(اسد علی طور)
یہ ملک بدر کی جانے والی کوئی دہشت گرد نہیں بلکہ پاکستانی بچوں کو تعلیم کی روشنی سے روشناس کرانے والی ترک اسکول ٹیچر ہیں، جو زبردستی پاکستان سے نکالے جانے سے قبل اپنی طالب علموں سے لپٹی رو رہی ہیں۔۔۔ آہ! آنکھیں نم کردینے والے مناظر ہم سب کو اپنے اپنے اساتذہ یاد کرنے چاہیں جن کی وجہ سے آج ہم اس مُقام پر ہیں؛ اور سوچنا چاہئے کہ کاش ان کو ملک بدر کرنے سے پہلے وزیراعظم نواز شریف اور وزیرِداخلہ چوہدری نثار کی آنکھوں کے آگے اپنے اساتذہ کی شکلیں گھومی ہوتیں۔۔۔ کاش اپنی مادر درسگاہ لاہور کالج یونیورسٹی کا دورہ کرنے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اپنے اساتذہ کا سامنا کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے ترک اساتذہ کا بھی خیال آیا ہوتا کہ وہ ان کو کس جرم کی سزا دے رہے ہیں؟ ایک استاد کو سزا؟
ہاں، واقعی ہی جو ریاستیں عوام کی فلاح پر اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں، وہ ایسے فیصلے کرتی ہیں؛ ان کی پالیسیوں میں مستقل مزاجی نہیں ہوتی، بلکہ بے رحمی اور بے دلی ہوتی ہے۔۔۔ ہم نے نوے کی دہائی میں افغان طالبان کو پروان چڑھنے میں ہر طرح کی مالی و سفارتی مدد کی۔۔۔ افغان طالبان نے پاکستان میں سفارتخانہ کھولا اور ملاضعیف کو سفیر تعینات کیا، لیکن ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد جب ہم ایک امریکی فون کال پر ڈھیر ہوئے تو اُس وقت کے افغان طالبان کے سفیر ملاضعیف اپنی آپ بیتی میں ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مہمان نوازی کا احوال لکھتے ہیں کہ کس طرح ویانا کنونشن کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انہیں آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر پاکستانی فوجی اہلکار جیپ میں ڈال کر لے گئے اور امریکی فوجی اہلکاروں کے حوالے کیا جو ان کو گرفتار کرکے بگرام جیل لے جانا چاہتے تھے۔
افغان طالبان کے سفیر ملاضعیف کی کہانی میں سب سے تکلیف دہ جملے وہ ہیں جب پاکستانی فوجی اہلکاروں نے اُن کو گاڑی سے اتار کر امریکی فوجی اہلکاروں کے حوالے کیا تو امریکی اہلکاروں نے ان پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردی۔ جس سے وہ زمین پر گر پڑے اور ان کی آنکھوں سے پٹی اُتر گئی اور جو منظر ان کے سامنے تھا وہ ان کے لئے اپنے اُوپر برسنے والی لاتوں اور گھونسوں سے زیادہ تکلیف دہ تھا کہ سامنے اُن کے پاکستانی میزبان فوجی ہاتھ باندھے ان کو امریکی فوجی اہلکاروں کے بےرحمانہ تشدد کا نشانہ بنتے دیکھ رہے تھے۔۔۔ ملاضعیف لکھتے ہیں کہ اتنی ٹیسیں ان کے جسم سے نہ اٹھیں جتنی تکلیف انہیں یہ منظر دیکھ کر ہوئی کہ پاکستانی اہلکاروں نے اتنی اخلاقی جرات کا مظاہرہ بھی نہ کیا کے امریکی اہلکاروں کو درخواست کر لیتے کہ ہمارے مہمان کو پاکستانی سرزمین پر نشانہ مت بناؤ۔
یہی کچھ ہم اب ترک اساتذہ کے ساتھ کرنے جارہے ہیں جو کل تک ہمارے بچوں کو تعلیم کے زیور سے بہرہ ور کررہے تھے۔ آج ہم ان کو ترک صدر کی خواہش پر ملک بدر کررہے ہیں ۔۔۔ چلئے وہ تو افغان طالبان تھے یہ تو اساتذہ ہیں۔۔۔ کیا اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں نے بھی روشن مستقبل پایا ہے؟ آج تک ہمارے ترکی سے تعلقات عوامی سطح کے رہے ہیں، جہاں دونوں ملکوں کے عوام نے چاہے خلافت عثمانیہ کے دور میں پاکستانی ڈاکٹروں کی ٹیم نے ترکی کا دورہ کیا ہو، یا پاکستان میں زلزلہ متاثرین کے لئے ننھی ترک بچی نے اپنے گلے ہار کا اتار بھیجا ہو؛ ہم نے ایک دوسرے سے بےلوث محبت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ہم اپنے ریاستی مفادات کی خاطر عوام کے رشتوں کو ختم کرکے حکمرانوں کے رشتوں میں بدلنے جارہے ہیں، جس کے اثرات ہمارے مستقبل پر تباہ کُن ہوں گے۔