(ذوالفقار علی)
9 مارچ سنہ 2000 عیسوی کو سرائیکی وسیب کے مہان صوفی گلوکار پٹھانے خان اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اُستاد پٹھانے خان نے اپنی بیشتر زندگی دریا سندھ کے کنارے پر آباد شہر کوٹ ادو میں گُزاری تھی۔ 2006 میں میرا آنا کوٹ ادو ہوا تو میری ملاقات کوٹ ادو کے مختلف الفکر لوگوں سے ہوئی جن میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھےجو اُستاد پٹھانے خان کی خدمت داری کرتے رہے۔ اس کے علاوہ میرے ساتھ استاد صاحب کی ایک بیٹی نے بھی کچھ عرصہ کام کیا تھا۔ جس کی وجہ سے مجھے پٹھانے خان کو زیادہ قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ اس حوالے سے میں اس مہان کلاکار کے بارے میں کچھ بھولی بسری یادیں اپنے قارئین سے “سانجھ” کرنا چاہتا ہوں۔
استاد پٹھانے خان 1920 کو سناواں کے نزدیک ایک چھوٹے سے قصبے “تبو والا” میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میاں خمیسا تھا۔ میاں خمیسا نے دو شادیاں کی تھیں پٹھانے خان میاں خمیسا کی پہلی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ پٹھانے خان کا پیدائشی نام غلام محمد تھا۔ لیکن عمر کے ابتدائی دنوں میں پٹھانہ خان بیمار اور بُجھے بُجھے سے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے آپکی والدہ محترمہ غلام محمد کو ایک بزرگ کے پاس لے گئیں تو انہوں نے نام تبدیل کرنے کی تجویز دی ۔ غلام محمد گورے چٹے تھے تو اس مناسبت سے اُن کا نام پٹھانہ رکھ دیا گیا جو بعد میں پٹھانے خان ہو گیا۔ سرائیکی علاقوں میں مائیں جب اپنے بچے کی خوبصورتی کی تمثیلیں دیتی ہیں تو عام طور پر کہا جاتا ہے میرا بیٹا ” پٹھان” دکھتا ہے۔ یہ بات صرف شکل و صورت کی حد تک ہے ورنہ پٹھانوں کے بارے میں کچھ متنازعہ قسم کی ضرب المثالیں بھی پائی جاتی ہیں۔
نام تبدیل کرنے کے بعد پٹھانے خان اور اس کی ماں تبو والا سے کوٹ ادو منتقل ہو گئے کیونکہ میاں خمیسا نے دوسری شادی کر لی تھی اور گھر میں دونوں بیویوں کا ایک ساتھ رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ اُستاد پٹھانے خان کا رجحان شروع سے ہی موسیقی اور تھیٹر کی طرف تھا۔ تقسیم سے قبل کوٹ ادو میں ہندووں کی بڑی تعداد آباد تھی اور پٹھانے خان اُن کے گھروں میں آتے جاتے تھے۔ کہتے ہیں اُستاد کو پہلا عشق بھی ایک ہندو ناری سے ہواتھا جس کا نام سیتا تھا۔ اُستاد کچھ عرصہ اُن کی محبت میں رام کا کردار بھی نبھاتے رہے تھے مگر تقسیم کے گھاؤ کے ساتھ ساتھ سیتا اور رام کی محبت بھی سرحدوں کی قید میں اپنی موت مر گئی۔ پٹھانے خان کے سر پر گھر کی ذمہ داریاں آن پڑیں تو وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنے گھر کی ذمہ داری نبھاتے رہے جس کی وجہ سے پٹھانے خان نے سات جماعتیں پاس کر کے پڑھائی کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ خان صاحب وہ لکڑیاں گھر لاتے تو اُن کی والدہ محترمہ تندور گرم کرتی اور پورے محلے کی روٹیاں پکا کر کچھ رقم کما لیتی اور اُن سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی۔ والدہ کی وفات کے بعد خان صاحب نے باقاعدہ موسیقی کی تربیت حافظ نذر حسین سے حاصل کی جن کا تعلق کہروڑ پکا سے تھا۔
پٹھانے خان نے اٹھارہ سال کی عمر کے لگ بھگ شادی کی جن میں اللہ نے آپ کو سات بیٹیاں اور چار بیٹے عطا کئے۔ خان صاحب نے اپنی زندگی نہایت سادگی اور فقیروں کی مانند گُزاری۔ اُستاد کا زیادہ تر رجحان صوفیا کرام کے ملامتی سلسلے سے تھا۔ جس کی وجہ سے خان صاحب نے دولت و شہرت کو کبھی خاص اہمیت نہیں دی تھی۔ ایک بار بھٹو صاحب نے کھانے پر پٹھانے خان کو دعوت دی اور اُن کی جادوئی آواز میں کلام سُنا۔ آو بھگت کے بعد بھٹو صاحب نے پٹھانے خان سے کہا ” آپ کو کچھ چاہیے تو توحکم کریں۔ یہ بات بھٹو صاحب نے تین بار دہرائی مگر پٹھانے خان نے ہر بار ایک ہی جواب دیا “بھٹو سئیں میکوں کجھ نہ ڈیوو ‘ بس میڈے وسیب دی پارت ہوائے (مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے بس میرے وسیب کا خیال رکھنا) ۔
بھٹو صاحب نے اپنے تئیں سرائیکی وسیب کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی مگر اُس کو پاکستانی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے ولن نے تختہ دار پر چڑھا دیا۔ جس کی وجہ سے یہ وسیب آج تک تخت لاہور کے جبر سے آزاد نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پٹھانے خان کو پیپلز پارٹی کے وزیر صلاح الدین صلو نے لودھی ٹاون کوٹ ادو میں دس مرلے کا پلاٹ دیا تھا جسے آج تک ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے دبا کے رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد تخت لاہور پر اینٹی بھٹو گروپ کا قبضہ رہا ہے جو پٹھانے خان جیسے عظیم گلوکار کو پلاٹ نہیں دلوا سکا وہ وسیب کو حقوق خاک دلوائے گا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ صدارتی ایوارڈ کے ملنے کے بعد اُن کی بیٹی کو پانچ ہزار کی حقیر سی رقم بطور وظیفہ ملتی تھی جس کو پنجاب گورنمنٹ نے ختم کر دیا ہے۔ جس بیٹی کو یہ رقم ملتی تھی وہ طلاق شُدہ ہے اور کسمپرسی کی حالت میں رہ رہی ہے۔ خیر ایسی تلخیاں بہت ساری ہیں آگے چلتے ہیں۔
خان صاحب نےزیادہ تر صوفیانہ کلام گایا جن میں سرائیکی خطے کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ غلام فرید اور شاہ حُسین قابل ذکر ہیں۔ اُستاد کے چاہنے والے پوری دنیا میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
خاں صاحب نے لوک موسیقی میں ایک نیا انگ متعارف کروایا جس میں صوفیانہ کلام کو خاص اہمیت حاصل رہی جس کا اعتراف اپنے وقت کے مشہور گلوکار شوکت علی خان نے بھی کیا۔ پٹھانے خان آخری عمر تک ایک چھوٹے سے کمرے میں رہے جہاں پر وہ گھنٹوں ریاضت کرتے تھے۔ وہیں پر خان صاحب کو پوری دُنیا سے لوگ ملنے آتے تھے اور اسی کمرے میں بیٹھ کر وہ ان کی خاطر مدارت کرتے تھے۔ یہ کمرہ بہت سی لازاول محبتوں اور تصوف کی رمزوں کا امین ہے۔ اسی رمز میں ایک یاسین بھی ہے جو عاشق اور معشوق کی صوفی فلاسفی کی داستان ہے۔ یاسین ایک خوبصورت نو جوان تھا جو خان صاحب سے عشق کرتا تھا اور خان صاحب بھی اُس کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ یہ پوتر تعلق تا دم مرگ قائم رہا جب یاسین اس دُنیا سے رخصت ہوا تو پٹھانے خان بھی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے۔ یاسین کا تعلق اردو بولنے والی کمیونٹی سے تھا مگر اُن کے ماں باپ نے اپنے بیٹے کی وفات پر کہا کہ خان صاحب یہ ہمارا کہاں تھا یہ تو آپکا تھا آپ ہی اس کے کفن دفن کا انتظام کریں۔
پٹھانے خان جس درجے کے کلاکار تھے اُسے وہ عزت نہیں ملی۔ اُس کی وجہ مُجھے تو سمجھ آتی ہے بہرحال میں اگر اُس وجہ کا یہاں ذکر کروں تو بہت سے لوگ مجھے لسانیت کی بُنیاد پر لوگوں کی تقسیم کرنے کے طعنے دیں گے مگر حقیقتوں کی تلخی کو زیادہ دیر برداشت بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پٹھانے خان کو آپ گوگل کریں تو آپ کو اُن کے بارے میں غلط معلومات ملیں گی اُن کی تاریخ پیدائش اور جگہ سے لے کر اُن کے موسیقی کے استاد تک کا نام غلط لکھا ہوا ہے۔ کیونکہ کسی حکومت نے پٹھانے خان پر اُتنی توجہ نہیں دی جتنی اپر پنجاب کے گُلوکاروں اور فنکاروں کو دی جاتی ہے۔ اسی لئے خان صاحب کے فن، زندگی اور کام کے بارے میں مناسب معلومات کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔
اس بے توجہی کی وجہ سے پٹھانے خان کا فن اور اُس کی لوک موسیقی میں نئی جہتیں آگے نہیں بڑھ سکیں بلکہ پٹھانے خان کی وفات کے بعد اُس کا خاندان اس ورثے کو سنبھالنے سے قاصر رہا ہے۔ میں نے تو یہ بھی سُنا ہے کہ جو ہارمونیم اور طبلہ خاں صاحب کے زیر استعمال رہا ہے اُسے بھی اونے پونے داموں بیچ دیا گیا ہے۔ پٹھانے خان کی قبر سرائیکی وسیب پر روا رکھے جانے والے ستم کی ایسی کہانی ہے جسے آج بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔کوٹ ادو شمالی عید گاہ کے پاس ایک چھوٹا سا قبرستان ہے جہاں مٹی کے ڈھیر پر کچھ پتھر پڑے ہیں اور اُس منوں مٹی کے تلے یہ عظیم فنکار دُنیا و مافیہا سے بے خبر ابدی نیند سو رہا ہے۔
اس عظیم فنکار کی قبر کی شناخت چھوٹے سے قبرستان میں کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد ہی ہو پاتی ہے۔ قبر پر جا کر احساس ہوتا ہے ہماری وسوں کی شناخت یہاں مدفن ہے۔ کچھ استعارے اور مماثلتیں چیختی چلاتی اور بین کرتی انسانوں کو جھنجھوڑتی رہتی ہیں مگر افسوس وقت کے حکمران آنکھوں سے اندھے اور کانوں سے بہرے ہوتے ہیں!
کچھ فنکار ایسے بھی ہوتے ہیں جوسرکاری دلجوئی کے محتاج نہیں ہوتے کیون کہ ان کا فن جغرافیائی حدود و قیود میں مقید نہیں ہوتا بلکہ وہ پوری انسانیت کے فنکار ہوتے ہیں پٹھانےخان کا شمار ایسے فنکاروں میں تھا جن کا فن لامحدود تھا۔پٹھانے خان کو کافی گائیکی میں ملکہ حاصل تھا ۔میرا عشق وی توں میرا یار وی توں کو جس رچاؤکے ساتھ پٹھانے خان نے گایا یہ صوفی کلام ان کی شناخت کا ایک اہم حوالہ بن گیا۔پٹھانے خان کی آواز میں قدرتی طور پر تان، مرکی، اور النکار جیسی غنائی تراکیب موجود تھیں۔اللہ پاک پٹھانے خان کے درجات بلند فرمائے۔۔۔۔آج بھی جب کافی گائیکی کا ذکر ہوتا ہہےتو پٹھانے خان کا نام ہمارے شعور میں گردش کرتا ہوا ہماری زبان پہ آجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔