کسی نئے نائن الیون کی آمد ہوگی کیا؟ ٹرمپ کی جیت، امریکہ کی ہار

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

(نعیم بیگ)

 

نائن الیون کے ذریعے دنیا نے رپبلیکن کے ہاتھوں اپنی دنیا میں تہذیبوں کا تصادم ہوتے دیکھا، گو بعد میں مشرقی و مغربی فکرکے مستند اداروں نے احتجاج کیا تو الفاظ واپس لے لئے گئے لیکن سوچ قائم رہی جو بعد ازاں عالمی امن کو مکمل تباہی کی طرف لے گئی۔ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

اس بار تقریباً ڈیڑھ برس پہلے امریکی الیکشن مہم میں اولین پرائمریز سے منتخب ہونے والے ریپبلیکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا نام سامنے آیا تو امریکی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ٹرمپ کے بارے میں جانکاری کا ارتعاش پیدا ہوا۔ ہوسکتا ہے امریکی اس شخص کو ایک امیر پراپرٹی ڈیلر کی حیثیت سے جانتے ہوں جس کا نیویارک میں ٹرمپ ٹاور کے نام سے ایک معروف کاروباری مرکز ہے، لیکن دنیا بھر میں یہ نام انجان تھا لیکن پھر ایک ایسی غیر ذمہ دار، بعید از سماجی اخلاق، پس از انسانی اقدار صدارتی مہم کا آغاز ہوا۔جس میں سب سے پہلے ٹرمپ نے پوری دنیا کے مسلمانوں کا لتاڑا، پھر تہذیبوں کی تصادم کو ایک بار پھر بنیاد بناتے ہوئے امریکی مسلمانوں کا جہان برباد کرنے کا اعلان کر دیا۔ یوں اس کی شخصیت پوری دنیا کے سامنے نمایاں ہوئی۔

ٹرمپ نے یہ سٹانس اس لئے لیا کہ وہ فوری طور پر پوری دنیا میں ایک ایسی شخصیت کے حوالے سے پہچانا جائے جو امریکی نیشنل ازم کا سخت ترین حامی ہے۔ اس نے پارٹی کی نامزدگی کے بعد جو اپنا پروگرام دیا اس میں سرِ فہرست امریکی امیگریشن کے قانون میں تبدیلی، مسلمانوں، لاطینی اور دیگر اقوام کی امریکہ آمد پر قدغن لگانا تھا۔ نسل پرست ہونے کے ناتے اس نے ابارشن کے قانون کو ختم یا تبدیل کرنا اپنے منشور میں رکھا۔ امریکی معیشت کی بہتری، قومی اداروں میں سہل پسندی کی وجہ سے اکھاڑ بچھاڑ اور آئینی ترمیم اس کا بقیہ پروگرام تھا جو اس نے عوام کے سامنے رکھا۔

یہ وہ سیاسی و مہماتی منشور تھا جسے عوام تک لانے کی پہلی کوشش ہی امریکہ میں موجود امیگرینٹس نے ناکام بنا دی۔ خان کی پریس کانفرنس اور امریکی آئین کا حوالہ رپبلیکنز کے لئے ایک طعنہ بن گیا۔ دوسری طرف ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیلری نے امیگریشن قوانین اور لاطینی و ایشین تارکینِ وطن کے مفادات کا نہ صرف اعادہ کیا بلکہ اسے بہتر بنانے کا عندیہ دیا۔ امریکی سفید عوام کی نظر میں یہیں سے ڈیموکریٹس نے پہلی غلطی کی، جسے درون خانہ امریکی نسل پرست و نیشنلسٹ عوام نے مسترد کردیا۔ درحقیقت یہ دائیں بازو کا وہ ٹولہ ہے جو امریکہ میں نائن الیون کے بعد بش انتظامیہ نے اپنے آٹھ سالہ دور میں پیدا کیا تھا۔ بدقسمتی سے اپنے آٹھ برس کے دورِ حکومت میں ڈیموکریٹس نے اس طرف توجہ نہ دی جو بلیک امریکی کے صدر بن جانے پر پہلے ہی سے ادھار کھائے بیٹھا تھا۔ ڈیموکریٹس کا ماڈریٹ کردار انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، عالمی امن میں انہیں سرمایہ دارانہ کساد بازاری نظر آتی تھی۔ یہ طبقہ درحقیقت نیو کیپٹیلزم کا داعی ہے۔ جس میں انسان کی ترقی گلوبلائزیشن کی انتہا مابعد جدیدیت کا نظریہ حیات ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم اس امریکی الیکشن مہم کے ان دیرپا عالمی اثرات و دیگر نتائج پر گفتگو کریں ہم یہاں الیکشن کے حتمی نتائج سے کچھ دیر پہلے، جہاں اٹھاسی فیصد نتیجے پہنچ چکے تھے، پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ اوول آفس کے لئے ۵۳۵ الیکٹرول ووٹ میں سے ۲۷۰ ووٹ لینے والا امریکی صدر بنے کا اہل بن جاتا ہے۔ راقم کی تحریر پاکستانی سہ پہر کے وقت تک ڈونلڈ ٹرمپ ۲۷۶ الیکٹرول ووٹ لیکر کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ ہیلری ۲۱۸ ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ ڈونلڈ نے کل ۰۰۰،۴۶،۷۲،۵ انفرادی ووٹ لئے جو تناسب میں ۴۸ فیصد اور ہیلری نے ۰۰۰،۹۴،۶۲،۵ انفرادی ووٹ لئے جو تناسب میں ۴۷ فیصد ہیں۔ تیسرے نمبر پر گیری جانسن نے ۷۰۲،۷۹،۳۸ انفرادی ووٹ حاصل کئے جبکہ چوتھے نمبر پر جِل سٹین نے ۰۰۰،۷۹،۱۰ انفرادی ووٹ حاصل کئے۔

امریکی کانگریس اور سینٹ میں بھی ایک بڑی تبدیلی آئی ہے کانگریس میں رپبلیکنز کی تعداد ۲۳۵ ہوگئی ہے جبکہ عمومی اکثریت کے لئے صرف ۲۱۸ ممبرز درکار تھے یہاں ڈیموکریٹس کی تعداد کم ہوکر (۱۸۱) ہو چکی ہے۔ اس طرح سینٹ میں رپبلیکنز کی تعداد اکاون (۵۱) ہو گئی ہے جبکہ ڈیموکریٹس کی تعداد ۴۷ ہے۔ اس طرح صدارتی امیدوار کی کامیابی کے ساتھ ہی دونوں ہاؤسسز میں رپبلیکنز اپنے مالی و قانونی اختیارات کی مکمل مالک بن چکے ہیں۔ یوں رپبلیکنز کو گڈ گورننس کے لئے کسی دوسری پارٹی کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ انفرادی ووٹوں کی تقریباً یکساں تعداد اس بات کی غماض ہے کہ امریکی سماج دوحصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک نسل پرست و انتہا پسند نیشنلسٹ اور دوسرے متوازن سوچ کے حامی موڈریٹ شہری۔

کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ اپنے ملک کی تاریخ لکھنے جا رہے ہیں۔ جبکہ عام ورکنگ کلاس کہہ رہی ہے کہ نسل پرست سرمایہ داروں نے اکٹھ کر لیا ہے جہاں امریکی روایات و سماجی برابری کو تقسیم کرنے کی ایک نئی کوشش ہے۔ وہ اس جیت کو نیوکیپٹل ازم سے منسوب کر رہے ہیں۔ امریکی میڈیا اور امریکی عوام ڈونلڈ ٹرمپ کی اس کامیابی سے زیادہ خوش نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی جیت ناقابل یقین ہے، اس حد تک کہ خود ٹرمپ ابھی تک ورطہِ حیرت میں ہے۔ اپنی کامیابی پر اس کا پہلا تاثر جو دنیا بھر کے میڈیا نے دکھایا وہ یہ تھا ۔۔۔’’ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ سب کا سر نیچے نہیں ( لیٹ ڈاؤن) ہونے دونگا، اب کام کرنے کا وقت ہے جو شروع ہوا جاتا ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنے نئے صدر پر فخر کریں گے ۔۔۔‘‘ ڈونلڈ کا لہجہ یقین سے خالی اور حیرت زدہ تھا۔

امریکی دانشورں کا حلقہ بھی اس ضمن میں تقسیم ہو چکا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کے کنٹری بیوٹر، پولیٹیکل سائنس کے امریکن پروفیسرجیسن جونسن کہتے ہیں کہ سخت وقت آچکا ہے، رپبلیکنز کے کلیشے اب کسی کارن کارآمد نہیں۔ دیکھنا یہ ہے اس الیکشن کے نتائج نے دنیا بھر کو کیا پیغام دیا ہے؟ انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے افریقی امریکنز کی ایک بڑی تعداد کو ملکی باگ ڈور سے الگ کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ ایک اور تبصرہ نگار نے کہا اس وقت امریکہ میں ویلیوز اور روایات کا ٹکراؤ ہے۔ ڈونلڈ خود نفسیاتی طور پر جیت کا یقین نہیں رکھتا تھا، ہاں وہ تبدیلی لانے کا خواہاں تھا اور ہے، لیکن کیا وہ تبدیلی عالمی سطح پر اسی طرح کی نہیں ہوگی جیسے بش کے دور اقتدار میں ٹونی بلئیر کے تعاون سے عراق وار پر تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ مثبت تبدیلی کا اہل بھی ہے کہ نہیں؟ ان امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کو یکسوئی سے امریکہ کی معیشت سے لیکر انسانی حوالوں تک امریکی عالمی کردار کو اپنے مقام پر بحال کرنا ہوگا، جو انتہائی مشکل کام ہے۔

اس طرح ٹرمپ کو جہاں اندونی محاذ پر سوشل جسٹس یعنی سماجی انصاف کو یکساں بنیادوں پر بحال کرنا ہوگا۔ وہیں سپریم کورٹ کے لئے متعلقہ آئینی ترمیم کو درست سمت میں رکھنا ہوگا۔ مفکرین کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر اس وقت سب سے بڑا ایشو شام کی جنگ ہے جہاں روس اور ترکی کے ساتھ امریکی تعلقات کی بحالی ہے اسی کے ساتھ ہی بڑھتی ہوئی چین کی معاشی ترقی اور گلوبل سطح پر اس کا اظہار اور شراکت داری امریکہ کے بڑے چیلنج ہیں۔ جرمن چانسلر مرکل کا پہلا ردعمل سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے بڑی صفائی سے یہ کہہ دیا ہے کہ ٹرمپ کی چوائس جرمنی کی ترجیح نہیں تھی ،لیکن ہمیں ٹرمپ بحیثیت امریکی صدر قبول ہے۔ دیگر ممالک سے حسبِ معمول ٹرمپ کو تہنیت اور مبارکبادکے پیغامات دئیے جا رہے ہیں۔

راقم کا خیال ہے کہ بالکل یہی صورتِ حال ہمارے ہاں پاکستان میں تھی۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بالخصوص خواتین ہیلری کلنٹن کی مداح رہی ہیں۔ پاکستانیوں کا خیال تھا کہ ہیلری ہمیں زیادہ بہتر سمجھتی ہیں۔ تاہم ان کا گمان ہے کہ ٹرمپ اب اپنے انتخابی نعروں کو بھول کر سنجیدگی سے دنیا کے عالمی مسائل میں دلچسپی لیں گے اور عالمی امن میں اپنا نیا کردار ادا کریں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹرمپ کی جیت امریکہ کی ہار میں بدل جائے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔