(ناصر عباس نیر)
گلوبلائزیشن معاصر عالمی صورتِ حال کا جزو اعظم ہے، مگر اس کا اس عالم گیر تصور انسانیت سے کوئی بنیادی تعلق نہیں جسے فلسفیوں اور شاعروں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں پیش کیا ہے۔ہر چند گلوبلایزیشن بھی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے ،یعنی یہ اچانک رونما نہیں ہوئی بلکہ رفتہ رفتہ اور متعدد عوامل کی باہمی عمل آرائی سے وجود پذیر ہوئی ہے، مگر اس کا جواز (legitmacy) تاریخ کی ناگزیریت میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔دوسرے لفظو ں میں گلوبلایزیشن پیدا کی گئی ہے۔ اس کی پیدایش میں معاون اور کار گر عوامل پر کنٹرول حاصل کر کے اس سے مختلف صورتِ حال کو پیدا کیا جا سکتا تھا، مگر یہ صورتِ حال ان قوتوں کے مفادات سے متصادم ہوتی جنھوں نے گلوبلایزیشن کو جنم دیا ہے۔ اینٹی گلوبلایزیشن کی تحریک کی بنیاد ہی اس شعور پر ہے کہ گلوبلایزیشن نہ فطری صورتِ حال ہے اور نہ ناگزیر تاریخی صورتِ حال۔یہ جن عوامل پر کنٹرول اور تصرف کا نتیجہ ہے،اگر ان پر تصرف کا حق دوسروں کو بھی دے دیا جاے تو ’’ایک دوسری دنیا ممکن ہے۔‘‘ گلوبلایزیشن کی پیدایش میں معاون اورکا رگر عوامل میں ایک عامل، لسانی بھی ہے۔انسانی معاملات پر کنٹرول حاصل کرنے میں زبان کا جو غیر معمولی کردار ہے، اسے گزشتہ صدی میں بہ طورِ خاص بروے کار لایا گیا ہے۔ اس امر کی مثال خود گلوبلایزیشن کی اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح اپنے مصرف و عمل میں آئیڈیالوجی کی طرح ہے،یعنی جن باتوں کو یہ اپنے بنیادی مفہوم کے طور پر پیش کرتی اور جن کے مبنی بر حقیقت ہونے پر اصرار کرتی ہے، انھی کے پردے میں یہ اپنے اصل مقاصد کو چھپاتی ہے۔ گلوبلایزیشن اشیا، تصورات اور اقدار کے گلوبل یعنی ’’عالمی اور مشترک‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، قوموں اور سرحدوں کے تصور کے خاتمے پر اصرار کرتی ہے، مگر عالمی سے مراد ایک یا چند ایک ایسے ممالک (کی اشیا و تصورات) لیتی ہے اور قوموں اور سرحدوں کے خاتمے پر زور اس لیے دیتی ہے کہ ان چند ممالک کی اجارہ داری کی راہ میں یہ دونوں حائل نہ ہوں۔ اس طرح گلوبلایزیشن اپنے لسانی اور کلامیاتی اظہار میں لا مرکزیت کی علم بردار ہے، مگر عملاً مرکزیت کے ایک تصور کو آفاقی تسلیم کرانے کی کوشش کرتی ہے۔اسی بنا پر نوام چومسکی گلوبلایزیشن کی مخالف تحریک کو اینٹی گلوبلایزیشن کہنے کے حق میں نہیں کہ اس طرح ان تصورات کے خاتمے کا اندیشہ ہے، جنھیں گلوبل سطح پر رائج ہونا چاہیے۔ خود کو اس نام سے موسوم کر کے گلوبلایزیشن در اصل ان تصورات اور اقدار کو فروخت کرتی ہے، جو گلوبلایزیشن سے کنونشنل طور پر اور عالم گیر تصور انسانیت سے اس کی لسانی نسبت کی وجہ سے عوامی شعور میں موجود ہیں۔
ضروری ہے کہ گلوبلایزیشن کو عالم گیر انسانی تصور سے الگ کیا جاے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے متوازی ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور اس کا فائدہ گلوبلایزیشن نے خوب اٹھایا ہے۔ گلوبلایزیشن کا وصفِ خاص سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلبہ ہے، جب کہ عالم گیر انسانی تصور اس کے مقابلے میں ہر طرح اور ہر سطح کے غلبے کے خلاف ہے۔ یہ تصورتمام نسلی، جغرافیائی، مذہبی، لسانی، ثقافتی، معاشی امتیازات سے بالاتر ہونے اور کرہ ارض اور اس کے جملہ وسائل کو تمام انسانوں کی یکساں ملکیت قرار دینے سے عبارت ہے۔ اشراقی فلاسفہ سے لے کر اقبال تک ہمیں یہ تصور ملتا ہے۔ اشراقی فلاسفہ خود کو عالمی شہری یعنی Cosmopolis کہتے تھے۔ ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدا ے ما است۔ یا بہ قول اقبال:
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دِلی، نہ صفاہاں نہ سمر قند
علاوہ ازیں متعدد فلاسفہ اور تخلیق کار جیسے سقراط، زینو، رومی، ڈی ایچ لارنس، سارترے، برٹرنیڈرسل وغیرہم خود کو عالمی شہری کہتے تھے اور کرہ ارض کو اپنا اور دوسروں کا یکساں طور پر گھر تسلیم کرتے تھے۔ دوسری طرف گلوبلایزیشن کا آغاز بھی قبل مسیح میں ہو گیا تھا۔ جب مشرقی ایشیامیں چین کی چاؤ چن اور ہان سلطنتیں وجود میں آئی تھیں، یا پھر ہندوستان کی موریہ اور گپتا حکومتیں قایم ہوئی تھیںیا میسوپوٹیمیا کی بابلی اور سمیری سلطنتیں ابھری تھیں اور سکندر اعظم نے جب پوری دنیا کو یونانیوں کے تابع کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ گلوبلایزیشن کی یہ ابتدائی شکل تھی اور اس میں سیاسی اور عسکری غلبے کی شدید خواہش تھی۔ اس غلبے کے بعد ثقافتی غلبے کی راہ خود بہ خود ہم وار ہو جاتی ہے۔ گلوبلایزیشن کا دوسرا عہد روشن خیالی کے زمانے سے شروع ہوا، جب یورپی اقوام نے اپنی سائنسی تحقیقات اور مخصوص فلسفیانہ تصو رات کی بہ دولت نو آبادیاتی نظام تشکیل دیا۔اس نظام کو صنعتی انقلاب نے مستحکم کیا اور یورپی اقوام نے ایشیا اورا فریقہ کے کئی ممالک پر قبضہ کر لیا۔ گلوبلایزیشن کی نو آبادیاتی شکل میں بھی عسکری، سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلبے کو فوقیت حاصل تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد گلوبلایزیشن کا تیسرا عہد شروع ہوا۔ مقاصد کے اعتبار سے یہ عہد پہلے دو ادوار سے منسلک مگر طریق کار کے لحاظ سے نیا تھا۔ نوآبادیات کا تو خاتمہ ہوا، مگر گلوبلایزیشن کے مقاصد کا حصول جاری رہا۔ اب راست اقدام کے بہ جائے بالواسطہ اقدام کو زیادہ اہمیت ملی اور بالواسطہ اقدام کو بھی چھپانے کی غرض سے ڈسکورس یا کلامیے تشکیل دیے گئے اور انھیں رائج کیا گیا۔ GATT نامی معاہدے سے گلوبلایزیشن میں شدت پیدا ہوئی اور ڈبلیو ٹی او سے اس شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔یہ تجارتی معاہدے بہ ظاہر یکساں معاشی قوانین کی حمایت کرتے ہیں مگر ان کا فائدہ ترقی یافتہ مغربی اقوام (بالخصوص امریکا) کو ہے، اسی بنا پر بعض لوگ گلوبلایزیشن کو امریکنائزیشن بھی کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ عسکری، سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلبے کو گلوبلایزیشن کا نام گزشتہ چند برسوں میں دیا گیا۔ گویا کبھی یہ بے نام رہی اور کبھی دوسرے ناموں کے پردے میں خود کو چھپاتی رہی ہے۔ پہلے یہ نو آبادیات کے پردے میں تھی اور جنگِ عظیم دوم کے بعد اس نے خود کو بین الاقوامیت (انٹرنیشنل ازم) کے طور پر پیش کیا۔ آج بھی کچھ لوگ گلوبلایزیشن اور انٹرنیشنل ازم کو ایک ہی چیز قرار دیتے ہیں۔ جنگِ عظیم دوم کے دوران میں بنی نوع انسان نے جس عظیم تباہی کا سامنا کیا، اس سے مستقبل میں بچنے کی غرض سے بین الاقوامیت کی تھیوری پیش کی گئی۔ بہ ظاہر اسے عالمی اخوت کے سیاسی تصور کے طور پر پیش کیا گیا، مگر اس کے عقب میں مغربی اقوام اور (امریکا بہ طور خاص) کے غلبے کی خواہش برابر موجود تھی۔ بین الاقوامیت کی حمایت آئن سٹائن نے بھی کی تھی۔ اس نے Why War? (جو فرائڈ کے ساتھ اس کی خط کتابت پر مشتمل ہے) میں عالمی حکومت کی تجویز پیش کی اور کہا کہ عالمی حکومت کی باگ ڈور امریکا، برطانیہ اور سوویت یونین کے پاس ہونی چاہیے۔ عالمی حکومت کے اختیارات کے ضمن میں اس عظیم سائنس دان نے جو کچھ کہا، وہ نہ صرف بین الاقوامیت کی آڑ میں گلوبلایزیشن کے مقاصد کا اعلامیہ ہے، بلکہ جسے آج بھی امریکاکی خارجہ پالیسی میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
“The World Government would have power over all military matters and need have only one further power: the power to intervene in countries where a miniority is oppressing a majority and creating the kind of instability that leads to war… There must be an end to the concept of non-intervention, for to end it is part of keeping the peace.”
(Bruno Leone, Internationalism, P140)
بین الاقوامیت اور گلوبلایزیشن میں ایک یا چند ممالک کی مرکزیت اور اس مرکزیت کو باقی دنیا سے تسلیم کرانے کی مساعی، مشترک ہیں، مگر دونوں میں یہ ایک اہم فرق بھی ہے کہ بین الاقوامیت قومی حکومتوں اور قومی سرحدوں کو قایم رکھنے کے حق میں تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ عالمی حکومت کے تصور میں قومی حکومت کے کردار کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی اور گلوبلایزیشن قومی حکومت اور سرحدوں کے خود مختار انہ کردار کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے، گویا بین الاقوامیت میں جو بات محض تصور کی حد تک تھی، اسے گلوبلایزیشن نے عملاً ثابت کر دکھایا ہے۔
گلوبلایزیشن کی صورتِ حال سادہ اور یک جہت نہیں ہے۔ ارجن اپا دراے نے اس کی پانچ شکلوں کی نشان دہی کی ہے۔
.i نسلی (Ethnoscapes) :لوگوں کی غیر معمولی نقل و حرکت، سیاحوں اور تارکین وطن کی کثرت۔
.ii معاشی (Finance scapes):زر کی نقل و حرکت، سٹاک ایکسچینج، آزاد تجارت، آئی ایم ایف وغیرہ۔
.iii نظریاتی (Ideo scapes):مختلف و متعدد نظریات، اور سیاسی آئیڈیالوجیز کی نقل و حرکت
.iv ابلاغی(Media scapes):اخبار، ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ کے ذریعے خبروں اور تصویروں کی نقل و حرکت
.v ٹیکنالوجی (Techno scapes):نت نئی ٹیکنالوجی کی نقل و حرکت
ارجن اپادراے نے گلوبلایزیشن کی لسانی، ثقافتی اور جمالیاتی شکلوں کی نشان دہی نہیں کی،حالاں کہ ان کی بھی نقل و حرکت ہو رہی ہے۔ گویا گلوبلایزیشن ایک ایسا مظہر ہے، جس میں ’’آزادانہ، متنوع اور بہ کثرت نقل و حرکت‘‘ بنیادی چیز ہے۔ اس نقل و حرکت کو ممکن بنانے کے لیے نئے تجارتی معاہدے (جیسے ڈبلیو ٹی او) ؛تجارتی ادارے (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک) اور تجارتی بلاک (یورپی یونین، نیفٹا) قایم کیے گئے ہیں اور ان سب کے پیچھے ملٹی نیشنل کمپنیاں موجود ہیں۔ دنیا کی سیاست اور تجارت در اصل انھی کے ہاتھ میں ہے۔
گلوبلایزیشن کی آزادانہ اور متنوع نقل و حرکت کے اثرات تین طرح کے ہیں: سیاسی، معاشی اور ثقافتی۔ دوسرے لفظوں میں گلوبلایزیشن کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیاں سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلبہ حاصل کرتی ہیں اور اس کے لیے قانون شکنی سے لے کر قانون سازی، ہر طرح کے اقدامات کو جائز سمجھتی ہیں۔ تا ہم ان کمپنیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ’’صارفیت کے کلچر‘‘ کو سب سے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اور یہ کہنا غلط نہیں کہ گلوبلایزیشن کے اظہار کی جتنی بھی صورتیں ہوں، ان کے عقب میں صارفیت بہ طور ساخت موجود اور کار فرما ہے، اس طرح گلوبلایزیشن کی ہر نوع کی نقل و حرکت، صارفیت کے تابع ہے۔
گلوبلایزیشن اپنے صارفی مقاصد کے لیے ہر شے کی داخلی معنویت کو اولاً دریافت کرتی اور پھر اسے بروے کار لاتی ہے۔گلوبلایزیشن کا اشیا کی طرف روّیہ بے غرضانہ تحقیقی نہیں، جس کا مقصد محض انسانی علم میں اضافہ اوربے غرض مسرت کا حصول ہوتا ہے اور جس کا مظاہرہ کلاسیکی ادوار میں بالخصوص ہوتا رہا ہے۔ اب ہر شے کموڈیٹی ہے۔گویا پہلے اشیا کے ساتھ کم یا زیادہ تقدس وابستہ تھا، مگر اب اشیا محض اشیائے صرف ہیں۔ انھیں بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔ اشیا کی داخلی معنویت بہ جاے خود کوئی قدر نہیں رکھتی، قدر کا تعیّن صارفیت اور مارکیٹ کرتی ہے اور اشیا میں وہ سب کچھ شامل ہے جن سے انسان کی سماجی زندگی ممکن اور منضبط ہوتی ہے، جیسے زبان، آرٹ، اخلاق، میڈیا، ثقافتی اقدار، معاشی روابط، مذہب وغیر ہم۔ گلوبلایزیشن ان سب کو کموڈیٹی کا درجہ دیتی ہے۔ اور ان کی خرید و فروخت کے لیے نئی نئی منڈیاں تلاش کرنے میں سر گرم رہتی ہے۔
بہ ظاہر یہ بات عجیب نظر آتی ہے کہ زبان، آرٹ، ثقافت اور مذہب براے فروخت نہیں۔ عجیب نظر آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں ’’کلاسیکی‘‘ تصورات رکھتے ہیں۔ اور اس سے عجیب تر بات یہ ہے کہ گلوبلایزیشن انھی ’’کلاسیکی تصورات ‘‘کے وسیلے سے ان کی صَرفیت کو ممکن بناتی ہے۔ گلوبلایزیشن میڈیا اور اشتہارات کے ذریعے ان تصورات کو اُبھارتی اور لوگوں میں ان اشیا کے لیے ترغیب اور آمادگی بے دار کرتی ہے۔ اسی طرح اشیا سے متعلق کلاسیکی تصورات کا احیا نہیں ہوتا، بلکہ ان تصورات کا خاموش ،ہنر مندانہ استحصال کیا جاتا ہے۔ لوگوں /صارفین کو استحصال کی خبر تک نہیں ہوتی۔ اس ضمن میں شیرف حطاط (Sherif Hatata) کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’عالمی مارکیٹ کو بڑھانے کے لیے صارفین کی تعداد بڑھانا ضروری ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ صارفین ہر وہ چیز خریدیں، جسے براے فروخت پیش کیا جاے۔ اس کے لیے اشیاے صَرف کے مطابق ضرورتیں ’’پیدا‘‘ کی جائیں۔ اس ضمن میں ثقافت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ثقافت، عالمی صارف کو لازماً وضع و تخلیق کرے۔‘‘چناں چہ ثقافت، زبان، آرٹ وغیرہ گلوبلایزیشن کے صارفی مقاصد کے حصول میں بہ طور آلہِ کار استعمال کیے جاتے ہیں۔ گلوبلایزیشن کا یہ رویہ دنیا کی تمام ثقافتو ں، تمام زبانوں، آرٹ کی تمام صورتوں کی طرف یکساں ہے،مگر چوں کہ ترقی یافتہ، کم ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی ثقافتیں اورزبانیں ایک جیسی صارفی قیمت اور ایک جیسی صارفی اثر اندازی نہیں رکھتیں، ترقی یافتہ ممالک کی ثقافت و زبان کو دیگر پر صَرفی فوقیت حاصل ہے، اس لیے ان کے غلبے کی راہ خود بہ خود ہم وار ہو جاتی ہے۔
ثقافت کوعالمی صارف پیدا کرنے میں کیوں کر استعمال کیا جاسکتا ہے ،اس کی ایک عام مثال ویلنٹائن ڈے ہے۔یہ دن اب ہر سال ۱۴ فروری کو دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے بڑے شہروں میں منایا جاتا ہے۔اس روز لوگ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔محبت کے اظہار کے لیے نہ کوئی دن مقرر کیا جاسکتا ہے اور نہ کوئی خاص طریقہ،مگر گلوبلایزیشن نے دن بھی مقرر کردیا ہے اور طریقے بھی!یہ سارے طریقے دراصل صارفی کلچر کو تقویت پہنچاتے ہیں۔اس روز لوگوں میں محبت کا اضافہ تو نہیں ہوتا ،مگر طرح طرح کی اشیا کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ضرور ہوتا ہے ،یعنی بھلا محبت کانہیں ،صارفیت کا ہوتا ہے۔اس ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ صارفیت کسی ثقافتی مظہر کی بنیادی علامتی معنویت کو دریافت کرتی اورمیڈیا کے ذریعے اس کی وسیع پیمانے پر اشاعت کرتی ہے تا کہ اسے ایک گلوبل اور آفاقی علامت کے طور پر تسلیم کرایا جاسکے۔گلوبلایزیشن کے ماسٹر مائنڈ جانتے ہیں کہ ہر ثقافتی مظہر کسی قوم کے مجموعی تصورِ کاینات سے جڑا ہوتا ہے۔جب اس کی علامتی معنویت کو گلوبل اور آفاقی بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو گویا اسے اس کے تصورِ کاینات سے کاٹ ڈالا جاتا ہے۔ گلوبلایزیشن میں ثقافتی مظاہر اپنے origin سے کٹ جاتے ہیں۔لوگ جب ان مظاہر کی نام نہاد آفاقی علامت کو قبول کرتے اور ان مظاہر کی رسومیات میں شریک ہوتے ہیں تو وہ ان کی ’’اصل‘‘ سے بے خبر اور لا تعلق ہوتے ہیں۔یہی دیکھیے کہ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے سینٹ ویلنٹائن کون تھے،کس بنا پر انھیں کلاڈیس دوم نے جیل میں ڈالا اور پھر سزاے موت دی تھی۔اس دن کی عیسائی تصورِ کاینات سے گہری نسبت ہے، مگر پوری دنیا میں اس دن کو منانے والے اس نسبت سے بے خبر یا لا تعلق ہوتے ہیں۔بے خبری یا لاتعلقی کی وجہ سے ثقافتی مظہر کو منانے میں اس ارتفاعی تجربے سے گزرنا ممکن ہی نہیں،جس سے اس ثقافتی مظہر کے تصورِ کاینات میں شریک لوگ گزرتے ہیں۔یہی صورت دیگر ثقافتی تہواروں کے ساتھ ہے۔خواہ وہ بسنت ہو،عید ہو،دیوالی ہو یا مشاعرہ ۔صارفیت تمام تہواروں کو ایک حقیقی ثقافتی تجربے کے بجاے انھیں تفریحی اور تجارتی سرگرمی میں بدل دیتی ہے۔