پاکستانی سرکاری اسکول: ریاضی اور سائنس کا پست تعلیمی معیار
(پریس ریلیز الائنس فار میتھس اینڈ سائنس)
پاکستان بھر کے اسکولوں، بالخصوص سرکاری اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے سیکھنے کا معیار نا قابل ِ برداشت حد تک پست ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی جڑیں نہایت گہری اور جن کے اثرات بہت دُور رس ہیں۔
- نیشنل ایجوکیشن اسیسمنٹ سسٹم (NEAS) کے تحت 2014 ء میں ہونے والے امتحانی نتائج کے مطابق آٹھویں جماعت کے بچوں کا ریاضی میں اوسط اسکور کُل 1000 میں سے 461 نمبر تھا
- 2014 ء میں ہونے والے NEAS کےامتحانی نتائج کے مطابق چوتھی جماعت کے بچوں کا ریاضی میں اوسط اسکور کُل 1000 میں سے 433 نمبر تھا
- پنجاب ایگزامنیشن کمیشن (PEC) کے 2016 کے امتحانی نتائج کے مطابق پنجاب میں پانچویں جماعت کے بچوں کا ریاضی میں اوسط اسکور فقط 53 فیصد ہے
- 2016 کے PEC کے امتحانی نتائج کے مطابق پنجاب میں پانچویں جماعت کے بچوں کا سائنس میں اوسط اسکور فقط 49 فیصد ہے
- سندھ کے سٹینڈرڈائزڈ اچیومنٹ ٹسٹ (SAT) کے امتحانی نتائج کے مطابق سندھ میں پانچویں جماعت کے بچوں کا ریاضی میں اسکور 24 فیصد ہے
- 2016 میں SATکے امتحانی نتائج کے مطابق سندھ میں پانچویں جماعت کے بچوں کا سائنس میں اسکور 24 فیصد ہے
- خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر، بلوچستان اور فاٹا کے مڈل اسکولوں میں تعلیمی معیار سے متعلق ہمارے پاس NEAS کے علاوہ کوئی اعداد و شمار موجود نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان اپنے غریب ترین طبقات کے بچوں کو مناسب معیار کی ریاضی اور سائنس کی تعلیم نہیں دے رہا۔
ریاضی اور سائنس کی اس ناقص معیار ِ تعلیم کے پیچھے پانچ بنیادی عوامل ہیں۔
اول یہ کہ ریاضی اور سائنس کی تعلیم کے سیاسی اور معاشی پہلو پاکستانی بچوں کی ترقی و بہبود کی بجائے مختلف گروہوں کے مفادات تک محدود ہیں
دوئم یہ کہ معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ سرکاری ڈھانچہ فرسودہ اور از کار رفتہ ہے۔ ملک کے سب سے زیادہ ضرورت مند طبقات کے بچوں کو یہ ڈھانچہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق معیاری تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہے۔
سوئم یہ کہ ہمارے سرکاری اسکولوں میں نہ صرف ریاضی اور سائنس، بلکہ دیگر مضامین میں بھی معیاری تعلیم دینے کے لیے درکار کافی سہولیات و آلات موجود نہیں ۔
چہارم یہ کہ اساتذہ کو معیاری تعلیم دینے کی ترغیب کے لیے مراعاتی نظام موجود نہیں اور مزید یہ کہ بہت سارے اساتذہ بچوں کو ان مضامین کی تعلیم دینے کی قابلیت بھی نہیں رکھتے۔
پنجم یہ کہ بچوں کو دیا جانے والا تدریسی مواد اور ان کے سیکھنے کی جانچ پڑتال کا نظام نہایت پست اور از کار رفتہ ہے۔
پچھلے چند سالوں میں اساتذہ کی بھرتیوں کے عمل سے سیاسی مداخلت ختم کر دی گئی ہے، یہ خوش آئند رجحان پنجاب سے شروع ہوا اور اب چاروں صوبوں میں قابلیت کی بنیاد پر اساتذہ کی بھرتیاں ہو رہی ہیں۔ 2013 سے اب تک 125,000اساتذہ کی صرف میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں ہوئی ہیں۔ یہ تعداد اب ملک بھر میں اساتذہ کی کُل تعداد کا 20 فیصد ہے ۔ یہ ایک اہم لیکن چھوٹا قدم ہے۔
اس رپورٹ کی تیسری جلد میں پاکستان الائنس فار میتھس اینڈ سائنس چاروں صوبائی حکومتوں، ریاضی اور سائنس کے ماہرین اور سول سوسائٹی سے مشاورت کے بعد تجاویز پر مبنی ایک لائحہ عمل پیش کرے گی۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.