(سدرہ افضل)
لویل سنٹر کی ایک صبح
ابھی اک دھوپ نے سایہ نگل کر کتنے پتوں کو ہرا کر دیا ہے
ابھی اک سائے نے اس روشنی پر کتنی سرعت سے کمند ڈالی ہے
بادلوں کی مہیب لہروں سے آسماں سج سنور کے نکلا ہے
یہ صبح کا منظر ہے دھوپ اور سایہ پکڑن پکڑائ کھیل رہے۔ہیں میری آنکھوں کے سامنے کھڑکیوں سے نظر آنے والا ایک حسین خوبصورت اور فرحت بخش منظر ہے بادلوں کی مہیب تہیں پورے آسمان میں سفر کرتی ادھر ادھر دوڑتی بھاگتی کسی ٹھہراؤ کی تلاش میں سفر کرتی چلی جا رہی ہیں
جھیل نگری یعنی میڈسن وسکانسن جہاں امن و آشتی نے پر پھیلائے ہوئے ہیں سبزے نے۔اپنی لپیٹ میں آنے والے چپے چپے کو جنت جیسا بنا دیا ہے اور میں کہ جس نے شائد آزادی ۔ رواداری ۔خلوص ۔ امن و آشتی کے نام ہی سنے ہیں انہیں یہاں کی عمومی زندگی کا حصہ بنے ہوئے دیکھ رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
نجانے کیوں صبح صبح اقبال کا مصرعہ یاد آرہا ہے مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ ۔ ۔ ۔ ۔ جی جی علامہ صاحب آج غور غور سے دیکھ رہی ہوں مگر یہ مشرقی تو نہیں یہ تو مغربی سورج ہے اور مغرب سے سورج کا طلوع ہونا تو شائد قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا قیامت برپا ہونے والی ہے ؟ میرے ذہن کو عجیب سوالوں نے گھیر لیا ہے ۔ ۔ ۔ قیامت کیا ہے کہیں یہ لفظ دنیا کا طور اور چلن بدلنے کیلئے تو استعمال نہیں ہوا کیا کایا پلٹنے کا عمل قیامت تو نہیں کہلایا اور کیا مغرب سے سورج طلوع ہونے سے مراد اس آگ کے گولے کا اپنی فطرت بدلنا ہے یا اس سے مراد علم و عمل و فن کی روشنی کا مغرب سے پھوٹنا ہے ؟؟؟ افف صبح صبح اتنے سوال چل ری سکھی ان سوالوں کے جواب بعد میں تلاشیں گے فی الحال منڈوٹہ جھیل کے کنارے تک جانے دے ۔ ۔ ۔ ۔ میری ڈائری پھر ملتے ہیں جھیل کی سیر کے بعد
یونہی کوئی مل گیا تھا
جھیل کی سیر کو نکلی تو سامنے سے ایک بزرگوار جنہیں جوان بزرگوار کہنا بہتر ہوگا آتے ہوئے دکھائی دئے میں نے مسکرا کر ہیلو کہا تو انہوں نے جوابا ہائے کہا اور رک کر غور سے دیکھتے ہوئے بولے آپ کو پہلے یہاں نہیں دیکھا آپ ہندوستانی ہیں ؟ میں نے جوابا کہا جی نہیں پاکستانی انہوں نے حیرت سے پوچھا یہ کہاں ہے ؟ میں نے کہا دنیا کے نقشے پر وہ ہنسے بہت ذہین بہت ذہین لیکن کہاں انہوں نے استفسار کیا جی آجکل میڈسن میں میں نے اپنی طرف اشارہ کیا انہوں نے قہقہ لگایا اچھا اچھا بہت اچھے میڈسن میں خوش آمدید انہوں نے مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھا دیا میں نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے بتایا پاکستان چین اور ہندوستان کا ہمسایہ ہے اووووووہہہہ انہوں نے لمبی اوہہہ سے معلومات میں اضافے کا تاثر دیا آپ کا مطلب ساؤتھ ایشیا تو آپ ساؤتھ ایشیا سے ہیں جی جی میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے سوچا میں نے خود کو پاکستان کہا تھا انہوں نے پورے منطقے کو مجھ سے منسوب کر دیا دفعتا ایک بہت بڑے ذمہ دارانہ بوجھ کا احساس مجھے کاندھوں پر محسوس ہوا ۔ ۔ ۔ ایرک انہوں نے اپنا تعارف کروایا سدرہ سدرہ افضل خوبصورت نام خوبصورت نام انہوں نے مسکراتے ہوئے میرا نام دہرایا آپ ٹیرس کی طرف ٹریک پر جا رہے ہیں ؟جی انہوں نے جوابن کہا؛ اوہ تو ہم ساتھ چل سکتے ہیں ۔؟میں نے پوچھا کیوں نہیں ضرور ضرور ان نے کہا اور چلنے کا اشارہ کیا ۔تو آپ یہاں کس سلسلے میں آئ ہیں خاتون انہوں نے نہایت پر ادب سے پوچھا جی میں یہاں ٹرینی ہوں سیکنڈ لینگویج ٹیچنگ ٹریننگ پروگرام اوووووہ تو آپ ٹیچر ہیں آپ بہت قابل احترام ہیں بہت خوب بہت خوب تو کونسی زبان پڑھاتی ہیں ؟ جی میں اردو پڑھاتی ہوں ۔ اور ڈو اوووووہہہ شائد میں جانتا ہوں ارڈو یعنی ہنڈی میں شکاگو میں ایک آدمی کو جانتا ہوں جو ہندی اردو پڑھاتا ہے وہ ہندوستان سے ہے وہ اسے ہندوستانی کہتا ہے ۔ جی جی مگر اردو پاکستان کی قومی زبان ہے پاکستان 1947 میں ہندوستان سے الگ ہو گیا تھا بنیادی طور پر ہندی اور اردو برصغیر کی ایک زبان ہے جسے آزادی کے بعد کچھ تبدیلیوں سے رسم الخط کی سطح پر الگ کر دیا گیا ہندی میں سنسکرت اور اردو میں فارسی عربی سے قوانین اور الفاظ لئے گئے اووووووہہہہہہہہہ صحیح صحیح تو آپ یہ سب زبانیں جانتی ہیں جی نہیں میں فارسی عربی کچھ کچھ جانتی ہوں ۔ ۔ ۔ اور ہندی ؟انہوں نے پوچھا ‘ نہیں; میں نے کہا ; کیوں ؟ جبکہ ہندوستتانی تو اردو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں ان کی اس بات سے اندازہ ہوا کہ بیرونی ممالک میں پاکستان سے افراد اردو پڑھانے کیلئے کیوں نہیں بلائے جاتے ۔ خیر ایرک کے کیوں کا جواب میں کیا دیتی یہ کہتی کہ یہ مذہبی اور قومی تعصب کی ایک شکل ہے یا دو قومی نظرئے کی پاس داری یا پھر ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا ہمارے یہاں نظام تعلیم بہت سی خامیوں کا شکار ہے چونکہ ہم ترقی پزیر ملک ہیں اور امید۔ہے کہ یہ سب جلد ٹھیک ہو جائے کیونکہ ہم کوشش کر رہے ہیں ( یہ بات کہتے ہوئے دل کی حالت نا قابل بیان تھی ایک بار خیال آیا میں کس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہوں کیا اب مجھے اس سطح پر بھی پاکستان کے وجود اور یہاں کے نظام کو یوں ڈفینڈ کرنا پڑے گا ۔ 1947 سے اب تک ؟؟؟ بہت سے سوالیہ نشان تھے میرے سامنے ) ۔ ۔ اس بات پر ایرک نے والہانہ اوہ کہا اچھا تو یہ بات اچھا ہے کہ آپ یہاں سیکھیں اور اپنے ملک جا کر اسکی ترقی میں حصہ لیں اچھا ہے بہت مبارک ہو پھر تو ایرک نے مصافحے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا میں نے شرمندہ مسکراہٹ کیساتھ خیر مبارک کہا ۔ اچانک ایک آواز بلند ہوئ ایرک ایک صحتمند سرخ و سفید چہرہ سفید فرینچ کٹ داڑھی کوئ مسکرا کر ہاتھ ہلا رہا تھا ان کے ساتھ دو نوجوان لڑکیاں بھی تھیں ۔جنہوں نے ہاتھ میں گلدستے پکڑ رکھے تھے ۔ اوہ ہیرسن انہوں نے نام لے کر ہاتھ ہلایا اور پھر تپاک سے بغل گیر ہو گئے ہائے ایرا ہیلو شیلبی انہوں نے باری باری لڑکیوں سے ہاتھ ملایا ۔ اوہ اچانک وہ میری طرف متوجہ ہوئے اشارہ کرتے ہوئے بولے ہیرسن یہ میرے دوست اور یہ ان کی پیاری ذہین بیٹیاں ایرا اور شیلبی ۔ ایرا بہت اچھی پینٹر اور شلبی رائٹر بننا چاہتی ہیں انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔ اور یہ سڈرہ ہیں یہ پھاکستان سے ہیں ۔ اوہ تو آپ پاکستان سے ہیں ؟ شیلبی نے حیرت سے پوچھا جیسے اسے کرنٹ لگا ہو ۔ ۔ ۔ ۔
(جاری ہے)