چھوٹے کسان کی زندگی ، بار دانہ اور نواز حکومت
( ذولفقار ذلفی)
ویسے تو اس مُلک کے ہر شعبہ کی حالت دگر گوں ہے، تعلیم ، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی، گورننس الغرض مجھے تو کوئی بھی ایسا شعبہ نظر نہیں آتا جو عوام کی بُنیادی ضروریات سے وابستہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہا ہو۔ جس طرف دیکھو بے حسی ہے، اداروں پر عوام کا اعتبار نہیں رہا، سرکاری اہلکار عام لوگوں کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں، اداروں اور لوگوں کی رابطہ کاری کا تصور ہی دم توڑ چُکا ہے، اختیارات کا نا جائز استعمال ہر ادارے میں بڑی دیدہ دلیری اور چسکے کے طور پر ہو رہا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان کے اندر رہنے والے مزدور اور غریب طبقات کا تو کوئی پُرسان حال ہی نہیں۔ جدھر دیکھو مزدور ، کسان اور عام پاکستان کے خون کو بڑی بے دردی سے مُختلف جونکس چوس رہی ہیں۔ خاص طور پر چھوٹا کسان تو شدید ترین بے بسی کے عالم میں صرف اپنے لُٹنے کا تماشا ہی دیکھ سکتا ہے۔
چونکہ میرا اپنا تعلق بھی دیہات اور کسان کمیونٹی سے ہے اس لئے اس جبر اور ظلم کو میں نے سہا بھی ہے اور قریب سے دیکھا بھی ہے آئے آج آپ کو عام کسان کی کہانی کی تھوڑی سی جھلک اُس کی اپنی زبانی پیش کروں۔
میرا نام مصطفی ہے میں شادن لُنڈ کے قریب چھوٹے سے گاوں کنڈی والا میں رہتا ہوں۔ کاشکاری میرا جدی پُشتی پیشہ ہے، اس لئے میں باپ دادا سے یہی کام کر رہا ہوں۔ میں کچے گھر میں اپنی اماں، بیوی، دو بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ رہتا ہوں۔ میرے گھر کا صحن کافی کُھلا ہے جسمیں کیکر اور بیری کے کچھ درخت بھی ہیں ۔ گرمیوں میں ان درختوں کے نیچے میں اپنی گائے اور کچھ بکریوں کو باندھتا ہوں اور بیری کے درخت کے نیچے ہم گھر والے اپنی چارپائیاں ڈال کر دن کو سورج کی دھوپ سے بچ کر سوتے ہیں۔
ہم سب صبح بہت جلدی اُٹھتے ہیں، گھر کے بڑے بزرگ صبح کی نماز ادا کر کے اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ اماں بہت جلدی اُٹھتی ہے وہ نماز پڑھنے کے بعد تلاوت کلام پاک کرتی ہے ، پھر “مٹی” میں دودھ ڈال کر مکھن اور لسی بناتی ہے، اتنے میں چڑیاں بھی ہمارے بیری کے درخت پر شور مچا کر ہمیں نیند سے بیدار کر دیتی ہیں۔ گھر کی عورتیں جانوروں کو چارہ ڈالتی ہیں، دودھ نکالتی ہیں ، آٹا گوندھتی ہیں، بچوں کو نہلاتی ہیں اور پھر ناشتے کی تیاری میں جُٹ جاتی ہیں، تنور میں لکڑیاں ڈال کر اُس کو گرم کیا جاتا ہے پھر تنور کی گرم گرم روٹی پر اماں تازہ مکھن ڈال دیتی ہے ، لسی اور دہی سے عام طور پر سب گھر والے ناشتہ کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد ہر کوئی اپنے اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ دن کو عورتیں سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں اور قریبی رشتہ داروں کے گھر آتی جاتی ہیں۔ میں جانوروں کا چارہ کاٹنے کیلئے چلا جاتا ہوں، چارہ کاٹنے کے بعد میں پھر واپس اپنی کاشت کی ہوئی زمین کی دیکھ ریکھ کرتا ہوں۔ جب ہم کوئی فصل اُگاتے ہیں تو اس اُمید سے اُگاتے ہیں کہ اس سے کم از کم سال بھر کی سادہ سی روٹی تو ملتی رہیگی، کیونکہ ہم عیاشی تو کر نہیں سکتے نہ ہی بکرا عید کے علاوہ ہم گوشت پکا سکتے ہیں۔
چھوٹا کسان دن بدن معاشی طور پر کمزور ہو رہا ہے اور آجکل تو نوبت یہ ہے کہ بہت سارے بستی والے دو وقت کی روٹی کیلئے تنگ ہیں کیونکہ اس مُلک میں کسان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ خاص کر جب بھی نواز شریف کی حکومت آئی ہے اس نے کسان کی اجناس کو اونے پونے خرید کر ہم کسانوں کو برباد کیا ہے۔
ویسے بھی کسان کو سماجی، معاشی اور اخلاقی طور پر لوٹا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ ہم کسانوں کو سماجی طور پر پسماندہ اور جاہل سمجھتے ہیں، ہمارے لباس، جوتے اور داڑھی موچھوں پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے۔ ہماری پگڑی کو جہالت کا سمبل سمجھا جاتا ہے ۔ یہ ایک خاص مائنڈ سیٹ ہے جو اپنی ثقافت اور تاریخ سے نا بلد ہے جس کو نصابی کُتب کے ذریعے اُلو کا پٹھا بنا دیا گیا ہے، ان نام نہاد پڑھے لکھوں سے تو میری بستی کا ان پڑھ موچی زیادہ بہتر ہے جو اپنی تاریخ اور اپنی وسوں کی نہ صرف عزت کرتا ہے بلکہ وسیب کی شادی اور غمی میں شرکت بھی کرتا ہے، اُس موچی کی باتوں میں وزن ہے، ٹھہراو ہے، درد ہے، پیار ہے اور اُمید بھی ہے مگر پڑھے لکھوں سے بات کرو تو اُن میں غصہ ، نفرت ، تعصب، شدت اور سطحی پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔
اسی وجہ سے ہم کسان لوگ ان کے منہ کم کم ہی لگتے ہیں کیونکہ ان کو دوسروں کی عزت کرنا اور ان کی بات سُننا بالکل نہیں آتا۔ یہی مائنڈ سیٹ مختلف محکموں میں بھی بیٹھا ہے اب آپ سوچئے ایسے لوگوں کے پاس جاکر اپنے مسائل حل کروانا کس طرح ممکن ہے، یہ لوگ اپنے آپ سے اور اپنی مٹی سے ایسے کٹے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کے پیار اور ترجیحات کا انداز ہی بدل جاتا ہے۔ یہ لوگ پیسے سے پیار کرتے ہیں، جنسی استحصال کو پروان چڑھاتے ہیں، اچھی گاڑیاں، جدید بے ہودہ فیشن اور نشہ کرنا ان کے روٹین کے کام کاج ہیں۔ میں تو ان کے پاس جانے سے رہا۔
اسی طرح معاشی طور پر جتنا چھوٹے کسان کو لوٹا جاتا ہے اس کی مثال دُنیا میں آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ میری تو سممجھ میں نہیں آتا یہ مختلف محکموں کے سرکاری اہلکاران 16 سال کی پڑھائی میں کیا سیکھتے رہتے ہیں، جس کے پاس جاو وہ آپکی چمڑی اُدھیڑ دیتا ہے، اب اسی بار دانہ کی مثال لے لیجیے، خالی بوری دینے پر 50 روپے رشوت،اسی طرح کہتے ہیں گندم گیلی ہے اُس کی کاٹ کا نقصان، پھر لسٹ میں نام شامل کروانے کیلئے رشوت، پھر فرضی ناموں کی بوگس لسٹ جس سے آڑھتی کو ڈاریکٹ بوریاں دی جاتی ہیں، اُس کے بعد آڑھتی کی لوٹ مار، وقت پر پیسے بھی نہیں ملتے، اور نہ ہی کبھی گورنمنٹ کی طرف سے اناونس کیا گیا ریٹ ملتا ہے، حد ہے یار ، ملٹی نیشنل کمپنیاں، آڑھتی، سرکاری اہلکاران، مڈل مین ، بینک اور “پرافٹ” کے نام پر ادھار دینے والے سب ہمیں لوٹ رہے ہیں، میں جب چھوٹا سا ہوتا تھا تو میرے چاچا کی دُکان پر ایک پوسٹر لگا ہوتا تھا جسمیں ایک ہرن کو بہت سارے کُتے نوچ رہے ہوتے تھے اور وہ لہو لہان ہرن بچنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوتا تھا میرے بھائی کسان کی بھی اب یہی حالت ہے۔
اسی طرح اخلاقی محاذ پر بھی ہمارے گرد شکنجہ تنگ کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے ہمیں غُسل کے فرائض کا نہیں پتا، ہمیں دین کی اخلاقیات کا علم نہیں، ہمیں مسنون دعائیں نہیں آتیں، چادر باندھنا غیر اخلاقی ہے، ہمیں جہالت کا طعنہ دیا جاتا ہے، ہمارے مینرز پر سوال اُٹھائے جاتے ہیں اور پھر ان مسائل کے حل کیلئے مولوی صاحب کو ہم پر مسلط کر دیا جاتا ہے، وہ ہمیں دین کی ایسی ایسی باتیں سکھاتا ہے جن کا تعلق ہماری روزمرہ زندگی سے تو ہرگز نہیں ہوتا، وہ اس کسمپرسی کی زندگی میں بھی ہمیں اللہ کے راہ پر خرچ کرنے کا کہتا ہے، ہمیں دوزخ سے ڈراتا ہے، مختلف فرقوں کی باتیں کرتا ہے، حوروں کے قصوں سے ہماری شہوت کو بے قابو کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بس جو کچھ بھی ہے اُسے میرے حوالے کر دو۔ ایک دن میں نے ایسے ہی دادا سے پوچھا دادا پہلے بھی مولوی یہی باتیں کرتا تھا، دادا نے میرے منہ کو تکتے ہوئے کہا نہیں یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد کا ہے، پہلے اسطرح شدت پسندی اور دین میں زور زبردستی نہیں ہوتی تھی، نہ ہی ہماری کھیلوں، ثقافتی تہواروں اور لباس کو غیر اسلامی کہا جاتا تھا۔ یہ نیا زمانہ ہے اس میں اخلاقیات کی پٹی سے پہلے ہمیں اندھا کیا جاتا ہے، پھر انجان راستوں پر لے جایا جاتا ہے، جب ہم واپس آنے کے قابل نہیں رہتے تب ہمارا سودا طے کیا جاتا ہے اور اُس کے بعد ہمیں منڈی میں بیچ کر جدید طرز کا غلام بنا دیا جاتا ہے اور ہم فخر سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں اس غلامی میں موت بھی منظور ہے!!