(عطش بلال ترالی)
کتاب کا ہر پراگراف خوبصورت خیال کو اچھے لٖفظوں میں پیش کیا گیا۔اور اس کتاب کو باقاعدہ طور پر بنیادی مآخذاور ثانوی مآخذوں کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔اس میں کچھ تصورات بھی پیش کیے گئے ہیں جو حقیقت کا پتہ دیتی ہیں۔اور اس کتاب میں ان پانچ لڑکیوں کی نجی کہانیاں بھی ہیں جن سے ظلم کی تلوار کا وہ رخ بھی نمایاں ہو جاتا ہیں۔جو کشمیر میں پچھلے پچیس سالوں میں آرمی، اور سٹیٹ پولیس کر تے آرہے ہیں۔اور یہ بھی دکھا یا گیا ہے کس طرح کشمیر میں ہومین رائٹس ویلیشن ہوتی ہیں۔یہ کتاب واقعی میں کشمیر میں جنسی تشدد کی بات کرتی ہے ۔جو بندوق کی نوک پر کیا گیا ہیں۔۔۔۔
(5) inquiries and impunities(تحقیقات اور پھر سزا سے اِ ستشنا)
کیا اس کیس کے بارے میں تحقیقات ہوا تھا یا نہیں یہ سوال ہر ایک ذہن کو جھنجوڑتا ہے۔؟ پہلے یہ واقعہ کس طرح افشاہوا ہے ۔یہ واقعہ پہلے جما شیخ نامی جو کپوارہ کے تحصیل دار کا اردلی تھا اور وہ کنن کا رہنے والا ہوتا ہے تحصیلدار پر افشا کرتا ہے اور اس کے بعد تحصیل دار اور جما شیخ دونوں ڈی سی کپوارہ کے پاس جاتے ہیں اور ڈی سی ۔ s.m .yaseenڈو یژنل کمشنر کو اس بات واقف کراتے ہیں جس پر بعد میں ۵ مارچ کو ڈی سی s.m .yaseen نے دونوں گاؤں کا دورہ کرتا ہے اور جب وہ یہ حال دیکھتا ہے اور سب کا بیان قلمبند کرتا ہے اور ایک میڈیکل ٹیم بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے جس کا ہیڈ ڈاکٹر مخدومی ہوتا ہے اور تمام عورتوں کا medical examination کیا جاتا ہیں اورجس سے پتہ چلتا ہیں کہ کنن اور پوش پورہ میں ماس ریپ ہوا ہیں۔ان تمام حقائق پر پاسین صاحب ایمانداری کے ساتھ ایک رپورٹ لکھتا ہے جو ۷ مارچ کو ڈوجنل کمشنر وجاہت حبیب اللہ کو پیش کیا جاتا ہیں۔اس میں کچھ کاپیاں ڈیکٹر جرنل آف پولیس، گورمنٹ آف جموں و کشمیر، کے علاوہ ڈی ۔آئی ،جی پولیس سری نگر، ڈی ۔آئی ۔جی بارہمولہ ، ایس پی کپوارہ کو بھی بھیج دی جاتی ہیں۔یہ رپورٹ اس طرح ہوتا ہے جو سچائی کا ہر ایک حرف اپنے اندر سجایا ہوا ہوتا ہے۔
’’آرمی والوں نے عورتوں کے ساتھ ریپ کر کے درندوں کا کام انجام دیا ہیں۔
آرمی نے گھروں میں توڑ پھوڑ کر کے مردوں کے ساتھ مار پیٹ اور عورتوں کے ساتھ
رات میں جنسی تشدد کیا ہے اور بندوق کی نوک پر ۳۲ شادی شدہ عورتوں کے علاوہ بہت
ساری غیر شادی عورتوں جن میں کم سن عمر کے بچیوں کے ساتھ بزرگ عورتوں کے ساتھ
بھی یہ گھٹنا گھٹی ہیں۔ جس سے پورے گاؤں میں ہو کا عالم ہیں۔‘‘ صفحہ نمبر 120
اور اسی رپورٹ کو ۸ مارچ ۱۹۹۱ ء نے کپوارہ پولیس سٹیشن بھروسہ والا خط سمجھ کر بحثیت F.I.R لانچ کیا گیا اور یہی تحریر بعد میں میڈیا میں leakہوئی جس سے میڈیا میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور سب سے پہلے یہ خبر کشمیر کے ایک صحافی یوسف جمیل صاحب نے ۱۲ مارچ کو کلکتہ کے ٹیلی گراف میں پیش کیا ہے اور اس کے بعد U.K کے ایک نیوز پیپر THE INDEPENDENT نے ایک کہانی کے طور پر پیش کیا جس کا عنوان اس طرح تھا۔’’indian villages tell of mass rape by soliders ‘‘ سے پیش کیا ہیں۔
انٹرنیشل میڈیا میں یہ جب خبر آگ کی طرح پھیل گئی تب آرمی والوں نے اپنی طرف سے انکوری کے لیے ایک کمیشن منعقد کیا جس کو Brigadier HK Sharmaسر پرست اعلیٰ تھا۔انہوں نے ۱۰ مارچ ۱۹۹۱ گاؤں کا دورہ کیا اور گاؤں کے مکھیہ عبدل العزیز شاہ اور ان مظلوموں کو بلایا گیا جن کے ساتھ ریپ ہوا تھا مگر انہوں نے وہی بیان درج کرایا جو انہوں نے پہلے ڈی ۔سی ۔ویم ۔ایس۔یاسین کے سامنے پیش کیا تھا۔اس کے بعد آرمی کے Brigadier HK Sharma نے اپنا رپورٹ اس طرح پیش کیا ہے جو سارا کا سارا حصہ آرمی کے جانب داری میں تھا۔ان کا رپورٹ اس طرح تھا۔
’’ ان دونوں گاؤں میں کسی عورت کے ساتھ ریپ نہیں ہوا تھا اور آرمی پر سارے
لگائے الزامات بے بنیاد ہیں ۔بلکہ ان دونوں گاؤں میں اسلحہ برآمد ہوا ہے اور گاؤں کو محاسرہ
میں اس لیے لیا گیا کیوں کہ یہاں ملی ٹنٹ تھے۔اور یہ بے بنیاد الزام ان عورتوں نے ملی ٹنٹوں
کے دباؤ میں آکر لگا دیئے اور کچھ نہیں۔‘‘ ( صفحہ نمبر ۱۲۱)
یاد رہے جب کہ ان دونوں گاؤں میں کوئی اسلحہ اور نہ کوئی ملی ٹنٹوں کا سراغ ملاتھا اور یہ کہہ کر آرمی نے یہ تفتیش بند کی ۔
اس کے بعد ان وجاہت حبیب اللہ جو اس وقت ڈویثرنیل کشمیر تھے ۔انہوں نے ۱۸ مارچ کو دونوں گاؤں کا دورہ کیااور گاؤں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ان مظلوم عورتوں سے تفتیش کر کے ایک confident report تیار کیا ۔یہ سب سے وہیات اور نامناسب رپورٹ تھا جو عوام کے سامنے پیش آیا۔جس سے پوری انسانیت کانپ اٹھی اور خاص کر وہ عورتیں جو جنسی تشدد کا شکار ہوئی تھیں پوری طرح ٹوٹ گئیں ۔اس رپورٹ میں کہا گیا تھا ۔:
’’ گاؤں کے لوگ بہت ہی سیدھے سادے ہیں۔انہوں نے آرمی پر یہ الزام ملی ٹنٹوں
کے اکسانے پر لگایا ہیں ۔آرمی لوگوں کی بہبودی کے لیے کام کرتی ہیں مگر ان کی امیج
خراب کرنے کے لیے یہ الزام لگائے گئے۔اور یہ ہی رپورٹ پیش کر کے اس سارے کیس کو
untraceکہہ کر closure reportبناکر بند کیا گیا اور یہ سب سے گھٹیا رپورٹ
تھا جوکنن پوش پورہ کے بارے میں پیش کیا گیا تھا۔ ( صفحہ نمبر۱۲۴)
اور 22 سال گزرنے کے بعد اسی حبیب اللہ نے کہا کہ گورمنٹ نے اس کے رپورٹ کا کچھ حصہ اس وقت ڈلیٹ کیا تھا لیکن تب یہ بات نہیں کہی تھی ۔جس پر JKCCSاورsgkp نے کہا کہ حبیب اللہ کا خاموش رہنا اس وقت اپنے عہدے کو بچانا تھا مگر یہ بیان تب کہا ہوتاتو ان مظلوم عورتوں کو انصاف مل گیا ہوتا۔حبیب اللہ کے اس بیان سے شک ہوتا ہے کہ گورمنٹ اور پولیس نے جان بوج کر آرمی والوں کی جانب داری کی ہیں اور ان معصوم عورتوں کو تڑپاتے رہے۔ ( صفحہ نمبر ۱۲۵)
اس کے بعد پریس کونسل آف انڈیا نے ایک خودمختار کمیشن بٹھادیا جس کا سر پرست B.G .verges تھا ۔انہوں نے شواہد اکٹھا کر دیئے اور اپنا رپورٹ اس طرح پیش کیا ہے۔
’’ آرمی گاؤں میں محاصرہ کے لیے گئی تھی۔ انہوں نے کچھ لوگوں کو torture کر کے
ان سے ملی ٹنٹوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی ۔اور انہوں نے گاؤں کامحاصرہ اٹھا کر
بچوں میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔اور یہ سارا رپورٹ ہی آرمی کی جانب داری میں پیش کیا
اور اس میں ملی ٹنٹوں کو بیس بنا کر یہ سارا معمالہ ہی بند کر دیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ِ‘‘
یاد رہے جب کہ ڈی سی یاسین کے رپورٹ کے مطابق اور medical examination سے یہ ثابت ہوا تھا کہ ۵۰ سے زائد عورتوں کے ساتھ ماس ریپ ہوا ہیں اور یہ ساری عورتیں جنسی تشدد کا شکار ہو گئی تھی۔
2013 جون میں jkccs اور sgkp نے دوبارہ یہ کیس دوبارہ اوپن کیا۔اور B.G .verges کے رپورٹ کے خلاف آواز بلند کی اور اس مہم میں B.G .verges کے رپورٹ کا سارا جھوٹ عوام کے سامنے لایا گیا۔اور ابھی تک ایک ہی رپورٹ تھا جس نے حقیقت کے ساتھ کنن پوش پورہ کو پیش کیا ہے۔ڈی ،سی ،یاسین نے ۲۳ فروری کو ایک دن اپنے تقریر میں کہا یہ B.G .verges ہی تھا جب وہ پہلی بار کشمیر آیا اور مجھ سے ملنے کے لیے میرے ریذڈنسی پر آیا اور مجھ سے بولا ۔:
’’ ڈی سی صاحب یہ کیا لکھا ہے آپ نے کوئی ریپ نہیں ہوا ،یہ کیا لگا رکھا ہے DC sahib
,what you have written , no rape has happend there
صفحہ نمبر ۱۳۱
اور یاد رہے ان ہی کے رپورٹ سے ہندوستان نے یہ کیس untraceکہہ کر بند کیا تھا اور ماس ریپ ما ننے سے انکار کیا تھا اور مظلوم عورتوں پر تہمت لگائی تھی ۔جس سے یہ مظلوم عورتیں پست ہو گئے تھیں۔۱۹۹۱ سے لے کر آج تک ۲۶ سال گزرنے کے بعد آج بھی وہ مظلوم لوگ قانون کا انتظار کر رہے ہیں۔لیکن قانون ،ر یا ست، اور طاقت سارے آرمی کے گود میں گہری نیند سو ئے ہیں۔
(6) people who remember( وہ لوگ ، جو ابھی اسے یاد رکھے ہیں)
’’کوئی تلخ یاد واقعہ ہی ظلم کے خلاف ایک ہتھیار ہوتا ہے‘‘ یہ باب اسی قول سے شروع ہوتا ہے۔ اس باب میں افرا بٹ نے جو اس کتاب کی ایک مصنّفہ بھی ہے۔ان لوگوں سے گفتگو کر کے ان کے بیانات قلم بند کیءں ہیں جس سے اس ماس ریپ پرٹھوس ثبوت اور حقا ئق افشاں ہوتے ہیں۔اس میں ایک mysterious dairy کی بات کی گئی ہیں جو اس وقت کپوارہ کے تحصیلدار سکندر ملک صاحب کی ہوتی ہے اور اس سے بہت سارے مخفی گوشوں پر روشی پڑتی ہیں۔سکندر صاحب کا ہی جما شیخ نامی ایک اردلی ہوتا ہے جو کنن کا رہنے والا ہوتا ہے اور وہ ہی سکندر صاحب کو اطلاع دیتا ہے اور یہی سے سرکاری طور اس کیس پر تفتیش ہوتی ہیں۔اس میں سکندر صاحب کا بیان کے ساتھ ساتھ ڈی سی یاسین صاحب کا رپورٹ بھی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے جو ہم پہلے والے باب میں بیان کیئے ہیں۔اس میں ڈاکٹر محمد یعقوب مخدومی کابیان بھی ہے کیوں اسی ڈاکٹر صاحب نے اس وقت ان عورتوں کا medical examination کیا تھا۔اور گاؤں والوں کو آج بھی وہ واقعہ یاد ہیں کہ اس دن ایک ایمبولنس میں ایک ڈاکٹر کے ساتھ ایک نرس بھی آئی تھی۔ڈاکٹر صاحب کے گفتگو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ آرمی والوں نے بری طرح ماس ریپ کیا تھا۔اور کچھ عورتوں کی اتنی زیادہ بلڈینگ ہوتی تھی کہ کچھ سالوں کے بعد ہی ان عورتوں کی موت واقع ہوئی۔ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ’ ’’ میں نے بہت ساری عورتوں کے جسموں پر گہرے گھاؤ دیکھیں ہیں ۔اگر دیکھا جائے جو
لڑکیاں غیر شادی شدہ تھیں ان کے hymens تو rapture ہو گئے تھے ۔پھر کچھ
عورتیں میڈیکل امتحان کے لیے ہیلتھ سنٹر کرالہ پورہ کپوارہ بھی آئی تھیں جن کو بعد میں
میڈیکل امتحان کیا گیا تھا اور بھی اس جنسی تشدد کے شکار ہو گئے تھیں۔‘‘ page no 150
یوسف جمیل بھی اس کیس کی ایک اہم کڑی ہے کیوں کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے اس خبر کو میڈیا میں افشاں کیا تھا اور اس کے بعد ساری دنیا میں یہ خبر پھیل گئی تھی۔افرا بٹ کا کہنا ہے کہ جب میں یوسف جمیل کے پاس وہ خط لینے کے گئی تاکہ اس کتاب میں B ,G Vergesseکے خلاف رکھوں لیکن انہوں نے کہا میں نے اس کو بچا کے رکھا تھا مگر ۱۹۹۵ میں نامعلوم افراد نے میرے دوستوں کے ہاتھ ایک بمب پارسل کر دیا جس سے مرا ایک قریبی دوست اور میرا ایک فوٹوگرافر مارا گیا اور پھر میرے گھر پر بھی گرینڈ پھینک کر گھر کو بھی تباہ کیا جس سے وہ ثبوت بھی مٹ گیا۔
جسٹس بہادالدین فاروقی ایک آزادانہ کمشن تھا جو ۱۷ مارچ ۱۹۹۱ میں وہاں جا کر ثبوت اکٹھا کرتا ہے اور اس وقت ان کا بیٹا ڈاکٹر الطاف بھی ان کے ہمراہ ہوتا ہے۔انہوں نے بھی ڈی ،سی ،یاسین کا رپورٹ جیسا ہی لکھا تھا۔اور ڈکٹر الطاف کا کہنا ہے۔
’’ جب نیویارک ٹائمز نے اس واقعے کو پہلے صحفے پر چھاپ دیا ۔تو پھر ہندستان نے
B,G VERGSEEکو آزاداتحقیقات کرنے کے لیے بھیج دیا۔ان کا کہنا ہے وہ
کبھی بھی بارہ مولہ کے آرمی ہیڈ کواٹر کے باہر نکلا ہی نہیں اور اندر بیٹھ کر سارا رپورٹ
آرمی کے جانب داری میں لکھتا ہے۔اور ان عورتوں پر کیچڑ اچھال کر گٹھیا رپورٹ
ہندوستان کو پیش کر کے کیس کو بند کیا جاتا ہیں۔‘‘
اور یہ حقیقت بھی ہیں جب ان پانچ لڑ کیوں ۲۲ سال بعد نے کتاب لکھتے وقت ان گاؤں والوں کو B,G VERGSEE کا نام بتا یا اور کہا کہ یہ آدمی یہاں آیا تھا اور پھر ان کی ایک تصویر بھی دکھائی تب بھی انہوں نے نکارا اور کہا یہ آدمی یہاں آیا ہی نہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے کتنا جھوٹ بھول دیا تھا۔
اس باب میں آسیہ اندرابی کا ذکر ہوا ہے جو دختران ملت کی سربراہ ہے۔اسیہ اندرابی بھی اس واقعے کے کچھ دنوں بعد ہی کنن پوش پورہ گئی تھی اور انہوں نے ٹھوس شواہد کے بنا پر اپنا رپورٹ پیش کیا تھا۔ان کا رپورٹ بھی ڈی سی یاسین کی طرح تھا۔اور اس کے بعد ڈی سی یاسین نے جس نے تین سو لوگوں کے سامنے ایک دن kashmiri womens resistence day پر وہی سچائی پیش کی جو انہوں نے اس وقت رپورٹ میں پیش کیا تھا۔اور اس نے بھی B,G VERGSEE کے رپورٹ کو لعن طعن کر کے اتنا کہا کہ B,G VERGSEE کے رپورٹ نے ان مظلوم عورتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انصاف سے دور رکھا ۔اور یہ مظلوم عورتیں آج بھی انصاف کے طالب ہیں۔جس سے ہرایک کی آنکھ نم ہو گئی تھی۔یاد رہے عبدل الغنی اس واقعے کا ایک عین شاہد تھا ۔لیکن بد قسمتی کی وجہ سے ان کو بھی ۱۹۹۳ ء میں آرمی نے مارا اور ہمیشہ کے عین شاہد کو اڑا دیا ۔۔۔
(7)the recent struggle .an insiders view ( حال کی جدو جہد اور اس کیس کے بارے میں واقف کاروں کی رائے)
اس باب میں تقریباً اُس انصاف کی بات کی گئی ہیں ۔جو ان مظلوم عورتوں کو آج پچیس سال گزرنے کے بعد بھی نہیں ملا ہے۔آج بھی یہ بات دری کی دری ہی ہے۔جب ۲۰۱۲ میں دہلی میں ایک لڑ کی کے ساتھ جنسی تشدد کے ساتھ بھیانک موت ہو گئی تھی ۔تب پورے ہندوستان کے لوگ احتجاج کرتے رہے۔اور یہاں تک کہ ان مجرموں کو سزا بھی دی گئی۔لیکن کشمیر میں ۱۹۹۰ کے بعد ایسے ان گنت عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد افسپا کی آڈ میں ہوا ہے ۔لیکن کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی ہیں۔اور کنن پوش پورہ کا ماس ریپ اس کی زندہ مثال ہے۔آرمی والوں نے نہ جانے کتنے عورتوں کے ساتھ ابھی تک ریپ کیا ہے اور وہ ہمیشہ افسپا کے سائے میں یہ گھناؤنے جرم ارتکاب کرتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ ان کو سزا نہیں دے سکتا ہے۔اسی لیے ہیومین رائٹس ایکٹوسٹ خرم پرویز کہتا ہے۔:
’’حقیقت میں قبضہ برقرار رکھنے کے لیے فورسز کا ہر گناہ معاف کیا جاتا ہے ۔فورسز کا
کوئی بھی جرم سزا سے برائیت رہتا ہے۔ورنہ کیا ریپ کرناایک جگہ سے دوسری مختلف
ہوتاہے ۔کیا ریپ کرنا ہندستان میں سزایافتہ ہے؟ ا کشمیر میں یونی فا رم میں ملبوس ہو کر رپپ
جائز ہے ؟ اور کیا ہندوستان کی آرمی کشمیری عورت کے ساتھ ریپ کر کے ہندوستان کی شان
میں اضافہ کرتا ہے۔‘‘ ص نمبر ۱۷۰
حال میں ۲۰۱۳ میں اس کیس جو بند کیا گیا تھا ۔۲۰۱۳ میں کشمیر کے ایک مشہور وکیل پرویز امروز کی رہنمائی میں ہائی کورٹ میں ۱۰۰ عورتوں نے ایک PIL دائر کی ہیں۔جب ہائی کورٹ نے سب کی شناختی کارڈ طلب کیا تو تب تقریباً پچاس عورتوں نے اپنے نام واپس لیے ااور باقی کے پچاس عورتوں نے اپنے نام برقرار رکھ کر۲۰ اپریل ۲۰۱۳ ء کو دوبارہ بھر دیا۔ان عورتوں میں اس کتاب کے پانچ مصنفین کے علاوہ باقی عورتیں جن میں کچھ ،طالبات ، پیشہ ورانہ عورتیں بھی شامل تھیں۔اس کے بعد تین سنوایؤں کے بعد ہائی کورٹ نے اس کو پولیس کی طرف سے ۱۹۹۲ والا وہ closureرپورٹ پیش کیا
جس کو ہائی کورٹ نے بیس بنا کر کیس کو بند کیا اور سب پر مایوسیوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑ گئے۔اور untrace کہہ کر بند کیا گیا اور بتایا گیا کہ وہاں کچھ نہیں ہوا تھا۔اور اس کے بعد اس کیس کی واقفیت تقریباًہرایک کوپتہ چلا ۔اس کے بعدjkccs نے لور کورٹ کپوارہ کا رخ کیا اور وہاں مجسٹریٹ نے پولیس کا رپورٹ مسترد کیا اور کیس کی نئے سرے سے تحقیقات کا حکم دیا اور یہ اس کے لیے ایک چھوٹی سی فتح تھی۔یہ ۲۳ سال کے بعد ہوا تھا۔اور اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اس سے ماس ریپ قبول کیا کہ کنن پوش پورہ میں ماس ریپ ہوا تھا۔اس کے بعد ۲۳ فروری ۲۰۱۴ کو ’’ یوم مزاحمت خواتینِ کشمیر‘‘منایا اور یہی پر ڈی ،سی ،یاسین نے حقیقت بیان کی اور حبیب اللہ اور V.G.vergesse کا رپورٹ مسترد کیا۔جس سے مظلو موں میں جان آگئی اور سماج کے ہر طبقے نے ان کا ساتھ دیا۔اس کے بعد آرمی نے بھی نومبر ۲۰۱۳ میں کپوارہ کورٹ میں revesion petition کپوارہ کورٹ میں ڈال کر کیس بند کرانا چاہا مگر یہ نہیں ہو سکا۔کپوارہ میں اس کیس کی پہلی سنوائی ہوئی تو اس وقت بھی آرمی کے وکیل کرنیل سنگھ نے پہلے کی طرح کورٹ میں دیر سے آکر خووسری کی اور ان کو لگا تھا کہ یہ لوگ یعنی jkccs اور اس کتاب کے مصنفین ۲۰۰ کلو میڑکی دوری کو سمجھ کر بار بار نہیں آسکتے اور کیس خود بہ خود بند ہو جائے گا مگر وہ ایک بھی سنوائی سے غیر حاضر نہیں رہے۔اس کے بعد آرمی ،سٹیٹ اور پولیس نے نئے نئے تدابیرنکال کر کیس کو کچھ مہینوں کے لیے روکا اور اس رکاوٹ میں اضافہ کرتے رہے۔اس کے بعد پرویز امروز نے مئی ۲۰۱۴میں ایک اچھی سی بحث کی مگر اس کے بعد بھی پولیس کو تین مہینے کی مہلت دی گئی۔اور یاد رہے ۲۰۱۳ اکتوبر میں جو رٹ دائر کی گئی تھی اور اس کی سنوائی جب ہوئی تب ۲۰۱۴ میں ہائی کورٹ کی طرح سے مئی ۲۰۱۴ میں ایک حکم صادر ہوا جس میں کہا گیا۔(۱)ہائی کورٹ اس کیس کا خیال خود رکھے گا کیوں کہ پولیس پوری طرح اس کیس کی تفتیش میں ناکام ہو گئی ہے۔(۲) اس کیس کی تفتیش کے لیے ایک خاص ٹیم تشکیل دی جائی گی۔اور یہ اس کیس کے لیے ۲۳ سال کے بعد ایک بڑی فتح اور خوشی تھی۔اور مئی ۲۰۱۴ میں ہائی کورٹ کی طرف سے نوٹس جاری ہوئی تاکہ مرتکبوں کے خلاف بلکہ ان لوگوں کے خلاف بھی نوٹس جاری کی گئی جن لوگوں نے اس کیس کو cover up کیا تھا۔ہائی کورٹ نے پہلی بار اس کیس کو سمجھنا آینئی زمہ داری سمجھی اور یہ باور دلایا کہ جموں و کشمیر پولیس اس کیس میں ناپختہ سنجیدگی دکھاتی رہی جو آیندہ نہیں ہو نا چاہیے۔یاد رہے اس کیس کی سنوائی میں غیر حاضر رکھنے کے لیے ۷ اپریل ۲۰۱۴ میں کنن گاؤں میں ایک دھماکہ بھی کیا تھا لیکن وہ لوگ پھر بھی ڈٹے رہے اور اور کیس کو آگے لیتے رہے یہ لوگ واقعی میں بہادر ہے جنہوں نے ۱۹۹۱ سے لے کر آج تک اس کیس کو بہاردری کے ساتھ انصاف کی دہلیز پر لینے کو کوشش کی ہے۔اور لڑائی ابھی بھی جاری و ساری ہے۔
یہ کتاب دراصل 25 سال بعد بھی انصاف کی بات کرتی ہے جو ان عورتوں کو نہیں ملا ہے۔اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ دوری میں ملبوس یہ فوجی کشمیر میں ہی نہیں بلکہ دوسرے جگہوں پر عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کس طرح کرتے ہیں۔اور پھر سزا سے کس طرح برائیت ہو تی ہیں۔یہ کتاب ظلم و جبر کی وہ کہانی بیان کرتی ہے جس سے ان پانچ لڑکیوں نے چھوٹے سے لے کر بڑے واقعات کو تحقیق کر کے قلم بند کیا ہے۔
اس کتاب میں تصویروں ، خطوطوں ،اور بہت سارے بنیادی مآخذ کے ساتھ ساتھ ثانوی مآخذ کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔یہ کتاب دراصل ظلم کی وہ تصویر پیش کرتی ہے جس کو اکاذیب کے پردے میں رکھا گیا ہے ۔کنن پوش پورہ کتاب فوج کی وہ بربریت پیش کرتی ہے۔اور فوج کا وہ چہرہ پیش کرتی ہے جس چہرے سے ہر ایک سوسائیٹی میں رہنا نا گزیر ہو جاتا ہے ۔اور یہ کتاب حقیقت میں انصاف کی بات کرتی ہے جو جمہوریت کا ایک ستون ہے اور کشمیر میں یہ ستون کس طرح مسما ر ہوا ہے۔اور کشمیر میں ہندوستانی جمہوریت اس ستون کے بغیر کام کرتی ہے۔ اس کتاب میں ہر کو ئی خیال نہایت ہی دلکش انداز میں بیان ہوا ہے ۔یہ کتا ب دراصل ایک یاد ہے جو کبھی بھی کشمیری قوم کبھی بھول نہیں سکتی اس لیے کہا گیا کہ کوئی تلخ یاد یا واقعہ زبردستی ظلم و جبر کے خلاف ایک نہایت کار آمد ہتھیا رہوتا ہے