(عامر رضا)
لعل شہباز قلندر کے مزار پر خود کش حملے نے اس بات کی قلعی تو کھول دی کہ دہشت گردوں کی کمر ہم نے کس حد تک اور کتنی توڑی ہے۔ اس حملے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے ریاستی اداروں پر بہت سے سوال اٹھائے خاص طور پر یہ پوچھا گیا کہ وہ خفیہ ہاتھ جو بالاگرز کو غائب کر دیتے ہیں وہ ان خود کش بمباروں، منصوبہ سازوں، معاونین اور سہولت کاروں کا پتہ کیوں نہیں چلا سکتے؟
اس بحث میں پڑنا نہیں چاہیے کیونکہ بحث کرنے کو اور بہت سے معاملات ہیں اور ویسے بھی سپہ سالار کی طرف سے کہہ دیا گیا ہے کہ قوم پر سکون رہے تو پھر ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے؟
برصغیر کے معاشرے میں جب کوئی بڑا آدمی کسی بات سے منع کر دے تو اس سے باز آ جانا ہی بہتر ہے اور اگر پھر بھی کوئی نچلا نہیں بیٹھے گا تو وہ خفیہ ہاتھ تو یاد ہی ہو گا۔
لیکن ان میں سے کوئی بھی مسئلہ سر دست قابل بحث نہیں ہے۔ قابل بحث کوئی بات ہے تو وہ عام آدمی کا خود کش حملوں، جہالت، بھوک اور غربت کے ہاتھوں مرنا ہے۔
اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آزادی کے 70 گزرنے کے بعد بھی عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہاں تک کہ زندگی کی بنیادی ضروریات تک پوری نہیں ہو پا رہیں۔ اس پر معاشرتی نظام میں موجود پسماندگی نے انسانوں کو گھیرا ہوا ہے جس کا خاتمہ کرنے والی طاقت یعنی ریاست ایسے کاموں میں مصروف ہے جس سے اکثریت کو کسی فائدے کی امید نہیں ہے۔
کولہو کے بیل کی طرح عوام ایک ہی دائرے میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ سفر آج سے جاری نہیں بلکہ کئی صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ مجید امجد، اس تہذیب کے انسان کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کی عکاسی اپنی ایک نظم
’ہڑ پے کا ایک کتبہ‘ میں کرتے ہیں:
بہتی راوی! ترے تٹ پر — کھیت اور پھول اور پھل
تین ہزار برس بوڑھی تہذیبوں کی چھل بل
دو بیلوں کی جیوٹ جوڑی، اک ہالی، اک ہل
سینۂ سنگ میں بسنے والے خداؤں کے فرمان
مٹی کاٹے، مٹی چاٹے، ہل کی اَنی کا مان
آگ میں جلتا پنجر ہالی، کاہے کو انسان
کون مٹائے اس کے ماتھے سے یہ دکھوں کی ریکھ
ہل کو کھینچنے والے جنوروں جیسے اس کے لیکھ
تپتی دھوپ میں تین بیل ہیں، تین بیل ہیں، دیکھ
بیل کی طرح زندگی کی گاڑی کھینچے والے عام آدمی کو ریاست ابھی تک کیا مہیا کر سکی ہے؟
روز گار کی حالت ابتر ہے، اچھے روزگار کے لیے اچھی تعلیم کا ہونا ضروری ہے اور اچھی تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے جس کا وعدہ پاکستان کا آئین کرتا ہے لیکن تعلیم کے سیکٹر کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ امیروں کے بچوں کے لیے اچھے تعلیمی ادارے موجود ہیں جو ان پر اچھے روز گار کے دروازے کھول دیتے ہیں۔غریب کے پاس اس ملک میں نوکری حاصل کر نے کے دو طریقے بچتے ہیں ایک سفارش اور دوسرا خدا کا سہارا۔
سفارش تو کسی مقدر والے کو نصیب ہوتی ہے ہاں البتہ خدا کا سہارا تلاش کیا جا سکتا ہے اور کسی پیر فقیر کی درگاہ سے بڑھ کر یہ سہارا اور کہاں مل سکتا ہےجہاں ان درگاہوں پر بیٹھے متولی نذر و نیاز کے عوض انسان کو اس کے مسئلے کے حل ہونے کی آس اور امید تو دے ہی دیتے ہیں۔
نوکریاں، روزگار اور معاشی تنگی ختم کرنے والوں کے حالات بدلیں یا نہ بدلیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ان درگاہوں کے متولیوں کے حالات دن دُگنی رات چُگنی ترقی کر جاتے ہیں۔
نوکری کے مسئلے لے حل کے لیے درگاہوں پر جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ریاست اپنا فرض ادا نہیں کر پائی۔
درگاہوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو کسی نہ کسی موذی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا علاج یا تو ملک میں دستیاب نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو وہ ان لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ جب ریاست علاج معالجے کی سہولت فراہم نہ کرے تو بات پھر دم درود نظرو نیاز اور چڑھا وے تک آتی ہے۔
اوم پرکاش والمیکی اپنی خود نوشت میں ایسے ہی حالات کا تذکرہ کرتے ہیں۔جب دلتوں کی بستی میں کوئی بیمار پر جاتا اور دوائی کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو جھاڑ پھونک کرنے والوں کو بلایا جاتا تھا۔جو بیمار کو مار مار کر ادھ موا کر دیتے تھے۔ کوئی اسے ضعیف اعتقادی کا نام دے یا پھر تعلیم اور علاج کی سہولت کا فقدان اس کا مطلب صرف اور صرف ریاست کی ناکامی ہے جو لوگوں کو اس دلدل سے نکال نہیں پاتی۔
اسی طرح ان حاجات کی ایک فہرست مرتب کی جا سکتی ہے جو لوگ درگاہوں پر پوری کرنے کے لیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی ایک ایسی حاجت نہیں جس کا ملک کے سیاسی اور معاشرتی ڈھانچے سے تعلق نہ ہو۔
ان ساری حاجات کو پورا کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے لیکن افسوس ریاست صحت، روز گار اور مکان جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ناکام ہے۔
ایسے حالات میں جب بیلوں کی طرح زندگی کا بوجھ اٹھانے والا کسی درگاہ پر حاجت روا ئی کے لیے حاضری دیتا ہے تو ریاست اس کے تحفظ میں بھی ناکام ہو جاتی ہے۔
لیکن چونکہ ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم پرسکون رہیں تو کچھ اہتمام سکون کا کر لیتے ہیں سکون کے اوقات میں شاعری سے زیادہ کیا بہتر ہو سکتا ہے تو مجید امجد کی نظم ’بس اسٹینڈ پر‘ آپ کی نظر کرتے ہیں۔
اب کے یہ کیسی بہار آئی
خدا سے کیا گلہ، بھائی
خدا تو خیر کس نے اس کا عکسِ نقشِ پا دیکھا
نہ دیکھا تو بھی دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا
مگر توبہ، مری توبہ، یہ انساں بھی تو آخر اک تماشا ہے
یہ جس نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونا بڑے جتنوں سے سیکھا ہے
ابھی کل تک، جب اس کے ابروؤں تک مُوئے پیچاں تھے
ابھی کل تک، جب اس کے ہونٹ محرومِ زنخداں تھے
ردائے صد زماں اوڑھے، لرزتا، کانپتا، بیٹھا
ضمیرِ سنگ سے بس ایک چنگاری کا طالب تھا
مگر اب تو یہ اونچی ممٹیوں والے جلوخانوں میں بستا ہے
ہمارے ہی لبوں سے مسکراہٹ چھین کر اب ہم پہ ہنستا ہے
خدا اس کا، خدائی اس کی، ہرشے اس کی، ہم کیا ہیں!
چمکتی موٹروں سے اڑنے والی دھول کا ناچیز ذرّہ ہیں
ہماری ہی طرح جو پائمالِ سطوتِ میری و شاہی میں
لکھوکھا، آبدیدہ، پاپیادہ، دل زدہ، واماندہ راہی ہیں
جنہیں نظروں سے گم ہوتے ہوئے رستوں کی غم پیما لکیروں میں
دکھائی دے رہی ہیں آنے والی منزلوں کی دھندلی تصویریں
ضرور اک روز بدلے گا نظامِ قسمتِ آدم
بسے گی اک نئی دنیا، سجے گا اک نیا عالم
شبستاں میں نئی شمعیں، گلستاں میں نیا موسم
وہ رُت اے ہم نفس جانے کب آئے گی؟
وہ فصلِ دیر رس جانے کب آئے گی؟
یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی؟
اس طرح کی دیگر خوبصورت تحریروں کے لئے ضروری دیکھا کیجئے: Sujag.org