( نعمان وہاب)
خون کے دھبے، یہ اجسام کےبکھرے ہوئے چھیتڑے،درندگی کےقفس سےبھرپورماتم کناں فضا میرےدماغ کوشل کررہی ہے۔ایسالگتاہے کہ اس دھرتی پہ کسی خون آشام آسیب کا
سایہ ہےجس کی پیاس ہزاروں جانیں لینےکے باوجودبھی نہیں بجھ رہی۔لیکن دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہےیہ سوچتےھوۓ کہ کہیں یہ عفریت گھرمیں ہی پل کر جوان سے جوان ترتو نہیں ہورہی۔کہیں ہمارےاپنےہی تو نہیں اس خون سےاپنی ہوس مٹارہے۔ کیاہم سب حقیقت میں اس دھرتی سے راندہ درگاہ تو نہیں سمجھےجاتے اور ہمیں علم بھی نہیں؟
کیا ہمارا محافظ ھی کہیں اِس درندگی،دہشت اور وحشت کارکھوالا نہیں بن گیا؟ کیاریاست کےساتھ ہماراکیاگیاعمرانی معاہدہ(social contract ) صرف ایک خوب صورت لفاظی تونہیں رہ گیا؟
کوئٹہ سانحہ ہو یاباچاخان یونیورسٹی پرحملہ سانحہ صفوراگوٹھ ہو یا گلشن اقبال پارک پر حملہ! طاقتوروں کی لڑائی میں ہمیشہ مظلوم ہی نشانہ کیوں بنتےہیں؟ خون توبےضرر بچوں بوڑھوں اور عورتوں کاہی بہتاہے نا۔ اور ہم بڑی خوبصورتی سےطاقت کی اس لڑائی کے بھینٹ چڑھنےوالوں کوشہید کہ دیتےہیں اور ایک مذمتی سا بیان جاری کرتےہھیں آخر عوام کوبیوقوف بنانےکاسامان جوتیار کرناہوتا ہے۔اور ہمارے میڈیاکی توچاندی ہوجاتی ہے۔
آخر چاۓوالےآیٹم کے اندر بھی تماش بینوں کی دلچسپی ختم ہوتی جارہی تھی اور ‘دفاعی تجزیہ کاروں’ کا دھندا بھی مندا چل رہاتھا اور ہمارے ‘قومی مفاد ‘ کو بھی خطرات لاحق
ہورہےتھے۔ویسے یہ قومی مفاد(National interest) ہےکس چیزکانام! جو ‘واحدبلوچ’ سےتوخطرے میں پڑھ جاتاہے اور ‘حافظ سعید ‘صاحب سے نہیں پڑھتا۔ جو اکبر بگٹی سے تو سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجاتاہے لیکن “مُلا اختر منصور” سےتومحفوظ ہوجاتاہے۔ یہ کون ساقومی مفادہے جو افغانستان میں ہلمند اور قندھارسےتلاش کیاجاتاہے نہ کہ اپنےلوگوں کوجینےکاحق دینے سے۔ یہ کون ساقومی مفادہے جو ایوب خان کوایشیا(Asia) کاڈیگال (De gualle) کہنے،ضیاالحق کوامیرالمومنین کہنے،مشرف کو مردآہن (Iron man) کہنے اور Thank you raheel sharif کہنےسےتومحفوظ ہوجاتاہے۔ لیکن ولی خان، بھٹو اور میرغوث بخش بزنجوکانام لینے سےخطرےمیں پڑھ جاتاہے حضور! کہاجاتاہےکہ ہم آزادہیں۔ پولیس لائن کوئٹہ میں شہیدہونےوالوں کی ماؤں سےپوچھوں کہ آزادی کی تعریف کیاہے۔APS میں اپنےلختِ جگروں کوکھونےوالیوں کےآنسوؤں میںں تلاشں کروں کہ غم کی غلامی کیاہوتی ہے۔لیکن ہم ایسا کیوں کرےگے آخر “اکوڑہ خٹک” اور ” دفاع
پاکستان کونسل” والوں کوتوآزادی ہےنا! ان جاہل عوام کوآزادی دےکےہم کیوں اپنےرزق پہ لات مارے۔آخر ان کوعقل آگئ تو ہم تو گئےنا کام سے۔ اور ویسےبھی Bloody civilians نے Bloody civilians ہی رہناہےچاہےجومرضی کر
لو عقل وذہانت تو ویسے بھی قدرت نے PMA کی
چاردیواری کےاندرمقیدکی ہوئی ہے۔ان Bloody civilians کو توشکرکرناچاہیےکہ جمہوریت کےنام پہ ایک زہریلی دوشیزہ اور ڈائن ان کو سونپی ہوئ ہے۔ تو صاحب! کوئ خوش فہمی نا رکھیے۔ کوئی امید ناپالیے۔ بس مذمتی بیانات، قومی مفاد پر لیکچرز اور نۓترانوں کی قسط کاانتظار کیجۓ اور نعرہ لگاتےرہیۓ کہ ” ہم زندہ قوم ہیں،پائندہ
قوم ہیں” اور رات کو چاۓوالےکی میڈیائ قسمت
( Media populism ) کو دیکھ کردل میں ارمان جگا ئیں اور سو جاۓ کیونکہ فیض صاحب برسوں پہلے فرما گئے ہیں ۔
نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہےرسم کہ کوئی نہ سراُٹھاکے چلے