واک تھرو گیٹ اور سیکورٹی بیریئرز کا ڈرامہ

writer's name
ڈاکٹر عرفان شہزاد

ڈاکٹرعرفان شہزاد

 

ہماری حفاظت پر معمور ادارے اور افراد عوامی تحفظ کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ ہماری حفاظت کے نام پر ہمارے ٹیکس کےپیسوں سے کھڑے کیے ہوئے نمائشی واک تھرو گیٹس اور سکیورٹی بیرئیرز پر ان کے رویے سے ہو جاتا ہے۔ ہر ایک نے یہ تجربہ کیا ہوگا سکیورٹی کے لحاظ سے وہ نازک ترین جگہیں جہاں عوام کا آنا جانا ہوتا ہے، وہاں پر لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے ان میں سے گزر رہے ہوتے ہیں، ان میں لگی بیل بجتی رہتی ہے لیکن سکیورٹی پر کھڑے ہمارے محافظ کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ اس کا تجربہ کرنا ہو تو آپ ایم ایچ، سی ایم ایچ جیسے ہسپتالوں، اسلام آباد ہوٹل، ہل ویو ہوٹل جیسے ہوٹلوں،یونیورسٹیز، جناح پارک، کسی بھی جگہ جہاں عوام جاتے ہوں، جا کر سکتے ہیں۔سب جگہ واک تھرو گیٹ سے گزرنے والے کی کوئی چیکنگ نہیں ہوتی۔ نمائشی طور پر موبائل فون اور چابیاں تو الگ نکلوا لی جاتی ہیں لیکن اس کے بعد گیٹ سے گزرنے پر جب بیل بجتی ہے تو کوئی روک کر تلاشی نہیں لیتا۔
اس کے برعکس اگر ہمارے ٹیکس کے پیسوں پر پلنے والا کوئی وی آئی پی ایسی جگہ آ جائے تو سکیورٹی کے حالات اور برتاؤ یکسر بدل جاتا ہے۔ عام لوگوں کا تو داخلہ ہی بند کر دی جاتا ہے، باقی گزرنے والوں کی مکمل تلاشیاں لی جا رہی ہوتی ہیں۔ یہ بس ہماری ہی بے وقعت جان ہے کہ اس کی حفاظت ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
یہی حال چیکنگ کے نام پر سڑکوں پر کھڑی کی ہوئی رکاوٹوں کا ہے۔ ان رکاوٹوں سے سڑک تنگ کرنے ک علاوہ کوئی کام نہیں لیا جا سکتا۔ بم دھماکے کرنے والے آئے دن انہیں چیک پوسٹوں سے بے دھڑک گزرتے ہیں لیکن شاذ و نادر ہی کوئی حقیقی دہشت گرد پکڑا جاتا ہے۔ ہزاروں گزرتی گاڑیوں کو یہ محافظان با صفا محض خالی آنکھوں سے سکَین کرکے اطمینان حاصل کرلیتے ہیں جب کہ دہشت گرد ان کی آنکھوں کے سامنے سے دھول اڑاتے نکل جاتے ہیں۔ یہ تربیت یافتہ محافظ غریب ٹیکسی اور رکشہ والوں یا نو عمر ڈرائیوروں کو پریشان کر کے اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے نام پر اپنا دل بہلاتے ہیں۔
خانہ پری ہماری قوم کا اجتماعی مزاج ہے۔ واک تھرو گیٹ ہوں یا سکیورٹی بیریئرز، حکومت اور اداروں کے عزم و ارادے ہوں یا دہشت گردوں کی کمر توڑ دینے دعوے سب خانہ پری ہے تاکہ نوکری کا جواز مہیا کیا جاتا رہے ،روٹی ملتی رہے، اور ادھر ہم تمام ٹیکس ادا کر کے بھی ذلیل بھی ہوتے رہیں اور مرتے بھی رہیں۔
عوام کو اب تک اندازہ ہو جانا چاہیے کسی کو حقیقتا ہمارے جان و مال کی حفاظت کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کا مقصد محض اپنے مفادات کا حصول اوراپنی حفاظت ہے اور اس میں وہ کامیاب ہیں۔ ہماری ہلاکتوں کے کیے انہوں نے شھادت کا ڈھکوسلہ بھی نکال ہے۔ ہماری دعا ہے ہے کہ ایسی شھادت کی سعادت انہیں بھی میسر آیا کرے، دنیا کی ہر مراعات یہ ہم سے آگے بڑھ کر حاصل کرتے ہیں تو آخرت کی سعادت سے کیوں محروم رہیں۔ شھادت تو ویسے بھی مقصود و مطلوب مومن ہے۔ عوام کے لیے اس اعلی درجے کے حصول میں البتہ کوئی ادارہ رکاوٹ بننے کا گناہ مول لینا نہیں چاہ رہا۔
جب تک ہمارے دکھوں میں شریک ہونے کے ساتھ ہمارے سربراہان ہماری شھادتوں میں بھی ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوتے کچھ بدلنے والا نہیں۔