(محمد عثمان)
پاکستان میں رائج استحصالی نظام کے مختلف دھڑوں (جن میں فوج، عدلیہ، بیوروکریسی،سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور میڈیا شامل ہے) میں طاقت ، وسائل اور اختیارات پر زیادہ سےزیادہ اجارہ داری قائم کرنے کے لئے کشمکش جاری رہتی ہے۔ ہر دھڑا اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ اور خیر خواہ بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ عوام کی ہمدردی کو اپنے حق میں استعمال کرسکے۔ عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لئے مذہب، جمہوریت، آزادی اظہار، احتساب اور ترقی جیسے مختلف نعروں کا بھی بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آپس میں باہم دست و گریباں یہ تمام دھڑے رائج الوقت سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے استحصالی کردار پر ایک دوسرے کے ساتھ سو فیصد متفق ہیں اوراسی کو معاشرے کی بقاء اور ترقی کا واحد زریعہ سمجھتے ہیں۔ اختلاف صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ نظام کی ڈرائیونگ سیٹ پر کون بیٹھے گا اور کس کا حصہ کتنا ہوگا۔
اس ضمن میں سب سے بڑا المیہ تب پیش آتا ہے جب معاشرے کا پڑھا لکھا ، ذہین اورباصلاحیت نوجوان مختلف عنوانات کے تحت ان میں سے کسی ایک دھڑے کی حمایت میں اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحتیں استعمال کرنے لگتا ہے۔کسی کے لئے جمہوریت کا عنوان کشش رکھتا ہے تو کوئی مذہب کے نعرےسے متاثر ہوتا ہےاور کوئی کرپشن کے خاتمے اور گڈگورنس کے وعدوں میں ملک و قوم کی نجات تلاش کرتا ہے۔ یہ نوجوان اپنے علم اور صلاحیت کی بنیاد پر نہ صرف اپنی پسند کے دھڑے کے دفاع میں پرجوش دلیلیں دیتا ہے بلکہ اپنے دھڑے کو دوسروں سے کم برا اور افضل بھی قرار دیتا ہے۔ اپنے دھڑے کی خامی سامنے آنے پر وہ فورا مخالف دھڑے کی متوازی کمزوری سامنے لا کر اپنے دھڑے کی بالادستی اور پارسائی کو سند جواز بخشتا ہے۔ اپنی اسی قابلیت اور عملی جدوجہد کے نتیجے میں جانے انجانے میں وہ اپنے دائرہ کار اور حلقہء اثر میں موجودہ نظام کو قابل اصلاح اور قابل قبول بنانے کے فرائض سرانجام دیتا ہے تاکہ عوام اسی نظام کے کسی ایک دھڑے سے امیدیں لگا کر بیٹھے رہیں اور اپنے مسائل کے حل کے حوالے سےاپنے زور بازو پر بھروسہ کر کے کوئی اجتماعی شعوری جدوجہد کا آغاز نہ کرسکیں۔
نوجوان کا یہ عمل بیشتر اوقات انتہائی خلوص، سادگی اور حسن ظن پر مبنی ہوتا ہے اور وہ یہ سب کام اپنے تئیں ملک و قوم اورمعاشرے کی بہتر کے لئے ہی سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ اس طرح اس کی جوانی اور عملی زندگی کا زیادہ تر وقت اسی بے کارکی ریاضت میں خرچ ہوجاتا ہے ۔ جوانی ڈھلنے کے ساتھ ساتھ نظام کی بہتری اور تبدیلی کے خواب بھی رفتہ رفتہ کمزور پڑنے لگتے ہیں اورخوابوں کی ڈراؤنی تعبیربھی سامنے آنے لگتی ہے۔لیکن بیشتر اوقات وہ اپنی رائے اور عمل میں غلطی قبول کرنے کی بجائے ناکامی کی مختلف توجیہات تراش لیتا ہے اور کسی نہ کسی فرد، ادارے یا تحریک کو تمام غلطیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار گرداننے لگتا ہے تاکہ اپنے آپ کو مطمئن کرسکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی، معاشی اور سماجی حالات بدسےبدتر ہوتے جاتے ہیں ،معاشرتی حوالے سے کسی بھی قسم کی بہتری کی امید دم توڑنے لگتی ہے اور مزاج میں ایک جھنجھلاہٹ اوربیزاری کا غلبہ ہونے لگتا ہے۔
کسی وقت میں انتہائی پرامید رہنے والایہ نوجوان، خود مایوسی کی تصویر بننے لگتا ہے۔ خود تو مایوس ہوتا ہی ہے، جس محفل میں شریک ہوتا ہے وہاں بھی اپنے’علم’، ‘تجربے’ اور ‘فلسفے’ کی بنیادپر مایوسی، بے عملی اورمنفی ذہنیت کو فروغ دیتا ہے۔’یہاں کچھ نہیں ہوسکتا’، ‘آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یہاں’،’بھائی اپنی فکر کرو بس’، یہ اور اس جیسےدیگر کئی جملے بول کر وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے اور اپنے جیسے مزید کئی نوجوانوں کی فکر وعمل میں مایوسی، انفرادیت، خود غرضی اور بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہمارا نوجوان جذباتیت، مایوسی، سطحی مطالعے و مشاہدے اور جلد بازی کے رويوں سے بچتے ہوئےمعاشرے میں رائج سرمایہ داری نظام، اس کے مختلف اداروں اور ان کے باہمی تعلقات کا شعوری ادراک حاصل کرے۔کھلے اور مثبت ذہن کے ساتھ مطالعے، غوروفکر اور باہمی مکالمے کے عمل کو آگے بڑھائے۔اپنے وقت کو قیمتی اور کارآمد بنائے اور رائج الوقت استحصالی نظام کے خاتمےکے لئے جس باصلاحیت اور باشعور اجتماعیت کی ضرورت ہے، اس کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے۔
Very well Pointed Musman