(فاروق احمد)
۔
کتنے اچھے دن تھے کہ جب ہم اپنی نا سمجھی میں یہ سمجھا کرتے تھے کہ ہمیں ہر کمزور اور بزرگ کی مدد کرنی چاہیئے ۔۔۔ ہمیں روزانہ تکلیف پہنچانے والا اگر کسی دن اپنے اس معمول سے چوک جائے تو ہمیں اس کی خیریت دریافت کرنی چاہیئے… کوئی ہمارے عقائد کی تضحیک کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرلینی چاہیے ورنہ اسلام وعلیکم کہہ کر ایک طرف ہوجانا چاہیئے— کتنے مزے کے شب و روز تھے کہ جب یہ یقین دل میں مصم تھا کہ ایفائے عہد جتنا عظیم رتبہ کسی عمل کو حاصل نہیں اور فتح مکہ جیسی اعلیٰ و ارفع کوئی فتح نہیں کہ جب اسلام کے تمام بدترین دشمنوں کو امان دی گئی تھی اور دارالامان بنایا گیا تھا دشمنوں کے سرغنہ کا گھر … اور وہ وقت بھی خوبصورت تھا کہ جب ہم یہ سمجھتے تھے کہ افضل ترین عمل دشمن پر رحم کرنا ہے ۔۔۔ اسی اخلاقیات کے تحت ہماری تعلیم و تربیت ہوئی تھی اور اسی نظم اخلاقیات کو ہم اسلام سمجھتے تھے۔ ہمارے بچپن کا اسلام بڑا دلکش تھا، بڑا پرامن، علم دوست، مسکرا کر درگزر کرنے والا، کسی شفیق بزرگ کی طرح ، ہر ناسمجھ بالک و بالغ کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھنے والا، زخموں پر مرہم رکھنے والا ، بچوں، عورتوں، بزرگوں کا محافظ و مددگار۔جنگ و جدل، قتل و غارت، کشت و خون، جلاؤ گھیراؤ، مار پیٹ، زور زبردستی، چیخ و پکار، نفرت و نخوت، غرور، احساسِ برتری سے دامن بچانے کا داعی۔
۔۔۔
پھر ایک روزاحساس ہوا کہ اسلام کی جو پاکیزہ سی تصویر دل و دماغ کے آئینے میں نقش تھی، اس میں کچھ بال سا آ گیا ہے۔ تصویر جیسے کچھ ہل سی گئی ہے۔ ایک دانت کاٹی روٹی کھاتے دوست سے پوچھا کہ ذرا تم بھی دیکھنا اپنی طرف کا آئینہ ۔۔۔۔ اس نے بھی اپنے دل کا آئینہ پرکھ کر یہی جوا ب دیا کہ ہاں معمولی سا فرق محسوس ہوتو رہا ہے ۔۔۔ پوچھا ہوا کیا ہے۔۔۔۔ کہنے لگا گمان پڑتا ہے کہ کل جو کتاب پڑھی تھی اس میں کچھ ایسا تھا ۔۔۔۔ پوچھا کون لایا تھا وہ کتاب ۔۔۔۔ بولا آموختے والے قاری صاحب کے جانے کے بعد دکھائی پڑی تھی کہیں وہی نہ چھوڑ گئے ہوں بھول میں ۔۔۔۔ کہا ہاں ہاں وہی اب یاد آیا ۔۔۔ اس میں جولکھا تھا اس کا مطلب یہی نکلتا تھا کہ محمد ﷺ بن عبداللہ کی وفات کے ساتھ ہی اسلام بھی رخصت ہوگیا تھا ۔۔۔ پہلا اختلاف اسی وقت پڑگیا تھا جب جسد خاکی ابھی مٹی کا منتظر تھا ۔۔۔ آنکھ بند ہوتے ہی تلواریں بے نیام ہوگئی تھیں ۔۔۔ پھر کیے بعد دیگرے تین خلیفہ آپس کی گروہ بندیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔۔۔ عائشہ اور علی کے مابین جنگ ہوئی ۔۔۔ کبھی علی اور معاویہ لڑ پڑے ۔۔۔ یزید اور حسین کے اختلافات تاریخ اسلام کی عظیم ترین انمٹ دراڑ کا موجب بنے ۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے کربلا سے مدینے تک خون کی چادر تن گئی ۔۔۔۔ ہزاروں سر تن سے جدا ہوئے، اللہ کا گھر مسمار ہوا بار بار۔۔۔۔ حجر اسود چوری ہوا پھر برسوں بعد ٹکڑے ٹکڑے ہوا ملا ۔۔۔ عصمتیں لوٹی گئیں ۔۔۔ حضرت عائشہ قتل ہوئیں ۔۔۔۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے ۔۔۔۔ ایسا بھی ہوا کہ جن کو پہلی بار کلمہ پڑھایا تھا انہی کے ہاتھوں زخم کھا کر آخری بار کلمہ پڑھا ۔۔۔ کہیں یہ ترتیب الٹ بھی رہی ۔۔۔
۔۔۔
سوچا کہ ان ساری باتوں کے بارے میں بزرگوں سے پوچھا جائے ۔۔۔ انہوں نے کتاب کو جھٹلا دیا قاری کا داخلہ بند کرا دیا ۔۔۔۔ ہم نے بھی آئینے کے اس حصے پر کارٹون اسٹیکر چپکا دیا ۔۔۔ اور اس طرح آئینے کا عیب چھپ گیا ۔۔۔۔ چلو صاحبو خیر ہوئی اور زندگی اپنی ڈگر پر چل پڑی ۔۔۔ سب کچھ پہلے جیسا ہی ہوگیا ۔۔۔ اسلام کا چہرہ پہلے ہی کی طرح چمک گیا، نکھرا نکھرا ستھرا ستھرا۔۔۔۔
۔۔۔
بڑے ہوئے تو ایک مرتبہ پھر اسی مخمصے میں پھنس گئے ۔۔۔۔ اور اس بار آئینے کا کہیں زیادہ بڑا حصہ متاثر ہوا ۔۔۔ بلکہ سچ کہوں تو پورا آئینہ ہی ۔۔۔ پڑوسی ملک افغانستان میں اسلامی انقلاب کیا آیا کہ دل باغ باغ ہوگیا ۔۔۔۔ یقیں ہوچلا کہ اب دنیا سے غم مٹ جائیں گے ۔۔۔ تباہی کے بڑھتے قدم تھم جائیں گے ۔۔۔ اب دنیا میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا ۔۔۔ اب خلیفۂ وقت اپنے کاندھوں پر اناج کے بورے اٹھا کر غریبوں کی چوکھٹ تک پہنچائے گا ۔۔۔ اب علم کے پھول کھلیں گے، تشدد، مار پیٹ، قتل و غارت، کشت و خون کا خاتمہ ہو جائے گا ۔۔۔ اب نرمی، مسکراہٹ، انسان کی عزت، محبت و شفقت کے سوتے پھوٹیں گے۔۔۔ اب مجرم کو نہیں جرم کو مٹایا جائے گا ۔۔۔ اب سخت دلی اور ظلم و جور کا زمانہ لد جائے گا۔ اب ثابت ہوجائے گا کہ دین میں جبر نہیں ۔۔۔ اب دنیا دیکھے گی کہ اسلام کے نام لیوا ؤں کی نرمی خوئی و محبت روی دیکھ کر اپنوں کے تو کیا، کفار کے دل بھی اسلام کی طرف کھنچے چلے آئے ہیں ۔۔۔۔ اب یہود و ہنود کا یہ جھوٹ بھی کھل جائے گا کہ اسلام امن کا نہیں، تباہی و بربادی کا پیشرو ہے۔۔۔
۔۔۔
لیکن … شاید ایک بار پھر اسلام کی آڑ میں یہود و ہنود نے پڑوسی ملک افغانستان پر قبضہ جما لیا تھا اور نام بدنام کرنے لگے تھے مسلمانوں کا ۔۔۔ اذانوں کے وقت لوگوں کے گھروں میں گھس کر زبردستی انہیں مسجدوں کی طرف دھکیلا جانے لگا تھا حالانکہ ہماری دانست میں یہ اسلامی تعلیمات کے برعکس تھا ۔۔۔ گھر سے باہر نکلنے پر عورتوں کو سرِ بازار گھسیٹا جانے لگا جب کہ ہم نے تو سمجھ رکھا تھا کہ اسلام میں عورتوں کی عزت کا حکم ہے ۔۔۔ عورت ماں ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے لہٰذا وہ تمام عورتیں جو ماں کا عظیم ترین رتبہ پاچکی ہیں ان کی بے عزتی جنت کی بے حرمتی کے مماثل ہے ۔۔۔ داڑھی منڈوانے یا خط بنوانے والوں کے بالوں کے بجائے سر ہی کاٹے جانے لگے حالانکہ ہمارے فہم دین کے مطابق اسلام میں زبردستی کی اجازت نہیں تھی بلکہ یہ لکھا تھا کہ لااکراہ فی دین ۔۔۔ پھر بچیوں کے اسکول جلا دیئے گئے ۔۔۔ پھر سائنس کی تعلیم پر مکمل پابندی لگا دی گئی حالانکہ ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اسلام نے علم کے حصول کو بنیادی حیثیت دی ہے ۔۔۔ اسلام کا اولین حکم ہی یہ ہے کہ پڑھو ۔۔۔ اور یہ بھی کہ علم کے حسول کیلیئے چین بھی جانا پڑے تو جاو ۔۔۔ لیکن پھر یہ بھی سنا کہ یہ حدیث بھی مشکوک ہے ۔۔۔ رسول ﷺ نے کبھی ایسا نہیں کہا ہوگا۔۔۔ غیر مسلکی مسلمانوں کو چن چن کر مارا جانے لگا جبکہ سورۃ الکٰفرون میں واضح حکم ہے کہ لکم دینکم ولی دین ۔۔۔
۔۔۔
یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ تھا، اسلام کو کھلم کھلا دنیا کی نظروں میں مطعون کیا جا رہا تھا ۔۔۔ یہود ہنود کفار و مرزائیت کی سازش کامیاب ہورہی تھی ۔۔۔ دنیا اسلام پر انگلیاں اٹھا رہی تھی ۔۔۔ طعنے کس رہی تھی ۔۔۔ ہنس رہی تھی کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ یہ ہے اسلام ، دہشت کا دیوتا ۔۔۔ دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ لیکن افسوس کسی بھی مولوی، مولانا، علمائے کرام، دینی جماعتوں اور سپاہ فلاں یا جیش فلاں کی جانب سے اس ناپاک و مذموم سازش کے خلاف ایک بھی آواز نہیں اٹھائی جا رہی تھی ۔۔۔ یہ تو کہا جا رہا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور طالبان حکومت کو بدنام کرنے کی سعی ہے لیکن مذمت اس عمل کی کہیں سے نہیں آ رہی تھی ۔۔۔ یہ نہیں کہا جا رہا تھا کہ اگر ایسا ہو رہا تو غلط ہے ، اور یہ کہ اسلام میں اس کی نہ تو گنجائش ہے نہ اجازت ۔۔۔ حیرت تو یہ تھی کہ اسلام کے تمام کنٹریکٹرز کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا ۔۔۔ دن رات آسمان سر پر اٹھائے رکھنے والوں کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئی تھیں ۔۔۔ کوئی یہ کیوں نہیں کہ رہا تھا کہ یہ نہیں ہے اسلام ۔۔۔ یہ وہ دین نہیں ہے جس کی محمد ﷺ بن عبداللہ نے تعلیم دی ۔۔۔ دین کیلئے سر دھڑ کی بازی کا دعویٰ کرنے والوں کی یہ کیا بازیگری تھی یا کوئی حکمتِ عملی یا پھر جوابی سازش کہ دشمن کو مطمئن ہونے کا موقع دے کر شب خون ماریں گے ۔۔۔۔ وقت گزرتا گیا لیکن کچھ بھی نہ ہوا بلکہ اس کے برخلاف اس سازش کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں ۔۔۔ اب یا تو گویا سب ہی اس سازش کے کردار تھے یا پھر یہ سازش نہیں تھی ۔۔۔ ایسا کیوں ہوا کہ جسے ہم سازش سمجھ رہے تھے ، ایک ایک کرکے تمام دینی جماعتوں اور گروہوں نے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا اور اس طالبان حکومت کو عین اسلامی اور شرعی قرار دے دیا ۔۔۔ نہ صرف یہ بلکہ اس حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو اسلام سے خارج کیے جانے کی دھمکی تک دے ڈالی ۔۔۔
اب ماتھا ٹھنکا ۔۔۔ اب سمجھ میں آنے لگا تھا کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے ضرور ۔۔۔ اگر مان لیا جائے کہ پڑوسی ملک کی حکومت عین شرعی ہے تو پھر اس ظلم و جبر، تشدد، زبردستی کی چوکوریت کو اسلام کی حقانیت میں کس طور فٹ کیا جائے جو وہاں روا رکھا جا رہی تھی ۔۔۔ اب سوال جاگا کہ آیا یہ اصل اسلام ہے یا وہ جو ہمارے بچپن کےآئینے میں نظر آتا رہا ہے ۔۔۔
۔۔۔
پھرسوال چونکا کہ یہ اتنے سارے جید علمائے دین، فقہ کے ماہر، شریعت کے اسکالر، سب کا فہم دین ایک ساتھ کیسے پٹری سے لڑھک سکتا ہے ۔۔۔ اگرچہ یہ سب مل کر کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ۔۔۔ لیکن … اگر … یہ سب ٹھیک کہتے ہیں تووہ سب کیا تھا جو بچپن سے پڑھتے آئے تھے ۔۔۔ اگر وہ غلط تھا تو پڑھایا کیوں گیا تھا ۔۔۔ بتایا کیوں گیا ۔۔۔ سکھایا کیوں گیا ۔۔۔ اگر یہ دوسرا والا درست ہے تو یہ کیونکر نہیں پڑھایا، بتایا، سکھایا گیا ۔۔۔ اور یہ کہ اس کو نہ بتانے میں کیا امر مانع تھا ۔۔۔ اصل اسلام وہ تھا کہ یہ ۔۔۔ سازش وہ پڑھانے والوں کی تھی یا یہ پڑھانے والوں کی ۔۔۔ اسلام کی ان دونوں۔۔۔ ایک دوسرے کے کٹر مخالف عکس آئینے کے اندر ۔۔۔ بیچوں بیچ دست و گریباں ہوتے نظر آئے، شام ِ غریباں ہوتے نظر آئے ۔۔۔
۔۔۔
اسی دوران اخبارات میں پڑوسی ملک کے اسلامی نظام کی حمایت میں اور وہاں جاری ظلم و جور کو عین اسلامی ٹھہرائے جانے کے لیے مضامین کے ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز ہو گیا ۔۔۔ ادارتی صفحات پر جید علمائے دین کے ایسے ایسے کالم چھپنے لگے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔ مثلاً یہ علم ہوا کہ فتح مکہ کے موقع پر عام معافی اور امان نہیں دی گئی تھی، یہ بھی غلط نکلا کہ اس موقع پر خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا تھا ۔۔۔
۔۔۔
علم میں یہ اضافہ بھی ہوا کہ فتح مکہ کے وقت محمد رسول اللہ ﷺ نے ان تمام افراد کو تہہ تیغ کرنے کا حکم جاری کیا تھا جن کی ذات سے آپ ﷺ کی ذات کو زک یا چوٹ پہنچی تھی ۔۔۔ یہ صحیح معنوں میں آئی اوپنر تھا اور اس بچپن میں سنے سچ کے بالکل برعکس کہ جب رسول ﷺ کچرا پھینکنے والی بڑھیا کے گھر عیادت کرنے جا پہنچے تھے ۔۔۔
۔۔۔
جلد ہی سامنے آگیا کہ بقول ایک جید عالم ، یہ تضاد نہیں بلکہ دارالحرب اور دارالاسلام کا ہیر پھیر ہے ۔۔۔ علمائے کرام نے بتایا کہ حکم یہ ہے کہ جب دشمن حکمران ہو تو حکمت عملی سے کام لو … نرمی اور محبت کا برتاو کرو،عفو و درگزر کا سہارا لو ۔۔۔ اچھے اور نرم خو بن کے رہو ۔۔۔ لیکن جب کفار پر غالب آ جاؤ تو پھر سختی کرو، انتقام لو، پرانے سارے حساب چکاؤ ۔۔۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد مکہ دارا لحرب نہیں رہا بلکہ دارالاسلام ہوگیا اس لیے حکمتِ عملی بدل گئی ۔۔۔ یہ سن کر ذہن میں اس جملے نے کھلبلی مچا دی کہ ’’ایک ہو تو مار دو، دو ہو ں تو چھپ جاؤ، تین ہوں تو بھاگ لو‘‘۔۔۔۔ 71 کی جنگ میں پی ٹی وی پر چلے کسی طنزیہ اسکٹ کا حصہ تھا کہ جس میں ہندستانی فوج کے افسر اپنے ماتحتوں کو کومبیٹ میں حصہ لینے کے اصول سمجھا تے دکھائے گئے تھے ۔۔۔ پھر علم ہوا کہ کسی سازشی کو بحکم ِ سرکار سزا یہ دی گئی کہ مسجدِ نبوی کے مینار پر ہی کاٹ دیا گیا اور اس کا لاشہ وہیں چھوڑ دیا گیا جہاں کہتے ہیں کہ وہ صدیوں حنوط رہا۔
۔۔۔
پھر ایک عقدہ مزید کھلا ۔۔۔ علمائے دین نے ارشاد فرمایا کہ اسلام صرف ان کیلئے امن کا دین ہے جو مسلمان ہیں اور جو یہ کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ کو تمام انسانیت کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا توجو کفار ہیں یہ تو دراصل انسان ہی نہیں اگر مسلمان نہیں ۔۔۔ اور جو انسان نہیں تو نبی ان کیلئے رحمت بھی نہیں ، وگرنہ کتاب میں یہ کیوں لکھا ہوتا کہ قتل کرو تم ان کفار کو جہاں بھی پاؤ ۔۔۔ اب یہ کیسے ممکن ہے وہ کہ جو رحمت ہو ، قتل کا حکم بھی دے ۔۔۔ پھر یہ بھی سامنے آیا کہ یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھنے کی ممانعت ہے ۔۔۔ ادھر ہم تو تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے جیسے کسی قرانی فلسفے کو اسلام سمجھنے پر مصر تھے ۔۔۔ پھر چند ہی روز ہوئے یہ بھی سامنے آیا اور ہماری آنکھیں کھلیں کہ کچرے میں دم توڑتے بچوں کو بچانا بھی اللہ کو پسند نہیں ۔۔۔ ایدھی کے جھولوں میں پڑے بچوں کو پالنا بھی گناہ کبیرہ ہے ۔۔۔ ہمیں بتایا گیا کہ اللہ چاہتا ہے کہ کسی مدد کے طالب کی دادرسی سے پہلے اس کا مذہب و عقیدہ جان لینا چاہیئے کہ کہیں کسی کافر، مشرک،یا ختم نبوت کے منکر کی مدد نہ ہوجائے ۔۔۔ ہمیں بتایا گیا کہ کسی کو بینائی کیلئے اور نئی زندگی کے لیے گردہ دینا بھی اسلامی نہیں ۔۔۔
۔۔۔
اس بیچ کئی مستند تواریخ پڑھیں جیسے طبری، فرشتہ، ابنِ خلدون وغیرہ تو یہ جان پڑا کہ اوہو یہ جو ہم آج کشت و خون کے بازار کو امت مسلمہ کی بے راہروی، ملالہ یوسف زئی، قندیل بلوچ کی اچھل کود کا نتیجہ گردانتے ہیں، زلزلوں کو بے پردگی کا مرہونِ منت قرار دیتے ہیں تو یہ تو کچھ بھی نہیں ، امت مسلمہ آج ہی تقسیم نہیں ، روزِ اول سے تقسیم ہے ۔۔۔ شاید کسی ساختیاتی علت کے سبب ۔۔۔ ملالہ ، قندیل، پرویز ہود بھائی سے کہیں بہت پہلے بھی خلفائے راشدین کے سنہرے حروف سے لکھے گئے عہد میں ہی بڑی مارا ماری رہی ۔۔۔ پھر اموی دور میں محمد بن قاسم کو خلیفہ نے خیانت ِ خاتون کے جرم میں مروا ڈالا، طارق بن زیاد فاتح اندلس گلیوں میں بھیک مانگتا پھرا ۔۔۔ یہ سب پڑھا تو یہ بھی جانا کہ نہ توخلفائے راشدین کا دور سہانا تھا اور نہ ہی فتح مکہ عفو و درگزر کی تابناک مثال ۔۔۔ ۔یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ یہ سب کچھ یہود و ہنود نے کان میں نہیں بھرا بلکہ علمائے دین نے بتایا اور لکھا ۔۔۔
۔۔۔
خلاصہ یہ سامنے آیا کہ خود کش حملے عین اسلام ہیں ۔۔۔ ڈنڈا ڈولی کر کے گھروں سے کھینچ نکال کر نماز پڑھوانا عین اسلام ہے ۔۔۔ نومولود بچوں کو کچرا کنڈیوں پر مرتا سسکتا چھوڑ دینا عین اسلام ہے ۔۔۔ بالغ بیٹیوں کو مرضی کی شادی کے گناہ کی پاداش میں بیچ چوراہے ذبح کر دینا عین اسلام ہے ۔۔۔ لڑکیوں کو اسکول جانے کی ترغیب دینے والی ملالہ کے سر میں گولی مار دینا عین اسلام ہے ۔۔۔ قندیل بلوچ کو ایک صورت حرام مفتی کو بے نقاب کر دینے کے صلے میں گلا گھونٹ کر مار دینا عین اسلام ہے ۔۔۔ بھوکا مرتے پیاس سے تڑپتے غیر مسلم کو پانی پلانے سے انکار عین اسلام ہے ۔۔۔ یہود و نصاریٰ سے معاشی فوائد حاصل کرنا اور ان کی آمدنیوں سے تنخواہ لینا تو شریعتاً جائز لیکن اس مالی منفعت کے حصول کے دوران یہود و نصاریٰ کو دوست بنانا خلافِ اسلام ہے ۔۔۔ یہود و نصاریٰ کے دیس میں جا کر ان کے معاشرے کی جڑیں کاٹنے کی جدوجہد عین اسلام بلکہ جہاد ہے اور ان کی طرف سے ردِ عمل پر انتقامی کارروائی بھی عین اسلام ہے ۔۔۔ غیر مسلموں کو دارالاسلام میں برابری کے حقوق نہ دینا بھی عین اسلام ہے۔ ان سے کمتر درجے کے شہریوں جیسا سلوک کرنا، جزیہ لینا بھی عین اسلام ہے، اور ساتھ ہی ساتھ خود دارالحرب میں کفار کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر اپنے لیے مراعات کی بھیک مانگنا عین اسلام ہے ۔۔۔
۔۔۔
غرضیکہ ایک تو یہ معلوم ہوا کہ دوغلا پن عین اسلام ہے ۔۔۔ اور دوسرا یہ کہ اسلامی اصول آفاقی اور لافانی نہیں بلکہ سیاسی کمزوری اور مضبوطی کے تناسب سے ادل بدل ہوتے رہتے ہیں ۔۔۔ پاور میں آؤ تو کفار کی اینٹ سے اینٹ بجا دو ۔۔۔ کمزور پڑ جاؤ تو غیرمشروط طور پر اینٹیں واپس چن دو ۔۔۔ سلام کرو ۔۔۔ کافر صاب کے جوتے پر چمکی مارو ۔۔۔ اور بخشش لے کر کونا پکڑ جاو ۔۔۔ پھر جب دوبارہ طاقت مجتمع ہوجائے اور کافر صاب کمزور پڑ جائے تو گن گن کے نکال لو بدلے ۔۔۔
۔۔۔
تو صاحبو یہ ہے اسلام کا وہ چہرہ جو ”ملا“ نے ہمیں دیا ۔۔۔
بھائیو اب یہ مت کہنا کہ یہ کٹھ ملا را کے ایجنٹ ہے … اور چلو اگر ہیں بھی تو کیا وہ سارے ملے، مولوی، مفتی، مولانے، علامے بھی را کے ایجنٹ ہیں جو اسلام کے نام پر جاری ان را کے ایجنٹوں کی خرافات پر چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔۔۔ کوئی بتائے گا کہ کیا را کی سازشوں پر ریلیاں نکالنے والوں کی زبانوں کو را کی اس سازش پر لقوہ چاٹ گیا ہے ۔۔۔ جی نہیں جناب، ان ہٹے کٹے مشٹنڈ وں کو کچھ نہیں ہوا ہے کیونکہ ان کی دانست میں یہی اسلام کا اصل چہرہ ہے اور اسلام کے نام پر جاری یہ خرافات ان کی رائے کے مطابق عین اسلام ہے ۔۔۔ یہی سبب ہے کہ وہ خاموش رہتے ہیں کہ لگے رہو منا بھائی ۔۔۔ را کے اس مبینہ ایجنٹ کی رد میں (جو بقول ان علمائے کرام ، کٹھ ملا کا بھیس بنائے مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے) ، ان کے منہ سے کف نہیں اڑتے، ترد ید میں کوئی بیان تو درکنار منہ سے چوں بھی نہیں نکلتی۔ اسلام کے یہ دھواں دار جانثار اسلام کی اس بدنامی پر چپ کیوں سادھ لیتے ہیں ۔۔۔ جب کوئی خود کش دھماکا ہوتا ہے تو گردن کے ساتھ توند ہلا ہلا کر کہا جاتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا ۔۔۔ لیکن پھر اس خود کش حملہ آور کے ماسٹرمائنڈ کی نمازِ جنازہ بھی یہی علمأ پڑھاتے ہیں اور ”را“ کے ان ہندو ایجنٹوں کیلئے دعائے مغفرت بھی فرماتے ہیں جو اسلامی حلیہ بنا کر یہ دھماکے کرتے ہیں تاکہ مسلمان بدنام ہوں ۔۔۔
۔۔۔
چنانچہ آشکار ہوا کہ نہیں جناب ”را“ کا ایجنٹ ویجنٹ کوئی نہیں ہے، یہ تو صرف ہماری آنکھوں مین دھول جھونکی جاتی ہے، ورنہ ان کی بعد از مرگ اتنی عزت نہ کی جاتی ۔۔۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ خود کش دھماکوں میں بے گناہوں کے چیتھڑے اڑانا عین اسلام ہے ۔۔۔
۔۔۔
اس طرح سے گویا جیسےمہرِ تصدیق ثبت ہوگئی کہ اسلام کا اصل روپ وہی ہے جو یہ علمأ بیان فرماتے ہیں اور اپنے کردار سے عیاں کرتے رہتے ہیں ، کیونکہ یہ مولانا حضرات دین کو جانتے ہیں ، دین کی صحیح سمجھ رکھتے ہیں۔۔۔ وہ کیسے دین کی غلط تشریح کر سکتے ہیں ۔۔۔ حال ہی میں اسلام آباد کے ایک دھرنے میں جو جناب محترم قبلہ و کعبہ حضرت ممتاز قادری شہید کو پھانسی دیئے جانے کے خلاف اظہاربرہمی کیلئے جاری رہا، بڑے بڑے جید علمائے دین کا لب و لہجہ سننے کی سعادت نصیب ہوئی ۔۔۔ گالیوں کی بوچھاڑ، بد زبانی، بیہودہ الفاظ، لچر اور بازاری جملے بازی دیکھ اور سن کر واضح ہوا کہ یہ گالی گلوچ بھی عین اسلام ہے ۔۔۔ اب ہم کون ہوتے ہیں ان جید علمائے کرام کے فہم دین کو چیلنج کرنے والے ۔۔۔ جو یہ کہیں اور کریں وہی تو اسلام ہے ۔۔۔ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا ۔۔۔
۔۔۔
مدرسوں کے نصاب پر نظر ڈالی تو نظر آیا کہ اسلام میں سائنسی علوم اور خالص سائنسی تحقیق کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔۔ ثابت ہوا کہ وہی علوم اسی حد تک اسلام ہیں جس حد تک مدرسوں میں پڑھائے جاتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ مدرسوں میں وہی کچھ ہوتا ہے جو اسلام ہوتا ہے جس میں اغلام بازی بدرجہ اتم شریک ہے یعنی اغلام بازی بھی عین اسلام ہے ۔۔۔ کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ ان دینی اداروں میں کچھ ایسا بھی ہوتا ہوگا جو اسلام کے عین مطابق نہ رہا ہو۔۔۔
۔۔۔
اس طرح وہ پرامن، سیکولر، روا داری اور عفو در گزر، محبت امن بھائی چارے، رحمتِ انسانیت اسلام اپنا کیس ہار گیا اور یہ ثابت ہوا کہ اصل اسلام امن و سلامتی والا اسلام نہیں بلکہ کشت و خون والا اسلام ہے ۔۔۔
۔۔۔
یوں تو دل آج بھی اس پرانے دل خوش کن اور امن پسند اسلام کی طرف لپکتا ہے لیکن ۔۔۔ ایمان ابھی تازہ ہے ۔۔۔ لہٰذا دل کی ضد کے باوجود دماغ اس پرانے غلط العام اسلام کی طرف نہیں لوٹتا جو آزاد خیال، لبرل، ٹیڈی مسلمانوں کے ذہن کی اختراع تھا ۔۔۔
خس کم جہاں پاک ۔۔۔
۔۔۔
Comments are closed.
I A beautifully described article on controversially Islamic ideology.