(عامر رضا)
بھلا ہو ڈاکٹر شاہد مسعود کا جنہوں نے میڈیا سے کنارہ کشی کا فیصلہ واپس لے لیا اور اب وہ ایک بار پھر ٹی وی پر تشریف فرما ہوں گے ۔ان کے حاسدین جو ان کے میڈیا چھوڑنے کے فیصلے پر بغلیں بجا رہے تھے اب بغلیں جھانک رہے ہیں۔
اب وہ زیادہ تندہی کے ساتھ اپنے نظریات پیش کریں گے، سیاست دانوں اور اعلیٰ سیکیورٹی حکام کی ملاقاتوں میں ان کی باڈی لینگوج کی تشریح پیش کر کے بتائیں گے کہ سول ملٹری تعلقات کس طرف جا رہے ہیں۔ جب وہ ایسے باریک نکتے اٹھا رہے ہوں گے تو اندازہ لگائیں کہ ان کے حاسدیں کے سینوں پر کیسی مونگ دلی جا رہی ہو گی۔
میڈیا میں اس پائے کا تجزیہ کار اور کون ہے جو اس قدر باریک نکتے اٹھا سکے۔ ایسی ذہانت اور فطانت میڈیا میں اور کس کو حاصل ہے۔ ٹاک شو میں ان کی سب سے بڑی دین پروگرام کا وہ فصیح و بلیغ انٹرو ہے جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے اور سننے میں نہیں آیا۔ بہت سے اینکروں نے اس گرُ سے فائدہ اٹھایا اور ایسے انٹرو لکھنے کے لیے الگ سے رائٹر رکھ لیے۔ لکھے ہوئے کو رٹا مارا ٹیلی پرمپٹر اور حافظ کی مدد سے پڑھ بھی دیا لیکن بقول انشا اللہ خان
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
ڈاکٹر صاحب کا یہ انداز ناقدین کو ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے زمیں آسمان کے قلاب ملانے کی طنز کی لیکن وہ بھی اپنی دھن کے پکے رہے، ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بات زمیں آسمان کے قلابے ملانے کی نہیں تھی بلکہ اس نکتے کو اٹھانے کی تھی جیسے دوسرے کوتاہ بین نظر انداز کر جاتے تھے جبکہ وہ ایسے لمبے لمبے انٹروزکی مدد سے ہی سامنے لایا جاسکتا تھا۔
اب 2009 کی بات ہی لیں۔ اس وقت آپ جیو ٹی وی پر پروگرام ‘میرے مطابق کرتے۔ تھے۔ انہوں نے صدر آصف علی زرداری کے دورہ افغانستان سے ایسا باریک نکتہ اٹھایا جسے بڑے بڑے حکما، دانشور اور صاحب بصیرت تجزیہ کار، کالم نگار اور اینکر حضرات اسے سمجھنے اور منظر عام پر لانے سے قاصر رہے۔
انہوں نے صدر زرداری کی صوبائی تعصب پھیلانے کی سازش کو بڑی ہوشیاری سے بے نقاب کیا۔ انہوں نے صالح ظافر جیسے جید صحافی (جن کو فارن بیٹ کور کرنے کا پلزر پرائز نہیں تو ہر حکمران کے ساتھ غیرملکی دورے کرنے کا گنیز بک ورلڈ ریکارڈ کا ٹائٹل تو ضرور ملنا چاہیے) کو لائن پر لے کر صدر زرداری کی سندھی ٹوپی سے پاکستان کی سالمیت کو پیدا خطرات سے قوم کو آگاہ کیا۔
ان کی نیت اور خلوص پر شک کون کر سکتا ہے۔ ایک عام پاکستانی تو بالکل نہیں۔ ایسے آدمی کی نیت پر شک کرنا جس نے قوم کو آخرت کے مناظر ہالی وڈ کی فلموں کی فوٹیج کی مدد سے دکھائے ہوں کسی کوتاہ بین اور ناعاقبت اندیش (یا پھر ‘عاقبت نا اندیش’ اب درست لفظ کیا ہے آفتاب اقبال ہی بتا سکتا ہے کیونکہ فرہنگ آصفیہ کا کاپی رائٹ انہی کے پاس ہی ہے) کا شیوہ ہی ہو سکتا ہے۔
لوگوں نے اس بات پر وہ غل مچایا اور دہائی دی کہ ڈاکٹر صاحب نے سندھی ٹوپی کی حرمت پر حملہ کر ڈالا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مقامی ٹی وی چینل نے سندھی ٹوپی اجرک ڈے منانے کا اعلان کر دیا اور سندھ حکومت تو بس جیسے موقعے کی تلاش میں تھی اس نے فوراً اس دن کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا ۔
اس غل غپاڑے میں جیو نے بھی پینترا بدلا اور کامران خان نے اپنے شو میں آ کر ڈاکٹر صاحب کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ سندھی ٹوپی اور اجرک پر ایک رپورٹ چلا ڈالی اور ساتھ ہی اپنا پروگرام بھی سندھی میں سائن آف کر دیا۔
یوں ڈاکٹر صاحب کی بصارت سے قوم کو ایک ثقافتی دن
منانے کو مل گیا لیکن احسان فراموشی کی بھی حد ہوتی ہے آج جب یہ دن منایا جاتا ہے تو کوئی ڈاکٹر صاحب کو یاد تک نہیں کرتا۔ کسی نے انہیں کبھی اس دن کی یادگار سندھی ٹوپی نہیں پہنائی۔ ویسے انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہے بڑے بڑے ٹوپیاں پہنانے والے ان کے سامنے پانی بھرتے ہیں۔
ان کے احسانات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ پی پی پی کے دور حکومت میں جب یہ الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ حکومت ہر ادارے کو تباہ کرنے پر تلی ہے تو یہ ڈاکٹر شاہد ہی تھے جنہوں نے اپنی خدمات پی ٹی وی جیسے اہم ادارے کو بچانے کے لیے پیش کیں۔ معاف کیجے چوک ہو گئی، ان کی خدمات حکومت نے زور زبردستی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
جیو والے لاکھ کہتے رہیں انہوں نے ان کے نام کا استعمال اپنا وزن بڑھانے کے لیے کیا لیکن انہوں نے ‘جواب دہ’ میں ببانگ دہل کہا کہ انصار عباسی اور شاہین صہبائی ان کے ساتھ ایوان صدر گئے تھے اور کہا کہ وہ پی ٹی وی نہیں آنا چاہتے۔ اس کے بعد بات ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن بال کی کھال اتارنے والوں کا کیا۔ کامران خان نے اپنے شو میں جواب دہ کے کلپ چلائے اور پھر کہا کہ انصار عباسی اور شاہین صہبائی نے ڈاکٹر صاحب کے بیان کی سو صد نفی ہے اور کہا ہے وہ ان کے ساتھ ایوان صدر نہیں گئے تھے۔
اب ڈاکٹر صاحب نے ان کی دوستی کے بھرم میں اتنی بات کہہ دی تھی تو کیا فرق پڑتا تھا۔ لیکن بات یہاں بھی نہیں رکی۔ کامران خان نے تو اس شو میں یہ بھی کہہ دیا کہ ‘جواب دہ’ میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی تنظیم ڈائیلاگ کے حوالے سے بھی غلط بیانی ہے۔
افتخار صاحب نے ان سے پوچھا تھا کہ ڈائیلاگ کے تحت چین اور امریکا میں ہونے والی کانفرنس میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی ان کے سفر خرچ کا بندو بست کس نے کیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے دامن جھاڑ کر بتایا کہ میاں ہمارے تو ہاتھ خالی ہیں وہ خود اپنے خرچ پر تشریف لائے تھے۔ لیکن کامران خان تو ان کے پاس بھی پہنچ گئے ان سے سفر خرچ کی رسید مانگی تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا نام لے دیا کہ زادہ راہ ان کی طرف سے تھا۔
افتخار صاحب کو انہوں نے ایک اور راز کی بات بتا دی کی اس وقت کے گورنر عشرت العباد ان کے کلاس فیلو ہیں۔ یہاں بھی کامران خان نے اپنے پروگرام میں دھڑلے سے اعلان کر دیا کہ بھائی کلاس فیلو تو دور کی بات یہ تو کبھی کسی کالج میں بھی اکٹھے نہیں پڑھے۔
لیکن داد دیں ہمارے میڈیا اور ان کے سیٹھوں کی اور ہم جیسوں کی جو اتنا کچھ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں سننے دیکھنے اور جاننے کے باوجود بھی یہی کہتے ہیں کہ
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
اب جب وہ دوبارہ اپنا پروگرام شروع کریں گے تو ایسے بہت سوں کو نہ صرف منہ توڑ جواب دیں گے بلکہ میرے جیسوں کے لیے مشعل راہ بھی بنیں گے۔
Courtesy: sujag.org