(وقاص احمد )
“ایک روزن ” ایک ایسی سماجی ویب سائٹ ہے جو اپنے قارئین کے لئے سنجیدہ موضوعات کو پیش کرنے کے حوالے سے انفرادیت کی حامل ہے۔ فیشنی رجحانات اور وقتی ایشوز پاکستانی سماج میں وقتاً فوقتاً سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ دیگر سوشل ویب سائٹس جہاں کمرشل ضروریات یا شہرت کی چاہت کے سبب ان آسانی سے بکنے والے موضوعات پر تحریری کاوشوں کو ترجیح دیتے نظر آتی ہیں، وہاں “ایک روزن” ایک ایسا پلیٹ فارم ہےجو سماجی اور ادبی حلقہ جات میں سنجیدہ مباحثوں، اعلی پائے کے ادبی فن پاروں اور حقیقی ایشوز پر سیر حاصل گفتگو کے حوالے سے ایک منفرد اور بالا پہچان بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔
اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوۓ ایک روزن کی ادارتی ٹیم نے ایک صحت مند مکالمے کا آغاز کیا ہے جس میں ویژن اور وسائل کے تقابل کے حوالے سے سوچ بچار کے عمل کو مہمیز دی گئی ہے اور افراد کو اس موضوع کی مناسبت سے رائے زنی پہ ابھارا گیا ہے۔ چنانچہ اسی پس منظر میں کچھ نگارشات سپرد قلم کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔
ایک بات کی تشنگی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے کہ کئی اہم اصطلاحات کے درست معنی کے ادراک اور فہم کا کوئی ایک قبول عام تصور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ناپید ہے۔ ایک ہی لفظی اصطلاح کو معاشرے کے مختلف طبقات مختلف طریقے سے برتتے ہیں۔ سیکولرازم، لبرل ازم اور اسلام (جو یقیناً اب فیس بک کے مقبول عام بیانیوں میں ایک ازم کا درجہ پا چکا ہے) کے حوالے سے مختلف الانواع آراء موجود ہیں۔ اس لئے کسی بھی موضوع پر نتیجہ خیز اور بار آور گفتگو صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اصطلاحات کے درست سیاق و سباق اور حقیقی مفہوم پر ایک معاشرتی اتفاق پیدا کیا جاۓ۔ جو یقیناً ایک ایسا عمل ہے جو پیہم تحقیق اور تدبر کا متقاضی ہے۔ سیکولرازم، لبرل ازم اور دیگر ایسی اصطلاحات ایک ایسا اصولی جوہر رکھتی ہیں جو تمام دنیا میں مشترکہ طور پہ درست تسلیم کیا جاتا ہے اور ایک باہمی یکساں اثاثہ مان لیا گیا ہے۔ مگر ان اصطلاحات کے کئی خاص پہلو ایسے بھی ہیں جو ہر معاشرہ اور قوم اپنے ماحول، ثقافت، زمینی ضروریات اور حقائق کو سامنے رکھ کر خود ترتیب دیتے ہیں۔ مثال کے طور پہ ترکی کا سیکولرازم چین کے سیکولرازم سے باوجود ایک منسلک اصولی نکتہ اشتراک کے، مختلف ہے۔ اور ہونا بھی چاہیے۔ کیوں کہ دونوں خطوں کا جغرافیہ، تاریخ ، بودوباش اور سماجی حرکیات مختلف ہیں۔ کچھ اہل علم و دانش کے نزدیک یقیناً یہ اصطلاحات آفاقی سچائیوں کا روپ دھار چکی ہیں، مگر آفاقی حقیقتوں کو بھی زمینی ماحول سے ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے۔ پھر ہی ان آفاقی حقیقتوں کا اس خطہ ارضی میں جڑ پکڑنے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں ویژن کی اصطلاح جو اس مکالمہ کی شروعات کا سبب بنی، کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ویژن کو لغوی معنی میں سمجھا جاۓ تو اس کا مطلب ہے کہ ماضی اور حال کو سمجھ کر مستقبل کے حوالے سے پیش بینی کی صلاحیت اور اس کے مطابق منصوبہ بندی۔ پھر سوال کے اندر ہی قومی اہداف کی خصوصیت کو مدنظر رکھا گیا ہے یعنی قومی اہداف کے ویژن کے حوالے سے لائحہ عمل اور وسائل یا ویژن میں سے کسی ایک جز کی فوقیت کا انتخاب۔
کارپوریٹ کلچر میں ویژن کا لفظ ایک مخصوص ہیئت اور تناظر کی شکل اختیار کر کے قبول عام شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس لئے کاروباری مقاصد کے حوالے سے ویژن کا لفظ کسی بھی قسم کا ابہام پیدا نہیں کرتا.مگر ہمارے قومی اور سماجی دائرے میں ابھی ویژن کی اصطلاح مزید تشریحات کا تقاضا کرتی ہے.
میری ناقص رائے میں ویژن کی اصطلاح مستقبل کی پیش بینی، لائحہ عمل کے چناؤ نیز ٹھوس منصوبہ بندی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے.آگے کی بحث کہ وسائل اور ویژن میں سے ترجیح کس کو حاصل ہے تو میرا خیال یہ ہے کہ یہ غورو فکر اسی صورت میں کارآمد ہے جب ہم کارپوریٹ کے اجتماعی ڈھانچے کی مانند کسی سماجی ڈھانچے کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو ایک مخصوص فلسفہ، نظریہ اور نظم انسانی رکھتا ہو۔ ویژن اور وسائل کی بحث حکمت عملی کے زیر عنوان پروان چڑھتی ہے۔ فلسفہ، نظریہ اور نظم کے سوالات جوں کے توں موجود ہیں تو حکمت عملی پہ غور و خوض خام خیالی ہی ہے۔
ویژن اور وسائل میں سے ترجیج کا حقدار کون ہے، یہ فیصلہ کسی قومی سطح کے نظم اجتماعی نے ہی کرنا ہے۔ ہمارے ملک میں وہ نظم کیا واقعی حقیقی قومی بنیادوں پر موجود ہے؟ اگر ہے تو اس کا فلسفہ کیا ہے؟ فلسفہ کے اساس پر کون سا نظریہ ہے جس کا وہ نظم اجتماعی پیرو ہے؟ بدقسمتی سے ان سوالات کے کوئی تسلی بخش جوابات ہمارے پاس موجود نہیں۔
ضمنی طور پہ یہ ذکر کیا جا سکتا ہے کہ ویژن اور وسائل میں سے بنیادی اہمیت تو ویژن ہی کی ہے۔ تاریخ ایک ایسا پیمانہ ہے جس پر اس موقف کی سچائی کو تولا جا سکتا ہے۔ وسائل سے لدی اقوام کی پستی اور ذلّت کی عبرت انگیز کہانیاں تاریخ کے اوراق سے آسانی سے ڈھونڈی جا سکتی ہیں جو محض صلاحیت کے فقدان کے باعث ناکام ٹھہریں۔جب کہ وسائل کی شدید کمی کے باوجود ایک مخصوص فلسفہ و نظریہ پر قائم قومی نظامات اپنے شعوری عمل کے نتیجے میں پیدا کیے گئے ویژن کی بنیاد پر انسانی تاریخ کے ماتھے پر کامیابی کا جھومر ہیں۔ اس سچائی کی بےشمار دلیلیں اس موجودہ جدید دنیا کے مختلف جغرافیائی وحدتوں کے اجتماعی نظاموں میں بھی پنہاں ہیں.فلسفہ، نظریہ، نظم اجتماعی اور اس کے نتیجہ میں فکری عرق ریزی سے اخذ شدہ ویژن اقوام کو اوج کمال پر لے گیا اور اس ویژن کی طاقت نے اپنے لئے وسائل خود تراش لئے۔
بہت ہی اہم نکات کی طرف اپ نے اشارہ کیا ہے ۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے اس معاشرے میں موجود نظریہ اور اس نظریہ پر ایک تربیت ہافتہ شعوری جماعت اور اس جماعت کی جدوجہد کی بنیاد پر قائم شدہ شعوری نظم اجتماعی کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ تب ہی وہ قومی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی ترقی کیلئے کوئی وژن رکھ سکتی ہے اور ایسا وژن رکھنے والی نظم اجتماعی ہی ملکی وسائل کا بہترین استعمال کر سکتی ہے ۔ اگر یہ موجود نہ ہو تو ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ جاری رہیگی اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جائیگی اور ملکی وسائل کا فاعدہ ملک و سماج دشمن طاقتوں کو پہنچے گا