اس سے پہلے ہم اس مفروضے پر بات کر چکے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی نے پورنو گرافی کو مہیمز دی اور مڈل مین کے کردار کو ختم کردیا۔انٹرنیٹ کی آمد سے ریاست کا کنٹرول پورنو گرافی کی ترسیل پر نہ صرف ڈھیلا پڑ گیا بلکہ بڑی حد تک ختم بھی ہو گیا۔
دوسرا مفروضہ پاکستان میں اکیسویں صدی کے آغاز میں نیم برہنہ اور برہنہ سی ڈی کی پروڈکشن اور ترسیل کے بارے میں ہے ۔ اس پر بات کرنے سے پہلے کچھ تاریخی حقائق کو دیکھنا ہوگا
انیس سو بتیس میں ایٹ ایم ایم کیمرہ مارکیٹ میں متعارف ہوا۔اس کیمرے نے پروفیشل فلم میکنگ کو گھریلو فلم میکنگ کی سطح پر پہنچا دیا۔ اس سے پہلے پورن فلمز تھرٹی فائیو ایم ایم پر شوٹ ہوتی تھیں ان کیمروں کا سائز بڑا اور چلانے میں خاص مہارت کی ضرورت پڑی تھی ۔ جس کی وجہ سے پورن فلم پروڈیوسرز کے لیے اس افورڈ کرنا مشکل تھا ۔ اور ویسے بھی وہ تھرٹی فائیو ایم ایم کے وہ کیمرے جو ہاتھ سے چلائے جاتے تھے وہ نئے کیمرے مارکیٹ میںآنے کی وجہ سے سستے داموں مہیا ہو جاتے تھے ۔ان بڑی کیمروں میں ایک قباحت یہ بھی تھی کہ ان سے کلوز اپس بہت کم شوٹ ہوتے تھے ۔اولین فلمز میں کلوز اپس بہت کم تھے ۔اس کے علاوہ’ منی شاٹ’ تو سرے سے موجود ہی نہیں تھے ۔
ایٹ ایٹ ایم ایم نے کیمروں کے حجم، ان کی نقل وحرکت، اور ہینڈلنگ میں کافی سہولت پیدا کر دی تھی ۔ جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو ان کیمروں پر مشتمل اتحادی افواج نے خصوصی بریگیڈ تشکیل دئیے ۔ کیمرہ مین بھرتی کئے گئے جن کو فلم بنانے ،اس کی تدوین اور تیاری کی تریبت فراہم کی گئی۔ان کا کام دوسری جنگ عظیم میں فوج کے ساتھ ساتھ فرنٹس پر رہنا ، پروپیگنڈا اور خبروں کے لیے فٹیج فراہم کرنا ہوتا تھا ۔ یہ نیوز فٹیج سیمناز میں فلم سے پہلے یا درمیان میں بھی پیش کی جاتی تھی ۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اتحادی افواج نے یہ بریگیڈ ختم کر دئیے ۔ ایٹ ایم ایم کیمرے ،اور فلم کی تیاری میں استعمال ہونے والی مشینری بھی فروخت کر دی گئی ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت سے افراد جو کہ فلم سازی کے لیے بھرتی کئے گئے تھے وہ بھی بے روزگار ہو گئے ۔ان سے میں کچھ تو فلم انڈسٹری میں سیٹ ہو گئے جبکہ وہ جن کے پاس اس ہنر کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ان کے لیے روزی روٹی کمانا مشکل ہوگیا۔ اس وقت امریکہ کے اور یورپ میں ایک سیاسی ،سماجی اور معاشی بے چینی پائی جاتی تھی ۔لہذا وہ حضرات جو فلم برگیڈ سے فارغ ہوئے تھے انہوں نے روزی روٹی کمانے کا ایک آسان اور سادہ سا فارمولا پورنو گرافک فلمز بنانے میں تلاش کیا۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی ایٹ ایم ایم ٹیکنالوجی نے پورن انڈسٹری کو ایک نئی جہت دی ۔ لیکن یہ کام چھپ چھپا کے ہی کیا جا سکتا تھا ۔ کیمرے کی حجم میں کمی کی وجہ سے فلم میں کلوز اپ کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ جس سے پورنوگرافک فلموں میں نئی جہت متعارف ہوئیں ۔لیکن ایک بڑا مسئلہ قوانین کا تھا کیونکہ اس وقت امریکہ میں تو ہیز کوڈ لگا ہوا تھا جس کے تحت اس کی طرح کی فلمیں بنانا جرم تھیں۔ لیکن تعلیم کے نام پرہیومن اناٹمی سیکھائی جا سکتی تھی ۔ یوں تعلیم کے نام پر سافٹ کور کلپس کی ایک نئی انڈسری وجود میں آگئی ۔
کچھ ایسا ہی سلسلہ پاکستان میں سن دوہزار سے شروع ہوا جو کہ دوہزار آٹھ تک عروج پر رہا۔پاکستان کی فلم انڈ سٹری کا شمار دنیا کی بڑی انڈسٹریز ی میں ہوتا تھا ۔ایوب دور پاکستان سینما کےعروج کا دور اور گولڈن پیریڈ کہا جاتا ہے ۔ضیا دور میں فلم پر نافذ سنسر سپ نے فلم میں موجود رومانس کو ختم کر دیا ۔ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے پڑھے لکھے اور باضابطہ تربیت یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہونا شروع ہوئی۔ رہی سہی کسر وی سی آر کی آمد نے پوری کر دی ۔سینما مالکان نے گاہکوں کو متوجہ رکھنے کے لیے پورن ٹوٹے فلم کے ساتھ دکھانے شروع کئے تو حکومت کا ڈنڈہ بھی چلا۔ سینما مالکان کا بزنس جب مکمل طور پر ختم ہونے لگا تو پھر سینماز کی جگہ پلازوں کی تعمیر شروع ہو گئی ۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں جو فلم انڈسٹری کبھی ایک سال میں سو زائد فلمیں بنا رہی تھی جس کے ساتھ ہزاروں لوگوں کا کاروبار وابستہ تھا اب وہ صرف سال میں آٹھ سے دس فلموں پر آ گئی تھی ۔فلم کم بننے کی وجہ سے معاشی حالات ان لوگوں کے زیادہ خراب ہوئے جو فلم یونٹ میں چھوٹے موٹے کام کرتے تھے۔ جیسے کیمرہ اسسٹنٹ، لائٹ اسسٹینٹ، ایکسٹراز، اور کورس ڈانس کرنے والی لڑکیاں جو کہ چند سو روپے کی دیہاڑی لگاتی تھیں ان کی یہ روزی روٹی بھی ختم ہو گئی ۔یہی وہ دور ہے جب پاکستان میں معاشرتی ،سیاسی ،معاشی بے چینی کا لاوا پک رہا ہے ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد فارغ ہونے والے فلم بریگیڈ کی طرح بے کار بیٹھے ٹیکنیشن اور ایکسٹراز، اور فنکاروں نے سی ڈی انڈسٹری کو جنم دیا۔ جس میں سٹیج کی اداکاروں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ لیکن اس کے متوازی برہنہ اور نیم برہنہ ڈانسز کی سی ڈی انڈسٹری وجود میں آئی ۔میرا ایک دوست جو کہ کبھی باری سٹوڈیو میں لائٹ مین تھا اور اب دیہاڑی پر کام کرتا تھا وہ بھی اپنی بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر سی ڈی کے دھندے میں ملوث ہوگیا۔
ایک دن ایک ٹیلی فلم کے سیٹ پر میں نے امین سے پوچھا کہ آجکل نظام کیسا چل رہا ہے (باس نظام چلاؤں اس کا تکیہ کلام تھا) تو کہنے لگا باس اب تو کوئی ڈرامہ یا ٹیلی فلم مل جائے تو گھر کا چولہا جلتا ہے۔ سٹودیو میں کام تو بالکل ختم ہوگیا ۔میں اس سے اکثر کہتا کہ کوئی اور کام کر لے تو کہتا باس اس کے علاوہ آتا کچھ نہیں ہے ۔پھر کہنے لگا باس آج کل لائٹس تو مجروں اور خاص طور پر ننگے مجروں کی ریکارڈنگز پر بھی جاتی ہیں وہاں سے دیہاڑی اچھی لگ جاتی ہے ۔اس نے راز دارانہ انداز میں کہا کہ باس میں سوچ رہا ہوں کہ اپنی سی ڈی پروڈیوس کردوں اگر اچھی بن گئی اور بک گئی تو پھر لائٹس کا اپنا کام شروع کر دوں گا ۔
کئی مہینوں بعد ملا، کچھ افسردہ تھا میں نے کہا’’ کیوں وی امین نظام ٹھیک چل رہیا جے ‘‘ کہنے لگا باس’’ سی ڈی شوٹ کر رہے سی کسی نے پلس نوں مخبر ی کر دتی ‘‘ ۔ اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد وہ ایک سی ڈی دے گیا کہنے لگا باس پلس کا نظام بھی چلا دیا ہے اور اپنے نظام چلانے کا بندوبست بھی کر دیا ہے ۔اس کے کچھ مہینے بعد اس کے انتقال کی خبر ملی پتہ نہیں اس نے اس سی ڈی سے کچھ کمایا یا نظام کے بڑے مگر مچھ کھا پی گئے ۔
ان نیم برہنہ اور برہنہ ڈانسسز کی سی ڈی کا کاٹینٹ اور اس کی کیروگرافی اس جمالیاتی ذوق کا پتہ دیتی ہے جو عام سطح پر سکیس کے ساتھ نتھی ہے اور یہ بڑی حد تک ان انگریزی ریپ گانوں سے ملتی جلتی ہے جں کے پورن ڈائریکٹرز کی خدمات لی گئیں تھی ۔ان سی ڈی کے ڈسٹری بیوٹرز ان کی سیل کے علاوہ معجون مچھلی اور مردانہ قوت میں اضافہ کی ادویات بیچنے والوں سے الگ پیسے کماتے تھے ۔
پاکستان میں طالبان کے زور پکڑنے کے بعد ہال روڈ کے تاجروں کوبڑے پیمانے پر فحاش فلمز کی سی ڈیز کی فروخت بند کرنے کو کہا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اگریہ کاروبار بند نہ کیا گیا تو بم دھماکے کیے جائیں گے ۔ تاجروں نے ایسی سی ڈیز نکال کر ان کو چوک میں لاکر آگ لگا دی ۔ ہال روڈ کی سی ڈیز تو جل گئیں ۔ پتہ نہیں ان میں سے چند ایک کیسے بچا بچا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے ہاتھ لگ گئیں جنہیں امریکی اسے ہلاک کرنے بعد اپنے ساتھ لے گئے۔ حالانکہ ان کے اپنا ملک اس معاملے میں خود کفیل ہے ۔اور پھر پورن فلمز تو ویسے بھی یہو د و ہنود کی سازش ہے امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کے لیے ۔کیا یہ سازش معاشی سماجی اور سیاسی حالات کی بے چینی کی پیدا کر دہ نہیں ہے ۔کیا یہی حالات پورنو گرافی کی دلدل اور وجہ تو نہیں بنتے ۔ایک اور مفروضہ تو جنم لیتا ہے
پورنو گرافی دوسرا مفروضہ
عامر رضا
سچ کہا عامر ہم لے دے کے مذہب کی آڑ میں کھیل رہے ہیں اور اصل وجوہات پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں