(اسد علی طور)
کوئٹہ پھر خون میں نہایا۔ سول ہسپتال کوئٹہ میں درجنوں وکلا کی شہادتوں کے سوگ سے ہی ابھی باہر نہیں نکلے تھے کہ 60 شہادتوں نے شہر پر سکتہ طاری کردیا۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان ملک کی سول و عسکری قیادت آج پولیس ٹریننگ اکیڈمی کی راکھ سے بیرونی ایجنسیوں کی سازش۔۔۔ سی پیک سبوتاژ کرنے کے ایک اور پلاٹ کے نقشے ۔۔۔ اور واقعہ کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عزم لے کر اٹھے گی۔۔ لیکن جو دینے کو ریاست کے پاس نہیں ہوگا وہ ان 60 ماؤں کے بچے ہوں گے۔
کاش یہ ریاست ان ساٹھ ماؤں کے پھٹتے کلیجے کا درد ۔۔۔ اور باپ کے کاندھے پر جواں سال بیٹے کے لاشے کا بوجھ محسوس کر سکتی ۔۔۔ کاش یہ ریاست سوچ سکتی کہ اس کے شہری کی جان اتنی ارزاں کیوں ہے ۔۔۔ کہ پہلے یہ فرقہ وارانہ اور لسانی دہشت گردی کے ہاتھوں مر رہے تھے ۔۔۔ اور اب یہ سڑکوں کے جال کی قیمت بھی اپنے لہو سے دیں گے؟۔۔۔ ہماری ریاست آخر کیوں ایسے حملوں کے بعد بھی ان ٹویٹس پر قائم ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی۔۔۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے تانے بانے بیرونِ ملک ملتے ہیں ۔۔۔ کیا یہ سب بول کر ہم اس ذمہ داری سے آزاد ہوجاتے ہیں کہ ہمیں قوم ووٹ دے کر منتخب یا ہمارے نوکری کی تنخواہ ان شیطانی منصوبوں سے آگاہی کے لیے نہیں ۔۔۔ ان کو ناکام بنانے کے لیے دیتی ہے۔
آج پھر اعلیٰ سطحی اجلاس ہوگا ۔۔۔ پریس ریلیز جاری ہوگی۔۔۔ آخری دہشت گرد تک جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار ہوگا ۔۔۔ لیکن جو فیصلے پچھلے حملوں کے بعد لئے جا چکے ان پر عملدرآمد کون کرے گا؟ ایک نیشنل ایکشن پلان بنا تھا ۔۔۔ اس میں بیس نکات پر ملک کی تمام سیاسی و عسکری قیادت نے اتفاق کیا تھا ۔ْ۔۔ لیکن وہ نیشنل ایکشن پلان اب بیس نکات سے سمٹ کر دس نکات تک محدود ہوگیا ہے۔ اور وہ دس نکات کیا ہیں۔۔۔ حملہ کی شدید مذمت ۔۔۔ بھارتی سازش۔۔۔ را کی کاروائی۔۔۔ رپورٹ طلب ۔۔۔ نوٹس لے لیا ۔۔۔ انکوائری کا حکم ۔۔۔ ملک دشمن عناصر ملوث ۔۔۔ اصل نشانہ سی پیک ہے۔۔۔ سوگ کا اعلان۔
اگلے حملے کے بعد! دوبارہ یہی نکات پڑھنا شروع کردیں ۔۔۔ یہ ہے وہ نیشنل ایکشن پلان جس پر ریاست عمل پیرا نظر آتی ہے نہ کہ ان بیس نکات پر ۔۔۔ ورنہ اس ملک کا وزیرداخلہ کالعدم تنظیموں اور فورتھ شیڈول میں شامل افراد سے اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں ملاقات نہ کررہا ہوتا ۔۔۔ اور ملک کا وزیراعظم رائیونڈ میں اپنی رہائش گاہ کی بیرونی دیوار ۔۔۔ سرکاری خزانے سے 75 کروڑ لگا کر پکی نہ کرتا ۔۔۔ بلکہ اس کی ترجیح کوئٹہ کی پولیس ٹریننگ کالج کی کچی دیوار پکی کروانا ہوتی ۔۔۔ سکیورٹی ایجنسیاں فعال ہوتی توملا منصور اختر بلوچستان میں نہ مارا جاتا اور افغان طالبان کا موجودہ امیر کوئٹہ کے مدرسے میں استاد نہ رہا ہوتا ۔۔۔ کوئٹہ کے کور کمانڈر بلوچستان کے بجٹ بنانے والے اجلاسوں میں تو شرکت کرسکتے ہیں لیکن شاید دہشت گرد حملے روکنا صرف سویلین حکمرانوں کی ہی ذمہ داری ہے جن کی عملداری کوئٹہ سے باہر ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔۔۔ آئیے ہم اپنے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے سربراہوں کے ساتھ ملکر اگلے حملے تک کا بریک لیں ۔۔۔ کیوں کہ یہی وہ وقفہ ہوتا ہے جب ملک میں امن ہوتا ہے۔
___________________________________
اسد علی طور، براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں، ان دنوں اے آر وائی چینل کے ایک پرائم ٹائم حالات حاضرہ کے پروگرام کے پروڈیوسر ہیں۔ لیکن آزاد منش فکر اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ سوال کی اجازت نا دینے والی طاقتوں کو بھی سوال زد کرنا اپنا فرض جانتے ہیں۔