(قاسم یعقوب)
کچھ دنوں سے احباب میں یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ ’’کیا ادب ہماری سوسائٹی کا مسئلہ ہے؟‘‘ میرے خیال میں یہ ایک پیچیدہ سوال ہے جو فکری و علمی ہونے کی بجائے جذباتی اظہار کی نذر ہو جاتا ہے ۔ ہماری سوسائٹی میں واضح طور پر دو حلقے موجود ہیں جو ادب کی افادی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ ادب کو غیر منفعت بخش سرگرمی قرار دیتاہے۔ اوّل الذکر نظریے کی حمایت میں خود ادیب حضرات پیش پیش ہوتے ہیں جب کہ موخر الذکر میں نان انٹلیکچوئیل افراد شامل ہیں جن کا سرے سے ادب اور ادب کی جمالیاتی کائنات سے کوئی سروکار نہیں۔ ادب کی معاشرتی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ انداز سے اس سارے منظر نامے میں اترنے کی ضرورت ہے ۔ ادب پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارا رویہ اقداری ہوجاتا ہے۔ ایک ادیب سے جب ادب کی اہمیت پوچھی جاتی ہے تو وہ ادب کو تکنیکی خوبیوں سے ماپنے لگتاہے ۔ ادب کا استعاراتی نظام کس طرح اظہار کے سانچے میں منتقل ہوتا ہے؟ یا اس سے بھی پہلے ادب ہوتا کیا ہے؟ ادب کی جمالیاتی کائنات کی تشکیل ادیب کے تخلیقی وجدان سے کیسے ظہور کرتی ہے؟ ہیئت کی ہموار سطح جذبے کی فنی اساس کو کس طرح سوز و ساز میں اتار لیتی ہے؟ قاری کن امکانات کی دنیاؤں کو ہمراہ لیے پھرتا ہے؟ کون سے قضیے تشنگی کے صحرا سے گزرتے ہوئے جل تھل ہو جاتے ہیں اور کتنے سوالات حیرانیاں اوڑھ کے سو جاتے ہیں؟
ادب پر گفتگو کرتے ہوئے ادب سے وابستہ اذہان ان مذکورہ بالا تمام سوالات کے جواب میں ادب کے امکان کی تعبیری جہت کو معاشرے کی فکری زبوں حالی یا اعلیٰ ذوقی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں اس قضیے کا استدلال ادب کی لازمی اورمرکزی حیثیت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اسی طرح دوسری طرف آئیں تو ایک بہت بڑ ا طبقہ جن میں زندگی کے اُمور میں شامل مشینی انداز سے ڈھلے ہوئے لوگ، علم میں آئیں تو سائنس پڑھنے والے ، تاریخ کے گروہوں میں اُلجھے افراد ، سکول سے لے کر یونیورسٹی اساتذہ، حتیٰ کہ فنونِ لطیفہ میں بھی مصور، گلوکار اور فلم و تھیٹر سے منسلک فنکاروں کو ادب کے تہذیبِ انسانی کے جذباتی کردار سے کوئی سرو کار نہیں ، بلکہ وہ برملا ادب کو بے کار شئے یا کسی حد تک خوشگوار تفریح تک محدود قرار دیتے ہیں۔
مجھے یہاں اقبال خان کے ایک مقالے ’’زبان ، تعلیم اور آزادی‘‘کے چند اقتباسات یاد آ رہے ہیں:
’’مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہماری زبانوں نے اتنی ترقی کر لی ہے وہ ہر سطح پر اورہر علمی شعبے میں جمہوری تعلیم مہیا کر سکے؟ اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ فرض کیجیے کہ ہم نے جمہوری اقدار کا یا جمہوری جذبات کی تعلیم دینے کا کام صرف ایک اونچی او ر محدود سطح پر ہی کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں طلبا ادب پڑھ سکتے ہیں، تب بھی ہماری نثر اور نظم میں شامل جمہوریت پرور مواد طلبا پر خاطر خواہ اثر پیدا نہیں کر سکتا۔
میں اپنی بات کو ایک کنکریٹ مثال سے واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ مثال اُردو ادب کے حوالے سے جو کچھ حد تک یہ دعویٰ کرنے کا مجاز ہوسکتا ہے کہ اس کی شاعری اور فکشن میں جمہوری اور انقلابی احساسات کی ایک شاندار روایت ہے۔ فرض کیجیے ہم کالجوں میں نوجوانوں کا اس ادب سے تعارف کرا رہے ہیں ۔ ہمیں ابتداء میں ہی ایک مسئلہ دَر پیش ہو گا۔ میں یہاں ایک نسبتاً ’’آسان‘‘ مثال دیتا ہوں ۔ احمد فراز کی نظم ’’قاتلو‘‘ اس کے پہلے ہی چند مصرعوں میں اس قسم کے الفاظ ملتے ہیں:
مقتل، پابہ زنجیر، دل زدہ خاک، رزم گاہ۔۔۔۔۔۔
اس قسم کے بُری طرح فارسی زدہ الفاظ اور ترکیبیں عام آدمی کی بول چال سے دور کسی اور ہی کلچرل دُنیا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے اُردو ادب کا مزاج ، اس کا ٹیکسچر وہ نہیں ہے جس سے عام لوگ کم و بیش بے ساختگی سے اپنا رشتہ جوڑ سکیں۔۔۔۔۔۔‘‘
(فلسفہ ، تعلیم، سیاست اور پاکستان کا مستقبل ، صفحہ ۵۸)
اقبال خان کا موضوع ادب کی افادی شناخت نہیں بلکہ جمہوری رویوں کی تلاش اور پھر تفہیم کے مراحل میں طلبا کی مشکلات ہے۔ اگر ہم مذکورہ اقتباسات کو پھیلا کر اپنے سوال تک لے آئیں تو کیا ایسا ہی نظر نہیں آتا کہ طلبا کا ادب مسئلہ ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے اقبال خان کو یہ کہنا پڑا کہ یہ بُری طرح فارسی زدہ نظم تفہیم ہی کے مرحلے میں کھڑی اس کی معنیاتی کائنات سے ناآشنا کیے ہوئے ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ ادب کی زبان عام بول چال کی زبان نہیں۔ چیزوں کو (Defamiliarize) کر کے دکھانا ہی ادب ہے ۔ اگر قاری ادب کے ٹیکسچر کو سمجھ نہیں پا رہا تو یہ فن پارے کا سُقم نہیں بلکہ قاری کی کم علمی پر دلالت ہے۔ یہاں تو بات ہو رہی ہے کم علمی کی ۔ اچھے خاصے فارسی آشنا احباب بھی ادب سے بے زاری کا ذکر کرتے ملتے ہیں۔گویا مسئلہ تفہیم نہیں بلکہ ادبی عمل سے دوری ہے۔
یہاں ہم بڑی آسانی سے دو انتہاؤں کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔ ادب کی افادی انتہا اور ادب کی غیر منفعت بخش انتہا۔۔۔۔۔۔ ہم ایک عرصے سے اپنی سوسائٹی کے حوالے سے ان دو انتہاؤں میں گردش کرتے آ رہے ہیں ۔ ادیب کو ادب کے بغیر معاشرے کی سانس چلتی نظر نہیں آتی اور غیر ادبی زندگی یا معاشرتی زندگی میں محو شخص ادب کو بے کار یا محض تفریح کا ذریعہ قرار دیتا آ رہا ہے۔ اس مسئلے پر غیر جانبداری سے ہم نے کبھی نہیں سوچا۔ ادب کیا ہے؟ اور وہ سوسائٹی کے لیے کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ادیب ’’اپنی سوسائٹی ‘‘ کو مدنظر نہیں رکھتا۔ کیا ’’ادب‘‘ کی جاندار اکائی ( جو مُسلّم ہے) ہمارے معاشرے کے لیے ’’موجود‘‘ کے منظر نامے میں ضروری ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو دو انتہاؤں سے اتر کر سنجیدگی اور غیر جانبداری مانگتا ہے۔
اس سوال کا جواب دینے والے ہمیشہ اقداری رہے ہیں ۔ اس لیے کہ ادب کا تعلق ہمیشہ مخصوص افراد کے حلقۂ داد و تحسین میں رہا ہے ۔ وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھرپور شامل نہیں رہے ۔ اگر وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں گئے بھی ہیں تو بالکل دو انتہاؤں کی طرح۔ ان کی غیر ادبی زندگی اتنی ہی مختلف تھی، جتنی منفرد زندگی وہ ادب میں گزار رہے ہیں ۔ اسی طرح غیر ادبی معاشرتی زندگی گزارنے والے لوگ ادب سے کلی یا جزوی طور پر الگ تھلگ رہتے ہیں ۔ ان کے جذباتی اُتار چڑھاؤ میں ادب شامل نہیں ہو پاتا۔ معاشرت اور ادب کی افادی ضروریات والا سوال محض پسند و نا پسند کی سروے رپورٹ سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ ادب سے معاشرتی اور جذباتی قدروں سے وابستہ ہوتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے :’’کیا ادب ’’ہمارے معاشرے‘‘ کا مسئلہ ہے؟‘‘
میرے خیال میں ادب ہمارے معاشرے کا مسئلہ نہیں۔ یہ علمی یا ذاتی سرگرمی تو ہے مگر اس سے معاشرے اور انسان کے ساتھ کسی افادی پہلو کی تلاش بے کار ہے۔ ہمارے معاشرے میں ادب ذاتی سرگرمی( جو انفرادی سطح پر تہذیبی عمل ہو سکتا ہے) سے جب بھی آگے بڑھے گی نان انٹلیکچوئیل رویوں میں ڈھل کے عام معاشرتی بھاگ دوڑ میں شامل ہو جائے گی۔ ( یہ مثبت فارم کے طور پر بڑھنے کا نتیجہ ہے۔)ایک ادیب تخلیقی صلاحیتوں کو اپنے تعمیری کردار میں شامل کر کے ادب کے برعکس غیر استعاراتی فکر کا نمائندہ بن کے سامنے آتا ہے ۔ ہم جسے ’’اچھا انسان‘‘، ’’سماجی کارکن‘‘، ’’کامیاب آفیسر‘‘ وغیرہ وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا ۔ وہاں ادیب ان تمام القاب کے ساتھ بھی ایک ادیب ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ادیب اپنی جذباتی کائنات فن کے ساتھ زندگی میں اترتا ہے تو معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔ لہٰذا اعلیٰ ادیب ، ادب اور معاشرے کے علیحدہ علیحدہ خانوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ شرط یہ کہ وہ معاشرے میں بھی اعلیٰ زندگی گزارتے ہوں، وگرنہ عام دیکھا گیا ہے کہ ادیب معاشرتی حوالے سے ناکارہ اور اخلاقی بنیادوں پر پڑے ہوئے کھنڈر ہوتے ہیں وہ سوسائٹی کے معاشرتی پھیلاؤ میں کمزور ، بزدل اور غیرت کے مروّج تمام مفاہیم پر پورا نہیں اُترتے۔ لہٰذا اُن کی ادبی سرگرمی ایک فرد کی انفرادی سرگرمی بن کے دوسرے افراد کی انفرادی سرگرمیوں کے ساتھ ٹکراکر موازنہ کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے ۔ یوں یہ معاشرتی عمل کا حصہ بننے کی بجائے غیر معاشرتی یا بے کار عمل کے طور پر بڑھتی پھولتی رہتی ہے جس کی معاشرے کو قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
کیا ہمارے معاشرے کو ادب کی ضرورت ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں ادب کو کبھی ’’ضرورت‘‘ کے ضمن میں نہیں رکھاگیا۔ بھوک، انصاف، تشدّد اور بے روز گاری معاشرے کے اندر غیر معاشرتی تہذیبی قدروں کے فروغ کا باعث بن رہی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں زندہ رہنے کے بنیادی قواعدکا فقدان ہے جو انتشار اور بے چینی کا موجب بنتے ہیں جو فرد کی موضوعیت کو خارجیت سے جوڑنے کی بجائے بے ربط کر کے اُکتاہٹ اور بے زاری کی کو فروغ دیتے ہیں جن سے زندگی کے پست رویے جنم لیتے ہیں۔ ہمارا پورا معاشرہ روحانی رویوں سے عاری معاشرہ ہے جو بدن کے سہارے ’’موجود‘‘ ہے جو ٹیلی ویژن سکرین پر آنے والے منظروں کی طرح پارہ سیماب ہے ۔ جہاں ماضی ’’ناسٹلجیا ‘‘ نہیں بلکہ ’’واقعہ ‘‘ ہے ۔ جہاں حال مجبوری اور مستقبل ، تلخ حقیقت کے طور پر استقبال کرتے ہیں۔ ادب موضوعیت (Subjectivity) کی بنیادوں پر خارجیت(Objectivity) کی تعمیر ہے۔ تہذیب کا عمل بھی تو ایسے ہی ہے جہاں خارجیت کبھی موضوعیت پر اثر انداز ہوتی ہے تو کبھی موضوعیت، خارجیت کی تراش خراش کرتی ہے۔ محض موضوعیت (Subjectiviy) کے سہارے تہذیبی عمل ناکارہ عمل ہے اور محض خارجی رویوں کی بنیادوں پر کھڑی معاشرتی عمارت مٹی کا ڈھیر نہیں تو اور کیا ہے؟
ہمارے معاشرے میں موسیقی وہ فنونِ لطیف کی شاخ ہے جو کسی حد تک تہذیب سرگرمی کے طور پر عام معاشرت زندگی کے ساتھ چلتی ہے ۔ عام آدمی ( Lay Man) کی زندگی، جس کا موسیقی کی تخلیقی دُنیا سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ موسیقی کی سُر تال پر گفتگو کرتا یا لُطف اُٹھاتا نظر آتا ہے۔ Cdsیا کیسٹس کا مجموعہ، کمپیوٹرز یا ٹیپ ریکارڈرز کی گھر گھر موجودگی عام آدمی (Lay Man) کے اس فنِ لطیفہ میں شمولیت کا اظہار ہے۔ اور تو اور پورے پورے ٹی وی چینلز ، موسیقی کے لیے وقف ہیں۔ بھارت میں یہ صورتِ حال پاکستان کی نسبت زیادہ مضبوط ہے ۔ وہاں خالص راگ رنگ کی محافل میں ہزاروں کا مجمع سر سے سر جوڑ کر سُنتانظرآتا ہے۔ بھارت کی نسبت ہمارے ہاں یہ سرگرمی کم سنجیدہ اور زیاہ تر تفریحی مقاصد کے ضمن میں شمار کی جاتی ہے مگر موسیقی کے فن میں عام آدمی کی معاشرتی زندگی اپنا عکس دکھاتی ملتی ہے۔ سوز و ساز ، کیتھارس، ناسٹلجیا، دردو داغِ محبت، روحانی آسودگی، اور تفریح کیا یہ وہ مقاصد نہیں جو اس فنِ لطیف کا ہدف ہیں؟ لہٰذا موسیقی کا کسی حد تک ہمارے معاشرے میں تہذیبی کردار بنتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مذہب کی غیر منطقی بندشوں نے اس کے کردار کو مسخ کر کے پیش کیا ہے۔
مصوری بھی کہیں کہیں بہت خوبصورت انداز میں اپنا سوشل کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں عام گھروں، دکانوں، دفاتر میں نہایت اعلیٰ (Paintings) آویزاں نظر آتی ہیں۔ کبھی کبھی تو حیرانی ہوتی ہے کہ اتنا اعلیٰ ذوق اس سطح پر کیسے جلوہ افروز ہواہے۔یہ تہذیبی سرگرمی غیر شعور ی طور پر ہمارے معاشرے میں کہیں کہیں اپنی جھلک دکھانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاعری یا ادب فنِ لطیف نہیں اور یہی وہ معاشرہ ہے جو مذکورہ بالا فنون کو معاشرتی اکائی تسلیم کر رہا ہے ۔ خواہ کسی حد تک ہی سہی، مگر ادب یا ادبی عمل کے لیے یہی معاشرہ ہاتھ اُٹھائے نظر کیوں آتا ہے۔ اس کا جواب بھی واضح ہے۔ موسیقی اور مصوری فنونِ لطیفہ کی نازک شاخیں ہونے کے باوجود تفریحی سطح پر عام آدمی کے شخصی کردار کو سیراب کرتی ہیں جن کی اثر پذیری زیادہ جلد او ر لطف اندوز کیفیات ہیں ۔ ادب یا ادبی عمل کا غالب عنصر فکری لطف اندوزی ہے جو سوزِ دماغ اور دردِ جگر کے مترادف ہے۔ یہی وہ ناگزیر عمل ہے جسے کوئی تہذیب مضبوط بنیادوں پر سہارتی ہے معاشرہ جو ٹوٹ پھوٹ اور فکری انتشارکا شکار ہے کم از کم اس صنف کا متحمل نہیں ہو سکتا، جب تک زندگی آسودہ قدروں کی تکمیل کا ذائقہ نہیں چکھ لیتی۔ یہ عمل تب تک چند مخصوص افراد کا انفرادی عمل بن کے انہی کی تہذیبی خدو خال نکھارنے میں مصروف رہے گا، مجموعی سماجی حرکت میں شامل نہیں ہو پائے گا۔
آئیے دیکھئے کہ ادب، ادیب اور ادبی عمل ’’ہمارے معاشرے ‘‘ میں کہاں کھڑے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ہونے والے ریسرچ پراجیکٹس کو کتنا عملی بنایا گیا ہے۔ ایسے ایسے موضوعات پر ڈگریاں جاری کی گئی ہیں جو ادب اور معاشرے کے باہم تعلق تو کیا ادب کے لیے بھی کوئی سود مند بڑھوا ثابت نہیں ہو سکتیں ۔ اگر کسی اعلیٰ موضوع کو شعوری یا غیر شعوری طور پرتحقیقی منصوبہ جات میں جگہ دی بھی گئی ہے تو ہماری یونیورسٹیوں نے لائبریریوں کی زینت بناکے اسے محدود کر رکھاہے۔ یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹس کو اچھے مقالات چھپوانے کا اہتمام کر کے اعلیٰ موضوعات کو نذرِ خاص و عام کرنا چاہیے۔ مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ کیونکہ وہ محض انفرادی سرگرمی سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ اس کی ضرورت مقالہ نگار اوریونیورسٹی کو تو ہو سکتی ہے، مگر مجموعی معاشرے کے تہذیبی عمل کو نہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری، ادبی اداروں کی کار کردگی محض سرکاری اسائمنٹس سے زیادہ نہیں۔ سرکاری ، نیم سرکاری اور پرائیویٹ ادارے ایک ہی حلقے کی انفرادی تسکین کا باعث بن رہے ہیں، سماج کی مجموعی حرکت کا حصہ دار نہیں بننے پائے۔
ہمارے کتنے ادیب زندگی کا اعلی سماجی کردار اپنے اوپر اوڑھے ہوئے ہیں۔ وہ زیادہ تر ادب سے ہی وابستہ کسی شعبے سے منسلک ہیں اور جو غیر ادبی زندگی سے منسلک ہیں ان کی زندگیوں میں ادب نام کی کوئی جگہ نہیں اور وہ بالکل ہی علیحدہ ایک اور دُنیا کا حصہ بن کے ادب کے حصہ دار بنتے ہیں ۔ گویا انھیں بھی ادب کے لیے ایک مخصوص ماحول میں آنا پڑتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ادیب کا ’’کردار‘‘ مانگتا ہے ۔ ادیب کو معاشرے اور ادب کے درمیان فکری پُل بنانے سے کہیں پہلے سماجی کردار ادا کر کے اس معاشرے کی گرتی عمارت کو سنبھالنے کی ضرورت ثابت کرنا ہو گی۔ جب یہ سنگریزے تہذیبی عمارت میں ڈھلیں گے ادب خود بخود سماج کی نبض بن کر چلنے لگے گا۔
Comments are closed.
پ کا مضمون فکر انگیز ہے.ادیب کو ہمارے سماج نے آج تک کوئی سماجی منصب عطا نہیں کیا.اسے عضو معطل یا بیکار کی چیز ہی سمجهاجاتا ہے.جس دن ہم اپنے ادیب یا مفکر کو کوئی سماجی منصب دیں گے اس دن معاشرے میں فنون کی افادیت کی اہمیت بهی مسلم ہوجائے گی…