(ذوالفقار علی)
پنجاب میں پیپلز پارٹی کے اندر کے حلقوں میں بہت سی ایسی خبریں آ رہی ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت سی بریکنگ نیوز آ سکتی ہیں۔ میرے ایک دوست اور پیپلز پارٹی کے جیالے ناصر خان جن کا تعلق ملتان سے ہے آج اُنکا ایف بی پر سٹیٹس اپ ڈیٹ دیکھا تو مجھے حیرانی نہیں ہوئی بلکہ میری بہت پُرانی سوچ کو تقویت ملی جس کے تحت میں سوچا کرتا تھا کہ قمر زمان کائرہ کو ٹی-وی چینلز پر اتنی سپیس کیسے مل جاتی ہے خاص کر جب انڈیا سے پاکستان کی کشیدگی بڑھی ہوئی ہو تو کائرہ صاحب ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ایک خاص قسم کی ٹون میں انڈیا کو للکارتے رہتے ہیں جیسے ہمارے محب وطن خاصہ دار فورس کے اہلیان علم اپنا غصہ دکھا کر اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں۔ اسی طرح اعتزاز احسن صاحب بھی پیپلز پارٹی کو کئی بار مشکل میں ڈال چُکے ہیں ۔ یہ دونوں افراد پنجابی میڈیا کے اندر عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور ان کو کبھی اُس زاویے سے نہیں دیکھا گیا جس زاویے سے عام طور پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور لیڈرشپ کو پنجابی میڈیا میں دیکھا جاتا ہے۔ میں اُن کی اجازت سے اُس کے مضمون کے کچھ اقتباسات آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔وہ لکھتے ہیں؛
“پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے ہماری اطلاعات کے مطابق مرکزی قیادت کی اجازت کے بغیر چودہ لاکھ روپے ماہانہ مشاہرہ پر اسٹیبلشمنٹ کے چینل بول میں بطور اینکر ملازمت اختیار کرلی۔ موصوف اب آئی ایس پی آر کے تنخواہ د دار اپنے ساتھی اینکرز اور نام نہاد تجزیہ کاروں کے ساتھ بیٹھ کر اسٹیبلشمنٹ کے پی پی پی مخالف ایجنڈے پر پروگرام کیا کریں گے۔
کائرہ نواز حلقوں کا یہ جواز کوئی بنیاد نہیں رکھتا کہ بول چینل پر جس طرح جنرل مشرف، طاہر القادری اور حمزہ عباسی اپنی اپنی پارٹیوں کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں، اسی طرح کائزہ صاحب بھی پیپلز پارٹی کی نمائندگی کا حق استعمال کرتے ہوئے چینل پر آئیں گے؛
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کائرہ صاحب نہ تو اب مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز ہیں، نہ اُنہیں پارٹی قیادت نے میڈیا نمائندگی کیلئے نامزد کیا ہے اور نہ ہی وسطی پنجاب میں تنظیم سازی سے متعلق موصوف کی نئی ذمہ داری میڈیا چینلز پر بیٹھ کر پوری کی جاسکتی ہے۔۔
جبکہ پارٹی کی مرکزی قیادت کی طرف سے بحیثیت صدر وسطی پنجاب قمر کائرہ صاحب کی ڈانواں ڈول پالیسی پر عدمِ اعتماد کا ایک اور ثبوت اس طرح سامنے آیا ہے کہ جناب آصف علی زرداری کی جانب سے عسکری عدالتوں کے مستقبل بارے بُلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کیلئے مختلف سیاسی شخصیات تک دعوت نامے پہنچانے کی ذمہ داری اگرچہ جنوبی پنجاب سمیت تینوں دیگر صوبوں کے صوبائی صدور کے سُپرد کی گئی ہے؛
لیکن وسطی پنجاب میں جناب چودھری شُجاعت اور دیگر سیاست دانوں کو مدعو کرنے کا کام پارٹی قیادت کی طرف سے صوبائی صدر قمر کائرہ کی بجائے سئیر بُخاری اور رُخسانہ بنگش جیسے قابلِ اعتماد اور وفادار کارکنوں کو سونپا گیا ہے۔۔
یہاں جیالوں کو جناب کائرہ صاحب کی پارٹی قیادت کے ساتھ وفاداری کی حقیقت سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے کہ جناب والی چند ماہ قبل پی پی پی کی تنظیمِ نو کے مراحل کے دوران لاہور سمیت دیگر مقامات پر پارٹی کی ریلیوں اور جلسوں میں جیالوں کو مردِ حُر کے حق میں یہ کہہ کر نعرے لگوانے سے روک دیا کرتے تھے کہ زرداری زرداری بہت ہوگئی اور یہ کہ پارٹی پروگراموں کے دوران صرف بلاول، بی بی اور بُھٹو کے نعرے لگ سکتے ہیں۔
اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ جناب قمر زمان کائرہ اور جناب اعتزاز احسن جیسے بُغضِ زرداری کے دیرینہ مریض پارٹی کے ساتھ زبردستی چمٹے رہنے کے باوجود اپنی گاڑیوں اور پارٹی ریلیوں کے لئے سجائے گئے ٹرکوں وغیرہ پر پارٹی قیادت کی پورٹریٹس کے ہمراہ جناب زرداری صاحب کی فوٹو چسپاں کرنے سے ہمیشہ دانستہ طور پر گریزاں رہتے ہیں۔
خواتین و حضرات؛ جناب کائرہ صاحب کی پارٹی امور سے دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ صوبائی صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک آپ نے نچلی سطح تک تنظیم سازی اور رابطہ عوام جیسے ضروری و لازمی امور کیلئے کبھی کسی اجلاس بلکہ کارنر میٹنگ تک کی ضرورت محسوس نہیں کی؛
بلکہ جناب نے پارٹی قیادت کے فیصلوں پر انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ عدمِ اعتماد کرتے ہوئے پارٹی کی وسطی پنجاب کیبینٹ میں چئیرمین بلاول بُھٹو کی جانب سے منتخب کردہ صوبائی جنرل سیکرٹری ندیم افضل چن اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات مُصطفیٰ نواز کھوکھر کو نظر انداز کرتے ہوئے ان دونون اہم عہدوں کی ذمہ داریاں غیر منتخب افراد کے سُپرد کر رکھی ہیں۔”
یہ اقتباس پڑھنے کے بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب کے اندر کتنی مشکلات کا سامنا ہے۔ مگر یہاں پر ایک اہم سوال اُٹھانا بھی ضروری ہیں۔
کیا پیپلز پارٹی کے اندر کوئی نئی گروپ بندی ہو رہی ہے خاص کر زرداری مخالف گروپ پارٹی کو تقسیم کرنے کا سوچ رہا ہے؟ کیونکہ پچھلے دنوں میں نے ایک خبر پڑھی تھی جسمیں حنا ربانی کھر کا ذکر تھا جو پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں جانے کا سوچ رہی ہیں۔
اسی طرح سرائیکی وسیب کے اندر بھی بہت سارے لوگ نئی جگہ اور پارٹی ڈھونڈ رہے ہیں کچھ وہ جو پارٹی چھوڑ گئے تھے واپس آنا چاہتے ہیں اور کچھ پارٹی کے اندر رہتے ہوئےموجودہ صورتحال سے دل برداشتہ ہیں۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے مختلف الفکر حلقوں میں کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے اور لگ ایسے رہا ہے جیسے اسٹیبلشمنٹ زرداری اور بلاول کا پتہ کھیل کر پنجاب کے اندر پیپلز پارٹی کی جڑوں کو مزید نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ سندھ کے اندر اسطرح کی چال چلی جا چُکی ہے جسمیں اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ کامیابی نہیں ملی مگر پنجاب کے اندر یہ گیم کامیاب ہو بھی سکتی ہے کیونکہ یہاں کے معروضی حالات سندھ سے کافی مختلف ہیں۔ بہرحال ایک بات طے ہے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک نیا محاذ کھل چکا ہے جو آنے والے وقت میں اپنا رنگ ضرور دکھائے گا۔ اگر اس محاذ کے خلاف بروقت پیپلز پارٹی کے مخلص اور وفا دار حلقوں کی طرف سے جواب نہ دیا گیا تو صورتحال مزید مخدوش ہو سکتی ہے۔