کیا یہ ان کی کامیابی نہیں کہ جس دن وسطی ایشیااور چین کو دنیا بھر سے ملانے کے لیے عظیم الشان شاہراؤں پر کنٹینیر چلے، اسی تاریخی دن میں کچی پگڈنڈیوں پہ ایمبولینس کے چار گھنٹے جانے اور چار گھنٹے میں واپس ہسپتال آنے کا ماتم منا رہا تھا
اور جس رات دنیا سپر مون کی جلوہ آرائی میں مگن تھی، یہ نامراد شاہ نورانی میں اپنی گم شدہ بچی کی منت چڑھانے جانے والے اس باپ کا کہانی لکھ رہا تھا کہ جس کی بچی گھر پہنچنے سے پہلے ہی لاوارث ہو گئی تھی۔
عالمی ساہوکارو! آپ اگر گیت، رقص اور کہانیوں میں دلچسپی نہیں بھی لیتے مگریقین کیجئے میری رومانوی کہانیاں آپ کے اہل خانہ کو بہت پسند آسکتی ہیں۔جب تک گردوپیش کے کوہ دمن نہیں مہکتے، میں کہانیاں نہین لکھ سکوں گا۔
میں اپنی کہانیوں کو ٹوٹا کہہ کرخود کو بھی اذیت دوں گا اور قارئین کو بھی۔
اس بارکے چند نورانی ٹوٹے دیکھئے:
______________________________
را
۔۔۔۔۔۔۔۔
حملہ کے بعد مسلسل ٹیلی فون کالز سے چینلز پہ تانتا بندھ گیا ۔استقبالیہ والے نہیں جانتے تھے کہ درگاہ شاہ نورانی کہاں ہے کتنے مرے ۔حملہ کس نے کیونکر کیا مگر عوام کے فون اٹھانا بھی ضروری تھا
کتنے لوگ مر چکے
کچھ اندازہ نہیں ۔ستاون لاشیں نکل چکیں
زخمی ؟
کچھ اندازہ نہیں؟
آپ کا نمائندہ کیا پہنچا وہاں؟
نہیں راستہ دشوارگزار اور دور دراز کا ہے
ہائے کس نے آخر اتنا خوب بہا دیا
’را‘ نے
________________________
پیالہ وساغر
۔۔۔۔۔
روڈ خراب تھا۔ ایمبولینسیں تین گھنٹے میں جائے حادثہ پہ پہنچیں ۔ زخمی بھرے مگر تاریکی کی وجہ سے چار گھنٹے گزرنے پر ہنوز کراچی شہر سے دور تھیں۔دو ایمبولینسوں میں سات زخمی تھے۔ تیسرا بھی جب راستے میں دم توڑ گیا تو دونوں ایمبولینس ڈرائیور ایک ہوٹل پہ پیشاب کے بہانے سے رک گئے۔
’کیا فائدہ زخمی مر رہے ہیں یار۔۔‘‘ پہلے نے سیگریٹ سلگائی
دوسرا چپ رہا اور چھوٹے سے اتناکہا۔
’ جلدی سے دو کپ چائے لا یار سر پھٹ رہا ہے۔‘

____________________________

پاکستان کی ترقی کے خواہاں دو دوستوں کی ٹی بریک میں مختصر گفتگو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’کتنے کنٹینیر آئے چین سے؟‘
’دو سو پچاس‘
’اور بندے کتنے مرے؟‘
’باسٹھ‘
’یار ایک بندے کی قربانی دے کراگر چار کنٹینیرچلیں تو امن و ترقی کے لیے کتنا عرصہ چاہیے‘
’پانچ چھ سال‘
’یعنی اس کے بعد کنٹینیرز سے جان چھوٹ جائے گی‘
’نہیں بلوچ آبادی سے جان چھوٹ جائے گی‘
____________________________
رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرمیلا شاہ نورانی گاؤں کابے روزگار رہائشی تھا ۔ اکثر یہاںآجاتا۔جھجک کی وجہ سے دھمال میں بے خود نہ ہو پاتا۔اس لیے مرکزی دھمال خانہ کے بجائے بائیں طرف کے رہائشی بلاک کے سامنے جہاں قوالی کی آواز مناسب ہوتی اور لوگ کم ہوتے ، جی بھر کے دھمال ڈالتا۔
ہفتہ کی اس شام وہ وہیں دھمال میں مست تھا کہ اچانک شدید آواز،تکلیف اور دہشت میں اسے لگا کہ وہ ننگا ہو رہا ہے۔ اس نے اپنی لہو رنگ شلوار کئی فٹ دور اسی مرکزی ہال میں پڑی دیکھی۔ یہ منظر اس کا آخری منظر تھا۔شرمیلا مر چکا تھا۔
____________________________
نعشوں سے نقشوں تک!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’بابا۔کتاب میں تو لکھا ہے کہ بلوچستان اور سندھ الگ الگ صوبے ہیں مگر جب بھی دھماکہ ہوتا ہے خبر یہی چلتی ہے کہ سارے زخمیوں کو کراچی لایا جا رہا ہے۔‘
’لڑکی بنو بیٹا، عالیہ امیر علی نہ بنو۔ ہاہاہا۔ اصل میں نا۔وہاں ہسپتال نہیں ہیں ۔۔اس لیے۔۔
’اوہو۔ اگر وہاں ہسپتال نہیں ہیں تو خود کش انکل کو چاہیے نا کہ دھماکہ ہی وہاں کردیں جہاں ہسپتال تو ہوں‘
’یعنی تم بھی مرنا چاہتی ہو.. ہاہا۔۔‘
’کیا مطلب ۔صحیح بات کہہ رہی ہوں۔ اگر انسانوں کو کاٹناپھاڑنا ہے تو ہسپتال کے پاس کاٹیں نا۔۔ زخمی تو شاید بچ جائیں گے‘
’ بیٹا۔ان کا کام بندے کاٹنا نہیں ہے، نقشہ کاٹنا ہے‘
____________________________

اگر ٹرمپ یہاں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زخمی بھائی وصول کر کے کراچی پہنچنے والے ایک نوجوان نے دل شکستگی سے اسٹیٹس اپ لوڈ کیا۔
’ کاش ٹرمپ ہی اس ملک کا صدر ہوتا ۔یہ مصیبت تونہ دیکھتے‘
نیچے اس کے دفتری سینئر نے زخمی بھائی کے لیے اچھے جذبات کا اظہار کر کے لکھا : اپنے والوں پرتو ایک دو مقدمے ہیں۔ٹرمپ پر تو چار ہزار مقدمات ہیں۔ اس کی انتخابی مہم انہی اسلحہ سازوں نے چلائی جن سے آپ کا بھائی زخمی ہوا ہے ۔‘
اس نے کمنٹ لائیک کر کے جواب دیا
’سرمگر وہ اپنے اسلحہ سے اپنے ہی لوگوں کو تو نہیں مار رہے‘
سینئر نے اس کے جوابی کمنٹ پر اداس سمائلی بنا دی۔

____________________________
محرکاتی فرمودات از دانشوران پاکستان بعد از دھماکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹاک شوز کی اکثریت نے اسے فرقہ وارانہ فساد کہا۔
ایک دوست کے مطابق بلوچ عوام کے نظریاتی لبرل ازم کو کسی مسلکی شناخت سے تبدیل کرنے کی کوشش ہے
ایک تجزیہ نگار کے مطابق یہ کالعدم جماعتوں پر کی گئی حالیہ کارروائیوں کا بدلہ ہے۔
دائیں بازو کے ایک دانشور کے خیال میں انڈین را کشمیر میں مداخلت کا بدلہ لے رہی ہے۔
دفاعی تجزیہ نگارنے کہا: گوادر چالو ہونے سے فارس و عرب کی آب سراؤں پہ لمبی چپ معانی خیز ہے
کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس کے ذمہ دار ہر دھماکے کے بعد کپڑے جھاڑتے وہ افراد ہیں جو اپنے بچ جانے پر شکر کرتے ہیں یا تجزیے!
____________________________

شاہ نورانی کے سالانہ میلے میں قافلے آخر تک آتے جاتے رہتے ہیں۔خضدار سے چونتیس افراد کا قافلہ تحصیل وڈھ سے آگے بڑھا توپرجوش عقیدت مند اومنی بس سے نکل پڑے۔وہ پیدل چلتے ہوئے دہائیوں کا مقبول نعرہ لگانے لگے۔
جئے شاہ نورانی
نورانی نور۔۔ ہر بلا دور
جھومتا گاتا نعرے لگاتا قافلہ ابھی مزار سے کچھ ہی دور تھا کہ اندر دھماکے کی خوفناک آواز نے سب کے ہوش اڑا دیے۔ قیامت کے شور میں لال جھنڈے اور کالے کپڑوں کی دھجیاں تھیں۔
نورانی نور ۔۔ ہر بلا دور۔۔ تیزی سے نعرہ لگاتے ہوئے وہ مزار سے بھاگتے ہوئے وہ بس کی طرف واپس بھاگے۔
ننھے نے ابا کے ہانپتے کاندھوں سے سوال کیا۔
ابا کیا ہم بلا ہیں جو شاہ نورانی سے دور بھاگ رہے ہیں۔
نورانی نور ۔۔ ہر بلا دور کی ہنگامہ خیز آواز میں ابا کے تھپڑ کی آواز گم ہوگئی۔ بچہ اپنا گال سہلاتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
____________________________

متولی شاہ نورانی کو اجڑتا دیکھ کر روتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ مرشد سائیں کا فرمان ہے کہ حرام کا ایک نوالہ دس گھروں کو اجاڑ دیتا ہے۔ پولیس اہلکار مرے تھے تو دکھ ہوا مگر اس واقعہ کو اسی فرمان میں دیکھا۔ ایس ایچ او کے کہنے پربھی ان پولیس والوں کو اندر نہیں آنے دیا۔
ہمیں کیا پتہ تھا کہ تکفیری اب پولیس والوں چھوڑ کر شاہ جی کے عاشقوں کا خون کرنا شروع کر دیں گے۔
____________________________

سی پیک ہے کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’یار ایک بہت لمبا روڈ بن رہا ہے جس پہ وسطی ایشیا اور چین وغیرہ کا سامان ساری دنیا تک پہنچے گا۔ تم نے دیکھا نہیں کل ڈھائی سو کنٹینیرز گزرے۔‘
۷۷۷’مگر پھرحملہ ان کے بجائے انسانوں پر کیوں ہوا ہے‘
’ان کی سیکورٹی ٹائٹ ہوتی ہے نا..‘