پھولن دیوی مجھے شدت سے یاد آتی ہے
از، منزہ احتشام گوندل
بہت دن سے میرا جی چاہ رہا تھا کہ اس پہ کچھ لکھوں۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ مجھ سے لکھوانا چاہتی ہے۔ میں نے اس کو بہت ڈھونڈا،بہت کھوجا،وہ جتنی مل سکتی تھی،ملتی گئی،اور میں دیکھتی گئی۔ چمبل کے بیہڑوں کی رانی۔ جب وہ زندہ تھی اور دہشت کی علامت بنی ہوئی تھی تب میں جانتی ہوں لوگ کیا سوچتے ہوں گے۔اب جب کہ وہ مر گئی ہے تو بھی میں جانتی ہوں لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔لوگ سوچتے کب ہیں؟ لوگ سوچتے ہی تو نہیں ہیں؟ لوگ تو صرف مانتے ہیں۔پھولن دیوی جسے اتر پردیش کے لوگ (فولن) دیوی کہتے ہیں۔ میں اس کی بائیوگرافی بیان کرنے نہیں آئی ہوں۔ بلکہ میں اس کے لیے اپنے دل میں موجود وہ احساسات بیان کرنا چاہتی ہوں جو میں گذشتہ عرصے سے محسوس کررہی ہوں۔وہ مجھے کیوں اچھی لگنے لگی ہے؟
کہیں اس کے پیچھے میری بے بسی تو نہیں؟
جو مجھے ایک دفعہ ( فرخندہ ملک زادہ) کی شہادت پہ محسوس ہوئی تھی۔
اور جو ایک بار پھر مجھے ( حنا شاہنواز) کی شہادت پہ محسوس ہوئی ہے۔
کہیں اس کے پیچھے میری وہ لاچارگی تو نہیں؟
جسے ایک بار میں نے ( ریحام خان) کی طلاق پہ محسوس کیا تھا۔
اور جو ایک بار مجھے (وینا ملک) کی ذلت پہ بھی محسوس ہوئی تھی۔
پھولن دیوی مجھے بہت شدت سے یاد آنے لگی ہے۔میں اس کی زندگی کے واقعات پڑھتی ہوں۔میں (Bandit Queen)دیکھتی ہوں۔پھر میں اس کے وہ نایاب انٹرویو دیکھتی ہوں جو خال خال دستیاب ہیں۔مجھے اس کی شکل بہت پیاری،معصوم اور بھولی بھالی لگتی ہے۔وہ سیاست کے ایوانوں میں پہنچ جاتی ہے،مگر اس کے پورے وجود میں کہیں بھی سیاست دانوں والی چالبازی نہیں،اس کے چہرے پہ وہ چالاکی نہیں جو سیاست دانوں کے چہرے پہ ہوتی ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے سارے بدترین واقعات اور جسمانی عذابوں نے اس کے باطن کی سادگی اور حسن کا کچھ بھی نہیں بگاڑاہے۔میرے پاس بھی اس کے متعلق اتنی ہی معلومات ہیں جتنی کہ ایک گوگل سے تعلق رکھنے والے کسی بھی آدمی کے پاس ہوسکتی ہیں۔مگر میرے پاس اس کے لیے احساسات مختلف ہیں۔پھولن کو پھولن دیوی مردوں نے بنایا تھا۔پہلی جنسی زیادتی ،پہلی اجتماعی زیادتی سے لے کر اپنے سرکاری گھر کے باہر ( شیر سنگھ رانا) کی گولی کا نشانہ بننے تک ،وہ مردوں کی صنعت رہی۔
وہ اس کی چابی اپنے ہاتھ میں لیے رہے۔وہ اس کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے۔وہ اسے پارلیمنٹ میں گھسیٹ لائے۔اور پھر اسے ماردیا۔سوال صرف یہ ہے کہ مرد کے ساتھ آخر کیا مسئلہ ہے کہ وہ اپنی ہی صنعت سے نفرت کرتا ہے؟
طوائفیت کا ادارہ مرد کا قائم کردہ ہے مگر نفرت ہمیشہ عورت کے حصے میں آئی ہے؟
ایک بھائی آوارہ لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے،قتل بہن ہوجاتی ہے۔کیوں؟
عورت گیارہ کھلاڑیوں کی ٹھوکروں میں ایک گیند جیسی مخلوق بن کے رہ گئی ہے۔کیوں؟
تو یہ وہ سوال ہیں ،یہ وہ بے بسی ہے،یہ وہ لاچاری ہے،جو مجھے چمبل کے بیہڑوں کی رانی کی یاد دلاتی رہتی ہے۔وہ کبھی میری انسپائریشن نہیں تھی۔میں نے بچپن سے رضیہ سلطانہ،چاند بی بی،کے واقعات سنے تھے۔وہ آئیڈیل بن گئیں۔خواتین محترمات حضرت آسیہ، حضرت سارہ ، حضرت حاجرہ،کے قصص اپنی دادی ماں سے سنے تھے۔میری دادی ماں کا نام بھی ( حاجرہ) ہے۔امہات المومنین کے کردار ہم بیٹیوں کو اچھی طرح پڑھائے گئے تھے۔ایسے ماحول میں پھولن دیوی سے متاثر ہونے کی گنجائش نہ نکلتی تھی۔ایسا گھر جہاں تین سال کی عمر سے بچی کو نگاہ نیچی رکھنے اور آواز مدھم رکھنے کے اسباق دیئے جاتے ہوں وہاں ایسی عورتوں کو آئیڈیلائز کرنا بھی ایک جرم ٹھہرتا ہے۔پھر میری ملاقات ہومرسے ہوئی اور مجھے ٹرائے کی ہیلن کا پتا چلا،تو پہلی بار میں نے سوچا کہ ایک عورت کے لیے دوملک آپس میں لڑ پڑے۔یہ بہت حیرت کی بات تھی؟ایک عورت اتنی اہم بھی ہو سکتی ہے؟ اتنی خاص بھی ہو سکتی ہے؟بڑی عجیب بات تھی۔پھر قلوپطرہ سے واقفیت ہوئی تو اور بھی حیرت ہوئی۔یہ اور بھی عجیب بات تھی ،اس کے بعد تو جیسے ایک کے بعد ایک عورت تاریخ کے روزن سے جھانکنے لگی اور متاثر کرنے کی وجہ بنتی گئی۔سپارٹا کی ہیلن تو ایک ضد اور عناد کی علامت تھی،قلوپطرہ تو خود ایک کھلونا تھی ،ایک مکھوٹا تھی،اور تاج محل ممتاز محل کا مزار ہے،یہ سب بہت بعدمیں پتا چلا۔میری کیوری سے میں نے بہت محبت کی ہے۔بے نظیر بھٹو،اندرا گاندھی اور آنگ سانک سوچی،بھی میری محبوب ہستیاں ہیں۔میں زاہدہ حنا،ارون دھتی رائے،ایلس منرو،ورجینیا وولف،جین آسٹن اور اوریانا فلاشی سے بھی بہت محبت کرتی ہوں۔محبت کرنے کے لیے بہت سی معزز ہستیاں ہیں۔بہت سی عظیم خواتین ہیں۔مگر کچھ عرصے سے پتا نہیں کیوں مجھے پھولن دیوی سے محبت ہوگئی ہے۔شاید وہ اس طاقتورسماج کے اندر میری کمزوری کا اظہاریہ ہے۔وہ احتجاج اور بغاوت کا اعلامیہ ہے۔میں اسے کیوں پسند کرنے لگی ہوں؟ کیا میں اپنے آپ سے خوفزدہ ہوں؟
کیا میں حوا کے وجود سے فرار چاہتی ہوں؟
میرے آس پاس سب ٹھیک ہے۔مگر میرے اندر خوف کیوں ہے؟
کبھی کبھی مجھے ایسا منظر کیوں دکھائی دیتا ہے کہ اس سیارے پر،جسے زمین کہتے ہیں
بہت سے چرواہے ہیں
جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں
اور جو بہت سی بھیڑ بکریوں کو ہانک رہے ہیں
میں اونچے ٹیلے پہ کھڑی ہوکے بستی کی طرف نظر کرتی ہوں
سبھی بستیاں کھوج ڈالتی ہوں
مگر مجھے اپنی کوئی ہم جنس نظر نہیں آتی
تب کوئی میرے کان میں کہتا ہے
کیا تم اندھی ہو گئی ہو؟؟
یہ جو لاٹھی بردار چرواہے ہیں
اور اب میں بھی ریوڑ کا حصہ ہوں۔
بہت خوب۔گہرا طنز ہے آپ کی تحریر میں ۔