کس نے غیر محفوظ زندگی پھیلا دی
(قاسم یعقوب)
ہم اپنے اردگرد کتنی مشکل زندگی سجا کر بیٹھے ہیں، ہمیں تواب اس کا اندازہ بھی نہیں ہو پاتا۔ وہ وقت تو بہت دور ہے جب خطے میں زندگی کا مثالی تصور جگہ پا سکے فی الحال توہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آج اخبار کا مطالعہ کرتے کرتے میں ایک معمولی اور ایک نہایت ’’غیر اہم‘‘خبر پر کچھ دیر کے لیے ’’رُک‘‘ گیا۔ رکنے سے مراد یہ نہیں کہ میں خبر کو ٹھہر ٹھہر یا دیر تک پڑھتا رہا بلکہ میں نے اس خبر کو دیر تک’’محسوس‘‘ کیا۔ خبر تھی کہ گذشتہ سال راولپنڈی ڈویژن میں 567افراد قتل ہوئے۔ مجموعی طور پر اقدامِ قتل کے 692واقعات ہوئے۔یہ سب افراد ایک دوسرے سےذاتی نوعیت کے واقعات کے ردعمل میں مارے یا ڈکیتی جیسی ’’حرص‘‘ کی تکمیل میں قتل ہوئے۔ ہم کس قدر بے حس اور غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ بے حس اس لیے کہ ہمیں اپنے اردگرد یا اپنے آپ سے خوف نہیں آتا اور غیر محسوس یوں کہ ہم کس تیزی سے زندگی کی بچی کچھی ’’رمق‘‘ کے آخری قطروں کو پی جانے والی تیز آگ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ میں اگر محفوظ ہوں تو مجھے سب محفوظ نظر آ رہا ہے اور اگر میں غیر محفوظ ہوں توسب کچھ تلپٹ ہو گیا ہے۔ یہ وہ سطح ہے جہاں قوموں کی بدترین ’’بدتہذیبی‘‘ اپنا اثبات دینے لگتی ہے۔ افسوس ہم اُس قوم کا حصہ بن چکے ہیں۔
ہمارے گاؤں جہاں کبھی چوپالیں سجتیں اور ماہیے گائے جاتے وہاں اب قتل کی وارداتیں زیرِ گفتگو ہوتی ہیں۔ وہ کھیت جہاں لہلہاتا سبزہ قدیم رومانوی داستانوں کی بازیافت کرتا، افسوس اب وہاں رزق کی تنگی کے نوحے پڑھے جاتے ہیں۔اگر آپ سچ پوچھیں تو ہمارے دیہات اب جھوٹ، منافقت، سیاست، دھوکہ بازی اور گھٹیا زندگی کا نمونہ بن چکے ہیں۔ وہ دور چلا گیا جب دیہاتوں کو شہروں کی نسبت فطرت آمیز اور سادہ لوحی کا مرکز کہاجاتاتھا۔ اب جتنی سیاست اور ’’وڈیرہ بازی‘‘ دیہاتوں میں ہوتی ہے شہر بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ قتل و غارت میں بھی دیہات شہروں کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ تعلیمی ادارے ہوں یا دفاتر اب زندگی کے مختلف کرداروں کا تعین کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ امام مسجد یا مسجد سے وابستہ فرد سماج کے دیگر افراد سے مختلف کردار کے مالک ہوتے، اسی طرح استاداور ڈاکٹر کا پیشہ نہایت مہذب معاشرے کے اعلیٰ کرداروں کا نمائندہ ہوتا۔ معاشرہ خود بھی ان پیشوں کا احترام کرتا مگر افسوس اب استاد ہو یا پراپرٹی ڈیلر یا کوئی ویگن چلانے والا___ ہر ایک سماجی پیمانوں میں طاقت، دولت اور اثر رسوخ کو ماپتا ہے۔
وحشت اور بربریت کا اتنا غلبہ ہے کہ زندگی سماج کی سفاکی سے منہ چھپاتی پھرتی ہے۔ہمارے سماج میں جہاں زندگی کا مول کسی دوکان پر بکنے والی چیز سے زیادہ نہ ہو مذہب اور مذہبی روایات اتنی ہی رفتار سے قبولیت کا درجہ حاصل کر رہی ہیں۔ مذہبی جلوس اور رسمیات تیزی سے سماجی حیثیت میں اپنا اضافہ کر رہی ہیں۔ شاید ہم اتنے سفاک ہو چکے ہیں کہ ہمیں پہلے سے زیادہ مذہب کی ضرورت ہے۔ مذہب بہر حال ایک ڈھال تو ہے جس میں طاقت ور اور مفلس دونوں باآسانی سما جاتے ہیں۔ مذہبی عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان ہمیں یہ پیغام تو دیتا ہے کہ ہم کچھ بھی نہ کریں تو ایک دوسرے کو مارنے اور ایک دوسرے پر زندگی اجیرن تو کر سکتے ہیں۔’’کیجیے ہم سے عداوت ہی سہی‘‘__
تمام ادارے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلیم، میڈیا، حکومت، عدالتیں، سول ادارے اور مذہبی خوف_____ سب نے اپنی اپنی تئیں اس خرابی میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ اب نوحہ پڑھنے والوں کا انتظار ہے۔ آپ خود اندازہ کرلیں کہ ہمارے معاشرے کے صرف ایک خطے کے چند اضلاع میں567افراد ایک سال میں عدم برداشت فکر کا نشانہ بن گئے وہاں دیگر علاقوں کا کیا حال ہوگا۔ ابھی ان لقمۂ اجل بننے والے افراد میں وہ لوگ شامل نہیں جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے ہیں جو ایک ہی دھماکے میں کسی ناآسودہ خواہش کی تسکین کا باعث بن جاتے ہیں۔ اگر ان افراد کا ڈیٹا جمع کیا جائے تو ہم جتنے پیدا ہورہے ہیں اسی تعداد میں اپنی غیر طبعی موت بھی مر رہے ہیں۔ میں نے یہاں تک جتنے وقت میں کالم لکھا ہے اس دوران ہزاروں افراد اس خطے میں ایک دوسرے کی عدم برداشت جبر کا شکار ہو چکے ہوں گے۔ اگر آپ اس صورتِ حال کا بہتر اندازہ کرنا چاہتے ہیں تو کسی دن کسی بھی ہسپتال کی ایمرجنسی میں کچھ گھنٹے گزارکر آئیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہم مرنا نہیں چاہ رہے مگر ہمیں ماردیا جاتاہے۔ ہم خود بھی اس’’ کارِ خیر‘‘ میں حصہ ڈالنے کے لیے اپنی قربانی کو تیار رکھیں۔ ہم بھی کسی شدت پسند فکر یا کسی مذہبی جذبے کی ’’روح پرور تسکین‘‘ کا باعث بن سکتے ہیں۔ زندگی بہت عرصے سے اسی طرح سمٹتی اور سکڑتی رہے گی اور ہم زندگی کرنے کا یہ خراج دیتے رہیں گے۔
انجم سلیمی کا شعر ہے:
میں کم ہی رہتا ہوں انجم خدا کی صحبت میں
گناہ گار کو خوفِ خدا مصیبت ہے