ہماری شناخت، ہماری پہچان اور ہمارا مستقبل: ایک معاشرتی تجزیہ
از، فارینہ الماس
وہ لاہور کے نواحی علاقے کاایک چھوٹا سا قصبہ تھا ۔لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے اپنی مذہبی اور روحانی ساکھ کی وجہ سے اہمیت اختیار کرتا جا رہا تھا۔اسکی ایسی اہمیت کا سبب علاقے کی وہ مسجد تھی جو چند سالوں سے ایک چھوٹے سے تبلیغی اجتماع کے لئے استعمال ہونے لگی تھی ۔ہر سال تقریباً تین روز کے لیئے دور دراز کے علاقوں سے کچھ علم اور فضل والے لوگ اپنے اپنے بیان بھر پور طریقے سے تیار کر کے یہاں آتے اور پر رونق محفل کا حصہ بنتے۔علماء کے قیام و طعام کا بھی بندو بست کیا جاتا تھاجو کہ علاقے کے کچھ صاحب ثروت افراد سرانجام دیتے ۔جلد ہی اس محفل کے چرچے عام ہونے لگے ۔پھر تقریباًً دو سال پہلے اچانک یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔مسجد کی ایسی رونقیں معدوم ہوگئیں ۔دو سال پہلے ہی کا واقعہ ہے کہ اس اجتماع میں کہیں سے دو انجان اشخاص پہلی بار شریک ہوئے ۔وہ اپنے حلیے اور طور اطوار میں سر سے پاؤں تک اﷲ کے عشق میں ڈوبے ہوئے نظر آتے تھے۔انہوں نے ذکر اذکار کے علاوہ خود کو خود اپنے ہی طور سے ان سب’’ اﷲ والوں ‘‘کی خدمت پہ معمور کر رکھا تھا ۔تیسرے اور آخری دن سب کے اختتامی کھانے کے انتظامات بھی انہوں نے بخوشی نبھائے۔لیکن پھر ہوا یہ کہ اس کھانے کو کھاتے ہی سب’’ اﷲ والے‘‘ بے ھوش ہو گئے ۔اور یہ دو ’’اﷲ والے‘‘ ان سب کا مال اسباب لوٹ کر فرار ہو گئے ۔اور اس دن کے بعد وہاں کوئی محفل نہ سجائی گئی۔ایسا ہی ایک اور سچا واقعہ گوش گزار ہے ۔شہر کے ایک پررونق علاقے کی ایک مسجد کے قاری صاحب گزشتہ پچیس یا تیس سالوں سے مسجد کے انتظام و انصرام کو سنبھالے ہوئے تھے ۔بہت سا وقت بیت جانے کے باعث مسجد کے کچھ حصے اچھے خاصے مخدوش ہو چکے تھے۔اب ان کی بحالی اور مرمت کی بھی گنجائش نہ نکلتی تھی سو اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کا بیڑہ اٹھایا گیااوراسکے لئے ڈھیروں چندہ اکٹھا کرنے کی ٹھان لی گئی ،جو کہ ایک دقت طلب کام تھا ۔ علاقے کے ایک معزز ، بظاہر نیک اور اعلی حیثیت رفیق صاحب نے قاری صاحب کے ساتھ مل کر چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کا آغازکیا۔ان کے تو شاید وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ لوگ اتنی فراخ دلی سے مال اسباب دان کرنے لگیں گے کہ محض سال بھر میں ہی جمع ہونے والی رقم ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچے گی۔شاید جیسے جیسے قیامت کی نشانیاں واضح ہو رہی ہیں لوگ خیر، خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے ہیں۔ لیکن پھر اچانک ایک بہت دل سوز واقعہ رونما ہوا دن دیہاڑے ڈکیتی میں وہ ساری رقم چلی گئی۔سو ایک بار پھر پیسہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع ہوئی۔مذیددو سال تک ایک بار پھر چندہ مہم چلائی گئی اور تمام تر اخراجات کا انتظام کیا گیا۔ اور آخر کارایک عظیم الشان مسجد تعمیر کر دی گئی ۔لیکن اب سنا ہے کہ مسجد بننے سے پہلے ہی قاری صاحب نے ایک نئی رہائشی کالونی میں 80 لاکھ کا گھر اور رفیق صاحب نے 70 لاکھ کا چلتا ہوا سپر سٹور خرید لیا تھا۔ بھئی اﷲ والے تھے راتوں رات کوئی کرامت بھی تو ہو سکتی ہے ۔غور طلب بات ہے کہ اگر اس ملک کے اﷲ والوں کے پاس بددیانتی اور دھوکہ دہی کی ایسی زبردست کرامات ہیں تو پھر وہ کیا کیا کرامات رکھتے ہوں گے جنہیں اﷲوالے ہونے کا نہ کوئی زعم ہے نہ استعداد۔’’انٹرنیشنل ریڈرزمیگزین ‘‘نے کچھ عرصہ پہلے یہ جاننے کے لئے کہ دنیا کے کس ملک اور شہر میں سب سے زیادہ سچے اور ایماندار لوگ آباد ہیں ایک دلچسپ سروے کیا۔سروے کے مطابق تقریباً سولہ بڑے شہر منتخب کئے گئے۔ہر شہر کے فٹ پاتھوں ، شاہراہوں،پارکوں اور شاپنگ مالز میں 12,12والٹ پھینکے گئے۔ان میں رقم بھی موجود تھی اور مالکان کے رابطے کے پتے اور فون نمبرز بھی۔فن لینڈ کے دارالحکومت ’’helsinki‘‘کے شہریوں نے انتہائی زمہ داری اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 12 میں سے11والٹ میسر پتوں پر پہنچا دیے۔جب ان اشخاص سے بات کی گئی تو اکثریت کا جواب تھا کہ ’’ہم فن لینڈ کے لوگ قدرتی طور پر ایمان داری اور سچائی کو پسند کرتے ہیں شاید اس لئے کہ ہم نے اپنے والدین کو اس راستے پر چلتے دیکھا۔قدرتی طور پر ہمارے اندر دوسروں کی مدد کا جزبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے‘‘اسکے بر عکس لندن جیسے شہر میں 12میں سے صرف 5والٹ واپس کئے گئے۔جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ ایمانداری اور سچائی کا تعلق محض قوم کی معاشی صورتحال سے وابستہ نہیں ہوتا۔ یہ خوبیاں گھریلو تربیت اور معاشرتی اخلاقی اقدار سے تعلق رکھتی ہیں ۔خاندان کا تربیتی نظام مضبوط ہو توان خوبیوں کو معاشرے میں پنپنے کا موقع میسر آتا ہے۔جدید دور کا ایماندار ترین شخص ’’ابراہام لنکن ‘‘کو ماناجاتا ہے۔جو اس وقت بھی ایماندار تھا جب وہ کچھ نہیں تھا اور اس وقت بھی جب وہ امریکہ جیسے ملک کا صدر بن چکا تھا۔ابراہام لنکن کی ابتدائی عمر انتہائی غربت میں گزری۔یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب وہ اپنی کسمپرسی کا مقابلہ ایک سٹور پر کام کر کے کر رہا تھا۔ایک دن غلطی سے اس نے کسی گاہک سے معمولی رقم زائد وصول کر لی ۔حقیقت کا ادراک ہونے پر وہ محض ایک رات بھی اپنے ضمیر پر اس نادانستہ کی گئی بے ایمانی کا بوجھ برداشت نا کر سکا۔اسی رات اپنا کام ختم کر کے رات کے گھپ اندھیرے میں ، تین میل کا سفر پیدل طے کر کے وہ اس شخص کو رقم واپس لوٹانے چلا گیا۔صدارت کا عہدہ ملنے کے بعد بھی اس نے ریاست اور سیاست کے تمام تر معاملات انتہائی محنت اور ایمانداری سے نپٹائے۔سچائی درحقیقت ایک روشنی اور ایک طاقت ہے۔کسی بھی قوم کے حال،مستقبل ،اسکے کردار،اسکے مزاج حتی کہ اس کے نصیب کا تعین بھی اس کی قوم کی سچائی جیسے وصف سے وابستگی کی بناء پر ہی ممکن ہے۔جھوٹ ایک اندھیرا ہے جس میں ہمارا سب کچھ کھو جاتا ہے حتی کہ ہماری شناخت،ہماری روح اورہمارا نصیب بھی۔ہمارا نہ کوئی حال رہتا ہے نا ہی مستقبل۔ہم ایک لا متناہی احساس جرم میں مبتلا ہو کر رہ جاتے ہیں اورہماری نسلیں کبھی نہ ختم ہونے والی خفت ،پشیمانی اور ذلت اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ ایمانداری اور سچائی کے راستے پے چلنا آسان نہیں۔اس راستے پر چلنے والا انسان اپنے معاشی اور معاشرتی مقام و رتبے میں پست ہو سکتا ہے۔اسے بے وقعتی اور بے قدری کے زخم بھی کھانے پڑ سکتے ہیں۔لیکن سچ بحرحا ل سچ ہے۔اس سے زندگی آسان ہو نہ ہو موت ضرور آسان ہو جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ سچ کے لئے ضروری ہے کہ پورا سچ بولا جائے۔ادھورا سچ بھی پورے جھوٹ کے ھی برابر ہوتا ہے۔ مکمل سچائی وہ ہے جو پہلے خود اپنی زندگی کے بارے میں اپنے آپ کو سنائی جائے ،پھر اپنی یہی سچائی دوسروں کو بتائی جائے پھر ہم اس قابل ہو پاتے ہیں کہ دوسروں کی سچائی خود کواور ہر شے کی سچائی ہر ایک کو بتا پائیں ۔لیکن ہم نے دوسروں سے تو کیا خوداپنے آپ سے بھی سچ بولنا چھوڑ دیا ہے اور ہم اسی جھوٹ کو سچ جان کر اپنی عمر اس کے سراب میں بیتا دیتے ہیں گویا ہم جھوٹ جیتے ہیں ۔ہم سر سے لے کر پاؤں تک جھوٹ میں لتھڑے ہوئے ہیں ۔اورہمارا جھوٹ اتنا معیاری ہے کہ ہم اسے کمال مہارت اور خوداعتمادی سے بولتے ہیں۔ہم نے جھوٹ کو کہنا اور سہنا سیکھ لیا ہے۔ہمارے جھوٹ کا انتہائی خوف ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے کھلنے پر کوئی شرمساری محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی معزرت کی جاتی ہے ۔جب ہم نے اسے تسلیم ہی نہیں کیا تو پھرمعزرت کیسی۔اوراس طرح ہم اپنے جھوٹ سمیت قبر میں دفن ہو جاتے ہیں۔گویاہم نے دھوکے ،بددیانتی اورجھوٹ کو اپنا ٹریڈ مارک بنا لیا ہے۔ یہ ہمارے اوصاف بن چکے ہیں ۔اسمیں عمر،تجربے،سٹیٹس یا تعلیم کو کوئی تمیز نہیں۔قابل افسوس اور روح کو دہلا دینے والی سچائی تو یہ ہے کہ ذیادہ پڑھے لکھے لوگ ان اوصاف کے اتنے ہی ذیادہ بلند اور اعلی درجات پر فائز ہیں۔سچائی سے دوری نے ہی ہمیں بے ایمان اور دھوکہ باز بنا دیا ہے ۔ہم زمین پر گری ہوئی چیز کو اپنی قسمت کا جاگ جانا سمجھ کر انتہائی فخر سے اٹھا لیتے ہیں ۔ اگر دکاندار غلطی سے ہمارے بل میں کم رقم لکھ دے تو ہمیں تمام رات بھر خوشی سے نیند نہیں آتی۔بڑے بڑے سپر سٹورز پر لوگ سامان اڑا لے جاتے ہیں ،بعض اشیاء کے ساتھ جڑے ہوئے گفٹ غائب ہوتے ہیں۔یہاں ڈرائیور اپنی سواری کو،دکاندار اپنے گاہک کو،وکیل اپنے موئکل کو،استاد اپنے شاگرد کو اور ایک طبیب اپنے مریض کو دھوکہ دے رہا ہے۔فلاحی ادارے فلاح کے نام پر خیرات کھاجاتے ہیں،ڈاکٹر اپنے مریض کے گردے بیچ کھاتا ہے۔منصف عدل اور ناشر ادب کوبیچ کھاتا ہے،لائبریریوں میں بیش بہا خزانے غائب ہیں،اساتذہ اپنے ہی شاگردوں کے ریسرچ پیپرز اڑا کر اپنے نام سے چھپوالیتے ہیں۔یہاں گھوسٹ سکولوں اور اساتذہ کی تعداد اصل سے کہیں ذیادہ ہے۔یہاں مرچ ۔نمک گوشت کے علاوہ دوسروں کو دی جانے والی دعائیں اور نیک تمنائیں بھی جعلی اور نقلی ہیں۔پیر اپنے مرید سے ،عالم اپنے متعلم سے جعلسازی کرتا ہے ۔ہمارے جزبے ہمارے رویے بھی جعلی ہیں ۔ہم نے تو محبت کو بھی جھوٹ بنا دیا ہے ۔ہاں یہاں اگر کچھ خالص ملتا ہے تو وہ ہے نفرت اور قدورت ۔یہاں دھوکہ پوری ایمانداری سے دیا جاتا ہے ۔قابل افسوس امر ہے کہ ہمیں تاریخ بھی جھوٹ کے پنوں میں لپیٹ کے پڑھائی جاتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب ٹوپیاں سی کے اپنی گزر اوقات کرتا تھا۔یہ اسکا اسلامی تشخص تھا ۔لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ جب اقتدار کی خاطر اپنے سگے بھائیوں مراد اور داراشکوہ کو قتل کروا رہا تھا ،جب اپنے سگے باپ شاہجہاں کو زندان میں ڈلوارہا تھا اس وقت اسکا اسلامی تشخص کہاں تھا۔کہا جاتا ہے کہ 1965کی جنگ ہمیں ہمارے شاندار جزبوں اور ہمتوں نے جتوائی تو محض پانچ سال میں ہی 1971میں ہمارے ایسے شاندار جزبے مردہ کیسے ہو گئے۔؟ قائداعظم کے بعد ہمیں کوئی ایماندار سیاستدان نصیب ہوا نہ کسی سیاستدان نے ہم سے سچ بولا۔ہمیں ہمیشہ محض یہ درس دیا گیا کہ موساداور را ہماری جان کے دشمن ہیں پہلے کبھی کسی نے نا بتایا کہ سب سے پہلے تو ہمارا لہو ہماری خود کی پھیلائی گئی غربت،اقرباء پروری،جہالت اور فرقہ پرستی کی جونکیں چوس رہی ہیں ۔ہمیں تو ایک مدت تک اس جھوٹ اور فریب میں بھی رکھا گیا کہ طالبان مجاہدین ہیں ۔حقیقت کا ادراک تو تب ہوا جب وہ ہمارے ہی گلے کاٹنے لگے۔ضیاء الحق جیسے مطلب پرست نے اسلام کے نام پر ہم سے جھوٹ بولے اور بھٹو نے روٹی ،کپڑا اور مکان کے جھوٹے نعرے سے ہمیں بہلا یا۔شدت پسند گروہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور وہ نوجوانوں کو جنت کا جھوٹا وعدہ دے کر جہنم واصل کر رہے ہیں۔ایسے جھوٹ فاش تو ہوئے لیکن تب تک ہم ان کی دلدل میں بری طرح پھنس چکے تھے ۔ آج ہم اپنی ان بھیانک قسم کی لاعلمیوں،بے خبریوں اور جھوٹ کی فصل کاٹ رہے ہیں۔یہ سچ ہے کہ سچائی اور ایمانداری کا راستہ کسی بھی قوم کی بلند کرداری،بلند ہمتی،خودداری اور انا کو تشکیل دیتا ہے۔یہ وہی اوصاف ہیں جن کو نبیؐ کریم ﷺکی حیات پاک کے مطالعے سے سیکھ کر آج مغربی ممالک انسانیت کے اعلی مقام پر فائز ہیں ۔وہ آج انہی اوصاف کی بدولت سر اٹھا کر جی رہے ہیں اور ہم آج انہی اوصاف سے دور ہو کر رسوائے زمانہ ہیں۔اور راہ دیکھ رہے ہیں کسی مسیحا کی جب کہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک بدکردار اور دھوکہ باز قوم کے نصیب میں بدکردار اور دھوکہ باز حکمران ہی ہوتے ہیں۔اور جب تک ہم جھوٹ اور فریب جیتے رہیں گے وقت اور تقدیر تباہی اور رسوئی ہمارے نام کرتے رہیں گے۔۔۔۔