موت کی سزا، ایک دل دہلا دینے والا عمل ہے۔ یہ سزا سنانے والے اور اس کو عملی جامہ پہنانے والے کتنے دل گردے کے مالک ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ صرف سزائے موت کا ایک منظر دیکھ لینے سے ہی ہو جاتا ہے۔ موت ایک بھیانک حقیقت ہے۔ زندگی کا مر جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔ زندگی کا ختم ہو جانا یا خود ختم کرنا دونوں خوف ناک اور کسی طرح قابل تحسین عمل نہیں۔
کسی جرم کے رد عمل میں سزائے موت کا قانون دنیا کے کئی ممللک میں رائج ہے اور “جان کے
بدلے جان” کے فارمولا کے مطابق جائز بھی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سزائے موت کے طریقے دنیا بھر میں مختلف ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ طریقے جائز ہیں یا نہیں؟ موت کی سزا دینا اور ایسی موت جو توہین آمیز بھی ہو، میں بہت فرق ہے۔
میں میڈیکل کی طالب علم ہوں۔ ہمارے شعبے میں ہمیں نہ صرف زندہ بل کہ مردہ انسان کی بھی عزت کرنا سکھائی جاتی ہے۔ مردے کی dissection کرنے کے بھی مخصوص طریقے ہیں۔ جن سے مردے (cadaver) کی بے حرمتی نہیں ہوتی۔ تو پھر زندہ انسان کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے بھی ایسے طریقے ہونے چاہییں جن سے اس کی بے حرمتی نہ ہو۔
یاد رہے کہ میں مجرم کا دفاع نہیں کر رہی۔ صرف اس کے انسان ہونے اور انسانیت کے قوانین کے تحت انسانی جسم کی حرمت کی پامالی کے خلاف ہوں۔
جسم سے روح کا نکلنا ہر صورت تکلیف دہ ہے۔ لیکن تکلیف کی شدّت اور مدّت میں کمی کی جا سکتی ہے۔ سزائے موت کے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ دنیا میں سزاؤں کو صرف ایک سزا کے طور پر سمجھا جانے لگا ہے۔ ذاتی عناد، توہین انسانیت، یا قبائلی دشمنیوں کی صورت سمجھنا ختم ہو گیا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پھانسی کے ذریعے سزائے موت دینے کا قدیم طریقہ رائج ہے۔ یہ طریقہ بھی برطانیہ (نو آبادی) کی دین ہے۔ باشعور قومیں، حتیٰ کہ خود برطانیہ بھی اس طریقۂِ سزا کو ترک کر چکا ہے۔
آخر پھانسی تکلیف دہ کیوں ہے؟
اور اس سے مجرم کی بحیثیت انسان توہین کیسے ہوتی ہے؟
طبّی لحاظ سے دیکھا جائے تو گردن کی پہلی دو ہڈیوں (vertebrae) کو بالترتیب atlas اور axis کہتے ہیں۔ Axis کا ایک حصّہ جسے dens کہتے ہیں ایک باریک تار (transverse ligament) کے ذریعے atlas کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ رسی کے ساتھ لٹکائے جانے پر یہ ligament ٹوٹ جاتا ہے اور dens اپنی جگہ سے ہل جاتا ہے اور دماغ ک حصے (medulla) اور spinal cord کو کچل دیتا ہے۔ اس طرح آدمی دماغی طور پر مر جاتا ہے۔ اور پھر لٹکے ہوئے جسم سے رفتہ رفتہ جان نکلتی ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ عمل ہوتا ہے جو دیر تک جاری رہتا ہے۔
بے شک مجرم بھی قاتل ہو سکتا ہے۔ اس کے جرم کی سزا قصاص ہی انصاف قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن قانون کے تحت دی جانے والی سزا میں انسانیت کے پہلو کو ملحوظ خاطر لایا جا سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں انصاف ملنے تک سالوں لگ جاتے ہیں۔ مجرم پہلے قید بہ مشقت جھیلتا ہے اور پھر آخر کار پھانسی پہ لٹکایا جاتا ہے۔ اس عرصے میں مقتول کے وُرَثاء کا غم کم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا سزائے موت کے اس دستور کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ گلے میں رسی ڈال کے، گلا دبا کے موت کی سزا دینا ایک قسم کا توہین آمیز عمل ہے۔
اسلامی طریقے کے مطابق ہر جرم کی مختلف سزا ہے۔ مثلاً سر عام سنگساری، ہاتھ کاٹنا وغیرہ، تا کہ لوگ عبرت پکڑیں۔ سزائے موت کے لیے سر تن سے جدا کیا جاتا ہے جو بہ ہر حال پھانسی سے کم تکلیف دہ ہے۔ جس میں تمام حِسی نظام ایک دم یا جلدی مُنقطع ہو جاتا ہے جس سے تکلیف کی شدت بہت کم واقع ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ امریکا اور برطانیہ میں بجلی کے جھٹکے یا انجیکشن کے ذریعے موت رگوں میں اتار دی جاتی ہے۔ ان سائنسی طریقوں سے دی جانے والی سزاؤں میں انسانی جسم کی حرمت پامال نہیں ہوتی۔
پاکستان میں تو سزا بھی رات کے اندھیروں میں دی جاتی ہے۔ حیرت کی بات ہے مسلمان ملک جہاں جانور ذبح کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو وہاں انسان کو مارتے وقت یہ خیال نہیں رکھا جاتا۔
ایک انسان ہونے کے ناطے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ انسان قدرت کی بہترین تخلیق ہے۔ خواہ انسان زندہ ہو یا مردہ اس کے جسم کی بے حرمتی کسی طور جائز نہیں۔
اب یہ حکومت اور پارلیمنٹ کی ذمّے داری ہے کہ سزائے موت کے اس جاہلانہ طریقے کی اصلاح کرے۔
عافیہ شاکر میڈیکل کی سالِ اول کی طالبہ ہیں۔ سائنس اور سماجیات دونوں میں دل چسپی لیتی ہیں۔ فطری اور سماجی سائنس کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے ناگزیر سمجھتی ہیں۔ مستقبل میں سائنسی فورم بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں اس کے لیے اچھی کتابوں کے تراجم میں بھی دلچسپی لیتی ہیں۔
(ذوالفقار علی) دریا: آئے آدم کی اولاد مجھ پر رحم کر۔ انسان: رحم جذباتی نعرے کے سوا کچھ نہیں ہوتا میں سرمایہ دار ہوں میرا جذبات سے کیا لینا دینا۔ دریا: مگر جو تو کر […]
مغرب میں انسانی حقوق کا وسیع ہوتا منظر نامہ Basic level of physiological function should be a part of our human rights. As a society we can achieve these human rights, if we accept the […]
کشمیر اٹوٹ انگ ہے ، یا شہ رگ ؟ (عمران مشتاق چوہان) بچپن سے پاکستان ٹیلی ویژن پر سنتے آئے، ‘آزاد’ نامی جموں وکشمیر کے سرکاری اداروں کی درو دیوار پراور مطالعہ پاکستان جیسی نصابی […]
بہت مناسب سائنسی دلائل دئیے ہیں