ہندوستانی نسل پرستی کے جڑیں
از تابش خیر
مترجم : ابو اسامہ ، اسٹنٹ پروفیسر، شعبہ سوشل ورک، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدراباد
تابش خیر بنیادی طور پر ہندوستانی مصنف ہیں اور اس وقت ڈنمارک میں انگریزی ادب کے پروفیسر ہیں۔ تابش یوروپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ پروفیسر ہیں ۔انہوں نے موجودہ سیاسی ، سماجی اور تہذیبی مسئلوں پر بہت بیباکی سے لکھا ہے۔ مغرب میں پولیٹکل اسلام اور مسلم بنیاد پرستی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کےتئیں مغرب کی امتیاز پرستی پر بھی مستقل لکھتے رہتے ہیں۔درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں جن پر دنیا کے عظیم لکھاریوں اور جریدوں نے تبصرے لکھے ہیں ۔ The new Xenophobia
Jihadi Jane, How to Fight Islamist Terror from the Missionary Position ان کی شاہکار تصانیف ہیں۔ انہوں نے اپنی ادبی تحریروں کو عصری اور سیاسی مباحث سے جوڑ کر مزید اہم بنایا ہے۔ تابش خیر اپنی تحریروں میں تاریخی، فلسفیانہ اور سماجی بیانیہ کو عصری دنیا کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ جغرافیائی ماحول اور تہذیبی تفرقے کا یکسر انکار کرنے والے تابش خیر انسان دوستی اور ہمہ گیر انسانیت کی تلاش میں کئی بار متنازع فیہ بھی رہے ہیں، ان کی عالمانہ تحریر کے پس منظر کو نہ یہ کہ صرف سمجھنا ضروری ہے بلکہ ذہنی طور ہم آہنگی بھی نا گزیر ہے ۔ اسی لیے ان کی تحریریں بلا شبہ ایک آفاقیت اور انسان کی بنیادی اخلاقیت کو تلاش کرتی ہیں اور بے بسی اور ناامیدی کے ماحول میں بھی ایک امید کی کرن جلاتی ہیں۔ پیش نظر مضمون ‘دی ہندو’ اخبار میں شائع ہوا ہے جس کا ترجمہ قارئین کے خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (عرض مترجم)
ہندوستان میں ایسے سیاستدانوں کی ایک اچھی تعداد ہےجو ہندوستان کی بابت عدم نسل پرستی میں یقین رکھتے ہیں اور جن کا ماننا ہے کہ یہ ملک اس طرح کی ‘بدعتوں’ سے پاک ہے جب کہ حالیہ دنوں میں نائیجیریائی طلبہ دہلی کے نواح میں ہوئی حملوں نے ان کے اس یقین کو ایک جھٹکا دیا ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کے افریقی، کالے برطانوی ، افریقی-امریکی دوست اور عزیز ہیں ، جو سیاستدانوں کی اس بیوقوفی سے پریشان ہیں۔ اگر میں ذاتی طور پر کہوں توجب بھی میرے کالے یوروپی دوست ہندوستان جاتے ہیں اور خاص طور پر جب شمالی اور وسطی ہندوستان جاتے ہیں مجھےہمیشہ ایک عجیب سا اندیشہ رہتا ہے ۔میں اس بات پر بھی نادم ہوتا ہوں کہ نہ جانے وہ کس طرح کے تجربات لے کر واپس لوٹیں گے اور میرے ملک کے بارے میں کچھ ایسی رائے قائم کر لیں گے جو ہمیشہ ان کے پاس رہ جانے والی ہوں گی۔ جب کہ میرے ملک کے لوگ تو قطعا ایسے نہیں ہیں (یا ایسے نہیں ہونے چاہئیں : مترجم ) میں نے خود کالے یوروپیوں کے ساتھ سفر کیا ہے، افریقیوں سے ہندوستان میں بات کی ہے اور اپنے ساتھیوں سے بھی سنا ہے کہ اس گروپ کے بارے میں ہندوستان کی رائے تو یوروپیوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔مگر یوروپ سے شمالی اور وسطی ہندوستان میں آنے والے سنہرے بالوں والی سفید فام عورتوں کے بارے میں تو میں زیادہ خوف زدہ رہتا ہوں ۔ کئی بار ایسی خواتین کےساتھ گھومتے ہوئے میں نے ایسے بھدی اور نسل پرست بھپتیاں سنی ہیں جو خوش قسمتی سے ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو سمجھ میں نہیں آیا کیوں کہ ان کو ہندی زبان نہیں آتی تھی ۔
ماضی کے باقیات
ان میں سے کئی ایک تو کلونیل مباحث سے متعلق ہیں جو ہندوستان میں سرایت کر گئے ہیں: مثال کے طور پر، جس میں انیسویں صدی میں آدم خوری سے متعلق نسل پرست افریقہ کی یوروپین انجمن شامل ہے۔ آخر کار جس بھیڑ نے نوئیڈا میں نائیجیریائی طلبہ کو اپنا نشانہ بنایاہے ان کا کہنا تھا کہ ایک طالب علم جس کی زیادہ ڈرگس لینے کی وجہ سےموت واقع ہوگی تھی جس کو ان حبشیوں نے کھا لیا ۔
اسی طرح بیشتر سفید فام عورتیں فحش تنقیدوں کا سامنا کرتی ہیں۔ در اصل یہ خراب ہالی ووڈ فلموں کا نتیجہ ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن سے عام ہندوستانی شہری’مغرب’ کا سامنا کرتے ہیں۔ چونکہ ہم لوگ افلاطون اور مارک ٹوائن سے بےخبر ہیں اس لیے مغرب کی عورتوں کے ساتھ اس قسم کی بدسلوکی ہماری تہذیب کا حصہ بن گئی ہے۔ اس طرح کی شدت سے لبریز روایتیں قدامت پسند حلقوں میں رہی ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہماری روحانیت بھی تن ڈھکنے والے کپڑے کو ایک عورت کی روح اور اخلاقیات کا حصہ سمجھتی ہے ۔
پھر بھی اس طرح کی وایتوں کے لیے کلونیل وراثت یا نئی کلونیل ثقافتی روایتوں کو مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں ہے۔ اس طرح کے تعصبات کے پس پشت در اصل اندرونی وجوہات ہیں۔ بحیثیت قوم ہمیں ابھی بھی ان نسلی اور جنسی رویوں کو سمجھنا ہے جو Cast Narrative میں موجود ہیں ۔ انگریزوں کی افریقی آدم خوری کی داستانوں سے بہت پہلے ہماری اپنی آدم خوری کی کہانیاں ہیں ۔ گاڑھے اور گہرے رنگ اور غیر’ آریائی’ مشابہت رکھنے والے لوگوں سے متعلق تھیں جنھیں ہم موجودہ’ چترا کہانیوں’ میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اسی طرح ہندوستان میں ہم قدیم رسم و رواج والی عورتوں کے ساتھ بھدے طریقے سے پیش آتے ہیں ۔کیونکہ ان کے پہناوے اور سماجی طور طریقے مین اسٹریم ہندوستانیوں سے مختلف ہیں (اس میں ہندواور مسلمان دونوں شامل ہیں)۔ یہ سب اپنے آپ میں چونکا دینے والا ہے ۔ حکومت کی ‘پچھڑی ذاتوں’ کو معاشی اور دوسری وجوہات کی بنا پر نچلے مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے ساتھ تحریک کے زیر اثر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان میں زبردست اندرونی تعصب بنیادی طور پر سانولے دلتوں اور کالی جلدوں والی عورتوں کے تئیں ہیں ( قبائلیوں کے ساتھ تو ہم ٹھیک رویہ رکھیں گے اگر وہ یادو ؤ ں اور انصاریوں کے بالمقابل ہوں جو نسبتا گورے ہوتے ہیں ) ۔ ایسے رویوں میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں ہے ۔
نسل پرستی کی مختلف اقسام
بہر حال ، نسل پرستی ہمیشہ سے ‘رنگ’ سے متعلق نہیں رہی ہے جیسا کہ بہت سارے سیاست داں (غلط فہمی سے:مترجم )سمجھتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی ایک غلط امتیاز پرستی ہوتی ہے جو ظاہری جسمانی اختلافات کی وجہ سے ہوتی ہے جیسے جلد کا رنگ، ہونٹوں کی بناوٹ، بال وغیرہ وغیرہ کی بنیاد وں پر مبنی ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی صحیح ہے کہ جلد کا رنگ تو اٹھارویں صدی سے ہی ایک مشہور اشاریہ بن گیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے یوروپین افریقہ میں ظالمانہ غلامی کو جائز ٹھرانا چاہتے تھے۔
جلد کے رنگ اور نسل پرستی کے اس تعلق کے علاوہ بھی دوسری قسم کی نسل پرستی بھی ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ ایک آئرش ناول نگار نے حال ہی میں آ ئر لینڈ کو “برطانیہ کے حبشی’ سے تعبیر کیا ہے ۔ اس کے کہنے کا مفہوم یہ تھا کہ سترھویں صدی میں ہزاروں کی تعداد میں آئرش قیدیوں کو نئی دنیا کے نو آباد انگریزوں کے ہاتھوں بیچ دیاگیا تھا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جب جلد کے رنگ نے غلبہ پا لیا تھا تو کچھ انگریز اسکالرز کا کہنا تھا کہ آئرش در اصل حبشی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی انگریزوں سے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آئرش اور انگریز دونوں ہی ہمارے لیے ‘گورے’ ہیں ۔ ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دوسرے یوروپیوں کے ساتھ نسل پرستی کی شروعاتی تھیوری آئرش لوگوں سے کی گئی تھی۔ اس لیے بہت ہی آسانی سے کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ ہم ہندوستانیوں نے نسل پرستی پر کافی کچھ سیکھ لیا ہے اور آگے سیکھتے بھی رہیں گے۔ پھر دلتوں اور قبائلیوں پر اس قسم کا نسلی امتیاز برتتے بھی رہیں گے۔ ہندوستان میں ایسے سیاستدانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو ہندوستان کو ایک نسل پرست ملک ماننے سے انکار کرتی ہے اور در اصل یہ وہی طبقہ ہے جو ذات پات کے موجودگی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے ۔