پانامہ لیکس کیس کے ممکنہ فیصلہ کی مختلف جہتیں
(اسد علی طور)
سپریم کورٹ کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ 23 فروری کو تاریخی مقدمے کی سماعت مکمل کرکے تمام فریقین کی طرف سے جمع کروائی گئی 25 ہزار سے زائد دستاویزات کے مطالعے میں مصروف ہے اور پاکستان بھر میں یہ بحث جاری ہے کہ آخر اس مقدمے کا فیصلہ کیا آئے گا؟
تحریک انصاف وزیراعظم نوازشریف کا “سر” عدالت سے لے کر نکلے گی یا میاں صاحب کو کلین چِٹ مل جائے گی۔ مجھے دیگر بہت سے سپریم کورٹ کو رپورٹ کرنے والے صحافیوں کی طرح اس تاریخی مقدمے کی ہر سماعت سننے کا اعزاز حاصل ہوا اور ججز کےبہت سے سوالات سے لے کر طرفین کے وکلا کے دلائل اپنی ڈائری میں قلمبند بھی کئے۔ اگر آپ ٹی وی اسکرینوں پر چلنے والے ٹکرز یا صبح صبح اخبارات میں چھپے ہوئے محدود دلائل اور چٹ پٹی سرخیوں پر انحصار کرنے کی بجائے کمرہ عدالت میں موجود ہوں تو طرفین کے وکلا کے دلائل پر ججز کے سوالات مکالمے کی صورت میں سننے پر آپ کچھ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ معزز جج صاحبان اپنے سامنے موجود دستاویزات اور پوچھے جانے والے سوالات سے مقدمے کی کارروائی کو کن خطوط پر آگے بڑھا رہے۔
ظاہر ہے آپ ججز کے ذہنوں کو پڑھ تو نہیں پڑھ سکتے اور نہ ہی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ کیا نتیجہ اخذ کرچکے ہیں مگر آپ اتنا ضرور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فیصلہ میں کن نکات کو شامل کیا جائے گا جبکہ معزز جج صاحبان جو سوالات اٹھاتے ہیں اِن کے جوابات پر ججز جو جوابی ریمارکس دیتے ہیں وہ آبزرویشنز آپ کے ذہن میں فیصلہ کا ایک عبوری خاکہ بھی بنارہی ہوتی ہیں۔
ماضی میں سپریم کورٹ کے مقدمات کی سماعت دیکھنے کے تجربے اور پاکستانی قوانین کے محدود سے علم کی بنیاد پر سوچا کہ روایتی پیشین گوئیوں کی جگہ ایک ایسا آرٹیکل لکھا جائے جو کمرہِ عدالت سے باہر بیٹھے غیر صحافی قارئین، صحافت کے طالبعلموں اور سیاسی کارکنوں کو مقدمہ سمجھنے اور فیصلہ دیکھ کر اپنے اپنے سیاسی، مذہبی، نظریاتی تعصب اور مالی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلہ پر تبصرہ کرنے میں مددگار ہو کہ دراصل ان کے ذہنوں میں موجود سوالوں پر عدالت کے اندر کیا ہوا کیونکہ عدالت کے اندر الزامات اور جوابات کسی جلسے یا پریس کانفرنس کی طرح نہیں بیان کیے جاتے بلکہ ایک انتہائی پروقار انداز میں ایک قانون و ضابطے کے تحت معاملات زیرِ بحث آتے ہیں۔
شاید عدالت کو بھی احساس تھا کہ ایک پٹیشنر جماعت تحریک انصاف کے ساتھ آنے والے عام کارکنوں اور رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد پہلی بار کسی عدالتی کارروائی کو دیکھ رہی ہے اس لیے معزز جج صاحبان بار بار ایک جملہ دہراتے تھے کہ ہم کورٹ آف لاء ہیں یعنی ہم آئین اور قانون کے تحت وجود میں آیا ہوا فورم ہیں اس لیے ہمارے سامنے رکھی گئی بات اور دلیل بھی اِس قانون اور آئین کے میزان پر ہی تولی جائے گی۔
ہم میڈیا کارکن بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ معاشرے میں پائی جانے والی نظریاتی، سیاسی، مذہبی اور لسانی تقسیم کے اثرات سے ہمارے ذہنوں کا محفوظ رہنا ہمارے لیے بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن ایک کامیاب اور بہترین صحافی وہی ہوتا ہے جو واقعہ کے حقائق بیان کرتے ہوئے اپنی مذہبی، سیاسی، لسانی اور نظریاتی وابستگی کے زیرِ اثر نہ ہو ورنہ شاید وہ کہیں نہ کہیں ڈنڈی ضرور مار جائے گا۔ بدقسمتی سے سینئر صحافی حامد میر پر حملے کے بعد سے پاکستانی میڈیا میں اینکرز و صحافیوں کی اکثریت نے کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا ادارے کی چھتری تلے پناہ لے کر بیانیہ تشکیل دینے والوں کی جگہ خود کو عوامی موڈ کا پیروکار بنا لیا ہے۔ ایسے میں قاری تک معلومات زیادہ تر تعصب کی پیکنگ میں لپیٹ کر پہنچائی جاتی ہیں۔ اس عمل نے پہلے سے تقسیم معاشرے کو ایشوز پر اپنی فلاح کے لیے متحد ہونے کی بجائے سازشی تھیوریوں کا اسیر بنا دیا ہے اور ہم خود احتسابی سے بچتے ہوئے خود ترحمی کا شکار ہیں۔
میں اس تمہید سے قارئین کو یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ میں نے پانامہ لیکس کیس کی تاریخی سماعت کسی سیاسی و نظریاتی وابستگی سے بالاتر ہو کر اسٹیڈیم میں موجود ایک ایسے تماشائی کی حیثیت سے دیکھی جس کے لیے کھیلنے والی دونوں ٹیمیں اس کی نہیں ہیں۔ اس لیے جو بھی بہتر پرفارم کرتا ہے وہ اس کو سراہتا ہے اور ساتھ ساتھ کھیل کے اصول و ضوابط بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بہرحال سماعت اور ممکنہ فیصلے کی طرف واپس آتے ہیں۔
یہ کیس پہلے دن سے انتہائی پیچیدہ تھا اور وکلا میں یہ بحث جاری تھی کہ کیا سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/ 3 کے تحت عوامی مفاد میں اس پیٹیشن کو قبول کرکے اپنے آپ کو ایک ایسے صحرا میں داخل کر لیا ہے جس میں تاحدِ نگاہ کوئی منزل نہیں اور کیا یہ ایک درست فورم ہے جس کی گونج کمرہِ عدالت میں شریف خاندان کے تینوں وکلا کے دلائل میں بھی سنائی دی اور انہوں نے عدالت کے دائرہ سماعت کو تو چیلنج نہ کیا لیکن سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184/3 اس کی حدود کے محدود ہونے کا بار بار یاد دلایا کہ آپ کے سامنے جو دستاویزات موجود ہیں ان کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں سنا سکتے۔ اِسی طرح وزیراعظم کے لیے استثنیٰ مانگے بغیر آرٹیکل 66 کے تحت ممبر پارلیمنٹ کو حاصل آئینی تحفظ کی دیوار بنام وزیراعظم کے استحقاق کھڑی کردی۔
شریف خاندان کے وکلاء نے بظاہر ایک سوچی سمجھی قانونی اسٹریٹیجی کے تحت ججز کے بار ہا سوال کرنے پر بھی لارجر بینچ کو ایک قطری خط کی علاوہ کوئی دستاویزی ثبوت دینے سے گریز کیا جس کی وجہ سے معزز جج صاحبان شدید مایوسی کے عالم میں یہی پوچھتے نظر آئے کہ جن ثبوتوں کا وعدہ کیا گیا وہ کہاں ہیں اور لگتا ہے کوئی بھی سچ تک پہنچنے میں ہماری مدد کرنا نہیں چاہتا۔ ججز کے اس تھریٹ کے باوجود کہ وہ ثبوت نہ دے کر اپنے موکلین کے دفاع میں بہت بڑا جوا کھیل رہے شریف خاندان کے وکلا ٹس سے مس نہ ہوئے۔ شریف خاندان کے وکلا کی نئی ٹیم مخدوم علی خان، شاہد حامد اور سلمان اکرم راجہ نے ایسا معلوم ہوتا تھا اپنے موکلین کو بتا دیا تھا کہ پانامہ لیکس میں سامنے آنے والی دستاویزات میں موجود تحریروں پر اتنے سوال اٹھ گئے ہیں تو اگر شریف خاندان کے کاروباری معاہدے اور منی ٹریلز عدالت میں پیش کی گئیں تو ان میں درج تحریروں اور رقوم کے ذرائع ہمارا کیس طویل اور ناقابلِ دفاع بنا دیں گی جبکہ شاید ان دستاویزات کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ کوئی ایسی آبزرویشن بھی دے دے جو بعد ازاں ٹرائل میں کسی ماتحت عدالت یا انکوائری فورم پر ہمارے گلے کا پھندا بن جائے۔
اس کے علاوہ شریف خاندان کے وکلا نے ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت جہاں اپنے جوابات میں موجود خالی جگہوں کو پر کرنے کے لیے درکار دستاویزات جمع نہ کروائیں، وہیں تحریک انصاف کی طرف سے عدالت کو جمع کروائے گئے ثبوتوں اور پانامہ پیپرز میں افشا دستاویزات کی قانونی حیثیت کو بھی قانونِ شہادت کی روح سے نشانہ بنایا۔ پاکستانی عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات میں پیش کی جانے والے ثبوتوں کو وضع کردہ قانونِ شہادت کے ضوابط کے تحت پرکھا جاتا ہے کہ اگر یہ دستاویز قانونِ شہادت کے معیار پر پوری اترتی ہے تو اس کو عدالت اپنے ریکارڈ کا حصہ بنائے گی اور کسی بھی فیصلہ پر پہنچنے کے لیے اِس دستاویز سے مدد بھی لے گی ورنہ چاہے اس دستاویز میں جتنی بھی اہم معلومات ہوں اگر وہ قانونِ شہادت کے معیار پر پورا نہیں اترتی تو ردی کی ٹوکری میں جائے گی۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ پانامہ لیکس کی جن دستاویزات پر عدالت انحصار کررہی ہے وہ قانونِ شہادت کی روح کے مطابق نہیں کیونکہ پاکستانی قانونِ شہادت لیک شدہ دستاویزات کو جن کو لیک کرنے والا سامنے نہ ہو چوری شدہ دستاویزات قرار دے کر ان کو بطورِ ثبوت نہیں مانتا۔ اسی طرح یہ دستاویزات کمپیوٹر سے ڈاون لوڈ کی گئی غیر تصدیق شدہ کاپیاں ہیں تو اس بنیاد پر بھی یہ قانونِ شہادت کی روح سے مسترد ٹھہرتی ہیں۔ کیونکہ وزیراعظم کے بچے ان دستاویزات کو درست تسلیم کرکے زیرِ تنازع فلیٹس کی ملکیت تسلیم کرچکے ہیں اس لیے یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ عدالت پانامہ پیپرز میں جاری کردہ دستاویزات کو قانونِ شہادت کے طے کردہ معیار پر پرکھ کر مسترد کرتی ہے یا وزیراعظم کے بچوں کی طرف سے دستاویزات کو درست تسلیم کیے جانے کو بنیاد بنا کر ان کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے کوئی حکم صادر کرتی ہے۔
سپریم کورٹ پانامہ لیکس کی دستاویزات کو تسلیم کرتی ہے یا مسترد، قطری خط کو مانتی ہے یا نہیں، وزیراعظم کی تقریروں میں قطر کے ذکر نہ کرنے پر ان کو صادق یا امین کے میزان پر کیسے تولتی ہے، مریم نواز کو وزیراعظم کے زیرِ کفالت مانتی ہے یا نہیں، وزیراعظم اور کیپٹن صفدر کے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں میں بیان کی گئی تفصیلات کو درست تسلیم کرتی ہے یا نہیں، وزیراعظم نے قوم سے غلط بیانی کی یا حقائق چھپائے، وزیراعظم صادق اور امین رہے یا نہیں، سپریم کورٹ وزیراعظم کی اہلیت یا نااہلی کا فیصلہ کرنے کا فورم بن سکتی ہے یا نہیں، مریم لندن اپارٹمنٹس کی مالک ہیں یا ٹرسٹی، حسین نواز نے فلیٹس 2006 میں ہی قطری شہزادے سے حاصل کیے یا پہلے سے ہی شریف خاندان نے خفیہ طور پر خرید رکھے تھے؟ اور فلیٹس جن ذرائع آمدن سے لیے گئے کیا وہ جائز تھے یا ناجائز، کیا حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا جمع کروایا گیا اعترافی بیان وزیراعظم کے خلاف بطورِ ثبوت استعمال ہوسکتا ہے یا نہیں، کیا عدالت خود ایک انکوائری فورم کا کردار اختیار کرکے پانامہ لیکس کیس میں لگنے والے الزامات کی تحقیق کر سکتی ہے؟
کیا سپریم کورٹ خود ٹرائل کورٹ بن کر کسی کو سزا دے سکتی ہے؟ اور آرٹیکل 184/3 کے تحت پیٹشن کی سماعت کرتے ہوئےسپریم کورٹ اپنے دائرہِ سماعت کو کتنی وسعت دے کر کس حد تک جاسکتی ہے؟ یہ وہ سب اصول ہیں جن کو سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلہ میں طے کرکے ایک ایسی نظیر قائم کرنی ہے جو آنے والے سالوں میں پاکستانی عدلیہ میں بطورِ دلیل استعمال ہوگی اور اس بات کا بینچ میں موجود ججز کو بخوبی اندازہ ہے تبھی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایسا مظبوط فیصلہ کریں گے جو اگلے 20 سال تک کھڑا رہے۔ مظبوط فیصلہ سے ان کی مراد ایسا فیصلہ تھا جس میں جو اصول طے کیے جائیں اور آئینی و قانونی نکات کی جو تشریح بیان کی جائے بعد میں کسی اور عدالتی فیصلہ میں انہی آرٹیکلز کی کوئی ایسی تشریح نہ کردی جائے کہ مستقبل میں وکلا اس فیصلہ کو اپنے دلائل کا حصہ بناتے ہوئے گھبرائیں کہ مخالف وکیل کسی دوسرے بینچ کے فیصلے کی مثال دے کر میری دلیل کو کمزور نہ کردے۔ اب آتے ہیں اس تاریخی کیس کے فیصلے کی طرف کہ اس میں کیا ممکنہ نکات ہوں گے۔
پانامہ پیپرز کی دستاویزات کی قانونی حیثیت؟
زیادہ امکان یہی ہے کہ عدالت ان کو تسلیم کرتے ہوئے ریکارڈ کا حصہ بنائے گی کیونکہ چاہے یہ قانونِ شہادت پر پورا نہیں اترتے لیکن شریف خاندان کی طرف سے ان کو تسلیم کرنے کے بعد ان کو مسترد کیے جانے کا کوئی خاص جواز نہیں رہا ورنہ عدالت اس کیس کو پہلی چند سماعتوں پر ہی فارغ کردیتی کہ کیونکہ مقدمہ کی بنیاد جو دستاویزات ہیں وہ ہی قانونِ شہادت کی روح پر پورا نہیں اتر رہیں۔
قطری خط کی حیثیت؟
15نومبر کو جب یہ خط عدالت میں پہلی بار پیش کیا گیا تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دے کر اس خط کو ایک طرف رکھ دیا تھا کہ جب تک یہ قطری شہزادہ عدالت میں پیش ہو کر اس خط کو اپنا نہیں مانتا اور اِس کے مندرجات کی تصدیق کرتے ہوئے جرح کروا کر ہمیں مطمعن نہیں کرتا اس خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ قانونِ شہادت ایسی کسی دستاویز کو تسلیم نہیں کرتا جس کا راقم خود پیش ہوکر اس کو قبول نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ میں 23 فروری کو سماعت مکمل ہونے تک نہ تو شریف خاندان کے وکلا نے قطری شہزادے کو پیش کرنے کی کوئی آفر کی نہ ہی عدالت نے شہزادے کو طلب کرنے پر اصرار کیا جس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ لارجر بینچ خود سے اس کیس کا فیصلہ سنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ کیس کو مزید انکوائری اور ٹرائل کے لیے دیگر فورمز پر بھیجنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اگر عدالت شہزادے کو خود طلب کرکے اس پر جرح کرتی اور وہ سپریم کورٹ کو مطمعن کر دیتا یا بینچ اس کے جواب کو دستاویزی شواہد نہ ہونے پر سنی سنائی کہانی کہہ کر مسترد کردیتی تو پھر عدالت کو کوئی واضح فیصلہ دینا پڑتا جس سے عدالت نے گریز کی کوشش کی ہے۔ تو امید کی جاسکتی ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قطری خط کو کسی انکوائری فورم کے حوالے کرے گی کہ آپ اس خط میں بیان کی گئی معلومات کی تحقیقات کریں اور قطری شہزادے کو طلب کرکے اس پر جرح کریں اور شہزادے سے اس خط میں بیان کی گئی کہانی کے دستاویزی شواہد مانگیں۔
وزیراعظم صادق اور امین ہیں یا نہیں؟
سپریم کورٹ سے پانامہ لیکس کیس کے پیٹشنر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید وزیراعظم کے آرٹیکل 62/63 کا اطلاق کرتے ہوئے صادق اور امین ہونے یا نہ ہونے پر ڈگری جاری کرنے کا مطالبہ کرتے رہے کہ وزیراعظم نے قوم سے دو خطابوں اور پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں قطر کا ذکر نہیں کیا جبکہ عدالت میں بیان کی گئی قطری شہزادے سے لندن کے فلیٹس کی settlement کی کہانی کے برعکس وزیراعظم نے دبئی اور جدہ کی فیکٹری کی فروخت سے حاصل ہونے والے ذرائع سے فلیٹس خریدنے کا دعویٰ کیا۔ سپریم کورٹ فیصلہ میں شاید پارلیمینٹ کے فلور پر کی گئی تقریر پر ممبر قومی اسمبلی کو آرٹیکل 66 کے تحت حاصل تحفظ کا فائدہ وزیراعظم کو بھی بطور رکنِ اسمبلی دے دے لیکن وزیراعظم کے قوم سے ریاستی ٹی وی پر کیے گئے دونوں خطابات پر ضرور سوال کھڑے گی کہ وزیراعظم نے قطر کا ذکر جان بوجھ کر چھپایا یا وہ یہ ذکر کرنا بھول گئے اور اس معاملے پر ہوسکتا ہے بینچ تین دو میں تقسیم بھی ہوجائے۔ جس سے ممکنہ طور پر دو ججز کہیں کہ وزیراعظم قطر کا ذکر چھپا کر قوم سے غلط بیانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ صادق امین نہیں رہے جبکہ تین ججز شاید لکھیں کہ بظاہر قطر کا ذکر نہ کرکے وزیراعظم نے اچھی مثال قائم نہیں کی لیکن کیا وزیراعظم نے جان بوجھ کر یہ معلومات چھپائی یا وہ بھول گئے اس پر وہ کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے گریز کرتے ہوئے وزیراعظم پر چھوڑتے ہیں کہ اپنے بیانیہ میں موجود اس تضاد کے بعد اخلاقی طور پر اپنے عہدے پر رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس طرح عدالت اس نکتے کو الیکشن کمیشن کو بھجوا دے گی کہ وہ ہی اس پر کوئی فیصلہ کرے۔
مریم نواز وزیراعظم کے زیر کفالت ہیں یا نہیں؟
ادھر شاید عدالت وزیراعظم کا موقف تسلیم کرلے کہ مریم ان کے زیر کفالت نہیں ہیں لیکن وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ جس انداز میں رقم اور زمین کو بطور تحفہ دینے کے قانون کا فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز اپنے والد میاں نوازشریف کو رقم بطور تحفہ بھجواتے ہیں جس سے وہ زرعی رقبہ مریم نواز کے لیے خریدتے ہیں اور پھر حسین نواز اپنے والد وزیراعظم کو دوبارہ رقم بطور تحفہ بھجواتے ہیں جو وزیراعظم اپنی بیٹی مریم نواز یعنی حسین نواز کی بہن کو بطور تحفہ دے دیتے ہیں اور مریم نواز تحفے میں موصول ہونے والی رقم واپس وزیراعظم کو ادا کرکے وہ رزعی رقبہ اپنے والد سے خرید لیتی ہیں۔ عدالت اس طریقہ کار پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے اس قانون میں ترمیم تجویز کرسکتی ہے۔
مریم نواز لندن فلیٹس کی مالک ہیں یا ٹرسٹی؟
حسین نواز کے اس دعوے کہ ان کی بہن مریم نواز ان کے فلیٹس کی بطور ٹرسٹی مالک ہیں جس کے لیے انہوں نے ایک ٹرسٹ ڈیڈ بھی عدالت میں جمع کروائی ہے۔ کیونکہ یہ ٹرسٹی دستاویز کہیں باقاعدہ رجسٹرڈ نہیں ہے اس لیے اس کی قانونی حیثیت مشکوک قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ اس پر مزید تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے لیکن اس کو فوری مسترد کرنے سے شاید گریز کرے۔
کیپٹن صفدر کی اہلیت کا معاملہ؟
اگر مریم بطور ٹرسٹی بھی ان فلیٹس کی ملکیت رکھتی ہیں تو ان کو انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہ کرکے کیا رکنِ قومی اسمبلی کیپٹن صفدر اثاثے چھپانے کے مرتکب ہوئے ہیں یا وہ ایسے فلیٹس اپنے انتخابی گوشواروں میں داخل کرنے کے پابند نہیں تھے جن کی ملکیت ان کی اہلیہ کے پاس صرف بطور ٹرسٹی تھی یہ پیچیدہ سوال بھی عدالت کے سامنے ہوگا اور شاید عدالت اس معاملے پر بھی خود ڈگری جاری کرنے سے گریز کرتے ہوئے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دے کہ وہ اپنے قوانین کے تحت دیکھے کیپٹن صفدر اثاثے چھپانے کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں۔
لندن فلیٹس کیا واقعی 2006 میں حسین نواز کی ملکیت میں آئے؟
فلیٹس کے 2006 میں حسین نواز کو منتقلی کا جو دعویٰ قطری خط میں کیا گیا، اس دعوے کی سپورٹ میں حسین نواز نے صرف ایک دستاویز عدالت میں پیش کی جس میں انہوں نے فلیٹس کے بیئرر شیئرز کو 2006 میں منروا کمپنی کے نام رجسٹرڈ کروایا۔ حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے بقول بیئرر شیئرز کرنسی نوٹوں کی طرح ہوتے ہیں جن پر کسی کا نام درج نہیں ہوتا آپ اپنے ہاتھوں سے بھی کسی کے حوالے کرسکتے ہیں اس کی ٹرانسفر کے لیے کسی دستاویزی معاہدہ کی ضرورت نہیں اس لیے قطری شہزادے نے یہ حسین نواز کے حوالے کردئیے اور حسین نواز نے بعدازاں ان کو بیرئیر شیئرز کو منروا کمپنی کے نام رجسٹرڈ کروا لیا جس کے ڈائریکٹرز میں انہوں نے مریم نواز کو ڈائریکٹر نامزد کردیا۔ سپریم کورٹ شاید اس طرح بغیر کسی تحریری معاہدہ کے فلیٹس کے بیرئر شیئرز کی حسین نواز کو منتقلی سے بھی شاید مطمعن نہ ہو اور اس معاملہ کی مزید تحقیقات کا حکم دے۔
حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کی اہمیت کیا ہے؟
اسحاق ڈار نے نیب سے ڈیل کرکے خود کو ملزم سے وعدہ معاف گواہ بنوا کر سن 2000 میں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کا اعترافی بیان جمع کروایا تھا جس میں وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگاتے ہوئے رحمان ملک کی بطور ڈی جی ایف آئی اے 1998 میں تیار کردہ منی لانڈرنگ کی رپورٹ کی کہانی کے بیشتر نکات کو دہرایا تھا۔ بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس بنیاد پر ریفرنس خارج کردیا تھا کہ اس ریفرنس میں ملوث ملزمان بیرونِ ملک تھے اور ان سے تفتیش کے بغیر سزا سنائی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریفرنس خارج کرتے وقت لاہور ہائیکورٹ نے اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کو مسترد نہیں کیا تھا یعنی کے ریفرنس تکنیکی بنیادوں پر خارج ہوا تھا لیکن بریت نہیں تھی۔
اہم قانونی نکتہ جو سپریم کورٹ کے لارجز بینچ کے سامنے تھا وہ یہ تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جس بینچ نے یہ فیصلہ سنایا اس میں ایک جج اس ریفرنس کے خارج کرتے ہوئے اسحاق ڈار کے بیان پر نئے سرے سے تحقیقات کرکے دوبارہ ٹرائل چاہتا تھا جبکہ دوسرا جج ریفرنس خارج کرکے دوبارہ انکوائری کا فیصلہ نیب پر چھوڑنا چاہتا تھا لیکن ریفری جج نے نہ صرف ریفرنس خارج کرنے والے دوسے جج کا ساتھ دیا بلکہ جو ریلیف حدیبیہ پیپر ملز نے نہیں بھی مانگا تھا وہ بھی دیتے ہوئے نیب کو اس کیس کی ازسرِ نو تحقیقات سے روک دیا جس کے خلاف نیب نے کوئی اپیل بھی نہ کی۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے ارکان اس فیصلے سے واضح طور پر نالاں نظر آئے اور بار بار ریفری جج کی دلیل پر بولتے بولتے رک جاتے جس سے ایسا تاثر ملتا تھا کہ وہ جج کی ذات پر ریمارکس دیتے ہوئے ادارے کے تقدس کی خاطر خاموش ہوجاتے ہیں ورنہ ان کو بخوبی احساس ہے کہ یہ فیصلہ کسی بھی طرح انصاف کے معیار پر پورا نہیں اترتا اور کہیں نہ کہیں ریفری جج نے شریف خاندان کے حق میں جانبداری دکھاتے ہوئے کوئی گڑبڑ کی ہے۔
سپریم کورٹ کے سامنے پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کی استدعا تھی کہ اس ریفرنس میں کیوں کے اسحاق ڈار کے بیان کو کیونکہ مسترد نہیں کیا گیا اور ان کی بریت نہیں ہوئی بلکہ ریفرنس خارج ہوا ہے اس لیے اس اعترافی بیان کو بطورِ شہادرت وزیراعظم نوازشریف کے خلاف استعمال کیا جائے۔ عدالت شاید اعترافی بیان کو اس مقام پر بطور شہادت استعمال سے گریز کرے لیکن لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب کو اپیل کرکے اسحاق ڈار کے بیان پر نئے سرے سے تحقیقات کرکے ریفرنس کے دوبارہ اندراج کا حکم ضرور دے سکتی ہے تاکہ اگر اعترافی بیان میں استعمال کی گئی کہانی درست ثابت ہو تو پھر حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس ہی وزیراعظم نوازشریف کے سیاسی مستقبل کے لیے پھندا ثابت ہوگا۔
نیب اور چیئرمین نیب پر ممکنہ چارج شیٹ
سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو طلب کرکے ان سے دو موضوعات پر سوال کئے ایک پانامہ لیکس پر نیب نے کیا کاروائی کی اور دوسرا حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف نیب نے اپیل کیوں نہ کی۔ دونوں ایشوز پر چیئرمین نیب کے جوابات نے لارجر کو صرف مایوس ہی نہیں کیا بلکہ ججز کو برہم بھی کر دیا۔ عدالت نے چیئرمین نیب کو باور کروایا کہ صرف ان کے اِن ایکشن کی وجہ سے آج عدالت کو پانامہ لیکس کیس کی دلدل میں اترنا پڑا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے چیئرمین نیب قمرالدین چوہدری سے پانامہ لیکس پر کوئی ایکشن نہ لینے پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے کہا کہ کاش ان کو احساس ہے کہ اللہ نے انہیں کتنے بااختیار عہدے سے نوازا ہے جہاں انہیں تعینات کرنے والا بھی نہیں ہٹا سکتا اور ایسی پوزیشن پر بیٹھ کر وہ پاکستانی عوام کی کتنی خدمت کرسکتے تھے۔
اسی طرح جسٹس عظمت سعید شیخ نے چیئرمین نیب کو ان کے ادارے کے غیر فعال ہونے پر برہم ہوتے ہوئے کہا آپ کی وجہ سے ہمیں طعنے سننے پڑتے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم سے گھر جاکر سوال ہوتے ہیں آپ کو تحفے کیوں ملے اور کس نے دیے؟ لیکن ہمارے ادارے ایکشن میں ہی نہیں آتے۔ اسی طرح جب چیئرمین نیب نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کے اخراج کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں نہ جانے کی وجہ ملنے والی قانونی ایڈوائس کو دیا تو عدالت نے ان سے وہ ایڈوائس پڑھنے کو کہا جس پر وہ گویا ہوا کہ ایڈوائس میں لکھا ہے کہ میاں شریف کیوں کہ فوت ہوچکے ہیں اس لیے ان کے خلاف ریفرنس کھولنے سے ادارے کے حصے میں صرف بدنامی آئے گی۔ جس پر بینچ میں وائٹ کالر کرائم کے ایکسپرٹ کی شہرت رکھنے والے جسٹس عظمت سعید شیخ نے طنزیہ طور پر کہا کہ ابھی تو نیب کے حصے میں بڑی نیک نامی آرہی ہے۔ جسٹس عظمت سعید یہیں نہیں رکے انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی کی چار سو روپے کے کیس میں بھی ضمانت لے لیں تو آپ یعنی نیب ہمارا دروازہ توڑ دیتے ہیں کہ ضمانت کیوں لی اور یہاں ایک ارب سے زائد قوم کے پیسے کا معاملہ ہے اور آپ نے اپیل کرنا مناسب ہی نہ سمجھا حالانکہ اس ہی فیصلہ میں ایک جج نیب کے اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کو بنیاد بنا کر نئے سرے سے تحقیقات کرکے ریفرنس کو دوبارہ دائر کرنے کے حق میں دلائل لکھ رہا ہے آپ کاش ان دلائل کے سہارے ہی اپیل کرلیتے۔
لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اس موقع پر آبزرویشن دی کہ یہ قانونی ایڈوائس تو نہیں ہے۔ عدالت نے جب چیئرمین نیب سے استفسار کیا کہ کیا وہ اب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف دوبارہ اپیل دائر کرسکتے ہیں تو چیئرمین نیب نے انکار کردیا جس پر ججز نے ان کو تنبیہ کردی کہ وہ اب نتائج کے لیے تیار رہیں۔ اس سے قبل عدالت چیئرمین نیب کی تعیناتی کے طریقہ کار پر بھی سوالات کرچکی تھی کہ یہ وہی چیئرمین نیب ہیں جن کو اپوزیشن لیڈر اور حکمران جماعت کے وزیراعظم باہمی مشاورت سے صدرِ مملکت لگاتے ہیں اور قمرالزمان چوہدری نے پیپلزپارٹی حکومت اور چوہدری نثار دونوں کے ماتحت بطور سیکریٹری داخلہ کام کیا ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حدیبیہ پیپر ملز پر لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل نہ کرنے کو فرینڈلی فائر قرار دیا۔ جبکہ لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ہی چیئرمین نیب کے بارے میں آبزرویشن دی کہ ایسا افسر کیا کسی کا چالان بھی پکڑ سکتا ہے؟
لارجر بینچ کے یہ ریمارکس ججز کا موڈ بتاسکتے ہیں کہ قوی امکان ہے عدالت چیئرمین نیب کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے اور نیب قانون میں ترمیم کی تجویز دیتے ہوئے موجودہ چیئرمین نیب کو ایک کمپرومائزڈ افسر لکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو ان کے خلاف کاروائی کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے عدالت نیب بطور ادارہ کے مینڈیٹ اور خودمختاری کے بارے میں بالعموم لیکن چیئرمین نیب کے بارے میں بالخصوص ایک چارج شیٹ دے گی جس کو بیناد بنا کر مستقبل میں کوئی بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں نیب سربراہ کی برخاستگی کے لیے پیٹیشن دائر کرسکے گا کیونکہ چیئرمین نیب کو براہِ راست نہیں ہٹایا جاسکتا بلکہ اس کام کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے فورم سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح دھاندلی انکوائری کمیشن میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان وزیراعظم نوازشریف کا سیاسی سر لینے آئے تھے لیکن جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں قائم کمیشن نے کپتان کو الیکشن کمیشن کا گریبان پکڑا کر گھر بھیجا تھا شاید پانامہ لیکس کے فیصلے میں بھی سپریم کورٹ کا لارجر بینچ بھی خان صاحب کو وزیراعظم نوازشریف کی بجائے نیب کا گریبان پکڑا کر گھر بھیجے گا۔
شریف خاندان کے جواب کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا آپشن؟
یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کیا معاملہ کو مزید تحقیقات کے لیے تحقیقاتی فورمز نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر جیسے فورمز کو بھجوا کر کیا درخواستوں نمبٹا دیتا ہے یا جو ادارہ جسٹس عظمت سعید شیخ کی نظر میں وفات پاچکا اور وہ کہہ چکے کہ وزیراعظم کے خاندان کے خلاف نیب کے ذریعے تحقیقات کا معاملہ زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہوچکا ہے جبکہ لارجر بینچ سربراہ آصف سعید کھوسہ کہہ چکے کہ اس چیئرمین نیب جیسا افسر کیا کسی کا چالان بھی پکڑ سکتا ہے کیا سپریم کورٹ اس نیب سے اب یہ تحقیقات کروائے گی؟ امکان ہے کہ عدالت کوئی ایسا کمیشن بھی تجویز کرسکتی ہے جس کے ماتحت اس ادارے کے افسران دے کر ان سے مکمل تحقیقات کروائے اور جو فائنڈگز کمیشن دے ان کو احتساب عدالت میں ٹرائل کے لیے بھجوا دے کیونکہ سپریم کورٹ ارسلان افتخار کیس میں یہ اصول طے کرچکی ہے کہ جو شخصیت کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتی ان کے خلاف کاروائی کا فورم وہ نہیں ہوسکتا جو کسی بھی سرکاری عہدیدار کے خلاف کاروائی کے لیے ہوسکتا ہے جیسا کہ میمو کمیشن میں ہوا تھا۔
میمو کمیشن میں ملزم حسین حقانی بطور امریکہ میں پاکستانی سفیر پبلک آفس ہولڈر تھے جو عوامی ٹیکس سے تنخواہ وصول کرتے تھے اور ریاستی پروٹوکول انجوائے کرتے تھے جبکہ ارسلان افتخار کمیشن میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار اور بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض دونوں پرائیویٹ بزنس مین تھے اور پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے اس لیے ان دونوں کے دعوے کو حتمی فیصلہ کے لیے ٹرائل کورٹ بھجوا دیا گیا تھا۔ پانامہ لیکس کیس میں اگر معاملہ وزیراعظم کے بچوں کے خلاف تحقیقات تک محدود رہتا ہے تو وزیراعظم کے تینوں بچے حسین نواز، مریم نواز اور حسن نواز میں سے کوئی بھی سرکاری عہدہ نہیں رکھتا نہ ہی منتخب رکنِ اسمبلی ہے اس لیے ان پر میمو کمیشن والا نہیں بلکہ ارسلان افتخار کمیشن کا فارمولا لاگو ہوگا کہ کمیشن کی فائنڈنگز ماتحت عدلیہ کو مزید ٹرائل کے لیے بھجوا دی جائیں۔
وزیراعظم کے ذاتی مفادات اور امورِ مملکت میں ٹکراو؟
یہ سب سے دلچسپ نکتہ ہوگا جس کو امید ہے عدالت اپنے فیصلے کا حصہ بنائے گی۔ ججز اس بات پر ضرور سوال اٹھائیں گے کہ ملک کا وزیراعظم سب سے بااختیار اور حساس عہدے پر بیٹھا ہوا شخص ہے تو ایسے میں اس کے اہلخانہ کیونکر قطری حکمران شاہی خاندان کے ساتھ کاروبار کر رہے تھے جن سے ان کے والد بطور سربراہِ مملکت ریاست کے معاشی معاہدے کررہے تھے۔ اِسی وجہ سے عدالت نے حکومت سے قطری الثانی فیملی کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا ریکارڈ بھی لیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے تو یہ سوال بھی کیے کہ حسین نواز نے اگر دو شادیاں کررکھی ہیں تو دونوں بیویوں کی نیشنیلٹی کیا ہے اور جب جواب ملا کہ دونوں پاکستانی نیشنل نہیں ہیں تو انہوں نے یہ تک پوچھا کہ کہاں کی نیشنل ہیں جس پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے تھوڑے تذبذب سے جواب دیا کہ ایک سعودی نیشنل ہے جبکہ دوسرے لبنانی نیشنل ہیں۔
بظاہر حسین نواز کی بیویوں کی نیشنیلٹی کا کیس سے کوئی تعلق نہیں لیکن عدالت دراصل یہ سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ ملک کا وزیراعظم جو حکومت تو پاکستان پر کررہا ہے وہ جب اپنے اہلخانہ کا مفادات کا معاملہ آتا ہے تو کس حد تک پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کو اہمیت دیتا ہے۔ لارجر بینچ یہ جاننے میں شاید دلچسپی رکھتا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے خاندان کی جڑیں اندرونِ ملک گہری کرنے میں زیادہ دلچسپی لی یا بیرونِ ملک۔ اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ عدالت اپنے فیصلے میں گورننس کا ضابطہ بھی تجویز کرے گی جس کو اختیار کرکے سربراہِ مملکت، منتخب نمائندے اور سرکاری عہدے دار زیادہ شفافیت سے امورِ مملکت چلا سکتے ہیں۔
کیا کسی کو سزا ہوگی؟
پیٹشنرز کی خواہش تو ضرور ہوگی کہ وہ وزیراعظم کے خلاف یا ان کے بچوں (خاص کر مریم نواز کو) میں سے کسی کو سزا دلوا کر نکلیں لیکن شاید اس مرحلہ پر یہ ممکن نہ ہو کیونکہ سپریم کورٹ ملک میں انصاف کا سب سے بڑا مگر اپیل کا بھی آخری فورم ہونے کی وجہ سے اس سے گریز کرے۔ آئین کا آرٹیکل 10 اے ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ اس لیے آرٹیکل 10 اے کی روح سے کسی بھی شخص کا ٹرائل براہِ راست ایسے فورم پر نہیں ہوسکتا جہاں سے آگے اس کے پاس اپیل کا کوئی فورم ہی نہ ہو یعنی اگر وہ ماتحت عدلیہ اور ہائیکورٹ سے سزا پاتا بھی ہے تو اس کے پاس اپیل کے لیے سپریم کورٹ کا فورم موجود ہوگا لیکن اگر سپریم کورٹ ہی براہِ راست اس کو ٹرائل کرکے سزا سنا دے تو وہ کسی ماتحت فورم پر تو ملک کی عدالتِ عظمٰی کے فیصلے کی خلاف اپیل کرنے سے رہا جس وجہ سے اس کے شفاف ٹرائل کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ اس مقدمہ کا فیصلہ لکھتے ہوئے صرف ججز کے سامنے آئین اور قانون کا چیلنج نہیں ہوگا بلکہ ان کی بصیرت کا امتحان بھی ہوگا۔
عدالت یہ بھی دیکھ سکتی ہے کہ کہیں ان کے فیصلہ کو لے کر ملک میں ایک اور سیاسی بحران، لانگ مارچ یا دھرنے کی صورت میں پیدا نہ ہو جائے۔ لارجر بنچ مقدمہ میں آئین اور ملکی قوانین کی تشریح کے معیار طے کرتے وقت اس بات کو بھی مدِنظر رکھے گی کہ مستقبل میں ان ہی کے فیصلے کی نظیر لے کر کوئی آنے والی ملکی قیادت کو بہت آسانی سے ناک آوٹ نہ کرسکے ورنہ ملک میں الزامات لگا کر حکومتوں کو گھر بھیجنے کا ایک ایسا دروازہ کھل جائے گا کہ کوئی بھی حکومت یکسوئی سے ریاستی امور اور عوام کی فلاح کے لیے کام نہیں کرسکے گا۔ عدالت یہ بھی یقینی بنائے گی کہ جہاں کوئی سنی سنائی کہانی خط عدالت میں پیش کرکے بغیر کسی دستاویزی ٹریل کے صرف ممکنات کی دلیل کا استعمال کر کے احتساب سے بچ نہ سکے وہیں غالب امکان ہے ججز اس اصول کی بھی طے کریں گے کہ کوئی چند دستاویزات کی بنیاد پر واقعاتی شواہد کو جواز بنا کر عدالت سے فیصلہ نہ لے سکے۔
کیونکہ ججز کے سامنے دستاویزات تو 25 ہزار سے زائد ہیں لیکن بقول لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ پیش کی گئی 99.9 فیصد دستاویزات کو اگر قانونِ شہادت کی نظر سے دیکھا تو وہ ردی کی ٹوکری میں جائیں گی۔ عدالت یہ اصول بھی طے کرے گی کہ شواہد کا معیار کیا ہونا چاہیے اور کونسا فورم کس قسم کی تحقیقات لیے موزوں ہے اور کس قسم کی درخواستوں کے ٹرائل کے لیے کس فورم سے رجوع کرنا چاہیے۔ جبکہ آرٹیکل 184/3 میں عدالت اپنے اختیارات کو کس حد تک استعمال کرسکتی ہے۔
آخر میں کچھ باتیں میں وکلا کی کارکردی اور مقدمے کی فریق جماعتوں کے بارے میں بھی لکھنا چاہوں گا۔ تحریک انصاف کا مقدمہ جتنا مظبوط تھا کاش وہ وکیل بھی اتنا ہی اچھا کرتی کیونکہ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل کی سپورٹ میں کورٹ آف لا سے ایک بھی مثال نہ دی جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ان کو یہاں تک کہا کہ بخاری صاحب پوائنٹس سے فلرٹ کرنا بند کردیں اور ہمیں کورٹ آف لا سے مثال دے کر مطمعن کریں۔ شیخ رشید صاحب جس طرح میڈیا میں اپنا مقدمہ میڈیا میں لڑتے ہیں ویسے ہی عدالت میں لڑ رہے تھے جو فورم کے لحاظ سے شاید اتنا متاثر کن نہیں تھا۔ جماعت اسلامی نے شدید مایوس کیا کیونکہ اگر وہ واقعی ملک میں طاقتور کے احتساب کی داعی ہے تو وہ کیسے ایک انتہائی کمزور وکیل آصف توفیق کو صرف اس بنیاد پر کھڑا کرسکتی ہے کہ وہ اس کا کارکن ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل سے وکالت کا ایسا بلند معیار مقرر کیا جس کو کم از کم اس سماعت کا حصہ رہنے والا کوئی بھی وکیل نہیں پہنچ سکتا۔ مریم نواز، کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے ممکن حد تک اپنے موکلین کے دفاع کی کوشش کی جس میں کچھ حد تک ہی وہ کامیاب بھی ہوسکے۔ حسین نواز اور حسن نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ جو کہ شاید سب سے کمزور وکٹ پر تھے کیونکہ ان کے موکل حسین نواز کے ٹی وی انٹرویوز میں کیے جانے والے دعووں کی سپورٹ میں کوئی دستاویزی ریکارڈ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ انتہائی اعتماد سے عدالت کے سامنے اس دلیل کے ساتھ ڈٹے رہے کہ یا تو عدالت امکانات کی بنیاد پر ان کے موکل کو کلین چٹ دے یا اس مقدمہ کو ٹرائل کے لیے کسی اور فورم پر بھیجے۔
کمرہ عدالت میں دونوں جماعتوں کے رہنماوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہوتی تھی جس میں ن لیگ کے ایم این اے دانیال عزیز خصوصی طور پر ججز کے سوالات پر بڑبڑاتے ہوئے اخلاقیات کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیتے تھے۔ اسی طرح تحریک انصاف کی کارکن خواتین عدالت کے احترام سے بالکل نابلد تھیں جو عدالت کی سماعت کے دوران تالیاں تک بجا دیتی تھیں۔ تحریک انصاف کے رہنماوں کی سیاسی اور قانونی سمجھ بوجھ کا اندازہ یہیں سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دن میں مقدمہ کی سماعت کے دوران عمران خان صاحب کے عدالتی امور پر مشیر اسحاق خاکوانی کے ساتھ بیٹھا تھا تو وہ اپنے ساتھ آئے ہوئے کارکنوں کو بتا رہے تھے کہ دیکھو ن لیگ کے لوگوں کی باڈی لینگویج کتنی مایوسی والی ہے اور ہمارے لوگوں کی کتنی پرجوش ہے جس سے آپ اندازہ لگا لو کہ مقدمہ کون جیت رہا۔ یہ مکالمہ سن کر مجھ سے کنٹرول نہ ہوا اور میں نے اسحاق خاکوانی صاحب سے عرض کیا کہ خاکوانی صاحب اپنی یا ن لیگیوں کی باڈی لینگویج پر مت جائیں بلکہ ججز کی باڈی لینگویج کو نوٹ کریں کیونکہ آخر میں ان کی باڈی لینگویج سے رزلٹ نکلنا ہے نہ کے مقدمے کے فریقین کی باڈیلینگویج سے۔
پانامہ لیکس مقدمہ کے فیصلے کے بہرحال دور رس سیاسی اور قانونی اثرات ہوں گے جس پر ن لیگ اور پی ٹی آئی کی 2018 کے عام انتخابات کی انتخابی حکمتِ عملی کا انحصار ہوگا۔ مضمون طویل تھا کیونکہ میں عام قاری کی سمجھ بوجھ کے لیے قانونی نکات کی سادہ الفاظ میں وضاحت کرنا چاہتا تھا اس لیے صبر سے مکمل مضمون پڑھنے پر آپ کا خصوصی طور پر مشکور ہوں۔