چراغ حسن حسرت کی مزاح نگاری
(سید الابرار)
مرگ حسرت ہے مرگ روایات فن
ترے سوتے ہی صدیوں کا فن سو گیا
مولانا چراغ حسن حسرت کی ادبی زندگی ۱۹۲۶ء سے شروع ہوتی ہے جب وہ کلکتہ میں الہلال کے نئے دور میں مولانا آزاد کے ساتھ بطور سب ایڈیٹر شامل ہوئے اور ۱۹۵۵ء میں ان کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے جب کہ وہ پانچ سال تک روزنامہ امروز کے ایڈیٹر رہنے کے بعد اس سے الگ ہو کر نوائے وقت میں لکھنے لگ گئے تھے۔ اس تمام عرصہ میں انھوں نے کتابیں بھی لکھیں اور رسائل بھی نکالے۔ روزناموں میں کام بھی کیا اور شعر وشاعری سے بھی شغف رکھا۔ ان کی موت کے بعد مولانا سالک کا یہ بیان چونکا دینے والا تھا کہ ان کی ادبی شخصیت ابھرنے ہی والی تھی کہ وہ چل بسے۔ مولانا سالک کا بیان چراغ حسن حسرت کے شیدائیوں کو کھٹکا کیونکہ ان کو یہ مولانا حسرت کی اہمیت کم کرنے کے مترادف معلوم ہوا لیکن ایسا محسوس ہوتا کہ مولانا سالک نے یہ رائے دیتے وقت زمانے کی ناقدر شناسی کو مد نظر رکھا تھا۔ زمانہ بڑی مشکل سے کسی کی کاوش کا قائل ہوتا ہے۔
گو چراغ حسن حسرت عام طو رپر مزاحیہ کالم لکھنے کے لیے مشہور تھے لیکن ان کو صرف کالم نگار سمجھ لینا مناسب نہیں۔ انھوں نے چار جلدوں میں اسلامی تاریخ لکھی جو عام فہم تاریخوں کے زمرے میں اولین شمار کی جانی چاہیے۔ کرنل لارنس پر ناول تحریر کیا۔ فوجی زندگی کے مزاحیہ پہلو پر ”توتارام کی کہانی” کے عنوان سے فوجی اخبار میں کالم لکھے جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے۔ ہفتہ روزہ اخبار شیرازہ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۵ء کے درمیا ن نکالتے رہے جو معنویت اور خوش ذوقی کا ایک منفرد اظہار لیے ہوئے تھا۔ کشمیر پر کتاب لکھی۔ ”جدید جغرافیہ پنجاب” کے نام سے عصری سیاست اور سیاسی پارٹیوں پر طنز کیا۔ ”زرنیخ کے خطوط” کے نام سے ایک دوسرا طنزیہ تحریر کیا۔ ہندومائی تھالوجی پر ”پربت کی بیٹی” کے نام سے کتاب لکھی۔ ان کی زندگی میں ان کے مزاحیہ مضامین کاایک مجموعہ ”مطائبات” شائع ہوا اور موت کے بعد دوسرا مجموعہ ”مضامین حسرت” کے نام سے شائع ہوا۔ ”انھوں نے ڈاکٹر” اور ”مردم دیدہ” کے نام سے اپنے زمانے کی شخصیات کے شخصی خاکے شائع کیے۔ موت کے بعد ان کے مزاحیہ کالموں کا مجموعہ ”حرف و حکایت” کے نام سے جناب ضمیر جعفری صاحب نے مدون کیا ہے ۔ حسرت نے اردو میں ایک نیا اسلوب بیان ایجاد کیا جس میں کلاسیکی ثقافت اور جدید سلاست دونوں کا ایک شیریں امتزاج تھا۔ تعجب ہے کہ اتنے عظیم مصنف کو اس طرح بھلا دیا گیا کہ اس کے کارنانے پر ایک آدھ کتاب تو کیا ایک آدھ مضمون بھی نہیں ملتا۔ نہ ان کی برسی منائی جاتی ہے اور نہ ان کی یاد میں کوئی ضمیمہ نکلتا ہے۔
چراغ حسن حسرت کے ادبی اور شاعرانہ کارناموں کے اتنے پہلو ہیںکہ ان کو کسی ایک مضمون میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ اخبار نویسی، بذلہ سنجی، اسلامی مؤرخ، ادبی مؤرخ، ادبی تنقید نگار غرض ایسی کون سی خوبی ہے جو ان میں نہیں۔ مجبوراً زیر نظر مضمون میں صرف ان کی مزاح نگاری کے ایک جائزے پر اکتفا کیا جاتاہے۔
مزاح پیدا کرنے کا ایک سادہ اسلوب یہ ہے کہ کسی واقعہ کے متعلق کوئی لطیفہ سنا دیا جائے یا اس کا رشتہ اسی قسم کے کسی اور واقعہ سے جوڑ دیا جائے اس طرح واقعے کی نوعیت پر ایک نئی روشنی پڑتی ہے اور لطیفہ بھی نئے واقعے سے مل کرتازہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ اصل واقعے اور لطیفے میں جتنی معنوی قربت ہو گی مزاح کا رنگ اتنا ہی نکھر ے گا۔ مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے فکاہی کالموں میں اکثر اس طریقے سے کام لیا ہے اور ان کے لطائف زیر تبصرہ واقعات سے اتنی مطابقت رکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
مماثل واقعات و مزاح
نواب صاحب امب نے اپنی ریاست میں تعلیم کے لیے بیس ہزار روپے کا عطیہ دیا۔ تعلیم کے لیے تو لاکھوں بھی ناکافی ہوتے ہیں لیکن اس بیس ہزار کے صحیح مصرف کے لیے بھی ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کا ایک صدر تھا اور جس کے باقاعدہ اجلاس ہوئے۔ اس پر حسرت نے ذیل کا لطیفہ چسپاں کیا۔
”ایک دکاندار نے آدھ گھنٹہ کی حجت و تکرار کے بعد ایک فقیر کو ایک پیسہ دیا۔ فقیر پیسہ لے کر چلنے لگا تو دکاندار کہنے لگا، شاہ جی ذرا یہ تو بتائو اس پیسے کو کیا کرو گے۔ فقیر نے جواب دیا امپیریل بینک میں رکھوا دوں گا اور اس کے سود پر زندگی گزاروں گا۔ بہرحال آپ مطمئن رہیں آپ نے جو رقم عطا کی ہے اس پر آنچ نہیں آنے پائے گی”۔
ایک دفعہ دہلی سے آئے ہوئے مہاجرین نے مطالبہ کیا کہ اہل دہلی کی زبان محفوظ رکھنے کی غرض سے ان کے لیے لاہور سے باہر الگ بستی بسائی جائے۔ اس پر حسرت نے میر تقی میر کا واقعہ سنایا کہ جب میر تقی میر دلی سے نکلے تو تانگے کا پورا کرایہ پاس نہیں تھا۔ ایک دیہاتی سے ساجھا کیا تھوڑی دور گئے تھے کہ اس نے کہا ”میاں تم لوگ گم سم کیوں بیٹھے ہو۔ کچھ اپنی کہو کچھ ہماری سنو کہ راستہ کٹے۔ میر صاحب نے جواب دیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے تم سے باتیں کروں اور اپنی زبان خراب کر لوں میں نے کرایہ میں ساجھا کیا ہے باتیں کرنے کا ٹھیکہ نہیں لیا۔
حسرت نے اس سلسلے میں ایک اور قصہ لکھا کہ کسی دھلوی نے شکایت کی کہ پنجابیوں نے دہلی آ کر دھلویوں کی زبان خراب کر دی ہے اس پر ایک بگڑے دل پنجابی نے کہا، حکیم صاحب ! آپ کی زبان پنجابیوں نے نہیں ، بلکہ چونے نے خراب کی ہے میں ہزار بار کہہ چکاہوں کہ اتنا چونا نہ کھایا کیجیے۔
شعراور مزاح
حسرت یہی مطلب تحریر میں موقع محل کے مطابق شعر لانے سے بھی حاصل کر لیا کرتے تھے۔
تلمیحات اور مزاح
لطائف اور اشعار کے علاوہ ان کے ذہنی ذخیرے میں تلمیحات کی بھی کمی نہ تھی اور وہ تاریخی تلمیحات کی مدد سے بھی مزاح پیدا کرنے پر قادر تھے۔ پرنس علی خان کی شادی کے موقع پر جنوبی فرانس میں جو دعوت ہوئی تھی اس میں عطر کا ایک تالاب بھی بنایا گیا تھا اس پر حسرت نے کہا کہ پرنس علی خان دراصل اپنے انتظامات میں ہر لحاظ سے حسن بن صباح کی جنت کی یاد تازہ کرانا چاہتے ہیں (اس موقع پر یہ تلمیح بہت ہی معنی خیز ہے) چند ریگر صاحب جب وزارت چھوڑ کر سفیر ہوئے تو حسرت نے لکھا کہ گویا وہ ”ہد ہد” بن کر ”سبا” کو جا رہے ہیں۔
اسی طرح ایک مدیر اخبار نے غنی کاشمیری پر ایک مضمون لکھا جس میں واقعات اور زبان و بیان دونوںعجیب و غریب تھے۔ مثلاً غنی کاشمیری کو کون نہیں جانتا جن کے لیے اقبال بھی رطب اللسان رہا ہے۔ ایک بار غنی کاشمیری نے ایک شعر لکھا…
موئے عیان تو شدہ کرالہ پن
کرو جدا کاسۂ سر ھازتن
یہ شعر شیراز کے ملک الشعرا صائب نے سنا تمام لغت چھان ماری لیکن انھیں لفظ کرالہ پن کہیں نہ ملا۔ حسرت نے بتلایا کہ اس عبارت میں تین لطیفے ہیں ایک تو جن کے لیے اقبال بھی رطب اللسان رہا ہے اچھا خاصا لطیفہ ہے۔ دوسرا لطیفہ یہ ہے کہ شعر کا پہلا مصرعہ غلط ہے اسے یوں ہونا چاہیے تھا۔
موئے میانت شدہ کر الہ پن
کیونکہ کشمیری زبان میں ”کرالہ” کمہار کو اور ”پن” دھاگے کو کہتے ہیں لیکن ایڈیٹر صاحب کا سب سے بڑا کمال تو یہ ہے کہ مرزا صائب کو شیر از کا ملک الشعر اء بنا دیا۔ اصل میں وہ بچارے بھی معذور ہیں انھوں نے سن رکھا ہے کہ فارسی کے شاعر شیراز میں پیدا ہوتے ہیں اور اردو کے شاعر صرف جالندھر میں۔ آگے چل کر لکھتے ہیں۔
”ایڈیٹر صاحب نے اس داستان پاستان میں چھ مصرعے لکھے ہیں جن میں سے تین صنعت بے بحری میں ہیں ایک اور مصرعہ بھی غلط نقل ہوا ہے لیکن اس کا وزن درست ہے خیر نظم کے معاملے میں تو انہیں معذور سمجھنا چاہیے تعجب تو یہ ہے کہ ان کی نثر بھی اسی قسم کے عجائبات سے مملو ہے مثلاً صائب بھاگ کر اس سے بغلگیر ہو گیا اور کہا کہ وہ صائب ہے”، ”کمہار ایک ناچتی ہوئی مٹی کے چاک کے اوپر برتن بنا رہاتھا” صائب یہ مصرعہ سن کر بھڑک اٹھا اور غنی کا منہ چوم کر کہنے لگا بھائی تم نے ایرانیوں کے قلم کو توڑ دیا ہے۔
یہ فقرہ لکھ کر تو آپ نے واقعی قلم ہی توڑ دیا۔ اس کہانی میں کمی اتنی رہ گئی کہ صائب نے غنی کو ”ہیلو ڈارلنگ” نہیں کہا۔
رعایت لفظی
انمل اور بے جوڑ اشیاء میں مناسبت پیدا کرنے کے فن کی ایک صورت رعایت لفظی بھی ہے۔ حسرت لفظی رعایات اس کثرت سے لاتے ہیں کہ بعض لوگوں کو اس پر اعتراض ہوا۔ ڈاکٹر تاثیر مرحوم نے ایک مضمون میں حسرت و سالک کے مزاح کا تجزیہ کرتے ہوئے سالک کو اس وجہ سے برترقرار دیا کہ وہ لفطی رعایت کے بجائے نفس مضمون سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ لیکن حسرت محض الفاظ سے کھیلتے رہتے ہیں۔ مثلاً تارا سنگھ کا ذکر ہو تو لکھیں گے ۔ ”ماسٹر تارا سنگھ نے دو تارا بجاتے ہوئے کہا کہ سکھ کبھی سکھ ہی نہیں رہ سکتے” اس طرح منٹو نے بھی حسرت کی اس عادت کو مورد طنز بنانے کے لیے حسرت پر اپنے ایک مضمون کا عنوان ”شیر دارم شکوک” رکھا کہ یہ چراغ حسن حسرت کے وزن پر ٹھیک بیٹھتا ہے۔ منٹو کی مراد شاید یہ تھی کہ حسرت چونکہ مناسبت پیدا کرنے کے درپے رہتے ہیں ان لیے وہ چراغ حسن حسرت اور ”شیر دارم شکوک” میں انھیں ڈھونڈیں گے۔ یا پھر یہ کہ جس طرح حسرت ایک وزن کے الفاظ وضع کرتے ہیں میں بھی وضع کر سکتا ہوں اور چراغ حسن حسرت کے وزن پر ”شیر دارم شکوک” وضع کیا ہے۔ بہرحال مقصد حسرت کی رعایتوں پر اعتراض کرنا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رعایات لفظی تلاش کرنے اور پھر انھیں سلیقے سے برتنے کے لیے زبان پر بڑی قدرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیکسپیئر کے ہاں بھی لفظی رعایت کا استعمال کثرت سے ملتا ہے جو کمال فن کا ایک ثبوت ہے۔ حسرت ایسی ایسی لفظی رعایتیں نکالتے تھے کہ بڑے بڑے مزاح نگار بھی چونک پڑتے۔ ایک صاحب نے ”۱۲ منہ” کا مطلب پوچھا تو جواب میں حسرت نے کہا کہ ”۱۲ منہ” کا مطلب حد ہے۔ ”ھوچی منہ” نہیں۔
ایک فکاہی کالم میں بلدیہ کا تعلق پنجابی لفظ ”بلد” یعنی بیل سے جوڑا ہے کہ بلدیہ کی مہربانی سے لاہور میں گلیوں اور سڑکوں پر گوبر کی فراوانی ہے۔ بلدیہ کے ارکان کو بلد کہنا اس لیے بالکل جائز ہے بلکہ انھیں جو آبائے شہر کہا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ گائے ماتا یعنی امہات شہرہے۔ اس لیے بلدیہ کے بلد”آبائے شہر” لارڈ لین لتھگو نے جن دنوں اچھی نسل کی گائیں پالنے کی مہم شروع کر رکھی تھی حسرت نے انھیں لارڈنس لتھگو یا لنلتھ گؤ بنا دیا۔ بلیک مارکیٹ حاجیوں پر انھوں نے لکھا کہ یہ حج میں ”اللھم لبیک” کی بجائے ”اللھم بلیک” کہتے ہیں۔
جب رائے انور خان کھرل کو لیگ پارلیمنٹری پارٹی کا سیکریٹری بنایا گیا تو حسرت نے لکھا کہ اصل میں خان ممدوٹ کو کشتہ سازی کا شوق ہے سوچا ہو گا کہ ہڑتالوں کے اس دور میں ایک کھرل بھی ضروری ہے۔ ھڑتال کے معنی گندھک کے بھی ہیں اور ہڑتال سٹرائیک کو بھی کہتے ہیں۔ اسمبلی کا ممبر ہونے کے لیے اہل الرائے ہونا ضروری ہے اور رائے انور خان کھرل ایم این رائے سے زیادہ اہل الرائے ہیں کیونکہ رائے ان کے نام کے آگے ہے اور یہ اس کے پیچھے ہیں لیکن ایم این رائے کی صورت میں وہ آگے ہیں اور رائے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔
معاصرانہ چھیڑ چھاڑ
معاصرانہ چشمک زمانہ قدیم سے ادب پسندوں کی دلچسپی کا مرکز رہی ہے۔ شعراء ایک دوسرے کی ھجوین لکھتے تھے اور یہ سلسلہ جواب اور جواب الجواب کی شکل اختیار کرتا تھا۔ ہمارے زمانے میں ”معرکہ چکبست و شرر” جنگ صفین” اور مولانا ظفر علی خان کے معرکے خاص طور پر یاد رکھنے کی چیزیں ہیں۔ تقسیم سے قبل حسرت نے بھی اس قسم کے کئی معرکوں میں حصہ لیا۔ تقسیم کے بعد البتہ اس قسم کی چشمکوں میں انھوں نے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لی البتہ اگر کوئی ان سے الجھ جاتا تو پھر وہ بھی ایسے جواب دیتے کہ اکثر موقعوں پر ثالثوں کو بیچ بچائو کرانا پڑتا۔ اس قسم کا ایک معرکہ ان کا نوائے وقت سے ہوا۔ نوائے وقت نے ایک شمارے میں معذرت کی تھی کہ اخبار کی چھپائی خراب ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ دراصل جس اخبار کی اشاعت جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنی ہی اس کی چھپائی خراب ہوتی ہے۔
حسرت نے اس پر لکھا کہ اپنے اخبار کی اشاعت زیادہ بتلانے کا یہ عجیب طریق ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اخبار آج کل پڑھا ہی نہ جا سکے ہم سمجھ لیں کہ اس کی اشاعت سب سے زیادہ ہے۔
ایک معرکہ ان کا ڈاکٹر تاثیر سے ہوا جو بہت مشہور ہے۔ اس طرح ان کا ایک معرکہ ۱۹۵۱ء میں مولانا اختر علی خان سے ہوا۔ اسے بھی ثالثوں نے بند کرا دیا۔ یہ معرکے اگر معرکہ چکبست وشوریا جنگ صفین جیسی بلندی پر نہ پہنچ سکے تو اس کی ذمہ داری سرتاسر فریق مخالف پر عائد ہوتی ہے جو ان باتوں کو ایک بے ضرر قسم کی نوک جھونک تک محدود رکھنے کی بجائے ذاتیات بنا ڈالتے اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ معاصرانہ چشمک میں کوئی بھی حسرت کا مد مقابل نہ تھا۔
وسیع مطالعہ اور ایجاز و ایمائیت
پروفیسر عابد علی عابد کا کہنا ہے کہ کلاسیکی موسیقی سے واقف ہونے کے سبب حسرت حرف و حکایت میں بعض ایسے اشارات مخفی کر دیتے تھے کہ وہی لوگ ان سے پُورالطف اٹھا سکتے تھے جو موسیقی کے رموز سے واقف ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک موسیقی ہی نہیں بلکہ ہر علم اور ہر فن کی متعلقہ معلومات کو حسرت کچھ ایسے انداز سے اپنے کالموں میں کھبا دیتے تھے کہ وہ مخفی اشارات کی شکل اختیار کر لیتے تھے۔ مولانا دائود غزنوی کے کسی بیان کی صحت پر انھیں شک گزرا تو انھوں نے لکھا کہ حدیث ضعیف ہے لیکن راوی ثقہ، اب وہ وہی لوگ اس فقرے کا مزہ پا سکتے ہیں جو احادیث کی پرکھ سے متعلقہ، علوم اسماء الرجال، روایت اور درایت کی اصطلاحات سے واقف ہوں اور یہ بھی جانتے ہوں کہ مولانا دائود غزنوی اہل حدیث ہیں۔
ایک امتیازی وصف
اردو کے مزاح نگاروں میں مولانا حسرت کا ایک اور امتیازی وصف یہ ہے کہ انھوںنے اپنے قارئین کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ مزاح نگاری یوں بھی ایک مشکل فن ہے پھر روزانہ کالم نویسی کی آزمائش اور محنت طلبی سے تو شاید ہی کوئی انکار کر سکے لیکن مولانا اپنے وسیع علمی پس منظر اور بذلہ سنجی و نکتہ آفرینی کی فطری صلاحیتوں کی بدولت ہمیشہ اس آزمائش میں پورے اترے۔ ان کے مرض الموت کے ایام میں لکھے ہوئے کالم بھی اس طرح تازہ و شگفتہ ہیں جیسے ان کے زمانۂ صحت کے کالم۔ وہ خشک سے خشک موضوع میں اپنی طبعی ہنر مندی سے جان ڈال دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے پڑھنے والوں کی توقعات پوری کرنے کے شوق میں روش عام کی پیروی کبھی نہیں کی بلکہ اپنی انفرادیت کو ہمیشہ برقرار رکھا۔ انھوں نے اوائل ہی میں اپنے واسطے جو معیار معین کر لیا تھا آخر دم تک اس پر قائم رہے لیکن اس کے باوجود یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ حسرت کا فن زندگی کے عام مسائل سے بے گانہ ہے یا طبقہ اشرافیہ کے لطف طبع کا ذریعہ ہے۔ حسرت کو زندگی سے حد درجہ عشق ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی تحریر کا مواد معاشرے کے زندہ مگر تلخ حقائق میں تلاش کرتے تھے اور اپنی شیرینی بیان سے ان حقائق کی تلخی کو ان لوگوں کے لیے بہت حد تک گوارا بنا دیتے تھے جو براہ راست ان حقائق سے دو چار ہوئے ہیں۔ حسرت کا فن ہر دور میں اپنے ماحول کا عکاس رہا۔ ان کے نوشتے اپنے وقت کی تاریخ کے لاینفک اجزاء ہیں جو مستقبل کے ادبی رسائل اور سیاسی مؤرخ کے لیے یکساں طو ر پر گرانقدر ذخیرہ معلومات کا کام دیں گے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.