کیا سائنس نے سرسید کو غلط ثابت کر دیا؟
(رضا علی)
میرا ارادہ تو بالکل مختلف موضوع پر لکھنے کا تھا لیکن مقبول کالم نویس نے چھ مارچ کے اپنے ایکسپریس کے کالم میں سائنس پر پھر اپنی غلط معلومات کی بنیاد پر طبع آزمائی کر دی- مقصد ان کی سر سید، سیکولر اور لبرل کی برائی کرنی تھی لیکن ٹانگ سائنس کی توڈ دی – کہیں کوئی یہ نہ کہے کے میں نے انھیں غلط سمجھا اس لئے میں ان کے اپنے الفاظ پوری ایمانداری کے ساتھ لکھ دیتا ہوں:
“اسی طرح جنّت اور دوزخ کو بھی سر سید نے دو مقامات سے نہیں دو کیفیات سے تعبیر کیا ہے- اس کی وجہ یہ تھی کے اس وقت تک فرینک ٹپلرFrank J.Tipler نہیں آیا تھا جو سٹیفن ہاکنگ کا ساتھ ہے اور اس نے Physics of Immortality لکھ کر یہ ثابت نہیں کر دیا تھا کے یہ کائنات جب ختم ہو گی تو بلکل ویسے ہی جنّت دوزخ اور اعراف جیسے مقامات میں تقسیم ہو جائے گی جیسے آسمانی کتابوں قرآن تورات زبور اور انجیل میں بتایا گیا ہے- یہ تحقیق 1994 میں برٹش لائبریری نے چھاپی جو 530 صفحات پر مشتمل ہے-”
اب اس چھوٹے سے پیرا میں کتنی غیر حقیقی باتیں ہیں آپ جانیں گے تو حیران ہو جائیں گے- اس کے علاوہ آپ کو یہ احساس بھی ہوگا کے ہمارے یہ مقبول کلام نویس کتنی کمزور ریسرچ کرتے ہیں اور سارا زور جذباتیت اور لوگوں کے مذہبی احساسات کا غلط فائدہ اٹھانے پر ہے-
چلیں پہلی چھوٹی بات، یہ کتاب امریکی پبلیشر اینکر ڈبل ڈے نے چھاپی ہے نہ کے برٹش لائبریری نے- برٹش لائبریری کیوں کے لائبریری ہے تو وہ عام طور پر چھاپنے کا کام نہیں کرتی- لیکن میں یہ سمجھ سکتا ہوں کے انھوں نے اس کا نام کیوں لیا ہے- مقصد ہے کتاب میں وزن ڈالنا- جس کے لئے انھوں نے بعد میں یہ بھی لکھ ڈالا کے یہ پاچ سو سے زائد صفحے کی ہے یعنی کافی بھاری-
آگے بڑھتے ہیں- موصوف کا کہنا ہے کے فرینک ٹپلر، جو اس کا مصنف ہے وہ سٹیفن ہاکنگ کا ساتھ ہے- پھیلے تو یہ بات کہنے کا کیا مقصد ہے؟ وہ جس کا بھی ساتھی ہو اگر بات ٹھیک کی ہے تو بلے بلے نہیں تو اگلے محلے – وجہ پھر وہی، کے فرینک ٹپلر کو تو کوئی نہیں جانتا لیکن سٹیفن ہاکنگ سے دنیا واقف ہے- اس کا ساتھی بتا کے پھر بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش- لیکن مسلہ یہ ہے کے یہ بھی غلط ہے- سائنس میں اگر کوئی کسی کا ساتھی ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کے انھوں نے ساتھ کوئی ریسرچ کی ہے اور پھر کوئی کتاب یا ریسرچ پیپر لکھا ہے- انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا- دور کا تعلّق یہ بنتا ہے کے فرینک ٹپلر ایک وقت سٹیفن ہاکنگ کے پروفیسر ڈینس سیاما کا بھی شاگرد رہ چکا ہے- اب وہ شام میں ساتھ چائ پیتے ہوں اور لڈو کھیلتے ہوں تو وہ مجھے نہیں پتا
اب کام کی بات پر آتے ہیں- سر سید اپنی سوچ میں ٹھیک تھے یا نہیں تھے یہ تو مجھے نہیں پتا لیکن مجھے یہ ضرور پتا ہے کے فرینک ٹپلر نے ایسا کچھ ثابت نہیں کیا جو یہ موصوف کہ رہے ہیں- ٹپلر نے جو کیا ہے وہ یہ کے ایک تھیوری دی ہے جس میں اس نے انفارمیشن تھیوری اور فزکس کو ملا کے ایسا ماڈل بنایا ہے جس میں مرنے کے بعد بھی کسی انسان کا باقی رہ جانہ ممکن ہو – اور پھر قیامت کے دن واپس زندہ ہونے کے لئے اس نے کائنات کے ختم ہونے کا ایک خاص اختتام تصور کیا ہے- یہ سب کی سب قیاس آرائیاں ہیں اور ثابت اس سے کچھ نہیں ہوتا- سائنس میں قیاس آرائی کی اجازت ہوتی ہے لیکن مذہب میں نہیں- ابھی پچھلے ہی کالم میں انھوں نے ایولوشن یا ارتقا کی تھیوری کو کوڑے کے ڈبّے میں ڈال دیا جبکے اس کو تو زیادہ تر سائنسدان مانتے ہیں کیوں کے اسکے بہت سے شواہد موجود ہیں- اس تھوری کو ٹپلر کے علاوہ اور کوئی نہیں مانتا اور اسے ثابت کرنا بھی آسان نہیں کیوں کے یہ ساری مفروضوں پر مبنی ہے کے اگر ایسا ہو جائے اور ویسا ہو جائے تو کیا بات ہو-
مزید ملاحظہ کیجئے: سائنس کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
چلیں ہم سائنس کی خاطر ٹپلر کی بات ماں لیتے ہیں- لیکن مسلہ پھر وہی کے ابھی پچھلے ہی کالم میں موصوف نے سائنس کو جھوٹ کا پلندہ ثابت کیا جس نے دو سو سال ایتھر کی تھیوری پڑھائی جو جھوٹ ثابت ہوی- اب یہ کیا کے ایک سائنسدان اپنے کام کی بات کر رہا ہے تو فوراً اس کی تھیوری مان لی- فوراً یہ کہ دیا کے سائنس نے ثابت کر دیا- فوراً یہ کہ دیا کے سر سید تو اپنے وقت کے سائنسی علم کی بنیاد پر بات کر رہے تھے لیکن آج ٹپلر آ گیا ہے جو آج کا علم استعمال کر رہا ہے- کل یہ بھی تو غلط ثابت ہو سکتا ہے ایتھر کی طرح یا نہیں؟ اسے سائیکولوجسٹ کنفرمیشن بآس(confirmation bias) یا عام زبان میں میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کہتے ہیں- موصوف تو دن رات اسلام کا بیان کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کے اسلام میں ایسے دوغلے رویےقابل قبول نہیں- چاہے آپ کا کالم کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو-
اور سنیں- ٹپلر کا ایک مباحثہ دوسرے سائنسدان لارنس کراوس(Lawrence Krauss) کے ساتھ یوٹیوب پر موجود ہے جس میں اس نے اپنی اگلی کتاب Physics of Christianity یا عیسایت کی فزکس کا دفع کیا ہے- اس میں وہ اپنے خدا کا اومیگا پوئنٹ(Omega Point) کا تصوّر بتاتا ہے، جو حوالہ دی گی کتاب میں بھی ہے، اور یہ بھی کے کیسے اس کی تھیوری تثلیث یا ٹرنٹی(trinity) کے تصوّر کو صحیح ثابت کرتی ہے- اس کے نزدیک معجزے کا مطلب وہ نہیں ہے جو موصوف کے نزدیک ہے بلکے اس کے کہنے کے مطابق سینٹ آگسٹن کا خیال بھی یہی تھا کے معجزے میں کائنات کے اصول نہیں ٹوٹتے- اب یہ تو سر سید کا بھی اصول تھا- اور ٹپلر کے مطابق وہ بھی اس بات کو مانتا ہے- یعنی کے جسے بنیاد بنا کے انھوں نے سر سید پر تیر چلایا وہ تو سر سید کا ہی ساتھی نکلا- اسی لئے کہتے ہیں کے کتاب کا حوالہ دینے سے پہلے کتاب پڑھ لینی چاہیے-
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.