محمد عثمان
(گزشتہ سے پیوستہ)
دور حاضر میں جمہوریت کے پنپنے کی ایک اہم شرط اداروں کی فعالیت اور مضبوطی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے تفویض کردہ اختیارات اور ذمہ داریوں کو قانون کے مطابق احسن طریقے سے ادا کرے اور اس میں سیاسی مداخلت اور اقرباپروری کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے۔ اسی سے معاشرے میں قانون کا احترام اور جمہوری رویے پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہماری سیاسی قیادت اس امتحان میں بھی تاحال ناکام رہی ہے۔ تمام اداروںمیں میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر تقرریاں کی جاتی ہیں۔ من پسند افراد کو نوازا جاتا ہے اور جوفرد راستے میں رکاوٹ بنے اسے تبادلے یا برطرفی کے زریعےدوسروں کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔صورت حال یہاں تک خراب ہو چکی ہے کہ ہر علاقے کا تھانیدار بھی سیاسی بنیادوں پر تعینات کی جاتا ہے تاکہ اس کے زریعے پورے علاقے کو کنٹرول کیا جاسکے۔جن ججوں نے معاشرے کو عدل و انصاف فراہم کرنا ہے ان کی تقرریاں بھی سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔بجلی اور گیس کی فراہمی سے لے کر تھانہ کچہری اور احتساب کرنے والے اداروں تک تمام سرکاری ادارے سیاسی شخصیات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں، ان کی سفارش کے بغیر آپ کا جائز کام بھی نہیں ہوسکتا جب کہ اسی اثر ورسوخ کی بنیاد پر سیاسی طبقات کاہر ناجائز کام بھی پہلی ترجیح پر کیا جاتا ہے۔قانون اور سہولیات فراہم کرنے والے ادارے تو رہے ایک طرف، یہاں تو کھیلوں کے اداروں کو بھی سیاسی بنیادوں پر چلایا جاتا ہے۔ ہر حکمران اپنے لاڈلوں کو نوازنے کے لئےانہیں کسی نہ کسی کھیل کے ادارےکا سربراہ مقرر کردیتا ہے۔اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی کہ اس فردکے اندر ادارے کو چلانے کی مطلوبہ صلاحیت ہے بھی یا نہیں۔اسی اقرباء پروری کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ہر قومی ادارہ بد نظمی اور زوال کا شکار ہے۔ یہاں بحث یہ نہیں ہے کہ غیر سیاسی حکومتوں نے بھی یہی سب کیا بلکہ مدعا یہ ہے کہ عوام کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے آپ کا کردار تو بہتر ہونا چاہئے تھا لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
خارجہ اور دفاعی پالیسی کو تو چلیں ایک طرف رکھتے ہیں لیکن ہر وقت اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا رونا رونے والی سیاسی حکومتوں سے یہ سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ کیا پولیس، عدلیہ، صحت اور تعلیم جیسے سویلین اداروں کو ٹھیک کرنے میں بھی اسٹبلشمنٹ ہی رکاوٹ ہے؟ کوئی بھی سیاسی حکومت اگر عوام کے ان مسائل پر توجہ دے تو کیا پوری قوم اس کے پیچھے کھڑی نہ ہوگی اور پھر کس کی مجال ہو گي کہ اس حکومت کو بلیک میل کرسکے؟ لیکن صورت حال تو یہ ہے کہ سویلین حکمرانوں کو ایک اچھی اور پائیدار سڑک بنانے کے لئے بھی ٹھیکہ کسی دفاعی ادارے کو دینا پڑتا ہے۔ کسی قدرتی آفت یا ہنگامی صورت حال میں سویلین اداروں کی اہلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور وہاں بھی دفاعی اداروں کو ہی مدد کے لئے پکارنا پڑتا ہے۔
جمہوریت کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو سیاسی جماعتوں کے اندر موجود جمہوری رویوں کی صورت حال سے متعلق ہے۔معاملہ ایک فرد کا ہو یا جماعت کا، باہر وہی کچھ آتا ہے جو اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ تمام آسمانی اور اخلاقی مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ جو کام آپ خود نہ کرتے ہوں اس کا وعظ دوسروں کو بھی نہیں کرنا چاہیے۔ دین اسلام میں اس رویے پر انتہائی سخت گرفت ان الفاظ میں کی گئی: “اے ایمان کے دعوے دارو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے۔ خدا کے نزدیک یہ انتہائی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں ہو”۔ سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق قیادت کی سب سے بہتر اور نتیجہ خیز شکل Leadership by Example یعنی عمل اور مثال کے زریعے لوگوں کی قیادت کرناہے۔ ایک عام فرد کا معاملہ تو قابل معافی ہو سکتا ہے لیکن قیادت کی دعویدار جماعت کو سختی سے اس اصول کی پیروی کرنی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے رویے اور کردار نیچے پوری قوم میں سرایت کرجاتے ہیں۔ اب ذرا اس معیار پر اپنی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں۔ جس جمہوریت کا یہ ہر وقت ڈھول پیٹتی ہیں کیا اپنی جماعتوں کے اندر بھی انہوں نے جمہوریت کو پروان چڑھایا ہے یا وہاں بدترین شخصی یا گروہی آمریت مسلط ہے۔
اس حوالے سے جب ہم ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کم و بیش تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں شخصیات کے گرد گھوم رہی ہیں۔ اگر اس ایک شخصیت کو نکال دیا جائے تو پیچھے کوئی جماعت نہیں بچتی بلکہ سب اہم عہدیدار تتر بتر ہوجائیں گے۔ اسی لئے کہیں ایک شخصیت بار بار اقتدار میں آنے کے لئے قانون میں ترمیم کرواتی ہے تو کہیں دوسری شخصیت کا نام اورولدیت ہی بدل دی جاتی ہے تاکہ اس کا تعلق ایک مقبول عوامی راہنما کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ کہیں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے نرغے میں پھنسی کسی تیسری شخصیت کو تمام مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ جس الیکشن میں شرکت کرنے کی یہ جماعتیں انتہائی متمنی ہوتی ہیں وہی الیکشن یہ اپنی جماعتوں کے اندر کروانے سے خوفزدہ ہوتی ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کے سربراہ تاحیات اپنے عہدے پر فائز رہتے ہیں اور ان کی وفات کے بعد اگلے دور میں ان کی اولادیہ “ذمہ داری” سنبھال لیتی ہے۔ اسی طرح پارٹی کی بالائی لیڈرشپ پر بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری ہوتی ہے۔جماعت میں عام آدمی کی شمولیت بس اس درجے میں ہوتی ہے کہ وہ ان کے جلسوں میں جا کر نعرے مارے یا پھر ان کے سہانے وعدوں کے لالچ میں آکر انہیں ووٹ ڈال آئے۔
جمہوریت کی بنیاد مشاورت کی جس روح پر قائم ہے وہ روح بھی سیاسی جماعتوں میں مفقود ہے اور تمام معاملات عام طور پر آمرانہ بنیادوں پر ہی چلائے جا رہے ہوتے ہیں۔ یہی رویے اقتدار میں آکر مزید نمایاں ہو جاتے ہیں جب تمام فیصلے کچن کیبنٹ کے زریعے مرکزی قیادت اپنے خاندان کے اندر ہی طے کررہی ہوتی ہے۔ جس طرح سیاسی نمائندے اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد پانچ سال تک عوام کو شکل نہیں دکھاتے اسی طرح مرکزی قیادت بھی اقتدار میں آنے کے بعد اسمبلیوں میں موجود اپنے نمائندوں سےلا تعلق ہوجاتی ہے اور تمام معاملات اپنے قریبی اقرباء یا چند بیورکریٹس کے زریعے چلا رہے ہوتے ہیں۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو بھی جماعت ملک میں جمہوریت کے قیام اور فروغ کا دعوی کرے اس جماعت کے اندرونی نظام کو دیکھا جائے کہ وہ کس حد تک جمہوری رویوں، مشاورت اور کارکنوں کی ذہنی تربیت پر مبنی ہے۔ جو جماعت اپنے اندر جمہوری رویے اور صلاحیت کی بنیاد پر ترقی کا معیار قائم نہ کرسکے وہ پورے ملک کے اندر ان اقدار کو فروغ دینے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟
اس حوالے سے ایک اور مغالطہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی مایوس کن کارکردگی کا ذمہ دارعوام کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ عوام ہی بدعنوان اور نااہل نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔یہاں یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ جمہوریت صرف پانچ سال بعد ووٹ ڈال دینے کا نام نہیں ہےبلکہ اس کے بہت سے دیگر تقاضے بھی ہیں جن پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ سب سے پہلا تقاضا الیکشن کمیشن کے دائرہ کار اور کارکردگی کا ہے۔ ایک معمولی سے کلرک کی بھرتی کیلئے بھی کوئی علمی اور عملی قابلیت کا معیار رکھا جاتا ہے لیکن جن افراد نے پوری قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے ہیں ان کی اہلیت کا واحد معیار دولت ، جاگیر اور اثرورسوخ رکھا گیا ہے۔ عام آدمی اول تو الیکشن میں حصہ لینے کا سوچتا بھی نہیں ،اگر ہمت کرکے الیکشن میں حصہ لے بھی لے تو وہ ان امیدواروں کا کیسے مقابلہ کرسکتا ہے جو الیکشن میں کروڑوں روپے خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے اخراجات کی جو حد مقرر کی ہوتی ہے اس پر عمل درآمد کروانے کی اہلیت فی الحال اس ادارے کے پاس نہیں ہے۔ اسی طرح جن شخصیات پر قانون شکنی اور اربوں روپےکے گھپلوں کے مقدمات چل رہے ہوں الیکشن کمیشن انہیں بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دینے پر مجبورہے۔اقتدار میں آتے ہی یہ سب سے پہلے اپنے اوپر قائم مقدمات ختم کرواتے ہیں۔ اسی طرح ووٹر کےسیاسی، معاشی اور سماجی شعور میں اضافے کے لئے کوئی بندوبست موجود نہیں ہے۔ تعلیمی نظام ایک شہری کے حقوق اور فرائض کا تعارف کروانے سے یکسر قاصر ہے۔ آگاہی کے نام پر کاروبار کرنے والاکارپوریٹ میڈیا بھی پہلےسرمایہ داروں اورجاگیرداروں کی پارٹیوں کی تشہیر کرتا ہے اور الیکشن کے بعد ان پارٹیوں کو منتخب کرنے پر عوام کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ جب تمام امیدوار بالادست طبقات سے تعلق رکھتے ہوں گے تو انہی میں سے کوئی ایک منتخب بھی ہو جائے گا اور اپنی سرمایہ کاری پوری کرنے کے لئے تمام ہتھکنڈے بھی استعمال کرے گا۔کارپوریٹ میڈیا الیکشن کے بعد ٹی وی پر روزانہ کی بنیاد پر حکمران پارٹی کےکالے کرتوت سامنے لانے کا شور مچاتا ہے لیکن کیا االیکشن سے پہلے یہ بالکل انجان ہوتا ہے کہ کس پارٹی کا کیا پس منظر اور کردار ہے؟ کبھی کسی نام نہاد دانشور یا ٹی وی چینل نے غلط راہنمائی کرنے پر عوام سے مانگی نہیں مانگی۔ یعنی میڈیا ہمیشہ صحیح ہوتا ہے اور عوام ہمیشہ غلط ؟
پاکستان میں ہونے والے کم و بیش ہر الیکشن میں دھاندلی کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب40سے 50 فی صد کے درمیان رہتاہے۔یعنی عوام کی اکثریت مروجہ سیاسی نظام میں الیکشن کے نام پر ہونے والے ناٹک کے زریعے کوئی بہتری پیدا ہونے کی امید کے حوالے سے انتہائی مایوس ہےاور ووٹ نہ ڈال کر تمام امیدواران پر اپنے عدم اعتماد کا اعلان کرتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں الیکشن کمیشن یہ شرط عائد کرتا ہے کہ کامیاب امیدوار کم سے کم پچاس فیصد آبادی کا نمائندہ ہو ورنہ الیکشن دوبارہ کروائے جاتے ہیں۔ ہمارا الیکشن کمیشن اس حوالے سے بھی خاموش ہے۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں جمہوری نظام کو درپیش ایک اہم مسلئہ ملک میں موجود مختلف طبقات اور اکائیوں کی نمائندگی کا طریقہ کار وضع کرنا ہے۔ موجودہ صورت حال میں نمائندگی کا حق صرف سرمایہ دار اور جاگیرداروں کے پاس ہے اور وہ کسان، مزدور، ڈاکٹر، استاد، انجینئر،چھوٹے تاجر اور دیگر ملازمت پیشہ افراد کے نمائندہ بن کر سامنے آتے ہیں جب کہ حقیقت میں نہ تو وہ ان طبقات کے مسائل سمجھتے ہیں اور نہ ہی انہیں ان کے مسائل حل کرنے سے کوئی سروکار ہوتا ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین کی اکثریت اس مسلئے کا کوئی منطقی حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ تحریک آزادی کے اہم راہنما مولانا عبیداللہ سندھی نے کم وبیش 90 سال پہلے جو حل پیش کیا وہ آج بھی ہمارے لئےسوچنے کے نئے زاويے کھولتا ہے۔ آپ کے مطابق ملک کے ہر طبقے کو پارلیمنٹ میں نمائندگی آبادی ميں اس طبقے کے تناسب کے حساب سے دی جائے۔ فرض کیجئے کہ ایک ملک کی آبادی دس کروڑ ہے جس میں سےدو کروڑ مزدور ہیں، دو کروڑ کسان ہیں، چار کروڑ ملازمت پیشہ افراد ہیں، ایک کروڑ ساٹھ لاکھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجر ہیں ،بیس لاکھ بڑے ذمیندار ہیں اور باقی بیس لاکھ بڑے سرمایہ دار ہیں۔ اگر پارلیمنٹ میں کل نشستوں کی تعداد ایک سو رکھی جائے تو فی نشست دس لاکھ کی آبادی آئے گی۔ یعنی مزدوروں اور کسانوں کی بیس بیس نشستیں ہوگی،چالیس نشستیں ملازمت پیشہ افراد کی، 18 نشستیں چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کی، دو نشستیں بڑے ذمینداروں کی جبکہ بقیہ دو نشستیں بڑے سرمایہ داروں کے لئے مخصوص ہوں گی۔ اس طریقے سے مختلف طبقات کے درمیان نفرت اور ٹکراؤ کو بھی کم کیا جا سکتا ہے اور پورے سیاسی نظام پر کسی ایک طبقے کی اجارہ داری کا توڑ بھی کیا جاسکتا ہے۔تاکہ جمہوریت کی حقیقی روح پر عملدرآمد ممکن ہوسکے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم “Out of Box Thinking” کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی اور معاشی نظام کے حوالے سے اپنی تخیلاتی اور تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لائیں۔
اس حوالے سے آخری بات احتساب کرنے والے اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے ہے۔ پاکستان میں انتخابات میں کامیابی کو کھل کھیلنے کا لائسنس سمجھا جاتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں داخلے کے بعد آپ ہر قسم کے قانون اور ضابطوں سے بلند ہوجاتے ہیں کیوں کہ پولیس، عدلیہ، نیب سمیت احتساب کرنے والے تمام ادارے سیاسی بنیادوں پر کام کررہے ہوتے ہیں اور ان کی بقاء اہل اقتدار کی خوشنودی میں ہوتی ہے۔ اس لئے کوئی ادارہ بھی کسی مجرم کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کرتا۔ بالفرض اگر مقدمات قائم ہوبھی جائیں تو کئی کئی سال گزرنے کے بعد استغاثہ کی کمزوری کی وجہ سے خارج ہوجاتے ہیں اور ملزم “باعزت” بری ہوکر قانون اور انصاف کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں گذشتہ حکومتوں کی بدعنوانی پر مقدمات کو انتقامی کاروائی قرار دیاجاتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے اورتمام سیاسی طبقات نے ایک دوسرے سے شیر و شکرہو کر اپنے اپنے حصے اور باریاں مقرر کرلی ہیں کہ ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے اور تم ہمیں کچھ نہیں کہو گے۔ اقتدار میں آنے کے بعد اگر کوئی نمائندہ بدعنوانی کرتا ہے تو اس میں عوام کا کیا قصور ہے؟ قصور تو قانون نافذ کرنے اداروں کا بنتا ہے جن کی ذمہ داری ہی مجرموں اور بدعنوان عناصر کوپکڑنا ہے۔ادارو ں کی اس نااہلی کو بھی اس لغو نعرے میں چھپا دیا جاتا ہے کہ عوام الیکشن میں خود احتساب کرلیں گے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو کیوں نہ احتساب اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو بند کردیا جائے؟ عوام جو بہتر سمجھیں گے خود ہی کرلیں گے۔
مختصرا” ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کو خطرہ اسٹیبلشمنٹ او ر دیگر مخالفین کی بجائے خود اس کے نام لیواؤں کے کردار و افعال سے ہے۔جمہوریت کو اندرونی طور پر مضبوط کرکے ہی ہم اسے بیرونی خطرات سے بچا سکتے ہیں۔
پاکستان میں صحت مند مکالمے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ سوچ ہے کہ کسی بھی معاملے میں ایک فریق پر تنقیدکا مطلب لازما” دوسرے فریق کی حمایت کرنا سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں پر تنقید آپ کو اسٹیبلیشمنٹ کا نمائندہ ٹھہرا سکتی ہے، اسی طرح اسٹیبلیشمنٹ یا اپوزیشن کی کمزوریوں کی نشاندہی کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ موجودہ حکومت کے وظیفہ خوار اور اس کی غلط پالیسیوں کے بھی حمایتی ہیں۔ اس ذہنیت کے ساتھ نہ تو ہم اپنے سماج کو لاحق امراض کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جمہوریت ایک ارتقاء پذیر عمل ہے کہ جس کی کوئی حتمی شکل دنیا میں موجود نہیں ہے۔ ہر ملک کے عوام ، دانشوروں اور راہنماؤں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے حالات ، مسائل اور ضروریات کا مسلسل جائزہ لیتے رہیں اور جمہوری نظام میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کےلئے مطلوبہ عملی اقدامات میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں ۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والے افراد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے فہم کے مقابق معاشرے میں جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مضمون نگار کی رائے میں پاکستان میں جمہوریت انتہائی ناقص شکل میں رائج ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ یہاں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ پس منظر رکھنے والی جماعتوں سے براءت کا اعلان کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ گفت و شنید اور تعلیم و تربیت کے زریعے عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ کیا جائے تاکہ عوام میں سے ہی نظام حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے والے تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور مخلص لوگ سامنے آئيں۔ پھر ہی ایک خوشحال ، پرامن اور جمہوری معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔